45. یہ قومِ ثمود کا مرکزی شہر تھا۔ اس کے کھنڈر مدینہ کے شمال مغرب میں موجودہ شہر العُلاء سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ مقام شاہ راہِ عام پر ملتا ہے اور قافلے اس وادی میں سے ہو کر گزرتے ہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کوئی یہاں قیام نہیں کرتا۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج کو جاتے ہوئے یہاں پہنچا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ”یہاں سُرخ رنگ کے پہاڑوں میں قومِ ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انہوں نے چٹانوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں۔ اُن کے نقش و نگار اِس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسے آج بنائے گئے ہوں ۔ ان مکانات میں اب بھی سڑی گلی انسانی ہڈیاں پڑی ہوئی ملتی ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف حاشیہ نمبر ۵۷)
46. یعنی اُن کے سنگین مکانات جو اُنہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر اُن کے اندر بنائے تھے ان کی کچھ بھی حفاظت نہ کر سکے۔
47. یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین و تسلّی کے لیے فرمائی جارہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس وقت بظاہر باطل کا جو غلبہ تم دیکھ رہے ہو اور حق کے راستہ میں جن مشکلات اور مصائب سے تمہیں سابقہ پیش آرہا ہے، اس سے گھبراؤ نہیں ۔ یہ ایک عارضی کیفیت ہے ، مستقل اور دائمی حالت نہیں ہے۔ اِس لیے زمین و آسمان کا یہ پورا نظام حق پر تعمیر ہوا ہے نہ کہ باطل پر ۔ کائنات کی فطرت حق کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے نہ کہ باطل کے ساتھ۔ لہٰذا یہاں اگر قیام و دوام ہے تو حق کے لیے نہ کہ باطل کے لیے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم حواشی ۲۵ – ۲۶ – ۳۵ تا ۳۹)۔
48. یعنی خالق ہونے کی حیثیت سے وہ اپنی مخلوق پر کامل غلبہ و تسلط رکھتا ہے ، کسی مخلوق کی یہ طاقت نہیں ہے کہ اس کی گرفت سے بچ سکے ۔ اور اِس کے ساتھ وہ پوری طرح باخبر بھی ہے ، جو کچھ اِن لوگوں کی اصلاح کے لیے تم کر رہے ہو اسے بھی وہ جانتا ہے اور جن ہتھکنڈوں سے یہ تمہاری سعیِ اصلاح کو ناکام کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اُن کا بھی اسے علم ہے۔ لہٰذا تمہیں گھبرانے اور بے صبر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مطمئن رہو کہ وقت آنے پر ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق فیصلہ چکا دیا جائے گا۔
49. یعنی سورۂ فاتحہ کی آیات ۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ سات بڑی بڑی سورتیں بھی لی ہیں جن میں دو دو سو آیتیں ہیں ، یعنی البقرہ ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف اور یونس ، یا انفاق و توبہ۔ لیکن سلف کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے سورۂ فاتحہ ہی مراد ہے۔ بلکہ امام بخاری نے دو مرفوع روایتیں بھی اس امر کے ثبوت میں پیش کی ہیں کہ خو د نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سبع من المثانی سے مراد سورۂ فاتحہ بتائی ہے۔
