Tafheem ul Quran

Surah 14 Ibrahim, Ayat 13-21

وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِرُسُلِهِمۡ لَـنُخۡرِجَنَّكُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ اَوۡ لَـتَعُوۡدُنَّ فِىۡ مِلَّتِنَا​ ؕ فَاَوۡحٰۤى اِلَيۡهِمۡ رَبُّهُمۡ لَـنُهۡلِكَنَّ الظّٰلِمِيۡنَۙ‏ ﴿14:13﴾ وَلَـنُسۡكِنَنَّكُمُ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ​ؕ ذٰ لِكَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامِىۡ وَخَافَ وَعِيۡدِ‏ ﴿14:14﴾ وَاسۡتَفۡتَحُوۡا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيۡدٍۙ‏ ﴿14:15﴾ مِّنۡ وَّرَآئِهٖ جَهَـنَّمُ وَيُسۡقٰى مِنۡ مَّآءٍ صَدِيۡدٍۙ‏ ﴿14:16﴾ يَّتَجَرَّعُهٗ وَلَا يَكَادُ يُسِيۡـغُهٗ وَيَاۡتِيۡهِ الۡمَوۡتُ مِنۡ كُلِّ مَكَانٍ وَّمَا هُوَ بِمَيِّتٍؕ​ وَمِنۡ وَّرَآئِهٖ عَذَابٌ غَلِيۡظٌ‏ ﴿14:17﴾ مَثَلُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِرَبِّهِمۡ​ اَعۡمَالُهُمۡ كَرَمَادِ ۨاشۡتَدَّتۡ بِهِ الرِّيۡحُ فِىۡ يَوۡمٍ عَاصِفٍ​ؕ لَا يَقۡدِرُوۡنَ مِمَّا كَسَبُوۡا عَلٰى شَىۡءٍ​ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الۡبَعِيۡدُ‏ ﴿14:18﴾ اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِالۡحَـقِّ​ؕ اِنۡ يَّشَاۡ يُذۡهِبۡكُمۡ وَيَاۡتِ بِخَلۡقٍ جَدِيۡدٍۙ‏ ﴿14:19﴾ وَّمَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِيۡزٍ‏ ﴿14:20﴾ وَبَرَزُوۡا لِلّٰهِ جَمِيۡعًا فَقَالَ الضُّعَفٰۤؤُا لِلَّذِيۡنَ اسۡتَكۡبَرُوۡۤا اِنَّا كُنَّا لَـكُمۡ تَبَعًا فَهَلۡ اَنۡـتُمۡ مُّغۡـنُوۡنَ عَنَّا مِنۡ عَذَابِ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍ​ؕ قَالُوۡا لَوۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ لَهَدَيۡنٰكُمۡ​ؕ سَوَآءٌ عَلَيۡنَاۤ اَجَزِعۡنَاۤ اَمۡ صَبَرۡنَا مَا لَـنَا مِنۡ مَّحِيۡصٍ‏ ﴿14:21﴾

13 - آخرِ کار منکرین نے اپنے رسُولوں سے کہہ دیا کہ ”یا تو تمہیں ہماری ملّت میں واپس آنا ہوگا22 ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے۔“ تب اُن کے ربّ نے اُن پر وحی بھیجی کہ ”ہم اِن ظالموں کو ہلاک کر دیں گے 14 - اور ان کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے۔23 یہ انعام ہے اس کا جو میرے حضُور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو۔“ 15 - اُنہوں نے فیصلہ چاہا تھا (تو یُوں اُن کا فیصلہ ہوا)اور ہر جبّار دشمنِ حق نے منہ کی کھائی۔24 16 - پھر اُس کے بعد آگے اُس کے لیے جہنّم ہے۔ وہاں اُسے کچ لہو کا سا پانی پینے کو دیا جائے گا 17 - جسے وہ زبردستی حلق سے اُتارنے کی کوشش کرے گا اور مشکل ہی سے اُتار سکے گا ۔ موت ہر طرف سے اُس پر چھائی رہے گے مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک سخت عذاب اُس کی جان کو لاگُو رہے گا۔ 18 - جن لوگوں نے اپنے ربّ سے کُفر کیا ہے اُن کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اُڑا دیا ہو ۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے۔25 یہی پرلے درجے کی گُم گشتگی ہے۔ 19 - کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے؟26 وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔ 20 - ایسا کرنا اُس پر کچھ بھی دُشوار نہیں ہے۔27 21 - اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے28 تو اُس وقت ان میں جو دُنیا میں کمزور تھے وہ اُن لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے ، کہیں گے ”د ُنیا میں ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کر سکتے ہو؟“ وہ جواب دیں گے ”اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں بھی دکھا دیتے۔ اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزَع فزَع کریں یا صبر، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں ۔“29 ؏ ۳


