Tafheem ul Quran

Surah 15 Al-Hijr, Ayat 61-79

فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوۡطِ ۨالۡمُرۡسَلُوۡنَۙ‏ ﴿15:61﴾ قَالَ اِنَّـكُمۡ قَوۡمٌ مُّنۡكَرُوۡنَ‏ ﴿15:62﴾ قَالُوۡا بَلۡ جِئۡنٰكَ بِمَا كَانُوۡا فِيۡهِ يَمۡتَرُوۡنَ‏ ﴿15:63﴾ وَ اَتَيۡنٰكَ بِالۡحَـقِّ وَاِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ‏ ﴿15:64﴾ فَاَسۡرِ بِاَهۡلِكَ بِقِطۡعٍ مِّنَ الَّيۡلِ وَاتَّبِعۡ اَدۡبَارَهُمۡ وَلَا يَلۡـتَفِتۡ مِنۡكُمۡ اَحَدٌ وَّامۡضُوۡا حَيۡثُ تُؤۡمَرُوۡنَ‏ ﴿15:65﴾ وَقَضَيۡنَاۤ اِلَيۡهِ ذٰ لِكَ الۡاَمۡرَ اَنَّ دَابِرَ هٰٓؤُلَاۤءِ مَقۡطُوۡعٌ مُّصۡبِحِيۡنَ‏ ﴿15:66﴾ وَجَآءَ اَهۡلُ الۡمَدِيۡنَةِ يَسۡتَـبۡشِرُوۡنَ‏ ﴿15:67﴾ قَالَ اِنَّ هٰٓؤُلَاۤءِ ضَيۡفِىۡ فَلَا تَفۡضَحُوۡنِۙ‏ ﴿15:68﴾ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَلَا تُخۡزُوۡنِ‏ ﴿15:69﴾ قَالُـوۡۤا اَوَلَمۡ نَـنۡهَكَ عَنِ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿15:70﴾ قَالَ هٰٓؤُلَاۤءِ بَنٰتِىۡۤ اِنۡ كُنۡـتُمۡ فٰعِلِيۡنَؕ‏ ﴿15:71﴾ لَعَمۡرُكَ اِنَّهُمۡ لَفِىۡ سَكۡرَتِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ‏ ﴿15:72﴾ فَاَخَذَتۡهُمُ الصَّيۡحَةُ مُشۡرِقِيۡنَۙ‏ ﴿15:73﴾ فَجَعَلۡنَا عَالِيـَهَا سَافِلَهَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَيۡهِمۡ حِجَارَةً مِّنۡ سِجِّيۡلٍؕ‏ ﴿15:74﴾ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـلۡمُتَوَسِّمِيۡنَ‏ ﴿15:75﴾ وَاِنَّهَا لَبِسَبِيۡلٍ مُّقِيۡمٍ‏ ﴿15:76﴾ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَؕ‏ ﴿15:77﴾ وَاِنۡ كَانَ اَصۡحٰبُ الۡاَيۡكَةِ لَظٰلِمِيۡنَۙ‏ ﴿15:78﴾ فَانتَقَمۡنَا مِنۡهُمۡ​ۘ وَاِنَّهُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِيۡنٍؕ‏ ﴿15:79﴾

