Tafheem ul Quran

Surah 14 Ibrahim, Ayat 42-52

وَلَا تَحۡسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعۡمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ​ ؕ اِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمۡ لِيَوۡمٍ تَشۡخَصُ فِيۡهِ الۡاَبۡصَارُ ۙ‏ ﴿14:42﴾ مُهۡطِعِيۡنَ مُقۡنِعِىۡ رُءُوۡسِهِمۡ لَا يَرۡتَدُّ اِلَيۡهِمۡ طَرۡفُهُمۡ​ ۚ وَاَفۡـئِدَتُهُمۡ هَوَآءٌ ؕ‏ ﴿14:43﴾ وَاَنۡذِرِ النَّاسَ يَوۡمَ يَاۡتِيۡهِمُ الۡعَذَابُ فَيَـقُوۡلُ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا رَبَّنَاۤ اَخِّرۡنَاۤ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيۡبٍۙ نُّجِبۡ دَعۡوَتَكَ وَنَـتَّبِعِ الرُّسُلَ​ؕ اَوَلَمۡ تَكُوۡنُوۡۤااَقۡسَمۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ مَالَـكُمۡ مِّنۡ زَوَالٍۙ‏  ﴿14:44﴾ وَّسَكَنۡتُمۡ فِىۡ مَسٰكِنِ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ وَتَبَيَّنَ لَـكُمۡ كَيۡفَ فَعَلۡنَا بِهِمۡ وَضَرَبۡنَا لَـكُمُ الۡاَمۡثَالَ‏ ﴿14:45﴾ وَقَدۡ مَكَرُوۡا مَكۡرَهُمۡ وَعِنۡدَ اللّٰهِ مَكۡرُهُمۡؕ وَاِنۡ كَانَ مَكۡرُهُمۡ لِتَزُوۡلَ مِنۡهُ الۡجِبَالُ‏ ﴿14:46﴾ فَلَا تَحۡسَبَنَّ اللّٰهَ مُخۡلِفَ وَعۡدِهٖ رُسُلَهٗؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ ذُوۡ انْتِقَامٍؕ‏ ﴿14:47﴾ يَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَيۡرَ الۡاَرۡضِ وَالسَّمٰوٰتُ​ وَبَرَزُوۡا لِلّٰهِ الۡوَاحِدِ الۡقَهَّارِ‏ ﴿14:48﴾ وَتَرَى الۡمُجۡرِمِيۡنَ يَوۡمَـئِذٍ مُّقَرَّنِيۡنَ فِى الۡاَصۡفَادِ​ۚ‏ ﴿14:49﴾ سَرَابِيۡلُهُمۡ مِّنۡ قَطِرَانٍ وَّتَغۡشٰى وُجُوۡهَهُمُ النَّارُۙ‏ ﴿14:50﴾ لِيَجۡزِىَ اللّٰهُ كُلَّ نَفۡسٍ مَّا كَسَبَتۡ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيۡعُ الۡحِسَابِ‏  ﴿14:51﴾ هٰذَا بَلٰغٌ لِّـلنَّاسِ وَلِيُنۡذَرُوۡا بِهٖ وَلِيَـعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا هُوَ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ وَّلِيَذَّكَّرَ اُولُوا الۡا َلۡبَابِ‏ ﴿14:52﴾

42 - اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں ، اللہ کو تم اُس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں، 43 - سر اُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں54 اور دل اُڑے جاتے ہیں۔ 44 - اے محمد ؐ ، اُس دن سے تم انہیں ڈراوٴ جب کہ عذاب انہیں آلے گے۔ اُس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ ”اے ہمارے ربّ، ہمیں تھوڑی سے مہلت اَور دیدے، ہم تیری دعوت کو لبّیک کہیں گے اور رسُولوں کی پیروی کریں گے۔“ (مگر اُنہیں صاف جواب دے دیا جائے گا)کہ کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اِس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے؟ 45 - حالانکہ تم اُن قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنہوں نے اپنے اُوپر آپ ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے اُن سے کیا سلوک کیا اور اُن کی مثالیں دے دے کر ہم تمہیں سمجھا بھی چکے تھے۔ 46 - اُنہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ اُن کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں۔55 47 - پس اے نبی ؐ ، تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ کبھی اپنے رسُولوں سے کیے ہوئے وعدے کے خلاف کرے گا۔56 اللہ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے۔ 48 - ڈراوٴ انہیں اُس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے57 اور سب کے سب اللہ واحد قہّار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے۔ 49 - اُس روز تم مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں ہاتھ پاوٴں جکڑے ہوں گے 50 - تارکول58 کے لباس پہنے ہوئے ہوں گے اور آگ کے شعلے اُن کے چہروں پر چھائے جا رہے ہوں گے۔ 51 - یہ اِس لیے ہوگا کہ اللہ ہر متنفّس کو اُس کے کیے کا بدلہ دے گا۔ اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ 52 - یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے، اور یہ بھیجا گیا ہے اِس لیے کہ ان کو اس کے ذریعہ سے خبردار کیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں وہ ہوش میں آجائیں۔ ؏ ۷


