56. یہ ایک اور اعتراض کا جواب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ اچھا نبی ہے جو بیوی اور بچے رکھتا ہے۔ بھلا پیغمبر وں کو بھی خواہشاتِ نفسانی سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔
57. یہ بھی ایک اعتراض کا جواب ہے۔ مخالفین کہتے تھے کہ موسیٰ یدِ بیضا اور عصا لائے تھے۔ مسیح اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے تھے۔ صالحؑ نے اونٹنی کا نشان دکھایا تھا۔ تم کیا نشانی لے کر آئے ہو؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جس نبی نے جو چیز بھی دکھائی ہے اپنے اختیار او راپنی طاقت سے نہیں دکھائی ہے ۔ اللہ نے جس وقت جس کے ذریعے سے جو کچھ ظاہر کرنا مناسب سمجھا وہ ظہور میں آیا۔ اب اگر اللہ کی مصلحت ہوگی تو جو کچھ وہ چاہے گا دکھائے گا۔ پیغمبر خود کسی خدائی اختیار کا مدعی نہیں ہے کہ تم اس سے نشانی دکھانے کا مطالبہ کرتے ہو۔
58. یہ بھی مخالفین کے ایک اعتراض کا جواب ہے۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے آئی ہوئی کتابیں جب موجود تھیں تو اس نئی کتاب کی کیا ضرورت تھی؟ تم کہتے ہو کہ ان میں تحریف ہو گئی ہے ، اب وہ منسُوخ ہیں اور اس نئی کتاب کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر خدا کی کتاب میں تحریف کیسے ہو سکتی ہے ؟ خدا نے اس کی حفاظت کیوں نہ کی ؟ اور کوئی خدائی کتاب منسوخ کیسے ہو سکتی ہے؟ تم کہتے ہو کہ یہ اُسی خدا کی کتاب ہے جس نے توراۃ و انجیل نازل کی تھیں۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ تمہارا طریقہ توراۃ کے بعض احکام کے خلاف ہے؟ مثلاً بعض چیزیں جنہیں توراۃ والے حرام کہتے ہیں تم انہیں حلال سمجھ کر کھاتے ہو۔ ان اعتراضات کے جوابات بعد کی سورتوں میں زیادہ تفصیل کے ساتھ دیے گئے ہیں ۔ یہاں ان کا صرف ایک مختصر جامع جواب د ے کر چھوڑ دیا گیا ہے۔
”اُمّ الکتاب“ کے معنی ہیں”اصل کتاب“ یعنی وہ منبع و سر چشمہ جس سے تمام کتب آسمانی نکلی ہیں۔
59. مطلب یہ ہے کہ تم اس فکر میں نہ پڑو کہ جن لوگوں نے تمہاری اِس دعوتِ حق کو جھٹلا دیا ہے ان کا انجام کیا ہوتا ہے اور کب وہ ظہور میں آتا ہے۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے اُسے پوری یکسوئی کے ساتھ کیے چلے جاؤ اور فیصلہ ہم پر چھوڑ دو۔ یہاں بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر دراصل بات اُن مخالفین کو سنانی مقصود ہے جو چیلنج کے انداز میں بار بار حضور سے کہتے تھے کہ ہماری جس شامت کی دھمکیاں تم ہمیں دیا کرتے ہو آخر وہ آکیوں نہیں جاتی۔
60. یعنی کیا تمہارے مخالفین کو نظر نہیں آ رہا ہے کہ اسلام کا اثر سرزمینِ عرب کے گوشے گوشے میں پھیلتا جا رہا ہے اور چاروں طرف سے اِن پر حلقہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے؟ یہ اِن کی شامت کے آثار نہیں ہیں تو کیا ہیں؟
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ”ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں“ ایک نہایت لطیف اندازِ بیان ہے۔ کیونکہ دعوتِ حق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ اس کے پیش کرنے والوں کےساتھ ہوتا ہے ، اس لیے کسی سرزمین میں اس دعوت کے پھیلنے کو اللہ تعالیٰ یوں تعبیر فرماتا ہے کہ ہم خود اس سرزمین میں بڑھے چلے آرہے ہیں۔
61. یعنی آج یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ حق کی آواز کو دبانے کے لیے جھوٹ اور فریب اور ظلم کے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں ۔ پچھلی تاریخ میں بارہا ایسی ہی چالوں سے دعوتِ حق کو شکست دینے کی کوششیں کی جا چکی ہیں۔
62. یعنی ہر وہ شخص جو واقعی آسمانی کتابوں کے علم سے بہرہ ور ہے اس بات کی شہادت دے گا کہ جو کچھ میں پیش کر رہا ہوں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لے کر آئے تھے۔