Tafheem ul Quran

Surah 13 Ar-Ra'd, Ayat 8-18

اَللّٰهُ يَعۡلَمُ مَا تَحۡمِلُ كُلُّ اُنۡثٰى وَمَا تَغِيۡضُ الۡاَرۡحَامُ وَمَا تَزۡدَادُ ​ؕ وَكُلُّ شَىۡءٍ عِنۡدَهٗ بِمِقۡدَارٍ‏ ﴿13:8﴾ عٰلِمُ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَادَةِ الۡكَبِيۡرُ الۡمُتَعَالِ‏ ﴿13:9﴾ سَوَآءٌ مِّنۡكُمۡ مَّنۡ اَسَرَّ الۡقَوۡلَ وَ مَنۡ جَهَرَ بِهٖ وَمَنۡ هُوَ مُسۡتَخۡفٍۢ بِالَّيۡلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ‏ ﴿13:10﴾ لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَمِنۡ خَلۡفِهٖ يَحۡفَظُوۡنَهٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِهِمۡ​ؕ وَاِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوۡمٍ سُوۡۤءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ​ۚ وَمَا لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ وَّالٍ‏ ﴿13:11﴾ هُوَ الَّذِىۡ يُرِيۡكُمُ الۡبَرۡقَ خَوۡفًا وَّطَمَعًا وَّيُنۡشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ​ۚ‏ ﴿13:12﴾ ​وَيُسَبِّحُ الرَّعۡدُ بِحَمۡدِهٖ وَالۡمَلٰۤـئِكَةُ مِنۡ خِيۡفَتِهٖ ​ۚ وَيُرۡسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيۡبُ بِهَا مَنۡ يَّشَآءُ وَهُمۡ يُجَادِلُوۡنَ فِى اللّٰه​ۚ ِ وَهُوَ شَدِيۡدُ الۡمِحَالِؕ‏ ﴿13:13﴾ لَهٗ دَعۡوَةُ الۡحَـقِّ​ؕ وَالَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ لَا يَسۡتَجِيۡبُوۡنَ لَهُمۡ بِشَىۡءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيۡهِ اِلَى الۡمَآءِ لِيَبۡلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِـغِهٖ​ؕ وَمَا دُعَآءُ الۡكٰفِرِيۡنَ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ‏ ﴿13:14﴾ وَلِلّٰهِ يَسۡجُدُ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّكَرۡهًا وَّظِلٰلُهُمۡ بِالۡغُدُوِّ وَالۡاٰصَالِ ۩‏ ﴿13:15﴾ قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ قُلِ اللّٰهُ​ؕ قُلۡ اَفَاتَّخَذۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ لَا يَمۡلِكُوۡنَ لِاَنۡفُسِهِمۡ نَفۡعًا وَّلَا ضَرًّا​ؕ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُ ۙ اَمۡ هَلۡ تَسۡتَوِى الظُّلُمٰتُ وَالنُّوۡرُ ۚ اَمۡ جَعَلُوۡا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوۡا كَخَلۡقِهٖ فَتَشَابَهَ الۡخَـلۡقُ عَلَيۡهِمۡ​ؕ قُلِ اللّٰهُ خَالِـقُ كُلِّ شَىۡءٍ وَّهُوَ الۡوَاحِدُ الۡقَهَّارُ‏  ﴿13:16﴾ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتۡ اَوۡدِيَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحۡتَمَلَ السَّيۡلُ زَبَدًا رَّابِيًا​ ؕ وَمِمَّا يُوۡقِدُوۡنَ عَلَيۡهِ فِى النَّارِ ابۡتِغَآءَ حِلۡيَةٍ اَوۡ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثۡلُهٗ​ ؕ كَذٰلِكَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ الۡحَـقَّ وَالۡبَاطِلَ ؕ  فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذۡهَبُ جُفَآءً​​ ۚ وَاَمَّا مَا يَنۡفَعُ النَّاسَ فَيَمۡكُثُ فِى الۡاَرۡضِ​ؕ كَذٰلِكَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ الۡاَمۡثَالَؕ‏ ﴿13:17﴾ لِلَّذِيۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّهِمُ الۡحُسۡنٰى​ؕ وَالَّذِيۡنَ لَمۡ يَسۡتَجِيۡبُوۡا لَهٗ لَوۡ اَنَّ لَهُمۡ مَّا فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا وَّمِثۡلَهٗ مَعَهٗ لَافۡتَدَوۡا بِهٖؕ اُولٰۤـئِكَ لَهُمۡ سُوۡۤءُ الۡحِسَابِ ۙ وَمَاۡوٰٮهُمۡ جَهَـنَّمُ​ؕ وَبِئۡسَ الۡمِهَادُ‏ ﴿13:18﴾

