Tafheem ul Quran

Surah 14 Ibrahim, Ayat 7-12

وَاِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّكُمۡ لَـئِنۡ شَكَرۡتُمۡ لَاَزِيۡدَنَّـكُمۡ​ وَلَـئِنۡ كَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِىۡ لَشَدِيۡدٌ‏ ﴿14:7﴾ وَقَالَ مُوۡسٰٓى اِنۡ تَكۡفُرُوۡۤا اَنۡـتُمۡ وَمَنۡ فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَـغَنِىٌّ حَمِيۡدٌ‏ ﴿14:8﴾ اَلَمۡ يَاۡتِكُمۡ نَبَـؤُا الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوۡدَ​  ۛؕ وَالَّذِيۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ ​ۛؕ لَا يَعۡلَمُهُمۡ اِلَّا اللّٰهُ​ؕ جَآءَتۡهُمۡ رُسُلُهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ فَرَدُّوۡۤا اَيۡدِيَهُمۡ فِىۡۤ اَفۡوَاهِهِمۡ وَقَالُوۡۤا اِنَّا كَفَرۡنَا بِمَاۤ اُرۡسِلۡـتُمۡ بِهٖ وَاِنَّا لَفِىۡ شَكٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَـنَاۤ اِلَيۡهِ مُرِيۡبٍ‏ ﴿14:9﴾ قَالَتۡ رُسُلُهُمۡ اَفِى اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ يَدۡعُوۡكُمۡ لِيَـغۡفِرَ لَـكُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِكُمۡ وَيُؤَخِّرَكُمۡ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى​ؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَاؕ تُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا كَانَ يَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿14:10﴾ قَالَتۡ لَهُمۡ رُسُلُهُمۡ اِنۡ نَّحۡنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ يَمُنُّ عَلٰى مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ​ؕ وَمَا كَانَ لَنَاۤ اَنۡ نَّاۡتِيَكُمۡ بِسُلۡطٰنٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰهِ​ؕ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ‏  ﴿14:11﴾ وَمَا لَـنَاۤ اَلَّا نَـتَوَكَّلَ عَلَى اللّٰهِ وَقَدۡ هَدٰٮنَا سُبُلَنَا​ؕ وَلَـنَصۡبِرَنَّ عَلٰى مَاۤ اٰذَيۡتُمُوۡنَا​ؕ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُتَوَكِّلُوۡنَ‏  ﴿14:12﴾

7 - اور یاد رکھو، تمہارے ربّ نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے 11تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کُفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔“12 8 - اور موسیٰؑ ”اگر تم کُفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہو جائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔“13 9 - کیا تمہیں14 اُن قوموں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں؟ قومِ نوح ؑ ، عاد، ثمود اور ان کے بعد آنے والی بہت سی قومیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے؟ اُن کے رسول جب اُن کے پاس صاف صاف باتیں اور کھُلی کھُلی نشانیاں لیے ہوئے آئے تو انہوں نے اپنے منہ میں ہاتھ دبا لیے15 اور کہا کہ ”جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اُس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اُس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔“16 10 - اُن کے رسوُلوں نے کہا ”کیا خُدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟17 وہ تمہیں بُلا رہا ہے تاکہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدُتِ مقرر تک مہلت دے۔ “18 انہوں نے جواب دیا ”تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں۔19 تم ہمیں اُن ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ اچھا تو لاوٴ کوئی صریح سَنَد۔“20 11 - ان کے رسولوں نے ان سے کہا”واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔21 اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی سَنَد لا دیں۔ سَنَد تو اللہ ہی کے اِذن سے آسکتی ہے اور اللہ ہی پر اہلِ ایمان کو بھروسہ کرنا چاہیے۔ 12 - اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اُس نے ہماری رہنمائی کی ہے؟ جو اذیّتیں تم لوگو ہمیں دے رہے ہو اُن پر ہم صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کا بھروسہ اللہ ہی پر ہونا چاہیے۔“ ؏ ۲