Notes

22. اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انبیاء علیہم السلام منصبِ نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے اپنی گمراہ قوموں کی ملّت میں شامل ہوا کرتے تھے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبوت سے پہلے چونکہ وہ ایک طرح کی خاموش زندگی بسر کرتے تھے، کسی دین کی تبلیغ اور کسی رائج الوقت دین کی تردید نہیں کرتے تھے ، اِس لیے اُن کی قوم یہ سمجھتی تھی کہ وہ ہماری ہی مِلّت میں ہیں، اور نبوت کا کام شروع کر دینے کے بعد اُن پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ مِلّت آبائی سے نِکل گئے ہیں۔ حالانکہ وہ نبوت سے پہلے بھی کبھی مشر کین کی مِلّت میں شامل نہ ہوئے تھے کہ اس سے خروج کا الزام اُ ن پر لگ سکتا۔

23. یعنی گھبراؤ نہیں ، یہ کہتے ہیں کہ تم اس ملک میں نہیں رہ سکتے ، مگر ہم کہتے ہیں کہ اب یہ اِس سرزمین میں نہ رہنے پائیں گے۔ اب تو جو تمہیں مانے گا وہی یہاں رہے گا۔

24. ملحوظِ خاطر رہے کہ یہاں اِس تاریخی بیان کے پیرایہ میں دراصل کفارِ مکہ کو اُن باتوں کا جواب دیا جا رہا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے ۔ ذکر بظاہر پچھلے انبیاء اور ان کی قوموں کے واقعات کا ہے مگر چسپاں ہو رہا ہے وہ اُن حالات پر جو اس سورہ کے زمانۂ نزول میں آ رہے تھے۔ اس مقام پر کفار مکہ کو ، بلکہ مشرکین ِ عرب کو گویا صاف صاف متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مستقبل اب اُس رویے پر منحصر ہے جو دعوتِ محمدیہ کے مقابلے میں تم اختیار کرو گے۔ اگر اسے قبول کر لو گے تو عرب کی سرزمین میں رہ سکو گے ، اور اگر اسے رد کر دو گے تو یہاں سے تمہارا نام و نشان تک مِٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ اس بات کو تاریخی واقعات نے ایک ثابت شدہ حقیقت بنا دیا۔ اس پیشین گوئی پر پورے پندرہ برس بھی نہ گزرے تھے کہ سر زمین عرب میں ایک مشرک بھی باقی نہ رہا۔

25. یعنی جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ نمک حرامی ، بے وفائی، خود مختاری اور نافرمانی و سرکشی کی روش اختیار کی ، اور اطاعت و بندگی کا وہ طریقہ اختیار کرنے سے انکار کر دیا جس کی دعوت انبیاء علیہم السلام لے کر آئے ہیں ، اُن کا پورا کارنامۂ حیات اور زندگی بھر کا سارا سرمایہ ٔ عمل آخر کار ایسا لاحاصل اور بے معنی ثابت ہو گا جیسے ایک راکھ کا ڈھیر تھا جو اکٹھا ہو ہو کر مدّتِ دراز میں بڑا بھاری ٹیلہ سا بن گیا تھا ، مگر صرف ایک ہی دن کی آندھی نے اس کو ایسا اڑا یا کہ اُس کا ایک ایک ذرّہ منتشر ہو کر رہ گیا۔ اُن کی نظر فریب تہذیب ، اُن کا شاندار تمدن ، اُن کی حیرت انگیز صنعتیں ، اُن کی زبردست سلطنتیں ، اُن کی عالیشان یونیورسٹیاں ، اُن کے علوم و فنون اور ادبِ لطیف و کثیف کے اتھاہ ذخیرے، حتیِ کہ اُن کی عبادتیں اور اُن کی ظاہری نیکیاں اور اُن کے بڑے بڑے خیراتی اور رفاہی کارنامےبھی، جن پر وہ دنیا میں فخر کرتے ہیں ، سب کے سب آخر کار راکھ کا ایک ڈھیر ہی ثابت ہوں گے جسے یوم ِ قیامت کی آندھی بالکل صاف کر دے گی اور عالمِ آخرت میں اُس کا ایک ذرّہ بھی اُن کے پاس اس لائق نہ رہے گا کہ اُسے خدا کی میزان میں رکھ کر کچھ بھی وزن پا سکیں۔