8 - اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے۔ جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ با خبر رہتا ہے۔17 ہر چیز کے لیے اُس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔ 9 - وہ پوشیدہ اور ظاہر، ہر چیز کا عالِم ہے۔ وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے۔ 10 - تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھُپا ہُوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، اس کے لیے سب یکساں ہیں۔ 11 - ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگراں لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔18 حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہو سکتا ہے۔19 12 - وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور اُمیدیں بھی بندھتی ہیں۔ وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اُٹھاتا ہے۔ 13 - بادلوں کی گرج اُس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے20 اور فرشتے اُس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اُس کی تسبیح کرتے ہیں۔21 وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات)اُنہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جب کہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ فی الواقع اس کی چال بڑی زبردست ہے۔22 14 - اسی کو پکارنا برحق ہے۔23 رہیں وہ دُوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعاوٴں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ اُنہیں پُکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اُس سے درخواست کرے کہ تُو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اُس تک پہنچے والا نہیں۔ بس اِسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرِ بے ہدف! 15 - وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعًا و کرہًا سجدہ کر رہی ہے24 اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اُس کے آگے جُھکتے ہیں۔25السجدة ۲ 16 - اِن سے پوچھو، آسمان و زمین کا ربّ کون ہے؟ ۔۔۔۔ کہو، اللہ۔26 پھر، اِن سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھہرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے؟27 کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟28 اور اگر ایسا نہیں تو کیا اِن کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیداکیا ہے کہ اُس کی وجہ سے اِن پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا؟ ۔۔۔۔29 کہو، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے ، سب پر غالب!30 17 - اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا پھر جب سیلاب اُٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔31 اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اُٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔32 اِسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔ 18 - جن لوگوں نے اپنے ربّ کی دعوت قبول کر لی اُن کے لیے بھلائی ہے، اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اتنی ہی اور فراہم کر لیں تو وہ خُدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔33 یہ وہ لوگ ہیں جن سے بُری طرح حساب لیا جائے گا 34 اور اُن کا ٹھکانا جہنّم ہے، بہت ہی بُرا ٹھکانہ۔ ؏ ۲


Notes

17. اس سے مراد یہ ہے کہ ماؤں کے رحم میں بچے کے اعضاء اُس کی قوتوں اور قابلیتوں، اور اُس کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں جو کچھ کمی یا زیادتی ہوتی ہے ، اللہ کی براہِ راست نگرانی میں ہوتی ہے۔

18. یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو ہر حال میں براہِ راست خود دیکھ رہا ہے اور اُ س کی تمام حرکات و سکنات سے واقف ہے، بلکہ مزید برآں اللہ کے مقرر کیے ہوئے نگرانِ کار بھی ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور پُورے کارنامۂ زندگی کا ریکارڈ محفوظ کرتے جاتے ہیں۔ اس حقیقت کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایسے خدا کی خدائی میں جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں کہ انہیں شتر بے مہار کی طرح زمین پر چھوڑ دیا گیا ہے اور کوئی نہیں جس کے سامنے وہ اپنے نامۂ اعمال کے لیے جواب دہ ہوں، وہ دراصل اپنی شامت آپ بلاتے ہیں۔

19. یعنی اس غلط فہمی میں بھی نہ رہو کہ اللہ کے ہاں کوئی پیر یا فقیر، یا کوئی اگلا پچھلا بزرگ، یا کوئی جن یا فرشتہ ایسا زور آور ہے کہ تم خواہ کچھ ہی کرتے رہو ، وہ تمہاری نذروں اور نیازوں کی رشوت لے کر تمہیں تمہارے بُرے اعمال کی پاداش سے بچا لے گا۔

