Tafheem ul Quran

Surah 15 Al-Hijr, Ayat 16-25

وَلَـقَدۡ جَعَلۡنَا فِى السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّزَيَّـنّٰهَا لِلنّٰظِرِيۡنَۙ‏  ﴿15:16﴾ وَحَفِظۡنٰهَا مِنۡ كُلِّ شَيۡطٰنٍ رَّجِيۡمٍۙ‏ ﴿15:17﴾ اِلَّا مَنِ اسۡتَرَقَ السَّمۡعَ فَاَ تۡبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿15:18﴾ وَالۡاَرۡضَ مَدَدۡنٰهَا وَاَلۡقَيۡنَا فِيۡهَا رَوَاسِىَ وَاَنۡۢبَتۡنَا فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ شَىۡءٍ مَّوۡزُوۡنٍ‏ ﴿15:19﴾ وَجَعَلۡنَا لَـكُمۡ فِيۡهَا مَعَايِشَ وَمَنۡ لَّسۡتُمۡ لَهٗ بِرٰزِقِيۡنَ‏  ﴿15:20﴾ وَاِنۡ مِّنۡ شَىۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآئِنُهٗ وَمَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ‏ ﴿15:21﴾ ​وَاَرۡسَلۡنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسۡقَيۡنٰكُمُوۡهُ​ۚ وَمَاۤ اَنۡتُمۡ لَهٗ بِخٰزِنِيۡنَ‏ ﴿15:22﴾ وَ اِنَّا لَـنَحۡنُ نُحۡىٖ وَنُمِيۡتُ وَنَحۡنُ الۡوٰرِثُوۡنَ‏ ﴿15:23﴾ وَلَـقَدۡ عَلِمۡنَا الۡمُسۡتَقۡدِمِيۡنَ مِنۡكُمۡ وَلَـقَدۡ عَلِمۡنَا الۡمُسۡتَـاْخِرِيۡنَ‏  ﴿15:24﴾ وَاِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحۡشُرُهُمۡ​ؕ اِنَّهٗ حَكِيۡمٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿15:25﴾

16 - یہ ہماری کارفرمائی ہے کہ آسمان میں ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے8، اُن کو دیکھنے والوں کے لیے مزیَّن کیا،9 17 - اور ہر شیطانِ مردُود سے اُن کو محفوظ کر دیا۔10 18 - کوئی شیطان اِن میں راہ نہیں پا سکتا، اِلّا یہ کہ کچھ سُن گُن لے لے۔11 اور جب وہ سُن گُن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلہ روشن اُس کا پیچھا کرتا ہے12 19 - ۔ہم نے زمین کو پھیلایا، اُس میں پہاڑ جمائے، اُس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تُلی مقدار کے ساتھ اُگائی،13 20 - اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کیے، تمہارے لیے بھی اور اُن بہت سی مخلوقات کے لیے بھی جب کے رازق تم نہیں ہو۔ 21 - کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں۔ 14 22 - بار آور ہواوٴں کو ہم ہی بھیجتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں، اور اُس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں۔ اِس دولت کے خزانہ دار تم نہیں ہو۔ 23 - زندگی اور موت ہم دیتے ہیں، اور ہم ہی سب کے وارث ہونے والے ہیں۔15 24 - پہلے جو لوگ تم میں سے ہو گزرے ہیں اُن کو بھی ہم نے دیکھ رکھا ہے، اور بعد کے آنے والے بھی ہماری نگاہ میں ہیں۔ 25 - یقیناً تمہارا ان سب کو اکٹھا کرے گا، وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی۔16 ؏ ۲


Notes

8. بُرج عربی زبان میں قلعے، قصر اور مستحکم عمارت کو کہتے ہیں۔ قدیم علم ہیئت میں ”برج“ کا لفظ اصطلاحًا اُن بارہ منزلوں کے لیے استعمال ہوتا تھا جن پر سورج کے مدار کو تقسیم کیا گیا تھا۔ اِس وجہ سے بعض مفسرین نے یہ سمجھا کہ قرآن کا اشارہ انہی بروج کیطرف ہے ۔ بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد سیّارے لیے ہیں۔ لیکن بعد کے مضمون پر غور کرنے سے خیال ہوتا ہے کہ شاید اس سے مراد عالمِ بالا کے وہ خِطّے ہیں جن میں سے ہر خِطّے کو نہایت مستحکم سرحدوں نے دوسرے خِطّے سے جدا کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ سرحدیں فضائے بسیط میں غیر مرئی طور پر کھنچی ہوئی ہیں ، لیکن ان کو پار کر کے کسی چیز کا ایک خِطّے سے دوسرے خِطّے میں چلا جانا سخت مشکل ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ہم بروج کو محفوظ خِطّوں (Fortified Spheres ) کی معنی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں۔

