Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 111-119

يَوۡمَ تَاۡتِىۡ كُلُّ نَفۡسٍ تُجَادِلُ عَنۡ نَّفۡسِهَا وَتُوَفّٰى كُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ وَهُمۡ لَا يُظۡلَمُوۡنَ‏ ﴿16:111﴾ وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرۡيَةً كَانَتۡ اٰمِنَةً مُّطۡمَـئِنَّةً يَّاۡتِيۡهَا رِزۡقُهَا رَغَدًا مِّنۡ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتۡ بِاَنۡعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الۡجُـوۡعِ وَالۡخَـوۡفِ بِمَا كَانُوۡا يَصۡنَعُوۡنَ‏ ﴿16:112﴾ وَلَـقَدۡ جَآءَهُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡهُمۡ فَكَذَّبُوۡهُ فَاَخَذَهُمُ الۡعَذَابُ وَهُمۡ ظٰلِمُوۡنَ‏ ﴿16:113﴾ فَكُلُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا وَّاشۡكُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡـتُمۡ اِيَّاهُ تَعۡبُدُوۡنَ‏ ﴿16:114﴾ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيۡكُمُ الۡمَيۡتَةَ وَ الدَّمَ وَلَحۡمَ الۡخِنۡزِيۡرِ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَيۡرِ اللّٰهِ بِهٖ​ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿16:115﴾ وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلۡسِنَـتُكُمُ الۡكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّهٰذَا حَرَامٌ لِّـتَفۡتَرُوۡا عَلَى اللّٰهِ الۡكَذِبَ​ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَفۡتَرُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ الۡكَذِبَ لَا يُفۡلِحُوۡنَؕ‏ ﴿16:116﴾ مَتَاعٌ قَلِيۡلٌ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿16:117﴾ وَعَلَى الَّذِيۡنَ هَادُوۡا حَرَّمۡنَا مَا قَصَصۡنَا عَلَيۡكَ مِنۡ قَبۡلُ​ۚ وَمَا ظَلَمۡنٰهُمۡ وَلٰـكِنۡ كَانُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ يَظۡلِمُوۡنَ‏ ﴿16:118﴾ ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيۡنَ عَمِلُوا السُّوۡۤءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰ لِكَ وَاَصۡلَحُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنۡۢ بَعۡدِهَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏  ﴿16:119﴾

111 - (اِن سب کا فیصلہ اُس دن ہوگا)جب کہ ہر متنفّس اپنے ہی بچاوٴ کی فکر میں لگا ہوا ہوگا اور ہر ایک کو اُس کے کیے کا بدلہ پُورا پُورا دیا جائے گااور کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہ ہونے پائے گا۔ 112 - اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اُس کو بفراغت رزق پینچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا کُفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اُس کے باشندوں کو اُن کے کرتُوتوں کا یہ مزہ چکھایا کہ بھُوک اور خوف کی مصیبتیں اُن پر چھا گئیں۔ 113 - اُن کے پاس اُن کی اپنی قوم میں سے ایک رسُول آیا ۔ مگر اُنہوں نے اس کو جھُٹلادیا۔ آخرِ کار عذاب نے اُن کو آلیا جبکہ وہ ظالم ہو چکے تھے۔112 114 - پس اے لوگو، اللہ نے جو کچھ حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اُسے کھاوٴ اور اللہ کے احسان کا شکر ادا کرو113 اگر تم واقعی اُسی کی بندگی کرنے والے ہو۔114 115 - اللہ نے جو کچھ تم پر حرام کیا ہے وہ ہے مُردار اور خُون اور سُوٴر کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ البتہ بھُوک سے مجبور ہو کر اگر کوئی اِن چیزوں کو کھالے، بغیر اس کے کہ وہ قانونِ الٰہی کی خلاف ورزی کا خواہش مند ہو، یا حدِّ ضرورت سے تجاوز کا مرتکب ہو ، تو یقیناً اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔115 116 - اور یہ جو تمہاری زبانیں جھُوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھُوٹ نہ باندھا کرو۔116 جو لوگ اللہ پر جھُوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہر گز فلاح نہیں پایا کرتے۔ 117 - دنیا کا عیش چند روزہ ہے۔ آخرِ کار اُن کے لیے دردناک سزا ہے۔ 118 - 117وہ چیزیں ہم نے خاص طور پر یہودیوں کے لیے حرام کی تھیں جن کا ذکر ہم اس سے پہلے تم سے کرچکے ہیں۔118اور یہ اُن پر ہمارا ظلم نہ تھا بلکہ اُن کا اپنا ہی ظلم تھا جو وہ اپنے اُوپر کررہے تھے۔ 119 - البتہ جن لوگوں نے جہالت کی بنا پر بُرا عمل کیا اور پھر توبہ کرکے اپنے عمل کی اصلاح کر لی تو یقیناً توبہ و اصلاح کے بعد تیرا ربّ اُن کے لیے غفور اور رحیم ہے۔ ؏ ١۵