20. یعنی بادلوں کی گرج یہ ظاہر کرتی ہے کہ جس خدا نے یہ ہوائیں چلائیں، یہ بھاپیں اُٹھائیں، یہ کثیف بادل جمع کیے، اِس بجلی کو بارش کا ذریعہ بنایا اور اس طرح زمین کی مخلوقات کے لیے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا، وہ سبوح و قدوس ہے ، اپنی حکمت اور قدرت میں کامل ہے، اپنی صفت میں بے عیب ہے، اور اپنی خدائی میں لاشریک ہے۔ جانوروں کی طرح سُننے والے تو ان بادلوں میں صرف گرج کی آواز ہی سُنتے ہیں۔ مگر جو ہوش کے کان رکھتے ہیں وہ بادلوں کی زبان سے توحید کا یہ اعلان سنتے ہیں۔

21. فرشتوں کے جلال خداوندی سے لرزنے اور تسبیح کر نے کا ذکر خصُوصیت کے ساتھ یہاں اس لیے کیا کہ مشرکین ہر زمانے میں فرشتوں کو دیوتا اور معبود قرار دیتے رہے ہیں اور اُن کا یہ گمان رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کی خدائی میں شریک ہیں ۔ اس غلط خیال کی تردید کے لیے فرمایا گیا کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ میں خدا کے شریک نہیں ہیں بلکہ فرمانبردار خادم ہیں اور اپنے آقا کے جلال سے کانپتے ہوئے اس کی تسبیح کررہے ہیں۔

22. یعنی اس کے پاس بے شمار حربے ہیں اور وہ جس وقت جس کے خلاف جس حربے سے چاہے ایسے طریقے سے کام لے سکتا ہے کہ چوٹ پڑنے سے ایک لمحہ پہلے بھی اسے خبر نہیں ہوتی کہ کدھر سے کب چوٹ پڑنے والی ہے۔ ایسی قادرِ مطلق ہستی کے بارے میں یوں بے سوچے سمجھے جو لوگ الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں انہیں کون عقلمند کہہ سکتا ہے؟

23. پکارنے سے مراد اپنی حاجتوں میں مد د کے لیے پکارنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حاجت روائی و مشکل کشائی کے سارے اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں، اس لیے صرف اُسی سے دعائیں مانگنا بر حق ہے۔

24. سجدے سے مراد اطاعت میں جھکنا ، حکم بجا لانا اور سرِ تسلیم خم کرنا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر مخلوق اِس معنی میں اللہ کو سجدہ کر رہی ہے کہ وہ اس کے قانون کی مطیع ہے اور اس کی مشیت سے بال برابر بھی سرتابی نہیں کر سکتی ۔ مومن اس کے آگے برضا و رغبت جھکتا ہے تو کافر کو مجبورًا جھکنا پڑتا ہے، کیونکہ خدا کے قانون فطرت سے ہٹنا اُس کی مقدرت سے باہر ہے۔

25. سایوں کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اشیاء کے سایوں کا صبح و شام مغرب اور مشرق کی طرف گرنا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب چیزیں کسی کے امر کی مطیع اور کسی کے قانون سے مسخر ہیں۔

26. واضح رہے کہ وہ لوگ خود اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان کا رب اللہ ہے ۔ وہ اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں نہیں دے سکتے تھے ، کیونکہ یہ انکار خود اُن کے اپنے عقیدے کے خلا ف تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر وہ اقرار کی صورت میں بھی اس کا جواب دینے سے کتراتے تھے، کیونکہ اقرار کے بعد توحید کا ماننا لازم آجاتا تھا اور شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد با قی نہیں رہتی تھی۔ اس لیے اپنے موقف کی کمزوری محسوس کر کے وہ اس سوال کے جواب میں چپ سادھ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سے پوچھو زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ کائنات کا ربّ کون ہے؟ تم کو رزق دینے والا کون ہے؟ پھر حکم دیتا ہے کہ تم خود کہو کہ اللہ ، اور اِس کے بعد یوں استدلال کرتا ہے کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو آخر یہ دوسرے کون ہیں جن کی تم بندگی کیے جا رہے ہو؟

