Tafheem ul Quran

Surah 15 Al-Hijr, Ayat 1-15

الۤرٰ تِلۡكَ اٰيٰتُ الۡـكِتٰبِ وَقُرۡاٰنٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿15:1﴾ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَوۡ كَانُوۡا مُسۡلِمِيۡنَ‏ ﴿15:2﴾ ذَرۡهُمۡ يَاۡكُلُوۡا وَيَتَمَتَّعُوۡا وَيُلۡهِهِمُ الۡاَمَلُ​ فَسَوۡفَ يَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿15:3﴾ وَمَاۤ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَرۡيَةٍ اِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَّعۡلُوۡمٌ‏ ﴿15:4﴾ مَا تَسۡبِقُ مِنۡ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَمَا يَسۡتَاْخِرُوۡنَ‏ ﴿15:5﴾ وَ قَالُوۡا يٰۤاَيُّهَا الَّذِىۡ نُزِّلَ عَلَيۡهِ الذِّكۡرُ اِنَّكَ لَمَجۡنُوۡنٌؕ‏  ﴿15:6﴾ لَوۡ مَا تَاۡتِيۡنَا بِالۡمَلٰۤـئِكَةِ اِنۡ كُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِيۡنَ‏ ﴿15:7﴾ مَا نُنَزِّلُ الۡمَلٰۤـئِكَةَ اِلَّا بِالۡحَـقِّ وَمَا كَانُوۡۤا اِذًا مُّنۡظَرِيۡنَ‏  ﴿15:8﴾ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ‏ ﴿15:9﴾ وَلَـقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ فِىۡ شِيَعِ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿15:10﴾ وَمَا يَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏  ﴿15:11﴾ كَذٰلِكَ نَسۡلُكُهٗ فِىۡ قُلُوۡبِ الۡمُجۡرِمِيۡنَۙ‏ ﴿15:12﴾ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِهٖ​ۚ وَقَدۡ خَلَتۡ سُنَّةُ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿15:13﴾ وَلَوۡ فَتَحۡنَا عَلَيۡهِمۡ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوۡا فِيۡهِ يَعۡرُجُوۡنَۙ‏  ﴿15:14﴾ لَـقَالُوۡۤا اِنَّمَا سُكِّرَتۡ اَبۡصَارُنَا بَلۡ نَحۡنُ قَوۡمٌ مَّسۡحُوۡرُوۡنَ‏  ﴿15:15﴾

1 - ا۔ل۔ر، یہ آیات ہیں کتابِ الہٰی اور قرآن ِ مبین کی۔1
2 - بعید نہیں کہ ایک وقت وہ آجائے جب وہی لوگ جنہوں نے آج (دعوتِ اسلام کو قبول کر نے سے )انکار کر دیا ہے، پچھتا پچھتا کر کہیں گے کہ کاش ہم نے سرِ تسلیم خم کر دیا ہوتا۔ 3 - چھوڑو انہیں ۔ کھائیں پئیں، مزے کریں، اور بھلاوے میں ڈالے رکھے اِن کو جھوٹی اُمید ۔ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔ 4 - ہم نے اِس سے پہلے جس بستی کو بھی ہلاک کیا ہے اس کے لیے ایک خاص مہلتِ عمل لکھی جا چکی تھی۔2 5 - کوئی قوم نہ اپنے وقتِ مقرر سے پہلے ہلاک ہو سکتی ہے ، نہ اُس کے بعد چھوٹ سکتی ہے۔ 6 - یہ لوگ کہتے ہیں ”اَے وہ شخص جس پر ذکر3 نازل ہوا ہے،4 تُو یقیناً دیوانہ ہے۔ 7 - اگر تُو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو لے کیوں نہیں آتا۔“ 8 - ہم فرشتوں کو یوں نہیں اُتار دیا کرتے۔ وہ جب اُترتے ہیں تو حق کے ساتھ اُترتے ہیں اور پھر لوگوں کو مہلت نہیں دی جاتی۔5 9 - رہا یہ ذکر ، تو اِس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اِس کے نگہبان ہیں۔6 10 - اے محمدؐ، ہم تم سے پہلے بہت سی گُزری ہوئی قوموں میں رسُول بھیج چکے ہیں۔ 11 - کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کے پاس کوئی رسُول آیا ہو اور انہوں نے اُس کا مذاق نہ اُڑایا ہو۔ 12 - مجرمین کے دلوں میں تو ہم اِس ذکر کو اِسی طرح (سلاخ کے مانند)گزارتے ہیں۔ 13 - وہ اس پر ایمان نہیں لایا کرتے۔ 7قدیم سے اس قماش کے لوگوں کا یہی طریقہ چلا آرہا ہے۔ 14 - اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیتے اور وہ دن دہاڑے اس میں چڑھنے بھی لگتے 15 - تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے، بلکہ ہم پر جادُو کر دیا گیا ہے۔ ؏ ۱


Notes

1. یہ اس سورے کی مختصر تعارفی تمہید ہے جس کے بعد فورًا ہی اصل موضوع پر خطبہ شروع ہو جاتا ہے۔

قرآن کے لیے ”مبین“ کا لفظ صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات اُس قرآن کی ہیں جو اپنا مُدّعا صاف صاف ظاہر کرتا ہے۔

