Tafheem ul Quran

Surah 13 Ar-Ra'd, Ayat 38-43

وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلًا مِّنۡ قَبۡلِكَ وَ جَعَلۡنَا لَهُمۡ اَزۡوَاجًا وَّذُرِّيَّةً ​ ؕ وَمَا كَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ يَّاۡتِىَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰهِ​ ؕ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ‏ ﴿13:38﴾ يَمۡحُوۡا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَيُثۡبِتُ ​ۖ ​ۚ وَعِنۡدَهٗۤ اُمُّ الۡكِتٰبِ‏  ﴿13:39﴾ وَاِنۡ مَّا نُرِيَـنَّكَ بَعۡضَ الَّذِىۡ نَعِدُهُمۡ اَوۡ نَـتَوَفَّيَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَيۡكَ الۡبَلٰغُ وَعَلَيۡنَا الۡحِسَابُ‏ ﴿13:40﴾ اَوَلَمۡ يَرَوۡا اَنَّا نَاۡتِى الۡاَرۡضَ نَـنۡقُصُهَا مِنۡ اَطۡرَافِهَا ؕ​ وَاللّٰهُ يَحۡكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكۡمِهٖ​ؕ وَهُوَ سَرِيۡعُ الۡحِسَابِ‏ ﴿13:41﴾ وَقَدۡ مَكَرَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ فَلِلّٰهِ الۡمَكۡرُ جَمِيۡعًا​ؕ يَعۡلَمُ مَا تَكۡسِبُ كُلُّ نَفۡسٍؕ وَسَيَـعۡلَمُ الۡـكُفّٰرُ لِمَنۡ عُقۡبَى الدَّارِ‏ ﴿13:42﴾ وَيَقُوۡلُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَسۡتَ مُرۡسَلًا​ ؕ قُلۡ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيۡدًۢا بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَكُمۡۙ وَمَنۡ عِنۡدَهٗ عِلۡمُ الۡكِتٰبِ‏ ﴿13:43﴾

38 - تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسُول بھیج چکے ہیں اور اُن کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا۔56 اور کسی رسُول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لا دکھاتا۔57 ہر دَور کے لیے ایک کتاب ہے۔ 39 - اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، اُمُّ الکتاب اُسی کے پاس ہے۔58 40 - اور اے نبی ؐ ، جس بُرے انجام کی دھمکی ہم اِن لوگوں کو دے رہے ہیں اُس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہُور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اُٹھا لیں، بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔59 41 - کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اِس سرزمین پر چلے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آرہے ہیں؟60 اللہ حکومت کر رہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے والا نہیں ہے، اور اُسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ 42 - اِن سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں61، مگر اصل فیصلہ کُن چال تو پُوری کی پُوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون کیا کچھ کمائی کر رہا ہے، اور عنقریب یہ منکرینِ حق دیکھ لیں گے کہ انجام کس کا بخیر ہوتا ہے۔ 43 - یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو۔ کہو، ” میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر ہر اُس شخص کی گواہی جو کتابِ آسمانی کا علم رکھتا ہے۔“62 ؏ ۶


Notes

56. یہ ایک اور اعتراض کا جواب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ اچھا نبی ہے جو بیوی اور بچے رکھتا ہے۔ بھلا پیغمبر وں کو بھی خواہشاتِ نفسانی سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔

57. یہ بھی ایک اعتراض کا جواب ہے۔ مخالفین کہتے تھے کہ موسیٰ یدِ بیضا اور عصا لائے تھے۔ مسیح اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے تھے۔ صالحؑ نے اونٹنی کا نشان دکھایا تھا۔ تم کیا نشانی لے کر آئے ہو؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جس نبی نے جو چیز بھی دکھائی ہے اپنے اختیار او راپنی طاقت سے نہیں دکھائی ہے ۔ اللہ نے جس وقت جس کے ذریعے سے جو کچھ ظاہر کرنا مناسب سمجھا وہ ظہور میں آیا۔ اب اگر اللہ کی مصلحت ہوگی تو جو کچھ وہ چاہے گا دکھائے گا۔ پیغمبر خود کسی خدائی اختیار کا مدعی نہیں ہے کہ تم اس سے نشانی دکھانے کا مطالبہ کرتے ہو۔