Notes

11. یعنی اگر ہماری نعمتوں کا حق پہچان کر ان کاصحیح استعمال کرو گے، اور ہمارے احکام کے مقابلہ میں سر کشی و استکبار نہ برتو گے ، اور ہمارا احسان مان کر ہمارے مطیع فرمان بنے رہو گے۔

12. اس مضمون کی تقریر بائیبل کی کتابِ اِستثناء میں بڑی شر ح وبسط کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ اس تقریر میں حضرت موسیٰؑ اپنی وفات سے چند روز پہلے بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے سارے اہم واقعات یاد دلاتے ہیں۔ پھر توراۃ کے اُن تمام احکام کو دُہراتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو بھیجے تھے ۔ پھر ایک طویل خطبہ دیتے ہیں جس میں بتاتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے رب کی فرمانبرداری کی تو کیسےکیسے انعامات سے نوازے جائیں گے اور اگر نافرمانی کی روش اختیار کی تو اس کی کیسی سخت سزا دی جائے گی۔ یہ خطبہ کتاب استثناء کے ابواب نمبر ۴ – ۶ – ۸ – ۱۰ – ۱۱ اور ۲۸ تا ۳۰ میں پھیلا ہوا ہے اور اس کے بعض بعض مقامات کمال درجہ موثر و عبرت انگیز ہیں۔ مثا ل کے طور پر اُس کے چند فقرے ہم یہاں نقل کرتے ہیں جن سے پورے خطبے کا اندازہ ہو سکتا ہے:

”سُن اے اسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا کے ساتھ محبت رکھ۔ اور یہ باتیں جن کا حکم آج میں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش ہیں۔ اور تُو اِن کی اپنی اولاد کے ذہن نشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے ان کا ذکر کرنا“۔ ( باب ۶ ۔ آیات ۴ – ۷)

”پس اے اسرائیل! خداوند تیرا خدا تجھ سے اس کے سو ا کیا چاہتا ہے کہ تُو خداوند اپنے خدا کا خوف مانے اور اس کی سب راہوں پر چلے اور اُس سے محبت رکھے اور اپنے سارے دل اور ساری جان سے خداوند اپنے خداکی بندگی کرے اور خداوند کے جو احکام اور آئین میں تجھ کو آج بتاتا ہوں اُن پر عمل کرے تاکہ تیری خیر ہو۔ دیکھ آسمان اور زمین اور جو کچھ زمین میں ہے یہ سب خداوند تیرے خدا ہی کا ہے“۔ (باب ۱۰ ۔ آیات ۱۲ – ۱۴)۔

”اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات کو جان فشانی سے مان کر اس کے اِن سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھے دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا دنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا۔ اور اگر تُو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہو ں گی اور تجھ کو ملیں گی۔ شہر میں بھی تو مبارک ہو گا اور کھیت میں مبارک ۔۔۔۔۔۔ خداوند تیرے دشمنوں کو جو تجھ پر حملہ کریں تیرے روبرو شکست دلائے گا۔۔۔۔۔۔ خداوند تیرے انبار خانوں میں او ر سب کاموں میں جن میں تُو ہاتھ ڈالے برکت کا حکم دے گا۔۔۔۔۔۔ تجھ کو اپنی پاک قوم بنا کر رکھے گا ور دنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تُو خدا وند کے نام سے کہلاتا ہے تجھ سے ڈر جائیں گی۔ تو بہت سی قوموں کو قرض دے گا پر خود قرض نہیں لے گا اور خداوند تجھ کو دُم نہیں بلکہ سَر ٹھیرائے گا اور تو پشت نہیں بلکہ سرفراز ہی رہے گا“۔ (باب ۲۸ ۔ آیات ۱ – ۱۳)۔

”لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خداوند اپنے خدا کی بات سن کر اس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہےہوں احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر ہوں گی اور تجھ کولگیں گی۔ شہر میں بھی لعنتی ہوگا اور کھیت میں بھی لعنتی۔۔۔۔۔۔ خداوند اُن سب کاموں میں جن کو تو ہاتھ لگائے لعنت اور پھِٹکار اور اضطراب کو تجھ پر نازل کرے گا۔۔۔۔۔ ۔ وبا تجھ سے لپٹی رہے گی۔۔۔۔۔۔ آسمان جو تیرے سر پر ہے پیتل کا اور زمین جو تیرے نیچے ہے لوہے کی ہو جائے گی ۔۔۔۔۔۔ خداوند تجھ کو تیرے دشمنوں کے آگے شکست دلائے گا۔ تو ان کے مقابلہ کے لیے تو ایک ہی راستہ سے جائے گا مگر ان کے سامنے سات سات راستوں سے بھاگے گا ۔۔۔۔۔۔ عورت سے منگنی تو تُو کرے گا لیکن دوسرا اس سے مباشرت کرے گا۔ تُو گھر بنائے گا لیکن اس میں بسنے نہ پائے گا۔ تُو تاکستان لگائے گا پر اس کا پھل نہ کھا سکے گا۔ تیرا بیل تیری آنکھوں کے سامنے ذبح کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔ بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور سب چیزوں کا محتاج ہو کر تو اپنے اُن دشمنوں کی خدمت کرے گا جن کو خداوند تیرے برخلاف بھیجے گا اور غنیم تیری گردن پر لوہے کا جوا رکھے گا جب تک وہ تیرا ناس نہ کر دے۔۔۔۔۔۔ خدا وند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں پراگندہ کر دے گا“۔(باب ۲۸ ۔ آیات ۱۵ – ۶۴)

13. اس جگہ حضرت موسیٰ اور اُن کی قوم کے معاملہ کی طرف یہ مختصر اشارہ کرنے سے مقصود اہلِ مکہ کو یہ بتانا ہے کہ اللہ جب کسی قوم پراحسان کرتا ہے اور جواب میں وہ قوم نمک حرامی اور سرکشی دکھاتی ہے تو پھر ایسی قوم کو وہ عبرتناک انجام دیکھنا پڑتا ہے جو تمہاری آنکھوں کے سامنے بنی اسرائیل دیکھ رہے ہیں ۔ا ب کیا تم بھی خدا کی نعمت اور اس کے احسان کا جواب کفر انِ نعمت سے دے کر یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو؟

یہاں یہ بات واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جس نعمت کی قدر کر نے کا یہاں قریش سے مطالبہ فرما رہا ہے وہ خصُوصیت کے ساتھ اُس کی یہ نعمت ہے کہ اُس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے درمیان پیدا کیا اور آپ کے ذریعہ سے اُن کے پاس وہ عظیم الشان تعلیم بھیجی جس کے متعلق حضور ؐ بار بار قریش سے فرمایا کرتے تھے کہ کلمۃ واحدۃ تعطو نیھا تملکون بھا العرب و تدین لکم بھا العجم“۔ میر ی ایک بات مان لو، عرب اور عجم سب تمہارے تابع ہوجائیں گے“۔

14. حضرت موسیٰ کی تقریر اوپر ختم ہوگئی۔ اب براہِ راست کفارِ مکہ سے خطاب شرو ع ہوتا ہے۔

15. ان الفاظ کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بہت کچھ اختلاف پیش آیا ہے اور مختلف لوگوں نے مختلف معنی بیان کیے ہیں۔ ہمارے نزدیک اِن کا قریب ترین مفہوم وہ ہے جسے ادا کرنے کے لیے ہم اردو میں کہتے ہیں کانو ں پر ہاتھ رکھے، یا دانتوں میں انگلی دبائی۔ اس لیے کہ بعد کا فقرہ صاف طور پر انکار اور اچنبھے ، دونوں مضامین پر مشتمل ہے اور کچھ اس میں غصے کا انداز بھی ہے۔