9. یعنی ہر خطّے میں کوئی نہ کوئی روشن سیّارہ یا تارا رکھ دیا اور اس طرح ساراعالم جگمگا اُٹھا۔ بالفاظ دیگر ہم نے اِس ناپیدا کنار کائنات کو ایک بھیانک ڈھنڈا ر بنا کر نہیں رکھ دیا بکہ ایسی حسین و جمیل دنیا بنائی جس میں ہر طرف نگاہوں کو جذب کر لینے والے جلوے پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کاریگری میں صرف ایک صانع اکبر کی صنعت اور ایک حکیم ِ اجل کی حکمت ہی نظر نہیں آتی ہے، بلکہ ایک کمال د ر جے کا پاکیزہ ذوق رکھنے والے آرٹسٹ کا آرٹ بھی نمایاں ہے۔ یہی مضمون ایک دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے ، اَلَّذِیْ ٓ اَحْسَنَ کُلَّ شِیْ ءٍ خَلَقَہٗ ”وہ خدا کہ جس نے ہر چیز جو بنائی خو ب ہی بنائی“۔(السجدہ، آیت ۷)

10. یعنی جس طرح زمین کی دوسری مخلوقات زمین کے خطّے میں مقید ہیں اُسی طرح شیاطینِ جِنّ بھی اِسی خطّے میں مقید ہیں، عالم ِ بالا تک اُن کی رسائی نہیں ہے۔ اِس سے دراصل لوگوں کی اُس عام غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے جس میں پہلے بھی عوام الناس مبتلا تھے اور آج بھی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شیطان اور اس کی ذریّت کے لیے ساری کائنات کھلی پڑی ہے ، جہاں تک وہ چاہیں پرواز کر سکتے ہیں۔ قرآن اس کے جواب میں بتاتا ہے کہ شیاطین ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکتے، انہیں غیر محدود پرواز کی طاقت ہر گز نہیں دی گئی ہے۔

11. یعنی وہ شیاطین جو اپنے اولیاء کو غیب کی خبریں لا کر دینے کی کوشش کرتے ہیں ، جن کی مدد سے بہت سے کاہن، جوگی ، عامل اور فقیر نما بہروپیے غیب دانی کا ڈھونگ رچایا کرتے ہیں ، اُن کے پاس حقیقت میں غیب دانی کے ذرائع بالکل نہیں ہیں۔ وہ کچھ سُن گن لینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ، کیونکہ اُن کی ساخت انسانوں کی بہ نسبت فرشتوں کی ساخت سے کچھ قریب تر ہے، لیکن فی الواقع اُن کے پلّے کچھ پڑتا نہیں ہے۔

12. ”شہاب ِ مبین“ کے لغوی معنی ”شعلۂ روشن“ کے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اس کے لیے ”شہابِ ثاقب“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی”تاریکی کو چھید نے والا شعلہ“۔ اِس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارا ہی ہو جسے ہماری زبان میں اصطلاحًا شہابِ ثاقب کہا جا تا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اور کسی قسم کی شعاعیں ہوں ، مثلاً کائناتی شعاعیں (cosmic rays) یا ان سے بھی شدید کوئی اور قسم جو ابھی ہمارے علم میں نہ آئی ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہی شہابِ ثاقب مراد ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ زمانۂ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہو ا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہابِ ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں، اُن کی تعداد کا اوسط ۱۰ کھرب روزانہ ہے، جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتی ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے ۔ اُن کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ۲۶ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے اور بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے ۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصف شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہابِ ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا۔ ۱۹۴۶ء۔ جلد ۱۵۔ ص ۳۹ – ۳۳۷)۔ ہو سکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو، کیونکہ زمین کے بالائی حدود سے گزر کر فضائے بسیط میں ۱۰ کھرب روزانہ کے اوسط سے ٹوٹنے والے تاروں کی برسات اُن کے لیے اس فضا کو بالکل ناقابلِ عبور بنا دیتی ہو گی۔

