Tafheem ul Quran

Surah 14 Ibrahim, Ayat 22-27

وَقَالَ الشَّيۡطٰنُ لَـمَّا قُضِىَ الۡاَمۡرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمۡ وَعۡدَ الۡحَـقِّ وَوَعَدْتُّكُمۡ فَاَخۡلَفۡتُكُمۡ​ؕ وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّاۤ اَنۡ دَعَوۡتُكُمۡ فَاسۡتَجَبۡتُمۡ لِىۡ​ ۚ فَلَا تَلُوۡمُوۡنِىۡ وَلُوۡمُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ​ ؕ مَاۤ اَنَا بِمُصۡرِخِكُمۡ وَمَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُصۡرِخِىَّ​ ؕ اِنِّىۡ كَفَرۡتُ بِمَاۤ اَشۡرَكۡتُمُوۡنِ مِنۡ قَبۡلُ​ ؕ اِنَّ الظّٰلِمِيۡنَ لَهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ‏ ﴿14:22﴾ وَاُدۡخِلَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا بِاِذۡنِ رَبِّهِمۡ​ؕ تَحِيَّتُهُمۡ فِيۡهَا سَلٰمٌ‏ ﴿14:23﴾ اَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصۡلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرۡعُهَا فِى السَّمَآءِۙ‏ ﴿14:24﴾ تُؤۡتِىۡۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِيۡنٍۢ بِاِذۡنِ رَبِّهَا​ؕ وَيَضۡرِبُ اللّٰهُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿14:25﴾ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيۡثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيۡثَةٍ ۨاجۡتُثَّتۡ مِنۡ فَوۡقِ الۡاَرۡضِ مَا لَهَا مِنۡ قَرَارٍ‏ ﴿14:26﴾ يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡقَوۡلِ الثَّابِتِ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَفِى الۡاٰخِرَةِ​ ۚ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيۡنَ​ ۙ وَيَفۡعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَآءُ‏ ﴿14:27﴾

22 - اور جب فیصلہ چُکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا ”حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے اُن میں سے کوئی بھی پُورا نہ کیا ،30 میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبّیک کہا۔ 31اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا32 میں اُس سے بری الذّمہ ہوں، ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے۔“ 23 - بخلاف اس کے جو لوگ دُنیا میں ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ اپنے ربّ کے اِذن سے ہمیشہ رہیں گے، اور وہاں اُن کا استقبال سلامتی کی مبارکباد سے ہوگا۔33 24 - کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہٴ طیّبہ34 کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اِس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت جس کی جڑ زمین میں گہری جمّی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں35، 25 - ہر آن وہ اپنے ربّ کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔36 یہ مثالیں اللہ اِس لیے دیتا ہے کہ لوگ اِن سے سبق لیں۔ 26 - اور کلمہ خبیثہ37 کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اُکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اُس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔38 27 - ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دُنیا اور آخرت دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے،39 اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔40 اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔ ؏ ۴


Notes

30. یعنی تمہارے تمام گلے شکوے اس حد تک تو بالکل صحیح ہیں کہ اللہ سچا تھا اور میں جھوٹا تھا۔ اس واقعے سے مجھے ہر گز انکار نہیں ہے ۔ اللہ کے وعدے اور اس کی وعیدیں ، تم دیکھ ہی رہے ہو کہ ان میں سے ہر بات جوں کی توں سچی نکلی ۔ اور میں خود مانتا ہوں کہ جو بھروسے میں نے تمہیں دلائے، جن فائدوں کے لالچ تمہیں دیے، جن خوشنما توقعات کے جال میں تم کو پھانسا اور سب سے بڑھ کر یہ یقین جو تمہیں دلایا کہ اول تو آخرت واخرت کچھ بھی نہیں ہے، سب محض ڈھکوسلا ہے ، اور اگر ہوئی بھی تو فلاں حضرت کے تصدق سے تم صاف بچ نکلو گے ، بس ان کی خدمت میں نذر و نیاز کی رشوت پیش کرتے رہو اور پھر جو چاہو کرتے پھرو، نجات کا ذمہ اُن کا، یہ ساری باتیں جو میں تم سے کہتا رہا اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے کہلواتا رہا، یہ سب محض دھوکا تھا۔