26. یہ دلیل ہے اُس دعوے کی جو اوپر کیا گیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اِس بات کو سُن کر تمہیں تعجب کیوں ہوتا ہے؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ زمین و آسمان کا عظیم الشان کارخانۂ تخلیق حق پر قائم ہوا ہے نہ کہ باطل پر ؟ یہاں جو چیز حقیقت اور واقعیت پر مبنی نہ ہو، بلکہ ایک بے اصل قیاس و گمان پر جس کی بنا رکھ دی گئی ہو ، اُسے کوئی پائیداری نصیب نہیں ہو سکتی۔ اُس کے لیے قرارو ثبات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اُس کے اعتماد پر کام کرنے والا کبھی اپنے اعتماد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جو شخص پانی پر نقش بنائے اور ریت پر قصر تعمیر کرے وہ اگر یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا نقش باقی رہے گا اور اُس کا قصر کھڑا رہے گا تو اس کی یہ اُمید کبھی پوری نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ پانی کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ نقش قبول کرے اور ریت کی یہ حقیقت نہیں کہ وہ عمارتوں کے لیے مضبوط بنیاد بن سکے۔ لہٰذا سچائی اور حقیقت کو نظر انداز کر کے جو شخص باطل امیدوں پر اپنے عمل کی بنیاد رکھے اُسے ناکام ہونا ہی چاہیے۔ یہ بات اگر تمہاری سمجھ میں آتی ہے تو پھر یہ سُن کر تمہیں حیرت کس لیے ہوتی ہے کہ خدا کی اِس کائنات میں جو شخص اپنے آپ کو خدا کی بندگی و اطاعت سے آزاد فرض کر کے کام کرے گا یا خدا کے سوا کسی اَور کی خدائی مان کر (جس کی فی الواقع خدائی نہیں ہے) زندگی بسر کرے گا ، اس کا پورا کارنامۂ زندگی ضائع ہو جائے گا؟ جب واقعہ یہ نہیں ہے کہ انسان یہاں خود مختا ر ہو یا خدا کے سوا کسی اور کا بندہ ہو ، تو اس جھوٹ پر ، اس خلاف ِ واقعہ مفروضہ پر، اپنے پورے نظامِ فکر و عمل کی بنیاد رکھنے والا انسان تمہاری رائے میں پانی پر نقش کھینچنے والے احمق کا سا انجام نہ دیکھے گا تواُ س کے لیے اور کس انجام کی تم توقع رکھتے ہو؟

27. دعوے پر دلیل پیش کرنے کے بعد فورًا ہی یہ فقرہ نصیحت کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے اور ساتھ ساتھ ایک شبہ کا ازالہ بھی ہے جو اوپر کی دو ٹوک بات سُن کر آدمی کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے ۔ ایک شخص پوچھ سکتا ہے کہ اگر بات وہی ہے جو اِن آیتوں میں فرمائی گئی ہے تو یہاں ہر باطل پرست اور غلط کار آدمی فنا کیوں نہیں ہو جاتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نادان! کیا تُو سمجھتا ہے کہ اسے فنا کردینا اللہ کے لیے کچھ دشوار ہے ؟ یا اللہ سے اس کا کوئی رشتہ ہے کہ اس کی شرارتوں کے باوجود اللہ نے محض اقربا پروری کی بنا پر اُسے مجبورًا چھوٹ دے رکھی ہو؟ اگر یہ بات نہیں ہے ، اور تُو خود جانتا ہے کہ نہیں ہے، تو پھر تجھے سمجھنا چاہیے کہ ایک باطل پرست اور غلط کار قوم ہر وقت اس خطرے میں مبتلا ہے کہ اسے ہٹا دیا جائے اور کسی دوسری قوم کو اس کی جگہ کام کرنے کا موقع دے دیا جائے ۔ اس خطرے کے عملًا رُونما ہونے میں اگر دیر لگ رہی ہے تو اس غلط فہمی کے نشے میں مست نہ ہو جا کہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ مہلت کےایک ایک لمحے کو غنیمت جان اور اپنے باطل نظامِ فکر و عمل کی ناپائیداری کو محسوس کر کے اسے جلدی سے جلدی پائیدار بنیادوں پر قائم کر لے۔

28. بروز کے معنی محض نکل کر سامنے آنے اور پیش ہونے ہی کے نہیں ہیں بلکہ اس میں ظاہر ہونے اور کھل جانے کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ بے نقاب ہو کر سامنے آجانا کیاہے۔ حقیقت کے اعتبار سے تو بندے ہر وقت اپنے رب کے سامنے بے نقاب ہیں ۔ مگر آخرت کی پیشی کے دن جب وہ سب کے سب اللہ کی عدالت میں حاضر ہوں گے تو انہیں خود بھی معلوم ہوگا کہ ہم اس احکم الحاکمین اور مالک یوم الدین کےسامنے بالکل بے نقاب ہیں ، ہمارا کوئی کام بلکہ کوئی خیال اور دل کے گوشوں میں چھپا ہوا کوئی ارادہ تک اس سے مخفی نہیں ہے ۔

29. یہ تنبیہ ہے اُن سب لوگوں کے لیے جو دنیا میں آنکھیں بند کر کے دوسروں کے پیچھے چلتے ہیں یا اپنی کمزوری کو حجت بنا کر طاقتور ظالموں کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آج جو تمہارے لیڈر اور پیشوا اور افسر او ر حاکم بنے ہوئے ہیں، کل ان میں سے کوئی بھی تمہیں خدا کے عذاب سے ذرہ برابر بھی نہ بچا سکے گا۔ لہٰذا آج ہی سوچ لو کہ تم جس کےپیچھے چل رہے ہو یا جس کا حکم مان رہے ہو وہ خود کہاں جا رہا ہے اور تمہیں کہاں پہنچا کر چھوڑے گا۔