46. عام احسانات کا ذکر نے کے بعد اب اُن خاص احسانات کاذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قریش پر کیے تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے باپ ابراہیمؑ نے یہاں لا کر کن تمناؤں کے ساتھ تمہیں بسایا تھا ، اُس کی دعاؤں کے جواب میں کیسے کیسے احسانات ہم نے تم پر کیے، اور اب تم اپنے باپ کی تمناؤں اور اپنے رب کے احسانات کا جواب کن گمراہیوں اور بداعمالیوں سے دے رہے ہو۔
47. یعنی مکہ۔
48. یعنی خدا سے پھیر کر اپنا گرویدہ کیا ہے ۔ یہ مجازی کلام ہے ۔ بت چونکہ بہتوں کی گمراہی کے سبب بنے ہیں اس لیے گمراہ کرنے کے فعل کو ان کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔
49. یہ حضرت ابراہیمؑ کی کمال درجہ نرم دلی اور نوع انسانی کے حال پر ان کی انتہائی شفقت ہے کہ وہ کسی حال میں بھی انسان کو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے نہیں دیکھ سکتے بلکہ آخر وقت تک عفو و درگزر کی التجا کرتے رہتے ہیں ۔ رزق کے معاملہ میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دینے میں دریغ نہ فرمایا کہ وَارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰ خِرِ (البقرہ ۔ آیت ۱۲۶)۔ لیکن جہاں آخرت کی پکڑ کا سوال آیا وہاں ان کی زبان سے یہ نہ نکلا کہ جو میرے طریقے کے خلاف چلے اُسے سزا دے ڈالیو، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ اُن کے معاملہ میں کیا عرض کروں ، تُو غفورٌرَّحِیْم ہے۔ اور یہ کچھ اپنی ہی اولاد کے ساتھ اس سراپا رحم و شفقت انسان کا مخصوص رویہ نہیں ہے بلکہ جب فرشتے قومِ لوط جیسی بدکار قوم کو تباہ کرنے جارہے تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ بڑی محبت کے انداز میں فرماتا ہے کہ ”ابراہیم ہم سے جھگڑنے لگا“(ہود، آیت ۷۴)۔ یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے رو در رو عیسائیوں کی گمراہی ثابت کر دیتا ہے تو وہ عرض کرتے ہیں کہ”اگر حضور ان کو سزا دیں تویہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ بالادست اور حکیم ہیں“(المائدہ ، آیت ۱۱۸)
50. یہ اُسی دُعا کی برکت ہے کہ پہلے سارا عرب مکّہ کی طرف حج اور عمرے کے لیے کھچ کر آتا تھا، اور اب دنیا بھر کے لوگ کھچ کھچ کروہاں جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی اُسی دعا کی برکت ہے کہ ہر زمانے میں ہر طرح کے پھل ،غلّے ، اور دوسرے سامانِ رزق وہاں پہنچتے رہتے ہیں، حالانکہ اس وادیِ غیر ذی زرع میں جانوروں کے لیے چارہ تک پیدا نہیں ہوتا۔
51. یعنی خدا یا جو کچھ میں زبان سے کہہ رہا ہوں وُہ بھی تُو سُن رہا ہے اور جو جذبات میرے دل میں چھُپے ہوئے ہیں اُن سے بھی تُو واقف ہے۔
52. یہ جملہ معتر ضہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے قول کی تصدیق میں فرمایا ہے۔
53. حضرت ابراہیمؑ نے اس دعائے مغفرت میں اپنے باپ کو اُس وعدے کی بنا پر شریک کر لیا تھا جو اُنہوں نے وطن سے نکلتے وقت کیا تھا کہ سَاَ اْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ، (مریم ۔ آیت ۴۷)۔ مگر بعد میں جب اُنہیں احساس ہوا کہ وہ تو اللہ کا دشمن تھا تو انہوں نے اُس سے صاف تبرّی فرما دی۔(التوبہ، آیت ۱۱۴)۔