27. یعنی وہ لوگ جو شیطان کی پیروی سے بچے رہے ہوں اور جنہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے عبدیّت کی زندگی بسر کی ہو۔
28. یعنی نیک لوگوں کے درمیان آپس کی غلط فہمیوں کی بنا پر دنیا میں اگر کچھ کدورتیں پیدا ہوگئی ہوں گی تو جنّت میں داخل ہونے کے وقت وہ دور ہو جائیں گی اور ان کے دل ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف کر دیے جائیں گے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف۔ حاشیہ نمبر ۳۲)۔
29. اِس کی تشریح اُس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور نے خبر دی ہے کہ یقال لا ھل الجنۃ ان لکم ان تصحو ا ولا تمرضو ا ابدًا ، و ان لکم ان تعیشو ا فلا تمو تو ا ا بدا، و ان لکم ان تشبّو ا ولا تھر مو ا ابدًا، و ان لکم ان تقیمو ا فلا تظعنو ا ابدًا۔ یعنی” اہلِ جنت سے کہہ دیا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ تندرست رہو گے، کبھی بیمار نہ پڑو گے۔ اور اب تم ہمیشہ زندہ رہو گے، کبھی موت تم کو نہ آئے گی۔ اور اب تم ہمیشہ جوان رہو گے، کبھی بڑھاپا تم پر نہ آئے گا۔ اور اب تم ہمیشہ مقیم رہو گے ، کبھی کوچ کرنے کی تمہیں ضرورت نہ ہوگی“۔ اس کی مزید تشریح اُن آیات و احادیث سے ہوتی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں انسان کو اپنی معاش اور اپنی ضروریات کی فراہمی کے لیے کوئی محنت نہ کرنی پڑے گی، سب کچھ اُسے بلا سعی و مشقت ملے گا۔
30. یہاں حضرت ابراہیم اور ان کے بعد متصلًا قوم لوط کا قصہ جس غرض کے لیے سنایا جا رہا ہے اُس کو سمجھنے کے لیے اس سورۃ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ آیات ۷ -۸ میں کفار ِ مکّہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ ”اگر تم سچے نبی ہو تو ہمارے سامنے فرشتوں کو لے کیوں نہیں آتے؟“ اس کا مختصر جواب وہاں صرف اِس قدر دے کر چھوڑ دیا گیا تھا کہ ”فرشتوں کو ہم یوں ہی نہیں اُتار دیا کرتے ، انہیں تو ہم جب بھیجتے ہیں حق کے ساتھ ہی بھیجتے ہیں“۔ اب اُس کا مفصل جواب یہاں اِن دونوں قصّوں کے پیرائے میں دیا جا رہا ہے۔ یہاں اُنہیں بتایا جا رہا ہے کہ ایک ”حق“ تو وہ ہے جسے لے کر فرشتے ابراہیم کے پاس آئے تھے، اور دوسرا حق وہ ہے جسے لے کر وہ قومِ لوط پر پہنچے تھے۔ اب تم خود دیکھ لو کہ تمہارے پاس اِن میں سے کونسا حق لے کر فرشتے آسکتے ہیں۔ ابراہیم والے حق کے لائق تو ظاہر ہے کہ تم نہیں ہو۔ اب کیا اُس حق کے ساتھ فرشتوں کو بلوانا چاہتے ہو جسے لے کر وہ قومِ لوط کے ہاں نازل ہو ئے تھے؟
31. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ہود ، رکوع ۷ مع حواشی۔
32. یعنی حضرت اسحاق ؑ کے پیدا ہونے کی بشارت ، جیسا کہ سورۂ ہود میں بصراحت بیان ہو اہے۔
33. حضرت ابراہیم ؑ کے اس سوال سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا ہمیشہ غیر معمولی حالات ہی میں ہوا کرتا ہے اور کوئی بڑی مہم ہی ہوتی ہے جس پر وہ بھیجے جاتے ہیں۔
34. اشارے کا یہ اختصار صاف بتا رہا ہے کہ قومِ لوط کے جرائم کا پیمانہ اس وقت اتنا لبریز ہو چکا تھا کہ حضرت ابراہیمؑ جیسے باخبر آدمی کے سامنے اس کانام لینے کی قطعًا ضرورت نہ تھی، بس”ایک مجرم قوم“ کہہ دینا بالکل کافی تھا۔