Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 10-21

هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً​ لَّـكُمۡ مِّنۡهُ شَرَابٌ وَّمِنۡهُ شَجَرٌ فِيۡهِ تُسِيۡمُوۡنَ‏ ﴿16:10﴾ يُنۡۢبِتُ لَـكُمۡ بِهِ الزَّرۡعَ وَالزَّيۡتُوۡنَ وَالنَّخِيۡلَ وَالۡاَعۡنَابَ وَمِنۡ كُلِّ الثَّمَرٰتِ​ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لِّـقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ‏  ﴿16:11﴾ وَسَخَّرَ لَـكُمُ الَّيۡلَ وَالنَّهَارَۙ وَالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ​ؕ وَالنُّجُوۡمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمۡرِهٖؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَۙ‏  ﴿16:12﴾ وَمَا ذَرَاَ لَـكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ مُخۡتَلِفًا اَلۡوَانُهٗ​ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لّـِقَوۡمٍ يَّذَّكَّرُوۡنَ‏ ﴿16:13﴾ وَهُوَ الَّذِىۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡكُلُوۡا مِنۡهُ لَحۡمًا طَرِيًّا وَّتَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡهُ حِلۡيَةً تَلۡبَسُوۡنَهَا​ۚ وَتَرَى الۡـفُلۡكَ مَوَاخِرَ فِيۡهِ وَلِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿16:14﴾ وَاَلۡقٰى فِى الۡاَرۡضِ رَوَاسِىَ اَنۡ تَمِيۡدَ بِكُمۡ وَاَنۡهٰرًا وَّسُبُلًا لَّعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَۙ‏ ﴿16:15﴾ وَعَلٰمٰتٍ​ؕ وَبِالنَّجۡمِ هُمۡ يَهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿16:16﴾ اَفَمَنۡ يَّخۡلُقُ كَمَنۡ لَّا يَخۡلُقُ​ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿16:17﴾ وَاِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَةَ اللّٰهِ لَا تُحۡصُوۡهَاؕ اِنَّ اللّٰهَ لَـغَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿16:18﴾ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَ مَا تُعۡلِنُوۡنَ‏ ﴿16:19﴾ وَالَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَخۡلُقُوۡنَ شَيۡـئًا وَّهُمۡ يُخۡلَقُوۡنَؕ‏ ﴿16:20﴾ اَمۡوَاتٌ غَيۡرُ اَحۡيَآءٍ​ ۚ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَ اَيَّانَ يُبۡعَثُوۡنَ‏  ﴿16:21﴾

10 - وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے۔ 11 - وہ اس پانی کے ذریعہ سے کھیتیاں اُگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور طرح طرح کے دُوسرے پھل پیدا کرتا ہے۔ اِس میں ایک بڑی نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ 12 - اُس نے تمہاری بھلائی کے لیے رات اور دن کو اور سُورج اور چاند کو مسخّر کر رکھا ہے اور سب تارے بھی اُسی کے حکم سے مسخّر ہیں۔ اِس میں بہت نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ 13 - اور یہ جو بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اس نے تمہارے لیے زمین میں پیدا کر رکھی ہیں، اِن میں بھی ضرور نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو سبق حاصل کرنے والے ہیں۔ 14 - وہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخّر کر رکھا ہے تاکہ تم اس سے تر و تازہ گوشت لے کر کھاوٴ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنا کرتے ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی چلتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپنے ربّ کا فضل تلاش کرو11 اور اس کے شکر گزار بنو۔ 15 - اُس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈُھلک نہ جائے۔12 اس نے دریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے13 تاکہ تم ہدایت پاوٴ۔ 16 - اس نے زمین میں راستہ بتانے والی علامتیں رکھ دیں،14 اور تاروں سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں۔15 17 - پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے ، دونوں یکساں ہیں؟16 کیا تم ہوش میں نہیں آتے؟ 18 - اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گِن نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے،17 19 - حالانکہ وہ تمہارے کھُلے سے بھی واقف ہے اور چھُپے سے بھی۔18 20 - اور وہ دُوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں ، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں۔ 21 - مُردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب(دوبارہ زندہ کر کے)اُٹھایا جائے گا۔19 ؏ ۲


