Tafheem ul Quran

Surah 15 Al-Hijr, Ayat 26-44

وَلَـقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ​ۚ‏  ﴿15:26﴾ وَالۡجَـآنَّ خَلَقۡنٰهُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ‏ ﴿15:27﴾ وَاِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلٰۤـئِكَةِ اِنِّىۡ خَالـِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ‏ ﴿15:28﴾ فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ‏  ﴿15:29﴾ فَسَجَدَ الۡمَلٰۤـئِكَةُ كُلُّهُمۡ اَجۡمَعُوۡنَۙ‏ ﴿15:30﴾ اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَؕ اَبٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِيۡنَ‏ ﴿15:31﴾ قَالَ يٰۤاِبۡلِيۡسُ مَا لَـكَ اَلَّا تَكُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِيۡنَ‏ ﴿15:32﴾ قَالَ لَمۡ اَكُنۡ لِّاَسۡجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقۡتَهٗ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ‏ ﴿15:33﴾ قَالَ فَاخۡرُجۡ مِنۡهَا فَاِنَّكَ رَجِيۡمٌۙ‏ ﴿15:34﴾ وَّاِنَّ عَلَيۡكَ اللَّعۡنَةَ اِلٰى يَوۡمِ الدِّيۡنِ‏ ﴿15:35﴾ قَالَ رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِىۡۤ اِلٰى يَوۡمِ يُبۡعَثُوۡنَ‏ ﴿15:36﴾ قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الۡمُنۡظَرِيۡنَۙ‏ ﴿15:37﴾ اِلٰى يَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ‏ ﴿15:38﴾ قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغۡوَيۡتَنِىۡ لَاُزَيِّنَنَّ لَهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ وَلَاُغۡوِيَـنَّهُمۡ اَجۡمَعِيۡنَۙ‏ ﴿15:39﴾ اِلَّا عِبَادَكَ مِنۡهُمُ الۡمُخۡلَصِيۡنَ‏ ﴿15:40﴾ قَالَ هٰذَا صِرَاطٌ عَلَىَّ مُسۡتَقِيۡمٌ‏ ﴿15:41﴾ اِنَّ عِبَادِىۡ لَـيۡسَ لَكَ عَلَيۡهِمۡ سُلۡطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَـعَكَ مِنَ الۡغٰوِيۡنَ‏ ﴿15:42﴾ وَاِنَّ جَهَـنَّمَ لَمَوۡعِدُهُمۡ اَجۡمَعِيۡنَۙ‏ ﴿15:43﴾ لَهَا سَبۡعَةُ اَبۡوَابٍؕ لِكُلِّ بَابٍ مِّنۡهُمۡ جُزۡءٌ مَّقۡسُوۡمٌ‏ ﴿15:44﴾

26 - ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سُوکھے گارے سے بنایا۔17 27 - اور اس سے پہلے ہم جنّوں کو ہم آگ کی لِپٹ سے پیدا کر چکے تھے۔18 28 - پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہا کہ ”میں سڑی ہوئی مٹی کے سُوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں ۔ 29 - جب میں اُسے پُورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں19 تو تم سب اُس کے آگے سجدے میں گِر جانا۔“ 30 - چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ، 31 - سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔20 32 - ربّ نے پوچھا ”اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تُو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟“ 33 - اس نے کہا ”میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اِس بشر کو سجدہ کروں جسے تُونے سڑی ہوئی مٹی کے سُوکھے گارے سے پیدا کیا ہے۔“ 34 - ربّ نے فرمایا”اچھا تُو نکل جا یہاں سے کیونکہ تُو مردُود ہے، 35 - اور اب روزِ جزا تک تجھ پر لعنت ہے۔“21 36 - اُس نے عرض کیا ”میرے ربّ، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس روز تک کے لیے مہلت دے جب کہ سب انسان دوبارہ اُٹھائے جائیں گے۔“ 37 - فرمایا” اچھا ، تجھے مہلت ہے 38 - اُس دن تک جس کا وقت ہمیں معلوم ہے۔“ 39 - وہ بولا ”میرے ربّ، جیسا تُونے مجھے بہکایا اُسی طرح اب میں زمین ان کے لیے دلفریبیاں پیدا کر کے اِن سب کو بہکا دوں گا،22 40 - سوائے تیرے اُن بندوں کے جنہیں تُو نے اِن میں سے خالص کر لیا ہو۔“ 41 - فرمایا ”یہ راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔23 42 - بے شک، جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا۔ تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں،24 43 - اور ان سب کے لیے جہنّم کی وعید ہے۔“25 44 - یہ جہنّم (جس کی وعید پَیروانِ ابلیس کے لیے کی گئی ہے) اس کے سات دروازے ہیں۔ ہر دروازے کے لیے ان میں سے ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے۔26 ؏ ۳