16. ”یعنی ایسا شک جس کی وجہ سے اطمینان رخصت ہو گیا ہے۔ یہ دعوتِ حق کا خاصہ ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو اس کی وجہ سے ایک کھلبلی ضرور مچ جاتی ہے اور انکار و مخالفت کر نے والے بھی اطمینان کے ساتھ نہ اس کا انکار کر سکتے ہیں نہ اُس کی مخالفت ۔ وہ چاہے کتنی ہی شدت کے ساتھ اُسے رد کریں اور کتنا ہی زور اُس کی مخالفت میں لگائیں ، دعوت کی سچائی ، اس کی معقول دلیلیں ، اُس کی کھری کھری اور بے لاگ باتیں ، اُس کی دل موہ لینے والی زبان ، اس کے داعی کی بے داغ سیرت، اُس پر ایمان لانے والوں کی زندگیوں کا صریح انقلاب ، اور اپنے صدقِ مقال کے عین مطابق اُن کے پاکیزہ اعمال، یہ ساری چیزیں مِل جُل کر کٹَّے سے کٹّے مخالف کے دل میں بھی ایک اضطراب پیدا کر دیتی ہیں۔ داعیانِ حق کو بے چین کرنے والا خود بھی چین سے محروم ہو جاتا ہے۔

17. رسولوں نے یہ بات اس لیے کہی کہ ہر زمانے کے مشرکین خدا کی ہستی کو مانتے تھے اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق وہی ہے ۔ اسی بنیاد پر رسولوں نے فرمایا کہ آخر تمہیں شک کس چیز پر ہے ؟ ہم جس چیز کی طرف تمہیں دعوت دیتے ہیں وہ اِس کے سوا اور کیا ہے کہ اللہ فاطر السمٰوات والارض تمہاری بندگی کا حقیقی مستحق ہے۔ پھر کیا اللہ کے بارے میں تم کو شک ہے؟

18. مدّتِ مقرر سے مراد افراد کی موت کا وقت بھی ہو سکتا ہے اور قیامت بھی۔ جہاں تک قوموں کا تعلق ہے ان کے اُٹھنے اور گرنے کے لیے اللہ کے ہاں مدت کا تعیّن اُن کے اوصاف کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ ایک اچھی قوم اگر اپنے اندر بگاڑ پیدا کرلے تو اس کی مہلتِ عمل گھٹا دی جاتی ہے اور اسے تباہ کر دیا جاتا ہے۔ اور ایک بگڑی ہوئی قوم اگر اپنے بُرے اوصاف کو اچھے اوصاف سے بدل لے تو اس کی مہلت عمل بڑھا دی جاتی ہے ، حتیٰ کہ وہ قیامت تک بھی دراز ہو سکتی ہے۔ اسی مضمون کی طرف سورۂ رعد کی آیت نمبر ۱۱ اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف کو نہ بدل دے۔

19. اُن کا مطلب یہ تھا کہ تم ہر حیثیت سے بالکل ہم جیسے انسان ہی نظر آتے ہو۔ کھاتے ہو، پیتے ہو، سوتے ہو، بیوی بچے رکھتے ہو، بھوک ، پیاس ، بیماری، دُکھ، سردی، گرمی، ہر چیز کے احساس میں اور ہر بشری کمزوری میں ہمارے مشابہ ہو۔ تمہارے اندر کوئی غیر معمولی پن ہمیں نظر نہیں آتا جس کی بنا پر ہم یہ مان لیں کہ تم کوئی پہنچے ہوئے لوگ ہو اور خدا تم سے ہم کلام ہوتا ہے اور فرشتے تمہارے پاس آتے ہیں۔

20. یعنی کوئی ایسی سند جسے ہم آنکھوں سے دیکھیں اور ہاتھوں سے چھوئیں اور جس سے ہم کو یقین آجائے کہ واقعی خدا نے تم کو بھیجا ہے اور یہ پیغام جو تم لائے ہو خدا ہی کا پیغام ہے۔

21. یعنی بلا شبہ ہم ہیں تو انسان ہی مگر اللہ نے تمہارے درمیان ہم کو ہی علمِ حق اور بصیرت ِ کاملہ عطا کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس میں ہمارے بس کی کوئی بات نہیں۔ یہ تو اللہ کے اختیارات کا معاملہ ہے ۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو جو کچھ چاہے دے۔ ہم نہ یہ کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس آیا ہے وہ تمہارے پاس بھجوادیں اور نہ یہی کر سکتے ہیں کہ جو حقیقتیں ہم پر منکشف ہوئی ہیں اُن سے آنکھیں بند کر لیں۔