Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 1-9

اَتٰۤى اَمۡرُ اللّٰهِ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡهُ​ ؕ سُبۡحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿16:1﴾ يُنَزِّلُ الۡمَلٰۤـئِكَةَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِهٖ عَلٰى مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖۤ اَنۡ اَنۡذِرُوۡۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوۡنِ‏ ﴿16:2﴾ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِالۡحَـقِّ​ؕ تَعٰلٰى عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ‏  ﴿16:3﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّـطۡفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيۡمٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿16:4﴾ وَالۡاَنۡعَامَ خَلَقَهَا​ ۚ لَـكُمۡ فِيۡهَا دِفۡ ٴٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنۡهَا تَاۡكُلُوۡنَ‏ ﴿16:5﴾ وَلَكُمۡ فِيۡهَا جَمَالٌ حِيۡنَ تُرِيۡحُوۡنَ وَحِيۡنَ تَسۡرَحُوۡنَ‏ ﴿16:6﴾ وَتَحۡمِلُ اَثۡقَالَـكُمۡ اِلٰى بَلَدٍ لَّمۡ تَكُوۡنُوۡا بٰلِغِيۡهِ اِلَّا بِشِقِّ الۡاَنۡفُسِ​ؕ اِنَّ رَبَّكُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌۙ‏ ﴿16:7﴾ وَّالۡخَـيۡلَ وَالۡبِغَالَ وَالۡحَمِيۡرَ لِتَرۡكَبُوۡهَا وَزِيۡنَةً​ ؕ وَيَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿16:8﴾ وَعَلَى اللّٰهِ قَصۡدُ السَّبِيۡلِ وَمِنۡهَا جَآئِرٌ​ؕ وَلَوۡ شَآءَ لَهَدٰٮكُمۡ اَجۡمَعِيۡنَ‏ ﴿16:9﴾

1 - آگیا اللہ کا فیصلہ،1 اب اس کے لیے جلدی نہ مچاوٴ، پاک ہے وہ اور بالا و بر تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔2 2 - وہ اِس روح3 کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے4(اِس ہدایت کے ساتھ کے لوگوں کو)” آگاہ کر دو، میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو۔“5 3 - اُس نے آسمان و زمین کو بر حق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔6 4 - اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بُوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالُو ہستی بن گیا۔7 5 - اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی ، اور طرح طرح کے دُوسرے فائدے بھی۔ 6 - اُن میں تمہارے لیے جمال ہے جبکہ صبح تم انہیں چَرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جبکہ شام انہیں واپس لاتے ہو۔ 7 - وہ تمہارے لیے بوجھ ڈھو کر ایسے ایسے مقامات تک لے جاتے ہیں جہاں تم سخت جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا ربّ بڑا ہی شفیق اور مہربان ہے۔ 8 - اُس نے گھوڑے اور خچّر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں۔ وہ اور بہت سی چیزیں(تمہارے فائدے کے لیے)پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے۔8 9 - اور اللہ ہی کے ذمّہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں۔9 اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیت10 ؏ ۱


Notes

1. یعنی بس وہ آیا ہی چاہتا ہے ۔ اُس کے ظہور و نفاد کا وقت قریب آ لگا ہے ۔۔۔۔۔ اس بات کو صیغہْ ماضی میں یا تو اس کے انتہائی یقینی اور انتہائی قریب ہونے کا تصور دلانے کے لیے فرمایا گیا ،یا پھر اس لیے کہ کفار قریش کی سرکشی و بدعملی کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور آخری فیصلہ کُن قدم اُٹھائے جانے کا وقت آگیا تھا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ”فیصلہ“ کیا تھا اور کس شکل میں آیا؟ ہم یہ سمجھتے ہیں (واللہ اعلم بالصواب ) کہ اس فیصٖلے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت ہے جس کاحکم تھوڑی مدت بعد ہی دیا گیا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی جن لوگوں کے درمیان مبعوث ہوتا ہے اُن کے حجُود و انکار کی آخری سرحد پر پہنچ کر اُسے ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے اور یہ حکم اُن کی قسمت کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ اس کے بعد یا تواُن پر تباہ کُن عذاب آجاتا ہے ، یا پھر نبی اور اس کے متبعین کے ہاتھوں ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جاتی ہے ۔ یہی بات تاریخ سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ ہجرت جب واقع ہوئی تو کفارِ مکہ سمجھے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے۔ مگر آٹھ دس سال کے اندر ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف مکّے سے بلکہ پوری سرزمین عرب ہی سے کفر و شرک کی جڑیں اکھاڑ پھینک دی گئیں۔

2. پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کا باہمی ربط سمجھنے کے لیے پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ کفار جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار چیلنج کر رہے تھے کہ اب کیوں نہیں آجاتا خدا کو وہ فیصلہ جس کے تم ہمیں ڈراوے دیا کرتے ہو، اس کے پیچھے دراصل ان کا یہ خیال کار فرما تھا کہ اُن کا مشرکانہ مذہب ہی بر حق ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خواہ مخواہ اللہ کا نام لے لے کر ایک غلط مذہب پیش کر رہے ہیں جسے اللہ کی طرف سے کوئی منظوری حاصل نہیں ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ سے پھرے ہوئے ہوتے اور محمدؐ اس کے بھیجے ہوئے نبی ہوتے اور پھر بھی جو کچھ ہم ان کے ساتھ کر رہے ہیں اُس پر ہماری شامت نہ آجاتی۔ اس لیے خدائی فیصلے کا اعلان کرتے ہی فورًا یہ ارشاد ہوا ہے اس کے نفاذ میں تاخیر کی وجہ ہر گز وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ہو۔ اللہ اس سے بلند تر اور پاکیزہ تر ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو۔

3. یعنی روح ِ نبوت کو جس سے بھر کر نبی کام اور کلام کرتا ہے۔ یہ وحی اور یہ پیغمبرانہ اسپرٹ چونکہ اخلاقی زندگی میں وہی مقام رکھتی ہے جو طبعی زندگی میں روح کا مقام ، اس لیے قرآن میں متعدد مقامات پر اس کے لیے روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اِسی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائیوں نے روح القدس (Holy spirit) کو تین خداؤں میں سے ایک خدا بنا ڈالا۔

4. فیصلہ طلب کر نے کے لیے کفار جو چیلنج کر رہے تھے ا س کے پس پشت چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار بھی موجود تھا ، اس لیے شرک کی تردید کے ساتھ اور اس کے معًا بعد آپ کی نبوت کا اثبات فرمایا گیا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بناوٹی باتیں ہیں جو یہ شخص بنا رہا ہے ۔ اللہ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ نہیں ، یہ ہماری بھیجی ہوئی روح ہے جس سے لبریز ہو کر یہ شخص نبوت کر رہا ہے۔

پھر یہ جو فرمایا کہ اپنے جس بندے پر اللہ چاہتا ہے یہ روح نازل کرتا ہے ، تو یہ کفارکے اُن اعتراضات کا جواب ہے جو وہ حضور پر کرتے تھے کہ اگر خدا کو نبی ہی بھیجنا تھا تو کیا بس محمدؐ بن عبداللہ ہی اس کام کے لیے رہ گیا تھا ، مکّے اور طائف کے سارے بڑے بڑے سردار مر گئے تھے کہ ان میں سے کسی پر بھی نگاہ نہ پڑ سکی! اس طرح کے بیہودہ اعتراضات کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا ، اور یہی متعدد مقامات پر قرآن میں دیاگیا ہے کہ خدا اپنے کام کو خود جانتا ہے ، تم سے مشورہ لینے کی حاجت نہیں ہے، وہ اپنے بندوں میں جس کو مناسب سمجھتا ہے آپ ہی اپنے کام کے لیے منتخب کر لیتا ہے۔

