54. یعنی قیامت کا جو ہولناک نظارہ اُن کے سامنے ہو گا اُس کو اِس طرح ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے ہوں گے گویا کہ ان کے دیدے پتھرا گئے ہیں، نہ پلک جھپکے گی، نہ نظر ہٹے گی۔
55. یعنی تم یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ تمہاری پیش رو قوموں نے قوانینِ الہٰی کی خلاف ورزی کے نتائج سے بچنے اور انبیاء کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کیسی کیسی زبردست چالیں چلیں، اور یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اللہ کی ایک ہی چال سے وہ کس طرح مات کھا گئے۔ مگر پھر بھی تم حق کے خلاف چالبازیاں کر نے سے باز نہ آئے اور یہی سمجھتے رہے کہ تمہاری چالیں ضرور کامیاب ہوں گی۔
56. اس جملے میں کلام کا رُخ بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے، مگر دراصل سنانا آپ کے مخالفین کو مقصود ہے۔ انہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ نے پہلے بھی اپنے رسولوں سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے کیے اور اُن کے مخالفیں کو نیچا دکھایا۔ اور اب جو وعدہ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کر رہا ہے اسے پورا کرے گا اور اُن لوگوں کو تہس نہس کر دے گا جو اُس کے مخالفت کر رہے ہیں۔
57. اس آیت سے اور قرآن کے دوسرے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں زمین و آسمان بالکل نیست و نابود نہیں ہو جائیں گے بلکہ صرف موجودہ نظامِ طبیعی کو درہم برہم کر ڈالا جائے گا۔ اُس کے بعد نفخِ صورِ اول اور نفخِ صور آخر کے درمیان ایک خاص مدت میں، جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، زمین اور آسمانوں کی موجودہ ہیئت بدل دی جائے گی اور ایک دوسرا نظامِ طبیعت ، دوسرے قوانینِ فطرت کے ساتھ بنا دیا جائے گا۔ وہی عالمِ آخرت ہو گا ۔ پھر نفخِ صور آخر کے ساتھ ہی تمام وہ انسان جو تخلیقِ آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہوئے تھے، از سرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے۔ اسی کا نام قرآن کی زبان میں حشر ہے جس کے لغوی معنی سمیٹنے اور اکٹھا کرنے کے ہیں۔ قرآن کے اشارات اور حدیث کے تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ حشر اسی زمین پر برپا ہو گا ، یہیں عدالت قائم ہو گی ، یہیں میزان لگائی جائے گی اور قضیہ ٔ زمین برسرِ زمین ہی چکایا جائے گا۔ نیز یہ بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ ہماری وہ دوسری زندگی جس میں یہ معاملات پیش آئیں گے محض روحانی نہیں ہو گی بلکہ ٹھیک اُسی طرح جسم و روح کے ساتھ ہم زندہ کیے جائیں گے جس طرح آج زندہ ہیں، اور ہر شخص ٹھیک اُسی شخصیت کےساتھ وہاں موجود ہو گا جسے لیے ہو ئے وہ دنیا سے رخصت ہو ا تھا۔
58. بعض مترجمین و مفسرین نے قَطِیران کے معنی گندھک اور بعض نے پگھلے ہوئے تانبے کے بیان کیے ہیں ، مگر درحقیقت عربی میں قَطِیران کا لفظ زِفت ، قِیر، رال، اور تارکو ل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