Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 101-110

وَاِذَا بَدَّلۡنَاۤ اٰيَةً مَّكَانَ اٰيَةٍ​ۙ وَّ اللّٰهُ اَعۡلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُفۡتَرٍؕ بَلۡ اَكۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿16:101﴾ قُلۡ نَزَّلَهٗ رُوۡحُ الۡقُدُسِ مِنۡ رَّبِّكَ بِالۡحَـقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهُدًى وَّبُشۡرٰى لِلۡمُسۡلِمِيۡنَ‏ ﴿16:102﴾ وَلَـقَدۡ نَـعۡلَمُ اَنَّهُمۡ يَقُوۡلُوۡنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ​ؕ لِسَانُ الَّذِىۡ يُلۡحِدُوۡنَ اِلَيۡهِ اَعۡجَمِىٌّ وَّهٰذَا لِسَانٌ عَرَبِىٌّ مُّبِيۡنٌ‏  ﴿16:103﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِۙ لَا يَهۡدِيۡهِمُ اللّٰهُ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿16:104﴾ اِنَّمَا يَفۡتَرِى الۡـكَذِبَ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ​ۚ وَاُولٰۤـئِكَ هُمُ الۡكٰذِبُوۡنَ‏ ﴿16:105﴾ مَنۡ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِيۡمَانِهٖۤ اِلَّا مَنۡ اُكۡرِهَ وَقَلۡبُهٗ مُطۡمَـئِنٌّۢ بِالۡاِيۡمَانِ وَلٰـكِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡكُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَيۡهِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ​ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿16:106﴾ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمُ اسۡتَحَبُّوا الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا عَلَى الۡاٰخِرَةِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿16:107﴾ اُولٰۤـئِكَ الَّذِيۡنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ وَسَمۡعِهِمۡ وَاَبۡصَارِهِمۡ​ۚ وَاُولٰۤـئِكَ هُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ‏ ﴿16:108﴾ لَا جَرَمَ اَنَّهُمۡ فِى الۡاٰخِرَةِ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ‏ ﴿16:109﴾ ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا فُتِنُوۡا ثُمَّ جٰهَدُوۡا وَصَبَرُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنۡۢ بَعۡدِهَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿16:110﴾

101 - جب ہم ایک آیت کی جگہ دُوسری آیت نازل کرتے ہیں۔۔۔۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے ۔۔۔۔ تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم یہ قرآن خود گھڑتے ہو۔102 اصل بات یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں۔ 102 - اِن سے کہو کہ اسے تو روُح القُدس نے ٹھیک ٹھیک میرے ربّ کی طرف سے بتدریج نازل کیا103 ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے104 اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائےاور105 انہیں فلاح و سعادت کی خوشخبری دے۔106 103 - ہمیں معلوم ہے یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں کہ اِس شخص کو ایک آدمی سِکھاتا پڑھاتا ہے۔107 حالانکہ اُن کا اشارہ جس آدمی کی طرف ہے اُس کی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔ 104 - حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیات کو نہیں مانتے اللہ کبھی اُن کو صحیح بات تک پہنچنے کی توفیق نہیں دیتا اور ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ 105 - (جھوٹی باتیں نبی نہیں گھڑتا بلکہ)جھُوٹ وہ لوگ گھڑ رہے ہیں جو اللہ کی آیات کو نہیں مانتے،108 وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں۔ 106 - جو شخص ایمان لانے کے بعد کُفر کرے (وہ اگر)مجبور کیا گیا ہو اور دل اُس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر)مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کُفر کو قبول کر لیا اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔109 107 - یہ اس لیے کہ اُنہوں نے آخرت کے مقابلہ میں دُنیا کی زندگی کو پسند کر لیا، اور اللہ کا قاعدہ ہے کہ وہ اُن لوگوں کو راہِ نجات نہیں دِکھاتا جو اُس کی نعمت کا کُفران کریں۔ 108 - یہ وہ لوگ ہیں جن کے دِلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مُہر لگا دی ہے۔ یہ غفلت میں ڈُوب چکے ہیں۔ 109 - ضرور ہے کہ آخرت میں یہی خسارے میں رہیں۔110 110 - بخلاف اس کے جِن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب(ایمان لانے کی وجہ سے)وہ ستائے گئے تو اُنہوں نے گھر بار چھوڑ دیے، ہجرت کی، راہِ خدا میں سختیاں جھیلیں اور صبر سے کام لیا،111 اُن کےلیے یقیناً تیرا ربّ غفور و رحیم ہے۔ ؏ ١۴