Notes

11. یعنی حلال طریقوں سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرو۔

12. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سطحِ زمین پر پہاڑوں کے ابھار کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زمین کی گردش اور اس کی رفتار میں انضباط پیدا ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر پہاڑوں کے اس فائدے کو نمایاں کر کے بتایا گیا ہے جس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے تمام فائدے ضمنی ہیں اور اصل فائدہ یہی حرکت ِ زمین کو اضطراب سے بچا کر منضبط (Regulate ) کرنا ہے۔

13. یعنی وہ راستے جو ندی نالوں اور دریاؤں کے ساتھ بنتے چلے جاتے ہیں۔ ان قدرتی راستوں کی اہمیت خصوصیت کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں محسوس ہوتی ہے، اگرچہ میدانی علاقوں میں بھی وہ کچھ کم اہم نہیں ہیں۔

14. یعنی خدا نے ساری زمین بالکل یکساں بنا کر نہیں رکھ دی ہے بلکہ ہر خطے کو مختلف امتیازی علامات(Landmarks ) سے ممتاز کیا۔ اِس کے بہت سے دوسرے فوائد کے ساتھ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے راستےا ور منزل مقصود کو الگ پہچان لیتا ہے۔ اس نعمت کی قدر آدمی کو اسی وقت معلوم ہوتی ہے جبکہ اسے کبھی ایسے ریگستانی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو جہاں اس طرح کے امتیازی نشانات تقریبًا مفقود ہوتے ہیں اور آدمی ہر وقت بھٹک جانے کا خطرہ محسوس کرتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بحری سفر میں آدمی کو اس عظیم الشان نعمت کا احساس ہوتا ہے ،کیونکہ وہاں نشاناتِ راہ بالکل ہی مفقود ہوتے ہیں ۔ لیکن صحراؤں اور سمندروں میں بھی اللہ نے انسان کی رہنمائی کا ایک فطری انتظام کر رکھا ہے اور وہ ہیں تارے جنہیں دیکھ دیکھ کر انسان قدیم ترین زمانے سے آج تک اپنا راستہ معلوم کر رہا ہے۔

یہاں پھر توحیداور رحمت و ربوبیت کی دلیلوں کے درمیان ایک لطیف اشارہ دلیل ِ رسالت کی طرف کر دیا گیا ہے۔ اس مقام کو پڑھتے ہوئے ذہن خود بخود اس مضمون کی طرف منتقل ہوتا ہے کہ جس خدا نے تمہاری مادّی زندگی میں تمہاری رہنمائی کے لیے یہ کچھ انتظامات کیے ہیں کیا وہ تمہاری اخلاقی زندگی سے اتنا بے پروا ہو سکتا ہے کہ یہاں تمہاری ہدایت کا کچھ بھی انتظام نہ کرے؟ ظاہر ہے کہ مادّی زندگی میں بھٹک جانے کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اخلاقی زندگی میں بھٹکنے کے نقصان سے بدرجہا کم ہے۔ پھر جس ربِّ رحیم کو ہماری مادّی فلاح کی اتنی فکر ہے کہ پہاڑوں میں ہمارے لیے راستے بناتا ہے، میدانوں میں نشاناتِ راہ کھڑے کرتا ہے، صحراؤں اور سمندروں میں ہم کو صحیح سمتِ سفر بتانے کے لیے آسمانوں پر قندیلیں روشن کر تا ہے ، اس سے یہ بدگمانی کیسے کی جا سکتی ہے کہ اس نے ہماری اخلاقی فلا ح کے لیے کوئی راستہ نہ بنایا ہو ا، اس راستے کو نمایاں کر نے کے لیے کوئی نشان نہ کھڑا کیا ہو گا، اور اُسے صاف صاف دکھانے کے لیے کوئی سراج منیر روشن نہ کیا ہوگا؟

