Tafheem ul Quran

Surah 14 Ibrahim, Ayat 1-6

الۤرٰ​ كِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰهُ اِلَيۡكَ لِـتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ  ۙ بِاِذۡنِ رَبِّهِمۡ اِلٰى صِرَاطِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَمِيۡدِۙ‏ ﴿14:1﴾ اللّٰهِ الَّذِىۡ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ​ؕ وَوَيۡلٌ لِّـلۡكٰفِرِيۡنَ مِنۡ عَذَابٍ شَدِيۡدِ ۙ‏ ﴿14:2﴾ اۨلَّذِيۡنَ يَسۡتَحِبُّوۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا عَلَى الۡاٰخِرَةِ وَيَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَيَبۡغُوۡنَهَا عِوَجًا​ ؕ اُولٰۤـئِكَ فِىۡ ضَلٰلٍۢ بَعِيۡدٍ‏  ﴿14:3﴾ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمۡ​ؕ فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ​ ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿14:4﴾ وَلَـقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰى بِاٰيٰتِنَاۤ اَنۡ اَخۡرِجۡ قَوۡمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ ۙ وَذَكِّرۡهُمۡ بِاَيّٰٮمِ اللّٰهِ​ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لّـِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوۡرٍ‏ ﴿14:5﴾ وَاِذۡ قَالَ مُوۡسٰى لِـقَوۡمِهِ اذۡكُرُوۡا نِعۡمَةَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ اَنۡجٰٮكُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ يَسُوۡمُوۡنَـكُمۡ سُوۡۤءَ الۡعَذَابِ وَ يُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَكُمۡ وَيَسۡتَحۡيُوۡنَ نِسَآءَكُمۡ​ ؕ وَفِىۡ ذٰ لِكُمۡ بَلَاۤ ءٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ عَظِيۡمٌ‏ ﴿14:6﴾

1 - ا۔ل۔ر، اے محمد ؐ ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاوٴ، ان کے ربّ کی توفیق سے، اُس خدا کے راستے پر 1 جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمُود2 ہے 2 - اور زمین اور آسمانوں کی ساری موجودات کا مالک ہے۔ اور سخت تباہ کُن سزا ہے قبولِ حق سے انکار کرنے والوں کے لیے 3 - جو دُنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں،3 جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (ان کی خواہشات کے مطابق)ٹیڑھا ہو جائے۔4 یہ لوگ گمراہی میں بہت دُور نکل گئے ہیں۔ 4 - ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسوُل بھیجا ہے، اُس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ اُنہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔5 پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے،6 وہ بالادست اور حکیم ہے۔ 7 5 - ہم اِس سے پہلے موسیٰؑ کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں۔ اُسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخِ الٰہی8 کے سبق آموز واقعات سُنا کر نصیحت کر۔ اِن واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں9 ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔10 6 - یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا ”اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے۔ اُس نے تم کو فرعون والوں سے چھُڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ بچا رکھتے تھے۔ اس میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔ ؏ ١


Notes

1. یعنی تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا مطلب شیطان کے راستوں سے ہٹا کر خدا کے راستے پر لانا ہے ، دوسرے الفاظ میں ہر وہ شخص جو خدا کی راہ پر نہیں ہے وہ دراصل جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے ، خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی روشن خیال سمجھ رہا ہو اور اپنے زعم میں کتنا ہی نور علم سے منور ہو۔ بخلاف ا س کے جس نے خدا کا راستہ پا لیا وہ علم کی روشنی میں آگیا، چاہے وہ ایک اَن پڑھ دیہاتی ہی کیوں نہ ہو۔