Notes

17. یہاں قرآن اِس امر کی صاف تصریح کرتا ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیا ہے ، جیسا کہ نئے دَور کے ڈارونییت سے متاثر مفسرینِ قرآن ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، بلکہ اُس کی تخلیق کی ابتداء براہِ راست ارضی مادّوں سے ہوئی ہے جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَأِ ٍ مَّسْنُوْنٍ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ حَمأ عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بُو پیدا ہو چکی ہو ، یا بالفاظِ دیگر خمیر اُٹھ آیا ہو۔ مسنون کے دومعنی ہیں۔ ایک معنی ہیں متغیر، مُنتِن اور املس، یعنی ایسی سڑی ہوئی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیدا ہو گئی ہو۔ دوسرے معنی میں مصوَّر اور مصبوب ، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو۔ صلصال اُس سوکھے گارے کو کہتے ہیں جو خشک ہو جانے کے بعد بجنے گے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کا ایک پُتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر رُوح پھونکی گئی۔

18. سَموم گرم ہوا کو کہتے ہیں ، اور نار کو سموم کی طرف نسبت دینے کی صورت میں اُس کے معنی آگ کے بجائے تیز حرارت کے ہوجاتے ہیں۔ اِس سے اُن مقامات کی تشریح ہو جاتی ہے جہاں قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جن ّ آگے سے پیدا کیے گئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، الرحمٰن ، حواشی ۱۴، ۱۵، ۱۶)۔

19. اس سے معلو م ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفاتِ الہٰی کا ایک عکس یا پر تَو ہے ۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں ، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتَو ہے جو اس کا لبدِ خاکی پر ڈالا گیا ہے ، اور اسی پر تَو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کا خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ِ ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔

یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے، اس کا مصدر و منبع اللہ تعالیٰ ہی کو کوئی نہ کوئی صفت ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جَعَلَ اللہ ْ الرَّ حْمَۃَ مِأَ ۃَ جُزْءٍ فَاَمْسَکَ عِنْدَہٗ تِسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ وَاَنْزَلَ فِی الْاَرْضِ جُزْ ءً ا وَّ احِدًا فَمِنْ ذٰلِکَ الْجُزْ ءِ یَتَرَ ا حَمُ الْخَلَا ئِقُ حَتّٰی تَرْفَعُ الدَّآ بَّۃُ حَا فِرَ ھَا عَنْ وَّلَدِھَا خَشْیَۃِ اَنْ تُصِیْبَہٗ (بخاری و مسلم)۔ ” اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا ، پھر ان میں سے ۹۹ حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حِصّہ زمین میں اُتارا۔ یہ اُسی ایک حصے کی برکت ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر جانور اپنے بچے پر سے اپنا کُھرا اُٹھاتا ہے تاکہ اُسے ضرر نہ پہنچ جائے، تو یہ بھی دراصل اُسی حصہ رحمت کا اثر ہے“۔ مگر جو چیز انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پر تَو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی۔

یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ صفاتِ الہٰی میں سے ایک حصّہ پانا الوہیت کا کوئی جُز پالینے کا ہم معنی ہے ۔ حالانکہ الوہیت اس سے وراء الوراء ہے کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے۔

20. تقابل کے لیے سورۂ بقرہ رکوع۴، سورہ ٔ نساء، رکوع ۱۸، اور سورۂ اعراف، رکوع۲ ، پیشِ نظر رہے۔ نیز ہمارے اُن حواشی پر بھی ایک نگاہ ڈال لی جائے جو اِن مقامات پر لکھے گئے ہیں۔

21. یعنی قیامت تک تو ملعون رہے گا، ا سکے بعد جب روزِ جزا قائم ہوگا تو پھر تجھے تیری نافرمانیوں کی سزا دی جائے گی۔

22. یعنی جس طرح تُو نے اِ س حقیر اور کم تر مخلوق کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر مجھے مجبور کر دیا کہ تیرا حکم نہ مانوں، اسی طرح اب میں ان انسانوں کے لیے دنیا کو ایسا دلفریب بنا دوں گا کہ یہ سب اُس سے دھوکا کھا کر تیرے نافرمان بن جائیں گے۔ بالفاظِ دیگر ابلیس کا مطلب یہ تھا کہ مَیں زمین کی زندگی اور اُس کی لذتوں اور اس کے عارضی فوائد و منافع کو انسان کے لیے ایسا خوشنما بنا دوں گا کہ وہ خلافت اور اس کی ذمہ داریوں اور آخرت کی باز پرس کو بھول جائیں گے اور خود تجھے بھی یا تو فراموش کر دیں گے، یا تجھے یاد رکھنے کے باوجود تیرے احکام کی خلاف ورزیاں کریں گے۔

23. ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک معنی وہ ہیں جو ہم نے ترجمہ میں بیان کیے ہیں اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ ھٰذَا طَرِیْقٌ حَقٌّ عَلَیَّ اَنْ اُرَ اعِیْہٗ ، یعنی یہ بات درست ہے ، میں بھی اس کا پابند رہوں گا۔

24. ”اس فقرے کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ میرے بندوں (یعنی عام انسانوں) پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا کہ تُو اُنہیں زبردستی نافرمان بنا دے، البتہ جو خود ہی بہکے ہوئے ہوں اور آپ ہی تیری پیروی کرنا چاہیں اُنہیں تیری راہ پر جانے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا، انہیں ہم زبردستی اس سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں گے۔