31. یعنی اگر آپ حضرات ایسا کوئی ثبوت رکھتے ہو کہ آپ خود راہِ راست پر چلنا چاہتے تھے اور میں نے زبردستی آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو غلط راستے پر کھینچ لیا ، تو ضرور اسے پیش فرمائیے ، جو چور کی سزا سو میری۔ لیکن آپ خود مانیں گے کہ واقعہ یہ نہیں ہے ۔ میں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ دعوتِ حق کے مقابلے میں اپنی دعوتِ باطل آپ کے سامنے پیش کی، سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ کی طرف آپ کو بلایا ، نیکی کے مقابلہ میں بدی کی طرف آپ کو پکارا۔ ماننے ااور نہ ماننے کے جملہ اختیارات آپ ہی حضرات کو حاصل تھے۔ میرے پاس آپ کو مجبور کرنے کی کوئی طاقت نہ تھی۔ اب اپنی اس دعوت کا ذمہ دار تو بلا شبہ تو میں خود ہوں اور اس کی سزا بھی پا رہا ہوں ۔ مگر آپ نے جوا س پر لبیک کہا اس کی ذمہ داری آپ مجھ پر کہاں ڈالنے چلے ہیں۔ اپنے غلط انتخاب اور اپنے اختیار کے غلط استعمال کی ذمہ داری تو آپ کو خود ہی اُٹھانی چاہیے۔

32. ”یہاں پھر شرکِ اعتقادی کے مقابلہ میں شرک کی ایک مستقل نوع یعنی شرکِ عملی کے وجود کا ایک ثبوت ملتا ہے۔ ظا ہر بات ہے کہ شیطان کو اعتقادی حیثیت سے تو کوئی بھی نہ خدائی میں شریک ٹھیراتا ہے اور نہ اس کی پرستش کرتا ہے۔سب اُس پر لعنت ہی بھیجتے ہیں ۔ البتہ اس کی اطاعت اور غلامی اور اس کے طریقے کی اندھی یا آنکھوں دیکھے پیروی ضرور کی جا رہی ہے، اور اُسی کو یہاں شرک کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کوئی صاحب جوا ب میں فرمائیں کے یہ تو شیطان کا قول ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایا ہے۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ اول تو اس کے قول کی اللہ تعالیٰ خود تردید فرما دیتا اگر وہ غلط ہوتا ۔ دوسرے شرکِ عملی کا صرف یہی ایک ثبوت قرآن میں نہیں ہے بلکہ اس کی متعدد ثبوت پچھلی سورتوں میں گزر چکے ہیں اورآگے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہودیوں اور عیسائیوں کو یہ الزام کہ وہ اپنے احبار اور رُہبان کو اربابٌ من دون اللہ بنائے ہوئے ہیں ( التوبہ، آیت ۱۳۷) ۔ خواہشاتِ نفس کی بندگی کرنے والوں کے متعلق یہ فرمانا کہ انہوں نے اپنی خواہشِ نفس کو خدا بنا لیا ہے (الفرقان، آیت نمبر ۴۳)۔ نافرمان بندوں کے متعلق یہ ارشاد کہ وہ شیطان کی عبادت کرتے رہے ہیں (یٰسین، آیت ۶۰)۔ انسانی ساخت کے قوانین پر چلنے والوں کو ان الفاظ میں ملامت کہ اذن ِ خداوندی کے بغیر جن لوگوں نے تمہارے لیے شریعت بنائی ہے وہ تمہارے ”شریک“ ہیں (الشوریٰ، آیت نمبر ۲۱)۔ یہ سب کیا اُسی شرکِ عملی کی نظیر یں نہیں ہیں جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے؟ ان نظیروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ کوئی شخص عقیدۃً کسی غیراللہ کو خدائی میں شریک ٹھیرائے۔ اس کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ وہ خدائی سند کے بغیر ، یا احکام ِ خداوندی کے علی الرغم ، اُس کی پیروی اور اطاعت کرتا چلا جائے ۔ ایسا پیرو اور مطیع اگر اپنے پیشوا اور مطاع پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی عملًا یہ روش اختیار کر رہا ہو تو قرآن کی روح سے وہ اُس کوخدائی میں شریک بنائے ہوئے ہے، چاہے شرعًا اُس کا حکم بالکل وہی نہ ہو جو اعتقادی مشرکین کا ہے ۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام، حاشیہ نمبر ۸۷ و ۱۰۷ ۔ الکہف حاشیہ ۵۰)۔