اِس سے کچھ اُن”محفوظ قلعوں“ کی نوعیت کا اندازہ بھی ہو سکتا ہے جن کا ذکر اُوپر ہوا ہے۔ بظاہر فضا بالکل صاف شفاف ہے جس میں کہیں کوئی دیوار یا چھت بنی نظر نہیں آتی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اِسی فضا میں مختلف خِطّوں کو کچھ ایسی غیر مرئی فصیلوں سے گھیر رکھا ہے جو ایک خِطّے کو دوسرے خِطّوں کی آفات سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ انہی فصیلوں کی برکت ہے کہ جو شہاب ِ ثاقب دس کھرب رازانہ کے اوسط سے زمین کی طرف گرتے ہیں وہ سب جل کر بھسم ہو جاتے اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچ سکتا ہے۔ دنیا میں شہابی پتھروں(Meteorites ) کے جو نمونے پائے جاتے ہیں اور دنیا کے عجائب خانوں میں موجود ہیں ان میں سب سے بڑا ۶۴۵ پونڈ کا ایک پتھر ہے جو گِر کر ۱۱ فیٹ زمین میں دھنس گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک مقام پر ۳۶-۱/۲ ٹن کا ایک آہنی تودہ بھی پایا گیا ہے جس کے وہاں موجود ہونے کی کوئی توجیہ سائنس داں اس کے سوا نہیں کر سکے ہیں کہ یہ بھی آسمان سے گرا ہوا ہے۔ قیاس کیجیے کہ اگر زمین کی بالائی سرحدوں کو مضبوط حصاروں سے محفوظ نہ کر دیا گیا ہوتا تو اِن ٹوٹنے والے تاروں کی بارش زمین کا کیا حال کر دیتی۔ یہی حصار ہیں جن کو قرآن مجید نے”بروج“ (محفوظ قلعوں) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔

13. اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے ایک اور اہم نشان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ نباتات اور ہر نوع میں تناسُل کی اِس قدر زبردست طاقت ہے کہ اگر اس کے صرف ایک پودے ہی کی نسل کو زمین میں بڑھنے کا موقع مل جاتا تو چند سال کے اندر روئے زمین پر بس وہی وہ نظر آتی، کسی دوسری قسم کی نباتات کے لیے کوئی جگہ نہ رہتی ۔ مگر یہ ایک حکیم اور قادرِ مطلق کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے مطابق بے حد و حساب اقسام کی نباتا ت اِس زمین پر اُگ رہی ہیں اور ہر نوع کی پیداوار اپنی ایک مخصوص حد پر پہنچ کر رُک جاتی ہے ۔ اِسی منظر کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہر نوع کی جسامت ، پھیلاؤ ، اٹھان اور نشونما کی ایک حد مقرر ہے جس سے نباتات کی کوئی قسم بھی تجاوز نہیں کر سکتی ۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ہر درخت ، ہر پودے اور ہر بیل بوٹے کے لیے جسم ، قد ، شکل ، برگ و بار اور پیداوار کی ایک مقدار پورے ناپ تول اور حساب و شما ر کے ساتھ مقرر کر رکھی ہے۔

14. یہاں اس حقیقت پر متنبہ فرمایا کہ یہ معاملہ صرف نباتات ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام موجودات کے معاملہ میں عام ہے ۔ ہوا، پانی ، روشنی ، گرمی، سردی، جمادات، نباتات، حیوانات، غرض ہر چیز ، ہر نوع ، ہر جنس ، اور ہر قوت و طاقت کے لیے ایک حد مقرر ہے جس پر وہ ٹھیری ہوئی ہے اور ایک مقدار ہے جس سے نہ وہ گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے۔ اسی تقدیر اور کمال درجہ کی حکیمانہ تقدیر ہی کا یہ کرشمہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک پورے نظام کائنات میں یہ توازن ، یہ اعتدال ، اور یہ تناسب نظر آرہا ہے ۔ اگر یہ کائنات ایک اتفاقی حادثہ ہوتی، یا بہت سے خداؤں کی کاریگری و کارفرمائی کا نتیجہ ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ بے شمار مختلف اشیاء اور قوتوں کے درمیان ایسا مکمل توازن و تناسب قائم ہوتا اور مسلسل قائم رہ سکتا؟

15. یعنی تمہارے بعد ہم ہی باقی رہنے والے ہیں۔ تمہیں جو کچھ بھی ملا ہوا ہے محض عارضی استعمال کے لیے ملا ہوا ہے۔ آخر کار ہماری دی ہوئی ہر چیز کو یونہی چھوڑ کر تم خالی ہاتھ رخصت ہو جاؤ گے اور یہ سب چیزیں جو ں کی توں ہمارے خزانے میں رہ جائیں گی۔

16. یعنی اُس کی حکمت یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ سب کو اکٹھا کرے اور اس کا علم سب پر اس طرح حا وی ہے کہ کوئی متنفس اُس سے چھوٹ نہیں سکتا ، بلکہ کسی اگلے پچھلے انسان کی خاک کا کوئی ذرّہ بھی اُس سے گم نہیں ہو سکتا ۔ اِس لیے جو شخص حیاتِ اُخروی کو مستبعد سمجھتا ہے وہ خدا کی صِفت حکمت سے بے خبر ہے ، اور جو شخص حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ ” جب مرنے کے بعد ہماری خاک کا ذرّہ ذرّہ منتشر ہو جائے گا تو ہم کیسے دوبارہ پیدا کیے جائیں گے “ وہ خدا کی صفتِ علم کو نہیں جانتا۔