50. یہ بات بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آ پ کے ساتھیوں کی تسکین و تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے۔ وقت وہ تھا جب حضور ؐ اور آپ کے ساتھی سب کے سب انتہائی خستہ حالی میں مبتلا تھے۔ کارِ نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالتے ہی حضورؐ کی تجارت قریب قریب ختم ہو چکی تھی اور حضرت خدیجہ ؓ کا سرمایہ بھی دس بارہ سال کے عرصے میں خرچ ہو چکا تھا۔ مسلمانوں میں سے بعض کم سن نوجوان تھے جو گھروں سے نکال دیے گئے تھے ، بعض صنعت پیشہ یا تجارت پیشہ تھے جن کے کاروبار معاشی مقاطعہ کی مسلسل ضرب سے بالکل بیٹھ گئے تھے ، اور بعض بیچارے پہلے ہی غلام یا موالی تھے جن کی کوئی معاشی حیثیت نہ تھی۔ اس پر مزید یہ ہے کہ حضورؐ سمیت تمام مسلمان مکّے اور اطراف و نواح کی بستیوں میں انتہائی مظلومی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہر طرف سے مطعون تھے، ہر جگہ تذلیل و تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنے ہوئے تھے ، اور قلبی و روحانی تکلیفوں کے ساتھ جسمانی اذیّتوں سے بھی کوئی بچا ہو ا نہ تھا۔ دوسری طرف سردارنِ قریش دنیا کی نعمتوں سے مالا مال اور ہر طرح کی خوشحالیوں میں مگن تھے۔ ان حالات میں فرمایا جا رہا ہے کہ تم شکستہ خاطر کیوں ہوتے ہو، تم کو تو ہم نے وہ دولت عطا کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں۔ رشک کے لائق تمہاری یہ علمی و اخلاقی دولت ہے نہ کہ اُن لوگوں کی مادّی دولت جو طرح طرح کے حرام طریقوں سے کما رہے ہیں اور طرح طر ح کے حرام راستوں میں اس کمائی کو اُڑا رہے ہیں اور آخر کار بالکل مفلس و قلاش ہو کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے والے ہیں۔
51. ”یعنی اُن کے اِس حال پر نہ کُڑھو کہ اپنے خیر خواہ کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں، اپنی گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں کو اپنی خوبیاں سمجھے بیٹھے ہیں، خود اُس راستے پر جا رہے ہیں اور اپنی ساری قوم کو اس پر لیے جا رہے ہیں جس کا یقینی انجام ہلاکت ہے ، اور جو شخص اِنہیں سلامتی کی راہ دکھا رہا ہے اُس کی سعیِ اصلاح کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیے ڈالتے ہیں۔
52. اس گروہ سے مراد یہود ہیں۔ ان کو مُقْتَسِمِیْن اس معنی میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے دین کو تقسیم کر ڈالا، اس کی بعض باتوں کو مانا ، اور بعض کو نہ مانا ، اور اس میں طرح طرح کی کمی و بیشی کر کے بیسیوں فرقے بنا لیے۔ ان کے ”قرآن“ سے مراد توراۃ ہے جو ان کو اُسی طرح دی گئی تھی جس طرح اُمتِ محمدیہ کو قرآن دیا گیا ہے۔ اور اس ”قرآن“ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے سے مراد وہی فعل ہے جسے سورۂ بقرہ آیت ۸۵ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اَفَتُؤْ مِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ( کیا تم کتاب اللہ کی بعض باتوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض سے کفر کرتے ہو؟)۔ پھر یہ جو فرمایا کہ یہ تنبیہ جو آج تم کو کی جا رہی ہے یہ ویسی ہی تنبیہ ہے جیسی تم سے پہلے یہود کو کی جا چکی ہے ، تو اس سے مقصود در اصل یہود کے حال سے عبرت دلانا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے خدا کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے غفلت برت کر جو انجام دیکھا ہے وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اب سو چ لو ، کیا تم بھی یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو؟
53. یعنی تبلیغ ِ حق اور دعوتِ اصلاح کی کوششوں میں جن تکلیفوں اور مصیبتوں سے تم کو سابقہ پیش آتا ہے، ان کے مقابلے کی طاقت اگر تمہیں مل سکتی ہے تو صرف نماز اور بندگی رب پر استقامت سے مل سکتی ہے ۔ یہی چیز تمہیں تسلّی بھی دے گی ، تم میں صبر بھی پیدا کرے گی، تمہارا حوصلہ بھی بڑھائے گی ، اور تم کو اس قابل بھی بناد ے گی کہ دنیا بھر کی گالیوں اور مذمتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں اُس خدمت پر ڈٹے رہو جس کی انجا م دہی میں تمہارے رب رضا ہے۔