Tafheem ul Quran

Surah 14 Ibrahim, Ayat 35-41

وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجۡنُبۡنِىۡ وَبَنِىَّ اَنۡ نَّـعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَؕ‏ ﴿14:35﴾ رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضۡلَلۡنَ كَثِيۡرًا مِّنَ النَّاسِ​ۚ فَمَنۡ تَبِعَنِىۡ فَاِنَّهٗ مِنِّىۡ​ۚ وَمَنۡ عَصَانِىۡ فَاِنَّكَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿14:36﴾ رَبَّنَاۤ اِنِّىۡۤ اَسۡكَنۡتُ مِنۡ ذُرِّيَّتِىۡ بِوَادٍ غَيۡرِ ذِىۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَيۡتِكَ الۡمُحَرَّمِۙ رَبَّنَا لِيُقِيۡمُوۡا الصَّلٰوةَ فَاجۡعَلۡ اَ فۡـئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهۡوِىۡۤ اِلَيۡهِمۡ وَارۡزُقۡهُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمۡ يَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿14:37﴾ رَبَّنَاۤ اِنَّكَ تَعۡلَمُ مَا نُخۡفِىۡ وَمَا نُعۡلِنُ​ ؕ وَمَا يَخۡفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍ فِى الۡاَرۡضِ وَلَا فِى السَّمَآءِ‏ ﴿14:38﴾ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ وَهَبَ لِىۡ عَلَى الۡـكِبَرِ اِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ​ؕ اِنَّ رَبِّىۡ لَسَمِيۡعُ الدُّعَآءِ‏ ﴿14:39﴾ رَبِّ اجۡعَلۡنِىۡ مُقِيۡمَ الصَّلٰوةِ وَمِنۡ ذُرِّيَّتِىۡ​​ ۖ  رَبَّنَا وَتَقَبَّلۡ دُعَآءِ‏ ﴿14:40﴾ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِىۡ وَلـِوَالِدَىَّ وَلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ يَوۡمَ يَقُوۡمُ الۡحِسَابُ‏  ﴿14:41﴾

35 - یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ؑ نے دُعا کی تھی 46کہ ”پروردگار، اِس شہر47 کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بُت پرستی سے بچا۔ 36 - پروردگار ، اِن بُتوں نے بہتوں کو گُمراہی میں ڈالا ہے48( ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گُمراہ کر دیں، لہٰذا اُن میں سے )جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تُو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔49 37 - پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار، یہ میں نے اِس لیے کیا ہے کہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تُو لوگوں کے دِلوں کو اِن کا مشتاق بنااور انہیں کھانے کو پھل دے 50، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔ 38 - پروردگار، تُو جانتا ہے جو کچھ ہم چھُپاتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں“51۔۔۔۔ اور52 واقعی اللہ سے کچھ بھی چھُپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمانوں میں ۔۔۔۔ 39 - ”شکر ہے اُس خدا کا جس نے مجھے اِس بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق جیسے بیٹے دیے، حقیقت یہ کہ میرا ربّ ضرور دُعا سُنتا ہے۔ 40 - اے میرے پروردگار، مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی (ایسے لوگ اُٹھا جو یہ کام کریں)۔ پروردگار، میری دُعا قبول کر۔ 41 - پروردگار ، مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اُس دن معاف کر دیجیو جب کہ حساب قائم ہوگا۔“53؏ ۶


Notes

46. عام احسانات کا ذکر نے کے بعد اب اُن خاص احسانات کاذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قریش پر کیے تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے باپ ابراہیمؑ نے یہاں لا کر کن تمناؤں کے ساتھ تمہیں بسایا تھا ، اُس کی دعاؤں کے جواب میں کیسے کیسے احسانات ہم نے تم پر کیے، اور اب تم اپنے باپ کی تمناؤں اور اپنے رب کے احسانات کا جواب کن گمراہیوں اور بداعمالیوں سے دے رہے ہو۔

47. یعنی مکہ۔

48. یعنی خدا سے پھیر کر اپنا گرویدہ کیا ہے ۔ یہ مجازی کلام ہے ۔ بت چونکہ بہتوں کی گمراہی کے سبب بنے ہیں اس لیے گمراہ کرنے کے فعل کو ان کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔

49. یہ حضرت ابراہیمؑ کی کمال درجہ نرم دلی اور نوع انسانی کے حال پر ان کی انتہائی شفقت ہے کہ وہ کسی حال میں بھی انسان کو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے نہیں دیکھ سکتے بلکہ آخر وقت تک عفو و درگزر کی التجا کرتے رہتے ہیں ۔ رزق کے معاملہ میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دینے میں دریغ نہ فرمایا کہ وَارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰ خِرِ (البقرہ ۔ آیت ۱۲۶)۔ لیکن جہاں آخرت کی پکڑ کا سوال آیا وہاں ان کی زبان سے یہ نہ نکلا کہ جو میرے طریقے کے خلاف چلے اُسے سزا دے ڈالیو، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ اُن کے معاملہ میں کیا عرض کروں ، تُو غفورٌرَّحِیْم ہے۔ اور یہ کچھ اپنی ہی اولاد کے ساتھ اس سراپا رحم و شفقت انسان کا مخصوص رویہ نہیں ہے بلکہ جب فرشتے قومِ لوط جیسی بدکار قوم کو تباہ کرنے جارہے تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ بڑی محبت کے انداز میں فرماتا ہے کہ ”ابراہیم ہم سے جھگڑنے لگا“(ہود، آیت ۷۴)۔ یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے رو در رو عیسائیوں کی گمراہی ثابت کر دیتا ہے تو وہ عرض کرتے ہیں کہ”اگر حضور ان کو سزا دیں تویہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ بالادست اور حکیم ہیں“(المائدہ ، آیت ۱۱۸)

50. یہ اُسی دُعا کی برکت ہے کہ پہلے سارا عرب مکّہ کی طرف حج اور عمرے کے لیے کھچ کر آتا تھا، اور اب دنیا بھر کے لوگ کھچ کھچ کروہاں جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی اُسی دعا کی برکت ہے کہ ہر زمانے میں ہر طرح کے پھل ،غلّے ، اور دوسرے سامانِ رزق وہاں پہنچتے رہتے ہیں، حالانکہ اس وادیِ غیر ذی زرع میں جانوروں کے لیے چارہ تک پیدا نہیں ہوتا۔

51. یعنی خدا یا جو کچھ میں زبان سے کہہ رہا ہوں وُہ بھی تُو سُن رہا ہے اور جو جذبات میرے دل میں چھُپے ہوئے ہیں اُن سے بھی تُو واقف ہے۔

52. یہ جملہ معتر ضہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے قول کی تصدیق میں فرمایا ہے۔

53. حضرت ابراہیمؑ نے اس دعائے مغفرت میں اپنے باپ کو اُس وعدے کی بنا پر شریک کر لیا تھا جو اُنہوں نے وطن سے نکلتے وقت کیا تھا کہ سَاَ اْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ، (مریم ۔ آیت ۴۷)۔ مگر بعد میں جب اُنہیں احساس ہوا کہ وہ تو اللہ کا دشمن تھا تو انہوں نے اُس سے صاف تبرّی فرما دی۔(التوبہ، آیت ۱۱۴)۔