پہلے معنی کے لحاظ سے مضمون کا خلاصہ یہ ہوگا کہ بندگی کا طریقہ اللہ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے ، جو لوگ اِس راستے کو اختیار کر لیں گے اُن پر شیطان کا بس نہ چلے گا ، اُنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے گا اور شیطان خود بھی اقراری ہے کہ وہ اُس کے پھندے میں نہ پھنسیں گے۔ البتہ جو لوگ خود بندگی سے منحرف ہو کر اپنی فلاح و سعادت کی راہ گم کر دیں گے وہ ابلیس کے ہتھے چڑھ جائیں گے اور پھر جدھر جدھر وہ انہیں فریب دے کر لے جانا چاہے گا ، وہ اس کے پیچھے بھٹکتے اور دُور سے دور تر نکلتے چلے جائیں گے۔

دوسرے معنی کے لحاظ سے اِس بیان کا خلاصہ یہ ہو گا: شیطان نے انسانوں کو بہکانے کے لیے اپنا طریقِ کار یہ بیان کیا کہ وہ زمین کی زندگی کو اُس کے لیے خوشنما بنا کر انہیں خدا سے غافل اور بندگی کی راہ سے منحرف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اِس کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شرط میں نے مانی ، اور مزید توضیح کرتے ہوئے یہ بات بھی صاف کر دی کہ تجھے صرف فریب دینے کا اختیار دیا جا رہا ہے ، یہ اقتدار نہیں دیا جا رہا کہ تو ہاتھ پکڑ کر اُنہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے۔ شیطان نے اپنے نوٹِس سے اُن بندوں کو مستثنیٰ کیا جنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے۔ اس سے یہ غلط فہمی مترشح ہو رہی تھی کہ شاید اللہ تعالیٰ بغیر کسی معقول وجہ کے یونہی جس کو چاہے گا خالص کر لے گا اور وہ شیطان کی دستِ رس سے بچ جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر بات صاف کر دی کہ جو خود بہکا ہوا ہو گا وہی تیری پیروی کرے گا۔ بالفاظِ دیگر جو بہکا ہوا نہ ہوگا وہ تیری پیروی نہ کرے گا اور وہی ہمارا وہ مخصوص بندہ ہو گا جسے ہم خالص اپنا کر لیں گے۔

25. “اس جگہ یہ قصہ جس غرض کے لیے بیان کیا گیا ہے اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاق و سباق کو واضح طور پر ذہن میں رکھا جائے ۔ پہلے اور دوسرے رکوع کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات صاف سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں آدم و ابلیس کا یہ قصہ بیا ن کرنے سے مقصود کفار کو اِس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ تم اپنے ازلی دشمن شیطان کے پھندے میں پھنس گئے ہو اور اُس پستی میں گرے چلے جا رہے ہو جس میں وہ اپنے حسد کی بنا پر تمہیں گرانا چاہتا ہے۔ اِس کے برعکس یہ نبی تمہیں اُس کے پھندے سے نکال کر اُس بلندی کی طرف لے جانے کی کوشش کررہا ہے جو دراصل انسان ہونے کی حیثیت سے تمہارا فطری مقام ہے۔ لیکن تم عجیب احمق لوگ ہو کہ اپنے دشمن کو دوست ، اور اپنے خیر خواہ کو دشمن سمجھ رہے ہو۔

اِس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اِسی قصہ سے اُن پر واضح کی گئی ہے کہ تمہارے لیے راہِ نجات صرف ایک ہی ہے، اور وہ اللہ کی بندگی ہے ۔ اِس راہ کو چھوڑ کر تم جس راہ پر بھی جاؤ گے وہ شیطان کی راہ ہے جو سیدھی جہنم کی طرف جاتی ہے۔

تیسری بات جو اِس قصے کے ذریعہ سے ان کو سمجھائی گئی ہے ، یہ ہے کہ اپنی اس غلطی کے ذمہ دار تم خود ہو۔ شیطان کا کوئی کام اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ ظاہر حیات دنیا سے تم کو دھوکا دے کر تمہیں بندگی کی راہ سے منحرف کر نے کی کوشش کرتا ہے ، اُس سے دھوکا کھانا تمہارا اپنا فعل ہے جس کی کوئی ذمہ داری تمہارے اپنے سوا کسی اور پر نہیں ہے۔

(اس کی مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم ، آیت ۲۲ و حاشیہ نمبر ۳۱)۔

26. جہنم کے یہ دروازے اُن گمراہیوں اور معصیتوں کے لحاظ سے ہیں جن پر چل کر آدمی اپنے لیے دوزخ کی راہ کھولتا ہے۔ مثلاً کوئی دہریّت کے راستے سے دوزخ کی طرف جاتا ہے ، کوئی شرک کے راستہ سے ، کوئی نفاق کے راستہ سے، کوئی نفس پرستی اور فسق و فجور کے راستہ سے، کوئی ظلم و ستم اور خلق آزاری کے راستہ سے، کوئی تبلیغِ ضلالت اور اقامتِ کفر کے راستہ سے ، اور کوئی اشاعتِ فحشاء و منکر کے راستہ سے۔