15. یہاں تک آفاق اور اَنفُس کی بہت سی نشانیاں جو پے در پے بیان کی گئی ہیں ان سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ انسان اپنے وجود سے لے کر زمین اور آسمان کے گوشے گوشے تک جدھر چاہے نظر دوڑا کر دیکھ لے ، ہر چیز پیغمبر کے بیان کی تصدیق کر رہی ہے اور کہیں سے بھی شرک کی۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ دہریت کی بھی ۔۔۔۔۔۔ تائید میں کوئی شہادت فراہم نہیں ہوتی ۔ یہ ایک حقیر بوند سے بولتا چالتااور حجّت و استدلال کرتا انسان بنا کھڑا کرنا۔ یہ اُس کی ضرورت کے عین مطابق بہت سے جانور پیدا کرنا جن کے بال اور کھال ، خون اور دودھ ، گوشت اور پیٹھ، ہر چیز میں انسانی فطرت کے بہت سے مطالبات کا ، حتیٰ کہ اس کے ذوق جمال کی مانگ تک کا جواب موجود ہے۔ یہ آسمان سے بارش کا انتظام ، اور یہ زمین میں طرح طرح کے پھلوں اور غلّوں اور چاروں کی روئیدگی کا انتظام ، جس کے بے شمار شعبے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتے چلے جاتےہیں اور پھر انسان کی بھی فطری ضرورتوں کے عین مطابق ہیں۔ یہ رات اور دن کی باقاعدہ آمدو رفت ، اور یہ چاند اور سورج اور تاروں کی انتہائی منظم حرکات ، جن کا زمین کی پیداوار اور انسان کی مصلحتوں سے اِتنا گہرا ربط ہے۔ یہ زمین میں سمندروں کا وجود اور یہ اُن کے اندر انسان کی بہت سی طبعی اور جمالی طلبوں کا جواب۔ یہ پانی کا چند مخصوص قوانین سے جکڑا ہوا ہونا، اور پھر اس کے یہ فائدے کہ انسان سمندر جیسی ہولناک چیز کا سینہ چیرتا ہوا اس میں اپنے جہاز چلا تا ہے اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفر اور تجارت کرتا پھرتا ہے۔ یہ دھرتی کے سینے پر پہاڑوں کے اُبھار او ر یہ انسان کی ہستی کے لیے اُن کے فائدے۔ یہ سطح زمین کی ساخت سے لےکر آسمان کی بلند فضاؤں تک بے شمار علامتوں اور امتیازی نشانوں کا پھیلاؤ اور پھر اس طرح ان کا انسان کے لیے مفید ہونا۔ یہ ساری چیزیں صاف شہادت دے رہی ہیں کہ ایک ہی ہستی نے یہ منصوبہ سوچا ہے، اُسی نے اپنے منصوبے کے مطابق ان سب کو ڈیزائن کیا ہے، اُسی نے اِ س ڈیزائن پر ان کو پیدا کیا ہے، وہی ہر آن اس دنیا میں نِت نئی چیزیں بنا بنا کر اس طرح لا رہا ہےکہ مجموعی اسکیم اور اس نظم میں ذرا فرق نہیں آتا، اور وہی زمین سے لے کر آسمانوں تک اس عظیم الشان کارخانے کو چلا رہا ہے۔ ایک بے وقوف یا ایک ہٹ دھرم کے سوا اور کون یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک اتفاقی حادثہ ہے؟ یا یہ کہ اس کمال درجۂ منظم، مربوط اور متناسب کائنات کے مختلف کام یا مختلف اجزا مختلف خداؤں کے آفریدہ اور مختلف خداؤں کے زیرِ انتظام ہیں؟

16. یعنی اگر تم یہ مانتے ہو (جیسا کہ فی الواقع کفارِ مکہ بھی مانتے تھے اور دنیا کے دوسرے مشرکین بھی مانتے ہیں) کہ خالق اللہ ہی ہے اور اس کائنات کے اندر تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں سے کسی کا کچھ بھی پیدا کیا ہوا نہیں ہے توپھر کیسے ہو سکتاہے کہ خالق کے خلق کیے ہوئے نظام میں غیر خالق ہستیوں کی حیثیت خود خالق کے برابر یا کسی طرح بھی اُس کے مانند ہو؟ کیونکر ممکن ہے کہ اپنی خلق کی ہوئی کائنات میں جو اختیارات خالق کے ہیں وہی ان غیر خالقوں کے بھی ہوں، اور اپنی مخلوق پر جو حقوق خالق کو حاصل ہیں وہی حقوق غیر خالقوں کو بھی حاصل ہوں؟ کیسے باور کیا جا سکتاہے کہ خالق اور غیر خالق کی صفات ایک جیسی ہوں گی، یا وہ ایک جنس کے افراد ہوں گے، حتیٰ کہ ان کے درمیان باپ اور اولاد کا رشتہ ہو گا؟