33. تَحیّہ کے لغوی معنی ہیں دعائے درازی ٔ عمر ۔ مگر اصطلاحًا عربی زبان میں یہ لفظ اس کلمہ ٔ خیر مقدم یا کلمۂ استقبال کے لیے بولا جاتا ہے جو لوگ آمنا سامنا ہونے پر سب سے پہلے ایک دوسرے سے کہتے ہیں۔ اردو میں اس کا ہم معنی لفظ یا تو ”سلام“ ہے، یاپھر علیک سلیک ۔ لیکن پہلا لفظ استعمال کرنے سے ترجمہ ٹھیک نہیں ہوتا اور دوسرا لفظ مبتذل ہے، اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ ”استقبال “ کیا ہے۔

تَحِیَّتُھُمْ کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ان کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کے استقبال کا طریقہ یہ ہوگا ، اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ان کا اس طرح استقبال ہو گا ۔ نیز سلامٌ میں دعائے سلامتی کا مفہوم بھی ہے اور سلامتی کی مبارکباد کا بھی۔ ہم نے موقع کی مناسبت کا لحاظ کرتے ہوئے وہ مفہوم اختیار کیا ہے جو ترجمہ میں درج ہے۔

34. کلمہ ٔ طیبہ کے لفظی معنی”پاکیزہ بات“ کے ہیں، مگر اِس سے مراد وہ قولِ حق اورعقیدہ ٔ صالحہ جو سراسر حقیقت اور راستی پر مبنی ہو۔ یہ قول اور عقیدہ قرآن مجید کی رُو سے لازمًا وہی ہو سکتا ہے جس میں توحید کا اقرار ، انبیاء اور کتب آسمانی کا اقرار، اور آخرت کا اقرار ہو ، کیونکہ قرآن اِنہی امور کو بنیاد ی صداقتوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔

35. دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین سے لے کر آسمان تک چونکہ سارا نظامِ کائنات اُسی حقیقت پر مبنی ہے جس کا اقرار ایک مومن اپنے کلمہ طیبہ میں کرتا ہے ، اس لیے کسی گوشے میں بھی قانونِ فطرت اس سے نہیں ٹکراتا، کسی شے کی بھی اصل اور جبلّت اُس سے اِبا نہیں کرتی، کہیں کوئی حقیقت اور صداقت اُس سے متصادم نہیں ہوتی۔ اِسی لیے زمین اور اُس کا پورا نظام اُس سے تعاون کرتا ہے ، اور آسمان اور اُس کاپورا عالم اُس کا خیر مقدم کرتا ہے۔