5. اس فقرے سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ رُوحِ نبوت جہاں جس انسان پر بھی نازل ہوئی ہے یہی ایک دعوت لے کر آئی ہے کہ خدائی صرف ایک اللہ کی ہے اور بس وہی اکیلا اِس کا مستحق ہے کہ اس سے تقویٰ کیا جائے۔ کوئی دوسرا ا س لائق نہیں کہ اس کی ناراضی کا خوف، اس کی سزا کا ڈر ، اور اس کی نافرمانی کے نتائج بد کا اندیشہ انسانی اخلاق کا لنگر اور انسانی فکر و عمل کے پورے نظام کا محور بن کر رہے۔

6. دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات جس کی دعوت خدا کے پیغمبر دیتے ہیں، اسی کی شہادت زمین وآسمان کا پورا کارخانۂ تخلیق دے رہا ہے۔ یہ کارخانۂ کوئی خیالی گورکھ دھندا نہیں ہے ، بلکہ ایک سراسر مبنی بر حقیقت نظام ہے۔ اس میں تم جس طرف چاہو نگاہ اُٹھا کر دیکھ لو ، شرک کی گواہی کہیں سے نہ ملے گی، اللہ کے سوا دوسرے کی خدائی کہیں چلتی نظر نہیں آئے گی، کسی چیز کی ساخت یہ شہادت نہ دے گی کہ اس کا وجود کسی اور کا بھی رہینِ منت ہے ۔ پھر جب یہ ٹھوس حقیقت پر بنا ہوا نظام خالص توحید پر چل رہا ہے تو آخر تمہارے اِس شرک کا سکہ کس جگہ رواں ہو سکتا ہے جبکہ اس کی تہ میں وہم و گمان کے سوا واقعیت کا شائبہ تک نہیں ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد آثارِ کائنات سے اور خود انسان کے اپنے وجود سے وہ شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جو ایک طرف توحید پر اور دوسری طرف رسالت پر دلالت کرتی ہیں۔

7. اس کےدو معنی ہو سکتے ہیں اور غالبًا دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے نطفے کی حقیر سی بوند سے وہ انسان پیدا کیا جو بحث واستدلال کی قابلیت رکھتا ہے اور اپنے مدّعا کے لیے حجتیں پیش کر سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس انسان کو خدا نے نطفے جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا ہے ، اس کی خودی کا طغیان تو دیکھو کہ وہ خود خدا ہی کے مقابلہ میں جھگڑنے پراُتر آیا ہے ۔ پہلے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت اُسی استدلال کی ایک کڑی ہے جو آگے مسلسل کئی آیتوں میں پیش کیا گیا ہے( جس کی تشریح ہم اس سلسلۂ بیان کے آخر میں کریں گے)۔ اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے سے پہلے ذرا اپنی ہستی کو دیکھ۔ کس شکل میں تو کہاں سے نکل کرکہاں پہنچا، کس جگہ تو نے ابتداء ً پرورش پائی، پھر کس راستے سے تو برآمد ہو کر دنیا میں آیا، پھر کن مرحلوں سے گزرتا ہوا تُو جوانی کی عمر کو پہنچا اور اب اپنے آپ کو بھو ل کر تُو کس کے منہ آرہا ہے۔

8. یعنی بکثرت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی بھلائی کے لیے کام کر رہی ہیں اور انسان کو خبر تک نہیں ہے کہ کہاں کہاں کتنے خُدّام اُس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور کیا خدمت انجام دے رہے ہیں۔

9. توحید اور رحمت و ربوبیت کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہاں اشارۃً نبوت کی بھی ایک دلیل پیش کر دی گئی ہے ۔ اس دلیل کا مختصر بیان یہ ہے:

دنیا میں انسان کی فکر و عمل کے بہت سے مختلف راستے ممکن ہیں اور عملًا موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے راستے بیک وقت تو حق نہیں ہو سکتے۔ سچائی تو ایک ہی ہے اور صحیح نظریۂ حیات صرف وہی ہو سکتا ہے جو اُس سچائی کے مطابق ہو ۔ اور عمل کے بے شمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہو سکتا ہے جو صحیح نظریہ ٔ حیات پر مبنی ہو۔