17. پہلے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک پوری داستان ان کہی چھوڑ دی ہے، اس لیے کہ وہ اس قد ر عیاں ہے اور اس کے بیا ن کے حاجت نہیں۔ اسکی طرف محض یہ لطیف اشارہ ہی کافی ہے کہ اللہ کے بے پایاں احسانات کا ذکر کرنے معاً بعد اس کے غفور و رحیم ہونے کا ذکر کر دیا جائے۔ اسی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جس انسان کا بال بال اللہ کے احسانات میں بندھا ہوا ہے وہ اپنے محسن کی نعمتوں کا جواب کیسی کیسی نمک حرامیوں، بے وفائیوں، غداریوں اور سر کشیوں سے دے رہاہے، اور پھر اس کا محسن کیسا رحیم اور حلیم ہے کہ ان ساری حرکتوں کے باوجود سالہا سال ایک نمک حرام شخص کو اور صد ہا برس ایک باغی قوم کو اپنی نعمتوں سے نوازتا چلا جاتا ہے۔ یہاں وہ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو علانیہ خالق کی ہستی ہی کے منکر ہیں اور پھر نعمتوں سے مالا مال ہوئے جا رہے ہیں۔ وہ بھی پائے جاتے ہیں جو خالق کی ذات ، صافت، اختیارات، حقوق ، سب میں غیر خالق ہستیوں کو اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں اور منعم کی نعمتوں کا شکریہ غیر منعموں کو ادا کر رہے ہیں، پھر بھی نعمت دینے والا ہاتھ نعمت دینے سے نہیں رُکتا۔ وہ بھی ہیں جو خالق کو خالق اور منعم ماننے کے باوجود اس کے مقابلے میں سر کشی و نافرمانی ہی کو اپنا شیوہ اور اس کی اطاعت سے آزادی ہی کو اپنا مسلک بنائے رکھتے ہیں، پھر مدت العمر اس کے بے حد و حساب احسانات کا سلسلہ اُن پر جاری رہتا ہے۔

18. یعنی کوئی احمق یہ نہ سمجھے کہ انکار ِ خد ااور شرک اور معصیت کے باوجود نعمتوں کا سلسلہ کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ کو لوگوں کے کرتوتوں کی خبر نہیں ہے۔ یہ کوئی اندھی بانٹ اور غلط بخشی نہیں ہے کہ جو بے خبری کی وجہ سے ہو رہی ہو۔ یہ تو وہ حلم اور درگزر ہے جو مجرموں کے پوشیدہ اسرار بلکہ دل کی چھپی ہوئی نیتوں سے واقف ہونے کے باوجود کیا جا رہا ہے، اور یہ وہ فیاضی و عالی ظرفی ہے جو صرف ربّ العالمین ہی کو زیب دیتی ہے۔

19. یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جا رہی ہے وہ فرشتے ، یا جنّ ، یا شیاطین، یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں، بلکہ اصحابِ قبور ہیں۔ ا س لیے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں، ان پر اَمْواتٌ غَیْرُ اَحْیَآ ءٍ کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے، اس لیے مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کر دیتے ہیں ۔ اب لا محالہ اس آیت میں اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین داتا ، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز، گنج بخش ، اور نامعلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے جاتے تھے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ جاہلیتِ عرب کی تعریف سے اس کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ کون پڑھا لکھا نہیں جانتا ہے کہ عرب کے متعدد قبائل ، ربیعہ،کلب، تغلِب، قُضَاعَہ، کِنانہ، حَرث، کعب، کِندَہ وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے، اور یہ دونوں مذاہب بُری طرح انبیاء اولیاء اور شہدا ء کی پرستش سے آلودہ تھے۔ پھر مشرکین عرب کے اکثر نہیں تو بہت سے معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا۔ بخاری میں ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ ودّ، سُواع، یغوث، یعُوق، نسر، یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بُت بنا بیٹھے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ اِساف اور نائلہ دونوں انسان تھے۔ اسی طرح کی روایات لات اور مُناۃ اور عُزّیٰ کے بارے میں موجود ہیں۔ اور مشرکین کا یہ عقیدہ بھی روایات میں آیا ہے کہ لات اور عزّیٰ اللہ کے ایسے پیارے تھے کہ اللہ میاں جاڑا لات کے ہاں اور گرمی عزّیٰ کے ہاں بسر کرتے تھے۔ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعَالیٰ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