پھر یہ جو فرمایا کہ تم اِن کو اپنے رب کے اذن یا اُس کی توفیق سے خدا کے راستے پر لاؤ، تو اس میں دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی ، مبلّغ ، خوا ہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، راہِ راست پیش کر دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ کسی کو اس راستہ پر لے آنا اُ س کے بس میں نہیں ہے۔ اِس کا انحصار سراسر اللہ کی توفیق اور اُس کے اذن پر ہے۔ اللہ کسی کو توفیق دے تو وہ ہدایت پا سکتا ہے، ورنہ پیغمبر جیسا کامل مبلغ اپنا پورا زور لگا کر بھی اس کو ہدایت نہیں بخش سکتا۔ رہی اللہ کی توفیق ، تو اس کا قانون بالکل الگ ہے جسے قرآن میں مختلف مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہدایت کی توفیق اُسی کو ملتی ہے جو خود ہدایت کا طالب ہو، ضد اور ہٹ دھرمی اور تعضب سے پاک ہو، اپنے نفس کا بندہ اور اپنی خواہشات کا غلام نہ ہو، کھلی آنکھوں سے دیکھے، کھلے کانوں سے سُنے، صاف دماغ سے سوچے، اور معقول بات کو بے لاگ طریقہ سے مانے۔

2. ”حمید“ کا لفظ اگر چہ محمُود ہی کا ہم معنی ہے ، مگر دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے۔ محمُود کسی شخص کو اُسی وقت کہیں گے جبکہ اس کی تعریف کی گئی ہو یا کی جاتی ہو۔ مگر حمید آپ سے حمد کا مستحق ہے ، خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے۔ اس لفظ کاپورا مفہوم ستودہ صفات ، سزا و ارِ حمد اور مستحقِ تعریف جیسے الفاظ سے ادا نہیں ہو سکتا، اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ”اپنی ذات میں آپ محمود“ کیا ہے۔

3. یا بالفاظ دیگر جنہیں ساری فکر بس دنیا کی ہے، آخرت کی پروا نہیں ہے ۔ جو دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آسائشوں کی خاطر آخرت کا نقصان تو مول لے سکتے ہیں، مگر آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کے لیے دنیا کا کوئی نقصان، کوئی تکلیف اور کوئی خطرہ ، بلکہ کسی لذت سے محرومی تک برداشت نہیں کر سکتے۔ جنہوں نے دنیا اور آخرت دونوں کا موازنہ کر کے ٹھنڈے دل سے دنیا کو پسند کر لیا ہے اور آخرت کے بارے میں فیصلہ کر چکے ہیں کہ جہاں جہاں ان کا مفاد دنیا کے مفاد سے ٹکرا ئے گا وہاں اُسے قربان کرتے چلے جائیں گے۔

4. یعنی وہ اللہ کی مرضی کے تابع ہو کر نہیں رہنا چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین اُن کی مرضی کا تابع ہو کرہے۔ اُن کے ہر خیال ، ہر نظریے اور ہر وہم و گمان کو اپنے عقائد میں داخل کرے اور کسی ایسے عقیدے کو اپنے نظامِ فکر میں نہ رہنے دے جو اُن کی کھوپڑی میں نہ سماتا ہو۔ اُن کی ہر رسم ، ہر عادت ، اور ہر خصلت کو سند جواز دے اور کسی ایسے طریقے کی پیروی کا اُن سے مطالبہ نہ کرے جو انہیں پسند نہ ہو۔ وہ اِن کا ہاتھ بندھا غلام ہو کہ جدھر جدھر یہ اپنے شیطانِ نفس کے اتباع میں مڑیں اُدھر وہ بھی جائے، اور کہیں نہ تو وہ انہیں ٹوکے اور نہ کسی مقام پر انہیں اپنے راستہ کی طرف موڑنے کی کوشش کرے۔ وہ اللہ کی بات صرف اُسی صورت میں مان سکتے ہیں جبکہ وہ اِس طرح کا دین ان کے لیے بھیجے۔