61 - پھر جب یہ فرستادے لُوطؑ کے ہاں پہنچے35 62 - تو اُس نے کہا ”آپ لوگ اجنبی معلوم ہوتے ہیں“36 63 - اُنہوں نے جواب دیا ” نہیں، بلکہ ہم وہی چیز لے کر آئے ہیں جس کے آنے میں یہ لوگ شک کر رہے تھے۔ 64 - ہم تم سے سچ کہتے ہیں کہ ہم حق کے ساتھ تمہارے پاس آئے ہیں، 65 - لہٰذا اب تم کچھ رات رہے اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جاوٴ اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلو۔37 تم میں سے کوئی پلٹ کر نہ دیکھے۔38 بس سیدھے چلے جاوٴ جِدھر جانے کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے۔“ 66 - اور اُسے ہم نے اپنا یہ فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہوتے اِن لوگوں کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ 67 - اتنے میں شہر کے لوگ خوشی کے مارے بے تاب ہو کر لُوطؑ کے گھر چڑھ آئے۔39 68 - لوطؑ نے کہا ”بھائیو، یہ میرے مہمان ہیں ، میری فضیحت نہ کرو، 69 - اللہ سے ڈرو، مجھے رُسوا نہ کرو۔“ 70 - وہ بولے ”کیا ہم بارہا تمہیں منع نہیں کر چکے ہیں کہ دُنیا بھر کے ٹھیکیدار نہ بنو۔“ 71 - لوطؑ نے عاجز ہو کر کہا ”اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں!“40 72 - تیری جان کی قسم اے نبیؐ، اُس وقت اُن پر ایک نشہ سا چڑھا ہوا تھا جس میں وہ آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے۔ 73 - آخرِ کار پو پھٹتے ہی اُن کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا 74 - اور ہم نے اُس بستی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اور اُن پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش برسا دی۔41 75 - اِس واقعے میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو صاحبِ فراست ہیں۔ 76 - اور وہ علاقہ (جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا)گزر گاہِ عام پر واقع ہے،42 77 - اُس میں سامانِ عبرت ہے اُن لوگوں کے لیے جو صاحبِ ایمان ہیں۔ 78 - اور اَیکہ43 والے ظالم تھے ، 79 - تو دیکھ لو کہ ہم نے بھی اُن سے انتقام لیا، اور ان دونوں قوموں کے اُجڑے ہوئے علاقے کھُلے راستے پر واقع ہیں۔44 ؏ ۵


Notes

35. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع ۱۰ و سورۂ ہود رکوع ۷۔

36. یہاں بات مختصر بیان کی گئی ہے۔سورۂ ہود میں اس کی تفصیل یہ دی گئی ہے کہ ان لوگوں کے آنے سے حضرت لوط بہت گھبرائے اور سخت دل تنگ ہوئے اور اُن کو دیکھتے ہی اپنے دل میں کہنے لگے کہ آج بڑا سخت وقت آیا ہے ۔ اس گھبراہٹ کی وجہ جو قرآن کے بیان سے اشارۃً اور روایات سے صراحۃً معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ یہ فرشتے نہایت خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط ؑ کے ہاں پہنچے تھے۔ اور حضرت لوطؑ اپنی قوم کی بدمعاشی سے واقف تھے، اس لیے آپ سخت پریشان ہوئے کہ آئے ہوئے مہمانوں کو واپس بھی نہیں کیا جا سکتا ، اور انہیں اِن بدمعاشوں سے بچانا بھی مشکل ہے۔

37. یعنی اس غرض سے اپنے گھر والوں کے پیچھے چلو کہ ان میں سے کوئی ٹھیرنے نہ پائے۔

38. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پلٹ کر دیکھتے ہی تم پتھر کے ہوجاؤ گے ، جیسا کہ بائیبل میں بیان ہوا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیچھے کی آوازیں اور شور و غُل سن کر تماشا دیکھنے کے لیے نہ ٹھیر جانا۔ یہ نہ تماشا دیکھنے کا وقت ہے، اورنہ مجرم قوم کی ہلاکت پر آنسو بہانے کا۔ ایک لمحہ بھی اگر تم نے معذَّب قوم کے علاقے میں دم لے لیا تو بعید نہیں کہ تمہیں بھی اس ہلاکت کی بارش سے کچھ گزند پہنچ جائے۔

39. “اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس قوم کی بد اخلاقی کس حد کو پہنچ چکی تھی۔ بستی کے ایک شخص کے ہاں چند خوبصورت مہمانوں کا آجانا اِس بات کے لیے کافی تھا کہ اُس کے گھر پر اوباشوں کا ایک ہجوم اُمنڈ آئے او ر علانیہ وہ اس سے مطالبہ کریں کہ اپنے مہمانوں کو بدکاری کے لیے ہمارے حوالے کردے۔ اُن کی پوری آبادی میں کوئی ایسا عنصر باقی نہ رہا تھا جو ان حرکات کے خلاف آواز اُٹھاتا ، اور نہ اُن کی قوم میں کوئی اخلاقی حِس باقی رہ گئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو علی الاعلان یہ زیادتیاں کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس ہوتی۔ حضرت لوط جیسے مقدس انسان اور معلم اخلاق کے گھر پر بھی جب بدمعاشوں کا حملہ اس بے باکی کے ساتھ ہو سکتا تھا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام انسانوں کے ساتھ ان بستیوں میں کیا کچھ ہو رہا ہو گا۔