Notes

54. یعنی قیامت کا جو ہولناک نظارہ اُن کے سامنے ہو گا اُس کو اِس طرح ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے ہوں گے گویا کہ ان کے دیدے پتھرا گئے ہیں، نہ پلک جھپکے گی، نہ نظر ہٹے گی۔

55. یعنی تم یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ تمہاری پیش رو قوموں نے قوانینِ الہٰی کی خلاف ورزی کے نتائج سے بچنے اور انبیاء کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کیسی کیسی زبردست چالیں چلیں، اور یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اللہ کی ایک ہی چال سے وہ کس طرح مات کھا گئے۔ مگر پھر بھی تم حق کے خلاف چالبازیاں کر نے سے باز نہ آئے اور یہی سمجھتے رہے کہ تمہاری چالیں ضرور کامیاب ہوں گی۔

56. اس جملے میں کلام کا رُخ بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے، مگر دراصل سنانا آپ کے مخالفین کو مقصود ہے۔ انہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ نے پہلے بھی اپنے رسولوں سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے کیے اور اُن کے مخالفیں کو نیچا دکھایا۔ اور اب جو وعدہ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کر رہا ہے اسے پورا کرے گا اور اُن لوگوں کو تہس نہس کر دے گا جو اُس کے مخالفت کر رہے ہیں۔

57. اس آیت سے اور قرآن کے دوسرے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں زمین و آسمان بالکل نیست و نابود نہیں ہو جائیں گے بلکہ صرف موجودہ نظامِ طبیعی کو درہم برہم کر ڈالا جائے گا۔ اُس کے بعد نفخِ صورِ اول اور نفخِ صور آخر کے درمیان ایک خاص مدت میں، جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، زمین اور آسمانوں کی موجودہ ہیئت بدل دی جائے گی اور ایک دوسرا نظامِ طبیعت ، دوسرے قوانینِ فطرت کے ساتھ بنا دیا جائے گا۔ وہی عالمِ آخرت ہو گا ۔ پھر نفخِ صور آخر کے ساتھ ہی تمام وہ انسان جو تخلیقِ آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہوئے تھے، از سرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے۔ اسی کا نام قرآن کی زبان میں حشر ہے جس کے لغوی معنی سمیٹنے اور اکٹھا کرنے کے ہیں۔ قرآن کے اشارات اور حدیث کے تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ حشر اسی زمین پر برپا ہو گا ، یہیں عدالت قائم ہو گی ، یہیں میزان لگائی جائے گی اور قضیہ ٔ زمین برسرِ زمین ہی چکایا جائے گا۔ نیز یہ بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ ہماری وہ دوسری زندگی جس میں یہ معاملات پیش آئیں گے محض روحانی نہیں ہو گی بلکہ ٹھیک اُسی طرح جسم و روح کے ساتھ ہم زندہ کیے جائیں گے جس طرح آج زندہ ہیں، اور ہر شخص ٹھیک اُسی شخصیت کےساتھ وہاں موجود ہو گا جسے لیے ہو ئے وہ دنیا سے رخصت ہو ا تھا۔

58. بعض مترجمین و مفسرین نے قَطِیران کے معنی گندھک اور بعض نے پگھلے ہوئے تانبے کے بیان کیے ہیں ، مگر درحقیقت عربی میں قَطِیران کا لفظ زِفت ، قِیر، رال، اور تارکو ل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