Notes

102. ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے سے مراد ایک حکم کے بعد دوسرا حکم بھیجنا بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کے احکام بتدریج نازل ہو ئے ہیں اور بارہا ایک ہی معاملہ میں چند سال کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے دو دو ، تین تین حکم بھیجے گئے ہیں۔ مثلًا شراب کا معاملہ ، یا زنا کی سزا کا معاملہ۔ لیکن ہم کو یہ معنی لینے میں اس بنا پر تامل ہے کہ سورۂ نحل کی یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی ہے، اورجہاں تک ہمیں معلوم ہے اس دَور میں تدریج فی الاحکام کی کوئی مثال پیش نہ آئی تھی۔ اس لیے ہم یہاں ”ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے“ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کبھی ایک مضمون کو ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے اور کبھی وہی مضمون سمجھانے کے لیے دوسری مثال سے کام لیا گیا ہے۔ ایک ہی قصہ بار بار آیا ہے اور ہر مرتبہ اسے دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک معاملہ کا کبھی ایک پہلو پیش کیا گیا ہے اور کبھی اُسی معاملے کا دوسرا پہلو سامنے لایا گیا ہے۔ ایک بات کے لیے کبھی ایک دلیل پیش کی گئی ہے اور کبھی دوسری دلیل۔ ایک بات ایک وقت میں مجمل طور پر کہی گئی ہے اور دوسرے وقت میں مفصل۔ یہی چیز تھی جسے کفارِ مکّہ اس بات کی دلیل ٹھیراتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، معاذ اللہ ، یہ قرآن خود تصنیف کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر اس کلام کا منبع علمِ الہٰی ہوتا تو پوری بات بیک وقت کہہ دی جاتی۔ اللہ کوئی انسا ن کی طرح ناقص العلم تھوڑا ہی ہے کہ سوچ سوچ کر بات کرے، رفتہ رفتہ معلومات حاصل کرتا رہے، اور ایک بات ٹھیک بیٹھتی نظر نہ آئے تو دوسرے طریقہ سے بات کرے یہ تو انسانی علم کی کمزوریاں ہیں جو تمہارے اس کلام میں نظر آرہی ہیں۔

103. ”روح القدس“ کا لفظی ترجمہ ہے”پاک رُوح“ یا ”پاکیزگی“ ۔ اور اصطلاحًا یہ لقب حضرت جبریلؑ کو دیا گیا ہے۔ یہاں وحی لانے والے فرشتے کا نام لینے کے بجائے اس کا لقب استعمال کرنے سے مقصود سامعین کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ اِس کلام کو ایک ایسی روح لے کر آرہی ہے جو بشری کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے۔ وہ نہ خائن ہے کہ اللہ کچھ بھیجے اور وہ اپنی طرف سے کمی بیشی کر کے کچھ اور بنادے۔ نہ کذّاب و مفتری ہے کہ خود کوئی بات گھڑ کے اللہ کے نام سے بیان کر دے۔ نہ بدنیت ہے کہ اپنی کسی نفسانی غرض کی بنا پر دھوکے اور فریب سے کام لے۔ وہ سراسر ایک مقدس و مطہر روح ہے جو اللہ کا کلام پوری امانت کے ساتھ لا کر پہنچاتی ہے۔