27. اندھے سے مراد وہ شخص ہے جس کے آگے کائنات میں ہر طرف اللہ کی وحدانیت کے آثار و شواہد پھیلے ہوئے ہیں مگر وہ اُن میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ اور آنکھوں والے سے مراد وہ ہے جس کے لیے کائنات کے ذرّے ذرّے اور پتّے پتّے میں معرفتِ کردگار کے دفتر کھلے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے اِس سوال کا مطلب یہ ہے کہ عقل کے اندھو ! اگر تمہیں کچھ نہیں سوجھتا تو آخر چشم بینا رکھنے والا اپنی آنکھیں کیسے پھوڑے؟ جو شخص حقیقت کو آشکار دیکھ رہا ہے اس کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ تم بے بصیرت لوگوں کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے؟

28. روشنی سے مراد علمِ حق کی وہ روشنی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے متبعین کو حاصل تھی۔ اور تاریکیوں سے مراد جہالت کی وہ تاریکیاں ہیں جن میں منکرین بھٹک رہے تھے۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ جس کو روشنی مل چکی ہے وہ کس طرح اپنی شمع بجھا کر اندھیروں میں ٹھوکریں کھانا قبول کر سکتا ہے؟ تم اگر نُور کے قدر شناس نہیں ہو تو نہ سہی۔ لیکن جس نے اُسے پالیا ہے ، جو نُور و ظلمت کے فرق کو جان چکا ہے، جو دن کے اجالے میں سیدھا راستہ صاف دیکھ رہا ہے، وہ روشنی کو چھوڑ کر تاریکیوں میں بھٹکتے پھرنے کے لیے کیسے آمادہ ہو سکتا ہے؟

29. اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ اگر دنیا میں کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے پید ا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے، اور یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا کہ خدا کا تخلیقی کام کونسا ہے اور دوسروں کا کونسا، تب تو واقعی شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد ہو سکتی تھی۔ لیکن جب یہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ ان کے معبودوں میں سے کسی نے ایک تنکا اور ایک بال تک پیدا نہیں کیا ہے، اور جب انہیں خود تسلیم ہے کہ خلق میں ان جعلی خداؤں کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے ، تو پھر یہ جعلی معبود خالق کے اختیارات اور اس کے حقوق میں آخر کس بنا پر شریک ٹھیرا لیے گئے؟

30. اصل میں لفظ قھّار استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں”وہ ہستی جو اپنے زور سے سب پر حکم چلائے اور سب کو مغلوب کر کے رکھے“۔ یہ بات کہ” اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے“، مشرکین کی اپنی تسلیم کردہ حقیقت ہے جس سے انہیں کبھی انکار نہ تھا۔ اور یہ بات کہ”وہ یکتا اور قہار ہے“ ا س تسلیم شدہ حقیقت کا لازمی نتیجہ ہے جس سے انکار کرنا ، پہلی حقیقت کو مان لینے کے بعد ، کسی صاحب عقل کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اِس لیے کہ جو ہر چیز کا خالق ہے ، وہ لامحالہ یکتا و یگانہ ہے ، کیونکہ دوسری جو چیز بھی ہے وہ اسی کی مخلوق ہے ، پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مخلو ق اپنے خالق کی ذات ، یا صفات ، یا اختیارات، یا حقوق میں اس کی شریک ہو؟ اسی طرح وہ لامحالہ قہّار بھی ہے ، کیونکہ مخلوق کا اپنے خالق سے مغلوب ہو کر رہنا عین تصوّرِ مخلوقیت میں شامل ہے ۔ غلبۂ کامل اگر خالق کو حاصل نہ ہو تو وہ خلق ہی کیسے کر سکتا ہے ۔ پس جو شخص اللہ کو خالق مانتا ہے اس کے لیے ان دو خالص عقلی و منطقی نتیجوں سے انکار کرنا ممکن نہیں رہتا، اور اس کے بعد یہ بات سراسر غیر معقول ٹھیرتی ہے کہ کوئی شخص خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کرے اور غالب کو چھوڑ کر مغلوب کو مشکل کشائی کے لیے پکارے۔