58. یہ بھی مخالفین کے ایک اعتراض کا جواب ہے۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے آئی ہوئی کتابیں جب موجود تھیں تو اس نئی کتاب کی کیا ضرورت تھی؟ تم کہتے ہو کہ ان میں تحریف ہو گئی ہے ، اب وہ منسُوخ ہیں اور اس نئی کتاب کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر خدا کی کتاب میں تحریف کیسے ہو سکتی ہے ؟ خدا نے اس کی حفاظت کیوں نہ کی ؟ اور کوئی خدائی کتاب منسوخ کیسے ہو سکتی ہے؟ تم کہتے ہو کہ یہ اُسی خدا کی کتاب ہے جس نے توراۃ و انجیل نازل کی تھیں۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ تمہارا طریقہ توراۃ کے بعض احکام کے خلاف ہے؟ مثلاً بعض چیزیں جنہیں توراۃ والے حرام کہتے ہیں تم انہیں حلال سمجھ کر کھاتے ہو۔ ان اعتراضات کے جوابات بعد کی سورتوں میں زیادہ تفصیل کے ساتھ دیے گئے ہیں ۔ یہاں ان کا صرف ایک مختصر جامع جواب د ے کر چھوڑ دیا گیا ہے۔

”اُمّ الکتاب“ کے معنی ہیں”اصل کتاب“ یعنی وہ منبع و سر چشمہ جس سے تمام کتب آسمانی نکلی ہیں۔

59. مطلب یہ ہے کہ تم اس فکر میں نہ پڑو کہ جن لوگوں نے تمہاری اِس دعوتِ حق کو جھٹلا دیا ہے ان کا انجام کیا ہوتا ہے اور کب وہ ظہور میں آتا ہے۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے اُسے پوری یکسوئی کے ساتھ کیے چلے جاؤ اور فیصلہ ہم پر چھوڑ دو۔ یہاں بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر دراصل بات اُن مخالفین کو سنانی مقصود ہے جو چیلنج کے انداز میں بار بار حضور سے کہتے تھے کہ ہماری جس شامت کی دھمکیاں تم ہمیں دیا کرتے ہو آخر وہ آکیوں نہیں جاتی۔

60. یعنی کیا تمہارے مخالفین کو نظر نہیں آ رہا ہے کہ اسلام کا اثر سرزمینِ عرب کے گوشے گوشے میں پھیلتا جا رہا ہے اور چاروں طرف سے اِن پر حلقہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے؟ یہ اِن کی شامت کے آثار نہیں ہیں تو کیا ہیں؟

اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ”ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں“ ایک نہایت لطیف اندازِ بیان ہے۔ کیونکہ دعوتِ حق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ اس کے پیش کرنے والوں کےساتھ ہوتا ہے ، اس لیے کسی سرزمین میں اس دعوت کے پھیلنے کو اللہ تعالیٰ یوں تعبیر فرماتا ہے کہ ہم خود اس سرزمین میں بڑھے چلے آرہے ہیں۔

61. یعنی آج یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ حق کی آواز کو دبانے کے لیے جھوٹ اور فریب اور ظلم کے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں ۔ پچھلی تاریخ میں بارہا ایسی ہی چالوں سے دعوتِ حق کو شکست دینے کی کوششیں کی جا چکی ہیں۔

62. یعنی ہر وہ شخص جو واقعی آسمانی کتابوں کے علم سے بہرہ ور ہے اس بات کی شہادت دے گا کہ جو کچھ میں پیش کر رہا ہوں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لے کر آئے تھے۔