تلمود میں اس قوم کے جو حالات لکھے ہیں اُن کا ایک خلاصہ ہم یہاں دیتے ہیں جس سے کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہو گا کہ یہ قوم اخلاقی فساد کی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عَیلامی مسافر اُن کے علاقے سے گزر رہا تھا ۔ راستہ میں شام ہو گئی اور اسے مجبورًا ان کے شہر سدوم میں ٹھیرنا پڑا۔ اس کے ساتھ اپنا زارِ راہ تھا۔ کسی سے اُس نے میزبانی کی درخواست نہ کی۔ بس ایک درخت کے نیچے اُتر گیا۔ مگر ایک سدومی اصرار کے ساتھ اُٹھا کر اُسے اپنے گھر لے گیا۔ رات اُسے اپنے ہاں رکھا اور صبح ہونے سے پہلے اس کا گدھا اُس کے زین اور مال تجارت سمیت اڑادیا۔ اس نے شور مچایا۔ مگر کسی نے اسی کی فریاد نہ سنی۔ بلکہ بستی کے لوگوں نے اُس کا رہا سہا مال بھی لوٹ کر اُسے نکال باہر کیا۔

ایک مرتبہ حضرت سارہ نے حضرت لوط کے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اپنے غلام الیعزر کو سدوم بھیجا۔ الیعزر جب شہر میں داخل ہو تو اس نے دیکھا کہ ایک سدومی ایک اجنبی کو مار رہا ہے۔ الیعزِر نے اُسے شرم دلائی کہ تم بے کس مسافروں سے یہ سلوک کرتے ہو۔ مگر جواب میں سربازار الیعزر کا سر پھاڑ دیا گیا۔

ایک مرتبہ ایک غریب آدمی کہیں سے اُن کے شہر میں آیا اور کسی نے اُسے کھانے کو کچھ نہ دیا۔ وہ فاقے سے بدحال ہو کر ایک جگہ گراپڑا تھا کہ حضرت لوط کی بیٹی نے اُسے دیکھ لیا اور اس کے لیے کھانا پہنچایا۔ اس پر حضرت لوط اور ان کی بیٹی کو سخت ملامت کی گئی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ اِن حرکتوں کے ساتھ تم لوگ ہماری بستی میں نہیں رہ سکتے۔

اس طرح کے متعدد واقعات بیان کرنے کے بعد تلمود کا مصنف لکھتا ہے کہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں یہ لوگ سخت ظالم، دھوکہ باز اور بد معاملہ تھے۔ کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہ گزر سکتا تھا۔ کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ بارہا ایسا ہوتا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مرجاتا اور یہ اُس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے۔ بیرونی تاجر اگر شامت کے مارے وہاں چلے جاتے تو برسرِعام لوٹ لیے جاتے اور اُن کی فریاد کو ٹھٹھوں میں اُڑا دیا جاتا۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا جس کا سلسہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ علانیہ بدکاریاں کرتے تھے اور ایک لوط کی زبان کے سوا کوئی زبان ان کو ٹوکنے والی نہ تھی۔ قرآن مجید میں اس پوری داستان کو سمیٹ کر صرف دو فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے کہ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوْ ا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰ تِ۔ (وہ پہلے سے بہت بُرے بُرے کام کر رہے تھے) اور اَ ءِ نَّکُمْ لَتَا ْ تُوْ نَ الرِّجَالَ و َ تَقْطَعُوْ نَ السَّبِیْلَ وَتَاْ تُوْ نَ فِیْ نَا دِیْکُمُ الْمُنْکَرَ ( تم مَردوں سے خواہشِ نفس پوری کرتے ہو، مسافروں کی راہ مارتے ہو اور اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا بدکاریاں کرتے ہو؟)

40. اس کی تشریح سورۂ ہود کے حاشیہ نمبر ۸۷ میں بیان کی جا چکی ہے۔ یہاں صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ یہ کلمات ایک شریف آدمی کی زبان پر ایسے وقت میں آئے ہیں جب کہ وہ بالکل تنگ آچکا تھا اور بدمعاش لوگ اس کی ساری فریاد فغاں سے بے پروا ہو کر اُس کے مہمانوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔

اِ س موقع پر ایک بات کو صاف کر دینا ضروری ہے۔ سورۂ ہود میں واقعہ جس ترتیب سے بیان کیا گیا ہے اُس میں یہ تصریح ہے کہ حضرت لوط کو بدمعاشوں کے اِس حملہ کے وقت تک یہ معلوم نہ تھا کہ اُن کے مہمان درحقیقت فرشتے ہیں۔ وہ اُس وقت تک یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ چند مسافر لڑکے ہیں جو ان کے ہاں آکر ٹھیرے ہیں۔ انہوں نے اپنے فرشتہ ہونے کی حقیقت اُس وقت کھولی جب بدمعاشوں کا ہجوم مہمانوں کی قیامگاہ پر پِل پڑا اور حضرت لوط نے تڑپ کر فرمایا لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰ وِیْٓ اِلیٰ رُکْنٍ شَدِیْدٍ (کاش مجھے تمہارے مقابلے کی طاقت حاصل ہوتی یا میرا کوئی سہارا ہوتا جس سے میں حمایت حاصل کرتا)۔ اس کے بعد فرشتوں نے اُن سے کہا کہ اب تم اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور ہمیں اِن سے نمٹنے کے لیے چھو ڑ دو۔ واقعات کی اس ترتیب کو نگاہ میں رکھنے سے پورا اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت لوطؑ نے یہ الفاظ کس تنگ موقع پر عاجز آکر فرمائے تھے۔ اِس سورے میں چونکہ واقعات کو اُن کی ترتیبِ وقوع کے لحاظ سے نہیں بیان کیا جا رہا ہے، بلکہ اُس خاص پہلو کو خاص طور پر نمایاں کر نا مقصود ہے جسے ذہن نشین کرنے کی خاطر ہی یہ قصہ یہاں نقل کیا گیا ہے، اِس لیے ایک عام ناظر کو یہاں یہ غلط فہمی پیش آتی ہے کہ فرشتے ابتدا ہی میں اپنا تعارف حضرت لوط سے کرا چکے تھے اور اب اپنے مہمانوں کی آبرو بچانے کے لیے ا ُن کی یہ ساری فریاد و فغاں محض ایک ڈرامائی انداز کی تھی۔

41. یہ پکی ہوئی مٹی کے پتھر ممکن ہے کہ شہابِ ثاقب کی نوعیت کے ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ آتش فشانی انفجار (volcanic eruption) کی بدولت زمین سے نکل کر اُڑے ہوں اور پھر اُن پر بارش کی طرح برس گئے ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سخت آندھی نے یہ پتھراؤ کیا ہو۔

42. یعنی حجاز سے شام اور عراق سے مصر جاتے ہوئے یہ تبا ہ شدہ علاقہ راستہ میں پڑتا ہے اور عمومًا قافلوں کے لوگ تباہی کے اُن آثار کو دیکھتے ہیں جو اس پورے علاقے میں آج تک نمایاں ہیں۔ یہ علاقہ بحرِ لوط (بحیرۂ مردار کے مشرق اور جنوب میں واقع ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس کے جنوبی حصّے کے متعلق جغرافیہ دانوں کا بیان ہے کہ یہاں اِس درجہ ویرانی پائی جاتی ہے جس کی نظیر روئے زمین پر کہیں اور نہیں دیکھی گئی۔

43. یعنی حضرت شعیب کی قوم کے لوگ۔ اس قوم کا نام بنی مدیان تھا۔ مَدْیَن اُن کے مرکزی شہر کو بھی کہتے تھے اور اُن کے پورے علاقے کو بھی۔ رہا اَیکہ ، تو یہ تبوک کا قدیم نام تھا۔ اس لفظ کے لغوی معنی گھنے جنگل کے ہیں۔ آج کل اَیکہ ایک پہاڑی نالے کا نام ہے جو جبل اللَّوز سے وادی اَفَل میں آکر گرتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الشعراء ، حاشیہ نمبر ۱۱۵)۔

44. مدین اور اصحاب الایکہ کا علاقہ بھی حجاز سے فلسطین و شام جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