2. ”مطلب یہ ہے کہ کفر کرتے ہی فورًا تو ہم نے کبھی کسی قوم کو بھی نہیں پکڑ لیا ہے، پھر یہ نادان لوگ کیوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ نبی کے ساتھ تکذیب و استہزاء کی جو روش اِنہوں نے اختیار کر رکھی ہے اُس پر چونکہ ابھی تک اِنہیں سزا نہیں دی گئی، ا س لیے یہ نبی سرے سے نبی ہی نہیں ہے۔ ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ ہم ہر قوم کے لیے پہلے سے طے کر لیتے ہیں کہ اس کو سننے، سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے اِتنی مہلت دی جائے گی، اور اِس حد تک اُس کی شرارتوں اور خباثتوں کے با وجود پورے تحمّل کے ساتھ اسے اپنی من مانی کر نے کا موقع دیا جاتا رہے گا۔ یہ مہلت جب تک باقی رہتی ہے۔ اور ہماری مقرر کی ہوئی حد جس وقت تک آنہیں جاتی ، ہم ڈھیل دیتے رہتے ہیں۔ (مہلت عمل کی تشریح کےلیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم حاشیہ نمبر ۱۸)

3. ”ذکر“ کا لفظ قرآن میں اصطلاحًا کلامِ الہٰی کے لیے استعمال ہوا ہے جو سراسر نصیحت بن کے آتا ہے۔ پہلے جتنی کتابیں انبیاء پر نازل ہوئی تھیں وہ سب بھی”ذکر“ تھیں اور یہ قرآن بھی ”ذکر“ ہے۔ذکر کے اصل معنی ہیں”یاد دلانا“ ”ہوشیار کرنا“ اور ”نصیحت کرنا“۔

4. یہ فقرہ وہ لوگ طنز کے طور پر کہتے تھے۔ اُن کو تو یہ تسلیم ہی نہیں تھا کہ یہ ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ نہ اِسے تسلیم کر لینے کے بعد وہ آپ کو دیوانہ کہہ سکتے تھے۔ دراصل اُن کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ” اے وہ شخص جس کا دعویٰ یہ ہےکہ مجھ پر یہ ذکر نازل ہوا ہے“۔ یہ اُسی طرح کی بات ہے جیسی فرعون نے حضرت موسیٰ کی دعوت سننے کے بعد اپنے درباریوں سے کہی تھی کہ اِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ، ” یہ پیغمبر صاحب جو تم لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں ، ان کا دماغ درست نہیں ہے“۔

5. ”یعنی فرشتے محض تماشا دکھا نے کے لیے نہیں اتارے جاتے کہ جب کسی قوم نے کہا بلاؤ فرشتوں کو اور وہ فورًا حاضر ہوئے۔ نہ فرشتے اِس غرض کے لیے کبھی بھیجے جاتے ہیں کہ وہ آکر لوگوں کے سامنے حقیقت کو بے نقاب کر یں اور پردۂ غیب کو چاک کر کے وہ سب کچھ دکھا دیں جس پر ایمان لانے کی دعوت انبیاء علیہم السلام نے دی ہے۔ فرشتوں کو بھیجنے کا وقت تو وہ آخر ی وقت ہوتا ہے جب کسی قوم کا فیصلہ چکا دینے کا ارادہ کر لیا جاتا ہے ۔ اُس وقت بس فیصلہ چکایا جاتا ہے ، یہ نہیں کہا جاتا کہ اب ایمان لاؤ تو چھوڑے دیتے ہیں۔ ایمان لانے کی جتنی مہلت بھی ہے اسی وقت تک ہے جب تک کہ حقیقت بے نقاب نہیں ہو جاتی۔ اُس کے بے نقاب ہو جانے کے بعد ایمان لانے کا کیا سوال۔

”حق کے ساتھ اُترتے ہیں“ کا مطلب ”حق لے کر اُترنا“ ہے۔ یعنی وہ اس لیے آتے ہیں کہ باطل کو مٹا کر حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں ۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ لے کر آتے ہیں اور اسے نافذ کر کے چھوڑتے ہیں۔

6. یعنی یہ ”ذکر“ جس کے لانے والے کو تم مجنون کہہ رہے ہو، یہ ہمارا نازل کیا ہوا ہے، اس نے خود نہیں گھڑا ہے۔ ا س لیے یہ گالی اس کو نہیں ہمیں دی گئی ہے۔ اور یہ خیال تم اپنے دل سے نکال دو کہ تم اِس ”ذکر“ کا کچھ بگاڑ سکو گے۔ یہ براہِ راست ہماری حفاظت میں ہے ۔ نہ تمہارے مٹائے مٹ سکے گا ، نہ تمہارے دبائے دب سکے گا، نہ تمہارے طعنوں اور اعتراضوں سے اس کی قدر گھٹ سکے گی، نہ تمہارے روکے اس کی دعوت رُک سکے گی، نہ اس میں تحریف اور ردو بدل کرنے کا کبھی کسی کو موقع مل سکے گا۔

7. عام طور پر مترجمین و مفسرین نے نَسْلُکُہ کی ضمیر استہزاء کی طرف اور لَا یُوْمِنُوْنَ بِہٖ کی ضمیر ذکر کی طرف پھیری ہے، اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ”ہم اسی طرح اس استہزاء کو مجرمین کے دلوں میں داخل کرتے ہیں اور وہ اس ذکر پر ایمان نہیں لاتے“۔ اگرچہ نحوی قاعدے کے لحاظ سے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ، لیکن ہمارے نزدیک نحو کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح یہ ہے کہ دونوں ضمیریں ذکر کی طرف پھیری جائیں۔

سلک کے معنی عربی زبان میں کسی چیز کو دوسری چیز میں چلانے ، گزارنے اور پرونے کے ہیں، جیسے تاگے کو سوئی کے ناکے میں گزارنا۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کے اندر تو یہ ذکر قلب کی ٹھنڈک اور روح کی غذا بن کر اترتا ہے، مگر مجرموں کے دلوں میں یہ شتابہ بن کر لگتا ہے اور اُس کے اندر اِسے سن کر ایسی آگ بھڑک اُٹھتی ہے گویا کہ ایک گرم سلاخ تھی جو سینے کے پا ر ہو گئی۔