104. یعنی اُس کے بتدریج اِس کلام کو لے کر آنے اور بیک وقت سب کچھ نہ لے آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کے علم و دانش میں کوئی نقص ہے ، جیسا کہ تم نے اپنی نادانی سے سمجھا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی قوتِ فہم اور قوتِ اخذ میں نقص ہے جس کے سبب سے وہ بیک وقت ساری بات کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ایک وقت کی سمجھی ہوئی بات میں پختہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت اِس بات کی مقتضی ہوئی کہ روح القدس اِس کلام کو تھوڑا تھوڑا کر کے لائے، کبھی اجمال سے کام لے اور کبھی اسی بات کی تفصیل بتائے، کبھی ایک طریقہ سے بات سمجھائے اور کبھی دوسرے طریقے سے، کبھی ایک پیرایۂ بیان اختیار کرے اور کبھی دوسرا، اور ایک ہی بات کو بار بار طریقے طریقے سےذہن نشین کر نے کی کوشش کرے ، تاکہ مختلف قابلیتوں اور استعدادوں کے طالبینِ حق ایمان لا سکیں اور ایمان لانے کے بعد علم و یقین اور فہم و ادراک میں پختہ ہو سکیں۔

105. یہ اس تدریج کی دوسری مصلحت ہے۔ یعنی یہ کہ جو لوگ ایمان لا کر فرمانبرداری کی راہ چل رہے ہیں ان کی دعوت ِ اسلامی کے کام میں اور زندگی کے پیش آمدہ مسائل میں جس موقع پر جس قسم کی ہدایات درکار ہوں وہ بر وقت دے دی جائیں ۔ ظاہر ہے کہ نہ انہیں قبل از وقت بھیجنا مناسب ہو سکتا ہے ، اور نہ بیک وقت ساری ہدایات دے دینا مفید ہے۔

106. یہ اُس کی تیسری مصلحت ہے ۔ یعنی یہ کہ فرماں برداروں کو جن مزاحمتوں اور مخالفتوں سے سابقہ پیش آرہا ہے اور جس جس طرح انہیں ستایا اور تنگ کیا جا رہا ہے ، اور دعوتِ اسلامی کے کام میں مشکلات کے جو پہاڑ سدِّ راہ ہو رہےہیں، ان کی وجہ سے وہ بار بار اس کے محتاج ہوتے ہیں کہ بشارتوں سے ان کی ہمت بندھائی جاتی رہے اور ان کو آخری نتائج کی کامیابی کا یقین دلا یا جاتا رہے تاکہ وہ پُر امید رہیں اور دل شکستہ نہ ہونے پائیں۔

107. روایات میں مختلف اشخاص کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ کفارِ مکہ اُن میں سے کسی پر یہ گمان کرتے تھے۔ ایک روایت میں اس کا نام جبر بیان کیا گیا ہے جو عامر بن الحَضرمی کا ایک رومی غلام تھا۔ دوسری روایت میں حُوَیطِب بن عبد العُزّیٰ کے ایک غلام کا نام لیا گیا ہے جسے عائش یا یَعیش کہتے تھے۔ ایک اور روایت میں یَسار کا نام لیا گیا ہے جس کی کنیت ابُو فکَیہَہ تھی اور جو مکّے کی ایک عورت کا یہودی غلام تھا۔ ایک اور روایت بَلعان یا بَلعام نامی ایک رومی غلام سے متعلق ہے۔ بہرحال ان میں سے جو بھی ہو، کفار مکہ نے محض یہ دیکھ کر کہ ایک شخص تو راۃ و انجیل پڑھتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے ملاقات ہے، بے تکلف یہ الزام گھڑ دیا کہ اس قرآن کو دراصل وہ تصنیف کر رہا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی طرف سے خدا کا نام لے لے کر پیش کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ اندازہ ہوتا ہےکہ آنحضرت ؐ کے مخالفین آپ کے خلاف افتراپردازیاں کرنے میں کس قدر بے باک تھے، بلکہ یہ سبق بھی ملتا ہے کہ لوگ اپنے ہم عصروں کی قدر و قیمت پہچاننے میں کتنے بے انصاف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے سامنے تاریخ انسانی کی ایک ایسی عظیم شخصیت تھی جس کی نظیر نہ اُس وقت دنیا بھر میں کہیں موجود تھی اور نہ آج تک پائی گئی ہے۔ مگر ان عقل کے اندھوں کو اُس کے مقابلہ میں ایک عجمی غلام، جو کچھ توراۃ و انجیل پڑھ لیتا تھا، قابل تر نظر آرہا تھا اور وہ گمان کر رہےتھے کہ یہ گوہرِ نایاب اس کوئلے سے چمک حاصل کر رہا ہے۔

108. دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”جھوٹ تو وہ لوگ گھڑا کرتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے“۔

109. اس آیت میں اُن مسلمانوں کے معاملے سے بحث کی گئی ہے جن پر اُس وقت سخت مظالم توڑے جارہے تھے اور ناقابلِ برداشت اذیتیں دے دے کر کفر پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ ان کو بتایا گیا ہے کہ اگر تم کسی وقت ظلم سے مجبور ہو کر محض جان بچانے کے لیے کلمہ ٔ کفر زبان سے ادا کردو، اور دل تمہارا عقیدۂ کفر سے محفوظ ہو، تو معاف کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر دل سے تم نے کفر قبول کر لیا تو دنیا میں چاہے جان بچا لو، خدا کے عذاب سے نہ بچ سکو گے۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جان بچانے کے لیے کلمہ ٔ کفر کہہ دینا چاہیے۔ بلکہ یہ صرف رخصت ہے۔ اگر ایمان دل میں رکھتے ہوئے آدمی مجبورًا ایسا کہہ دے تو مواخذہ نہ ہو گا۔ ورنہ مقامِ عزیمت یہی ہے کہ خواہ آدمی کا جسم تکا بوٹی کر ڈالا جائے بہرحال وہ کلمہ ٔ حق ہی کا اعلان کرتا رہے۔ دونوں قسم کی نظیریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِ مبارک میں پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف خَبَّاب ؓ بن اَرت ہیں جن کو آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا یہاں تک کہ ان کی چربی پگھلنے سے آگ بجھ گئی، مگر وہ سختی کے ساتھ اپنے ایمان پر جمے رہے۔ بلالؓ حبشی ہیں جن کو لوہے کی زِرہ پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا، پھر تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر گھسیٹا گیا مگر وہ احد احد ہی کہتے رہے۔ حبیب بن زیدؓ بن عاصم ہیں جن کے بدن کا ایک ایک عضو مُسیلمہ کذاب کے حکم سےکاٹا جاتا تھا اور پھر مطالبہ کیا جاتا تھا کہ مسیلمہ کو نبی مان لیں ، مگر ہر مرتبہ وہ اس کے دعوائے رسالت کی شہادت دینے سے انکار کرتے تھے یہاں تک کہ اسی حالت میں کٹ کٹ کر انہوں نے جان دے دی۔ دوسری طرف عَمّار بن یاسرؓ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد اور ان کی والدہ کو سخت عذاب دے دے کر شہید کر دیا گیا، پھر ان کو اتنی ناقابلِ برداشت اذیّت دی گئی کہ آخر انہوں نے جان بچانے کے لیے وہ سب کچھ کہہ دیا جو کفار اُن سے کہلوانا چاہتے تھے۔ پھر وہ روتے روتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رَسُول َ اللہ مَا تُرِکْتُ حَتّٰی سَبَبْتُکَ وَذَکَرْ تُ اٰ لِھَتَھُمْ بِخَیْرٍ ۔ ” یا رسول اللہ، مجھے نہ چھوڑا گیا جب تک کہ میں نے آپ کو بُرا اور ان کے معبودوں کو اچھا نہ کہہ دیا“۔ حضور نے پوچھا کَیْفَ تَجِدُ قَلْبَکَ ۔ ”اپنے دل کا کیا حال پاتے ہو“؟ عرض کیا مُطْمَئِنًا بِالْاِیْمَانِ۔”ایمان پر پوری طرح مطمئن“۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا ان عَا دُوْ ا فَعُدْ۔ ”اگر وہ پھر اس طرح کا ظلم کریں تو تم پھر یہی باتیں کہہ دینا“۔

110. یہ فقرے اُن لوگوں کے بارے میں فرمائے گئے ہیں جنہوں نے راہِ حق کو کٹھن پا کر ایمان سے توبہ کر لی تھی اور پھر اپنی کافر و مشرک قوم میں جا ملے تھے۔

111. اشارہ ہے مہاجرین ِ حبشہ کی طرف۔