5. اس کے دومطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو نبی جس قوم میں بھیجا ہے اُس پر اُسی قوم کی زبان میں اپنا کلام نازل کیا تا کہ وہ قوم اسے اچھی طرح سمجھے ، اور اسے یہ عذر پیش کرنے کا موقع نہ مل سکے کہ آپ کی بھیجی ہوئی تعلیم تو ہماری سمجھ ہی میں نہ آتی تھی پھر ہم اس پر ایمان کیسے لاتے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض معجزہ دکھا نے کی خاطر کبھی یہ نہیں کیا کہ رسول تو بھیجے عرب میں اور وہ کلام سنائے چینی یا جاپانی زبان میں۔ اس طرح کے کرشمے دکھانے اور لوگوں کی عجائب پسندی کو آسودہ کرنے کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تعلیم و تلقین اور تفہیم و تبیین کی اہمیت زیادہ رہی ہے جس کے لیے ضروری تھا کہ ایک قوم کو اسی زبان میں پیغام پہنچایا جائے جسے وہ سمجھتی ہو۔

6. یعنی باوجود اِس کے کہ پیغمبر ساری تبلیغ و تلقین اُسی زبان میں کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے ، پھر بھی سب کو ہدایت نصیب نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ کسی کلام کے محض عام فہم ہونے سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ سب سننے والے اسے مان جائیں۔ ہدایت اور ضلالت کا سر رشتہ بہر حال اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہی جسے چاہتا ہے اپنے اِس کلام کے ذریعہ سے ہدایت عطا کرتا ہے، اور جس کے لیے چاہتا ہے اسی کلام کو الٹی گمراہی کا سبب بنا دیتا ہے۔

7. یعنی لوگوں کا بطور خود ہدایت پالینا یا بھٹک جانا تو اس بنا پر ممکن نہیں ہے کہ وہ کاملًا خود مختار نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی بالادستی سے مغلوب ہیں۔ لیکن اللہ اپنی اس بالادستی کو اندھا دھند استعمال نہیں کرتا کہ یونہی بغیر کسی معقول وجہ کے جسے چاہے ہدایت بخش دے اور جسے چاہے خواہ مخواہ بھٹکا دے۔ وہ بالادست ہونے کے ساتھ حکیم و دانا بھی ہے۔ اُس کے ہاں سے جس کو ہدایت ملتی ہے معقول وجوہ سے ملتی ہے۔ اور جس کو راہِ راست سے محروم کر کے بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے وہ خود اپنی ضلالت پسندی کی وجہ سے اس سلوک کا مستحق ہوتا ہے۔

8. ”ایّام“ کا لفظ عربی زبان میں اصطلاحًا یادگار تاریخی واقعات کے لیے بولا جاتا ہے۔”ایام اللہ“ سے مراد تاریخ ِ انسانی کے وہ اہم ابواب ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ زمانہ کی قوموں اور بڑی بڑی شخصیتوں کو اُ ن کے اعمال کے لحاظ سے جزا یا سزادی ہے۔

9. یعنی ان تاریخی واقعات میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جن سے ایک آدمی تو حید ِ خداوندی کے برحق ہونے کا ثبوت بھی پا سکتا ہے اور اس حقیقت کی بھی بے شمار شہادتیں فراہم کر سکتا ہے کہ مُکافات کا قانون ایک عالمگیر قانون ہے ، اور وہ سراسر حق اور باطل کے علمی و اخلاقی امتیاز پر قائم ہے، اور اُ سکے تقاضے پورے کرنے کے لیے ایک دوسرا عالَم ، یعنی عالَمِ آخرت ناگزیر ہے۔ نیز ان واقعات میں وہ نشانیاں بھی موجود ہیں جن سے ایک آدمی باطل عقائد و نظریات پر زندگی کی عمارت اُٹھانے کے بُرے نتائج معلوم کر سکتا ہے اور اُن سے عبرت حاصل کر سکتا ہے۔

10. یعنی یہ نشانیاں تو اپنی جگہ موجود ہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانا صرف اُنہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ کی آزمائشوں سے صبر اور پامردی کے ساتھ گزرنے والے، اور اللہ کی نعمتوں کو ٹھیک ٹھیک محسوس کر کے اُن کا صحیح شکریہ ادا کرنے والے ہوں ۔چھچھورے اور کم ظرف اور احسان ناشناس لوگ اگر ان نشانیوں کا ادراک کر بھی لیں تو ان کی یہ اخلاقی کمزوریاں اُنہیں اِس ادراک سے فائدہ اُٹھانے نہیں دیتیں۔