اس صحیح نظریے اور صحیح راہِ عمل سے واقف ہونا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے ، بلکہ اصل بنیادی ضرورت یہی ہے۔ کیونکہ دوسری تمام چیزیں تو انسان کی صرف اُن ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک اونچے درجے کا جانور ہونے کی حیثیِت سے اس کو لاحق ہوا کرتی ہیں۔ مگر یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے۔ یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہو گئی۔

اب غور کرو کہ جس خدا نے تمہیں وجود میں لانے سے پہلے تمہارے لیے یہ کچھ سرو سامان مہیا کر کے رکھا اور جس نے وجود میں لانے بعد تمہاری حیوانی زندگی کی ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا اِتنی دقیقہ سنجی کے ساتھ اِتنے بڑے پیمانے پر انتظام کیا، کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ اس نے تمہاری انسانی زندگی کی اِس سب سے بڑی اور اصلی ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست نہ کیا ہوگا؟

یہی بندوبست تو ہے جو نبوت کے ذریعہ سے کیا گیا ہے۔ اگر تم نبوت کو نہیں مانتے تو بتاؤ کہ تمہارے خیال میں خدا نے انسان کی ہدایت کے لیے اور کونسا انتظام کیا ہے؟ اِس کے جواب میں تم نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہمیں راستہ تلاش کرنے کے لیے عقل و فکر دے رکھی ہے، کیونکہ انسانی عقل و فکر پہلے ہی بے شمار مختلف راستے ایجاد کر بیٹھی ہے جو راہِ راست کی صحیح دریافت میں اس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ اور نہ تم یہی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے، کیونکہ خدا کے ساتھ اِس سے بڑھ کر بدگمانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ جانور ہونے کی حیثیت سے تو تمہاری پرورش اور تمہارے نشونما کا اِتنا مفصل اور مکمل انتظام کرے، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے تم کو یونہی تاریکیوں میں بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الرحمٰن، حاشیہ نمبر ۲ – ۳)۔

10. یعنی اگرچہ یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اِس ذمہ داری کو (جو نوع انسان کی رہنمائی کے لیے اس نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے) اس طرح ادا کرتا کہ سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر دوسری تمام بے اختیار مخلوقات کے مانند بر سر ہدایت بنا دیتا۔ لیکن یہ اس کی مشیت کا تقاضا نہ تھا۔ اُس کی مشیت ایک ایسی ذی اختیار مخلوق کو وجود میں لانے کی متقاضی تھی جو اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے صحیح اور غلط ، ہر طرح کے راستوں پر جانے کی آزادی رکھتی ہو۔ اسی آزادی کے استعمال کے لیے اس کو علم کے ذرائع دیے گئے، عقل و فکر کی صلاحیتیں دی گئیں، خواہش اور ارادے کی طاقتیں بخشی گئیں، اپنے اندر اور باہر کی بے شمار چیزوں پر تصرف کے اختیارات عطا کیے گئے، اور باطن و ظاہر میں ہر طرف بے شمار ایسے اسباب رکھ دیے گئے جو اس کے لیے ہدایت اور ضلالت ، دونوں کے موجب بن سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ بے معنی ہو جاتا اگر وہ پیدائشی طور پر راست رو بنا دیا جاتا ۔ اور ترقی کے اُن بلند مدارج تک بھی انسان کا پہنچنا ممکن نہ رہتا جو صرف آزادی کے صحیح استعمال ہی کے نتیجے میں اس کو مل سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جبری ہدایت کا طریقہ چھوڑ کر رسالت کا طریقہ اختیار فرمایا تا کہ انسان کی آزادی بھی برقرار رہے، اور اس کے امتحان کا منشا بھی پورا ہو، اور راہِ راست بھی معقول ترین طریقہ سے اس کے سامنے پیش کر دی جائے۔