36. یعنی وہ ایسا بار آور اور نتیجہ خیز کلمہ ہے کہ جو شخص یا قوم اِسے بنیاد بنا کر اپنی زندگی کا نظام اس پر تعمیر کرے، اُس کو ہر آن اس کے مفید نتائج حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ وہ فکر میں سلجھاؤ ، طبیعت میں سلامت، مزاج میں اعتدال، سیرت میں مضبوطی ، اخلاق میں پاکیزگی، روح میں لطافت، جسم میں طہارت و نظافت، برتاؤ میں خوشگواری، معاملات میں راست بازی، کلام میں صداقت شعاری، قول و قرار میں پختگی ، معاشرت میں حسنِ سلوک، تہذیب میں فضیلت، تمدن میں توازن ، معیشت میں عدل و مُواساۃ، سیاست میں دیانت، جنگ میں شرافت ، صلح میں خلوص اور عہدو پیمان میں وثوق پیدا کرتا ہے، وہ ایک ایسا پارس ہے جس کی تاثیر اگر کوئی ٹھیک ٹھیک قبول کر لے تو کندن بن جائے۔

37. ” یہ لفظ کلمہ طیبہ کی ضد ہے جس کا اطلاق اگرچہ ہر خلافِ حقیقت اور مبنی بر غلط قول پر ہو سکتا ہے ، مگر یہاں اُس سے مراد ہر وہ باطل عقیدہ ہے جس کو انسان اپنے نظامِ زندگی کی بنیاد بنائے، عام اِس سے کہ وہ دہریت ہو، الحاد و زندقہ ہو، شرک و بت پرستی ہو،یا کوئی اور ایسا تخیل جو انبیاء کے واسطے سے نہ آیا ہو۔

38. دوسرے الفاظ میں اِ س کا مطلب یہ ہوا کہ عقیدہ باطل چونکہ حقیقت کے خلاف ہے اس لیے قانونِ فطرت کہیں بھی اُس سے موافقت نہیں کرتا۔ کائنات کا ہر ذرہ اُس کی تکذیب کرتا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر شے اس کی تردید کرتی ہے۔ زمین میں اُس کا بیج بونے کی کوشش کی جائے تو ہر وقت وہ اُسے اگلنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ آسمان کی طرف اس کی شاخیں بڑھنا چاہیں تو وہ انہیں نیچے دھکیلتا ہے۔ انسان کو اگر امتحان کی خاطر انتخاب کی آزادی اور عمل کی مہلت نہ دی گئی ہوتی تو یہ بدذات درخت کہیں اُگنے ہی نہ پاتا۔ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے ابنِ آدم کو اپنے رحجان کے مطابق کام کرنے کا موقع عطا کیا ہے، اس لیے جو نادان لوگ قانونِ فطرت سے لڑ بھڑ کر یہ درخت لگانے کی کوشش کرتے ہیں ، اُن کے زور مارنے سے زمین اُسے تھوڑی بہت جگہ دے دیتی ہے ، ہوا اور پانی سے کچھ نہ کچھ غذا بھی اسے مل جاتی ہے، اور فضا بھی اس کی شاخوں کے پھیلنے کے لیے بادلِ ناخواستہ کچھ موقع دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ لیکن جب تک یہ درخت قائم رہتا ہے کڑوے ، کسیلے، زہریلے پھل دیتا رہتا ہے، اور حالات کے بدلتے ہی حوادث کا ایک جھٹکا اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔

کلمہ طیبہ اور کلمات خبیثہ کے اس فرق کو ہر وہ شخص بآسانی محسوس کر سکتا ہے جو دنیا کی مذہبی ، اخلاقی، فکری اور تمدنی تاریخ کا مطالعہ کرے۔ وہ دیکھے گا کہ آغازِ تاریخ سے آج تک کلمہ طیبہ تو ایک ہی رہا ہے، مگر کلماتِ خبیثہ بے شمار پیدا ہو چکے ہیں۔ کلمہ طیبہ کبھی جڑ سے نہ اکھاڑا جا سکا، مگر کلماتِ خبیثہ کی فہرست ہزاروں مردہ کلمات کے ناموں سے بھری پڑی ہے ، حتیِ کہ اُن میں سے بہتوں کا حال یہ ہے کہ آج تاریخ کے صفحات کے سوا کہیں اُن کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا۔ اپنے زمانے میں جن کلمات کا بڑا زور شور رہا ہے آج اُن کا ذکر کیا جائے تو لوگ حیران رہ جائیں کہ کبھی انسان ایسی ایسی حماقتوں کا بھی قائل رہ چکا ہے۔