31. اس تمثیل میں اُ س علم کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعے سے نازل کیاگیا تھا، آسمانی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور ایمان لانے والے سلیم الفطرت لوگوں کو ان ندی نالوں کے مانند ٹھیرایا گیا ہے جو اپنے اپنے ظرف کے مطابق بارانِ رحمت سے بھر پور ہو کر رواں دواں ہو جاتے ہیں۔ ۔ اور اُس ہنگامہ و شورش کو جو تحریکِ اسلامی کی خلاف منکرین و مخالفین نے برپا کر رکھی تھی اُس جھاگ اور اُس خس و خاشاک سے تشبیہ دی گئی ہے جو ہمیشہ سیلاب کے اُٹھتے ہی سطح پر اپنی اچھل کود دکھانی شروع کر دیتا ہے۔

32. یعنی بھٹی جس کام کے لیے گرم کی جاتی ہے وہ تو ہے خالص دھات کو تپا کر کارآمد بنانا۔ مگر یہ کام جب بھی کیا جاتا ہے میل کچیل ضرور ابھر آتا ہے اور اس شان سے چرخ کھاتا ہے کہ کچھ دیر تک سطح پر بس وہی وہ نظر آتا رہتا ہے۔

33. یعنی اُس وقت ان پر ایسی مصیبت پڑے گی کہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے دنیا و مافیہا کی دولت دے ڈالنے میں بھی تامل نہ کریں گے۔

34. بُری حساب فہمی یا سخت حساب فہمی سے مطلب یہ ہے کہ آدمی کی کسی خطا اور کسی لغزش کو معاف نہ کیا جائے ، کوئی قصور جو اس نے کیا ہو مؤاخذے کے بغیر نہ چھوڑا جائے۔

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کا محاسبہ اپنے اُن بندوں سے کرے گا جو اُس کے باغی بن کر دنیا میں رہے ہیں۔ بخلاف اس کے جنہوں نے اپنے خدا سے وفاداری کی ہے اور اس کی مطیع فرمان بن کر رہے ہیں ان سے ”حسابِ یسیر“ یعنی ہلکا حساب لیا جائے گا، اُ ن کی خدمات کے مقابلے میں ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور اُن کے مجموعی طرزِ عمل کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر اُن کی بہت سی کوتاہیوں سے صرفِ نظر کر لیا جائے گا۔ اس کی مزید توضیح اُس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عائشہ ؓ سے ابوداؤد میں مروی ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے نزدیک کتاب اللہ کی سب سے زیادہ خوفناک آیت وہ ہے جس میں ارشاد ہو ا ہے کہ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓ ءً یُّجْزَ بِہٖ۔ ”جو شخص کوئی برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا“۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا، عائشہ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کے مطیع فرمان بندے کو دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے ، حتیٰ کہ اگر کوئی کانٹا بھی اُس کو چبھتا ہے ، تو اللہ اُسے اُس کے کسی نہ کسی قصور کی سزا قرار دے کر دنیا ہی میں اس کا حساب صاف کر دیتا ہے؟ آخرت میں تو جس سے بھی محاسبہ ہو گا وہ سزا پا کر رہے گا۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا ، پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب کیا ہے کہ فَاَمَّا مَنْ اُوْ تِیَ کِتَابَہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَسَوْ فَ یُحَا سَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا؟ ”جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا“۔ حضورؐ نے جواب دیا ، ا س سے مراد ہے پیشی(یعنی اس کی بھلائیوں کے ساتھ اُس کی برائیاں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے ضرور پیش ہوں گی) مگر جس سے باز پرس ہوئی تو وہ بس سمجھ لو کہ مارا گیا۔

اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص اپنے وفادار اور فرمانبردار ملازم کو چھوٹی چھوٹی خطاؤں پر کبھی سخت گرفت نہیں کرتا بلکہ اس کے بڑے بڑے قصوروں کو بھی اس کی خدمات کے پیشِ نظر معاف کر دیتا ہے ۔ لیکن اگر کسی ملازم کی غداری و خیانت ثابت ہو جائے تو اس کی کوئی خدمت قابل لحاظ نہیں رہتی اور اس کے چھوٹے بڑے سب قصور شمار میں آجاتے ہیں۔

35. یعنی نہ دنیا میں ان دونوں کا رویّہ یکساں ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام یکساں۔