پھر کلمہ طیبہ کو جب، جہاں ،جس شخص یا قوم نے بھی صحیح معنوں میں اپنایا اُس کی خوشبو سے اُس کا ماحول معطر ہو گیا اور اُس کی برکتوں سے صرف اُسی شخص یا قوم نے فائدہ نہیں اُٹھایا ، بلکہ اُس کے گردوپیش کی دنیا بھی اُن سے مالامال ہوگئی۔ مگر کسی کلمہ خبیث نے جہاں جس انفرادی یا اجتماعی زندگی میں بھی جڑ پکڑی اُس کی سڑاند سے سارا ماحول متعفن ہو گیا۔ اور اُس کے کانٹوں کی چبھن سے نہ اس کا ماننے والا امن میں رہا ، نہ کوئی ایسا شخص جس کو اُس سے سابقہ پیش آیا ہو۔

اس سلسلہ میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں تمثیل کے پیرایہ میں اُسی مضمون کو سمجھایا گیا ہے جو آیت ۱۸ میں یوں بیان ہوا تھا کہ ”اپنے ربّ سے کفر کرنے والوں کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اُڑا دیا ہو“۔ اور یہی مضمون اِس سے پہلے سورۂ رعد آیت ۱۷ میں ایک دوسرے انداز سے سیلاب اور پگھلائی ہوئی دھاتوں کی تمثیل میں بیان ہوچکا ہے۔

39. یعنی دنیا میں اُن کو اِس کلمہ کی وجہ سے ایک پائدار نقطۂ نظر ، ایک مستحکم نظامِ فکر ، اور ایک جامع نظریہ ملتا ہے جو ہر عُقدے کو حل کر نے اور ہر گُتھی کو سلجھانے کے لیے شاہِ کلید کا حکم رکھتا ہے۔ سیرت کی مضبوطی اور اخلاق کی اُستواری نصیب ہوتی ہے جسے زمانہ کی گردشیں متزلزل نہیں کر سکتیں ۔ زندگی کے ایسے ٹھوس اصول ملتے ہیں جو ایک طرف اُن کے قلب کو سکون اور دماغ کو اطمینان بخشتے ہیں اور دوسری طرف انہیں سعی و عمل کی راہوں میں بھٹکنے ، ٹھوکریں کھانے، اور تلوُّن کا شکار ہونے سے بچاتے ہیں۔ پھر جب وہ موت کی سرحد پار کر کے عالم آخرت کے حدود میں قدم رکھتے ہیں تو وہاں کسی قسم کی حیرانی اور سراسیمگی و پریشانی اُن کو لاحق نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہاں سب کچھ ان کی توقعات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ وہ اُس عالم میں اِس طرح داخل ہوتے ہیں گویا اُس کی راہ و رسم سے پہلے ہی واقف تھے۔ وہاں کوئی مرحلہ ایسا پیش نہیں آتا جس کی اُنہیں پہلے خبر نہ دے دی گئی ہو اور جس کے لیے انہوں نے قبل از وقت تیار ی نہ کر رکھی ہو۔ اِ س لیے وہاں ہر منزل سے وہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ گزرتے ہیں۔ ان کا حال وہاں اُس کافر سے بالکل مختلف ہوتا ہے جسے مرتے ہی اپنی توقعات کے سراسر خلاف ایک دوسری ہی صورت حال سے اچانک سابقہ پیش آتا ہے۔

40. یعنی جو ظالم کلمۂ طیّبہ کو چھوڑ کر کسی کلمۂ خبیثہ کی پیروی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ذہن کو پراگندہ اور اُن کی مساعی کو پریشان کر دیتا ہے۔ وہ کسی پہلو سے بھی فکر و عمل کی صحیح راہ نہیں پاسکتے۔ ان کا کوئی تیر بھی نشانے پر نہیں بیٹھتا۔