Notes

112. یہاں جس بستی کی مثال پیش کی گئی ہے اس کی کوئی نشان دہی نہیں کی گئی۔ نہ مفسرین یہ تعین کر سکے ہیں کہ یہ کونسی بستی ہے۔ بظاہر ابن عباسؓ ہی کا یہ قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خود مکّے کو نام لیے بغیر مثال کے طور پرپیش کیا گیا ہے ۔ اس صورت میں خوف اور بھوک کی جس مصیبت کے چھا جانے کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ، اس سے مراد وہ قحط ہو گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ایک مدّت تک اہلِ مکّہ پر مسلّط رہا۔

113. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کے نزول کے وقت وہ قحط ختم ہو چکا تھا جس کی طرف اوپر اشارہ گزر چکا ہے۔

114. یعنی اگر واقعی تم اللہ کی بندگی کے قائل ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے ، تو حرام و حلال کے خود مختار نہ بنو۔ جس رزق کو اللہ نے حلال و طیب قرار دیا ہے اسے کھاؤ اور شکر کرو۔ اور جو کچھ اللہ کے قانون میں حرام و خبیث ہے اس سے پرہیز کرو۔

115. یہ حکم سورۂ بقرہ آیت نمبر ۳ ، سورۂ مائدہ آیت نمبر ۱۷۳ اور سورۂ انعام آیت نمبر ۳۵ میں بھی گزر چکا ہے۔

116. یہ آیت صاف تصریح کرتی ہے کہ خدا کے سوا تحلیل و تحریم کا حق کسی کو بھی نہیں، یا بالفاظِ دیگر قانون ساز صرف اللہ ہے۔ دوسرا جو شخص بھی جائز اور ناجائز کا فیصلہ کرنے کی جرأت کرے گا وہ اپنے حد سے تجاوز کرے گا ، اِلّا یہ کہ وہ قانون الہٰی کو سند مان کر اُس کے فرامین سے استنباط کرتےہوئے یہ کہے کہ فلاں چیز یا فلاں فعل جائز ہے اور فلاں ناجائز۔

اِس خود مختارانہ تحلیل و تحریم کو اللہ پر جھوٹ اور افترا اس لیے فرمایا گیا کہ جو شخص اِس طرح کے احکام لگاتا ہے اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ جسے وہ کتابِ الہٰی کی سند سے بے نیاز ہو کر جائز یا ناجائز کہہ رہا ہے اسے خدا نے جائز یا ناجائز ٹھیرایا ہے۔ یا اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اللہ نے تحلیل و تحریم کے اختیارات سے دست بردار ہو کر انسان کوخود اپنی زندگی کی شریعت بنانے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ ان میں سے جو دعویٰ بھی وہ کرے وہ لامحالہ جھوٹ اور اللہ پر افترا ہے۔

117. یہ پورا پیراگراف اُن اعتراضات کے جواب میں ہے جو مذکورۂ بالا حکم پر کیے جا رہے تھے ۔ کفارِ مکہ کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں تو اور بھی بہت سی چیزیں حرام ہیں جن کو تم نے حلال کر رکھا ہے ۔ اگر وہ شریعت خدا کی طرف سے تھی تو تم خود اس کی خلاف ورزی کر رہے ہو۔ اور اگر وہ بھی خدا کی طرف سے تھی اور یہ تمہاری شریعت بھی خدا کی طرف سے ہے تو دونوں میں یہ اختلاف کیسا ہے؟ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں سبت کی حرمت کا جو قانون تھا ا س کو بھی تم نے اڑا دیا ہے۔ یہ تمہارا اپنا خود مختارانہ فعل ہے یا اللہ ہی نے اپنی دو شریعتوں میں دو متضاد حکم دے رکھے ہیں؟

118. اشارہ ہے سورۂ انعام کی آیت وَعَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْ ا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرِ، الاٰ یَۃ (آیت نمبر ۱۴۶) کی طرف ، جس میں بتایاگیا ہے کہ یہودیوں پر ان کی نافرمانیوں کے باعث خصوصیّت کے ساتھ کون کون سی چیزیں حرام کی گئی تھیں۔

اس جگہ ایک اِشکال پیش آتا ہے۔ سورۂ نحل کی اس آیت میں سورۂ انعام کی ایک آیت کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ انعام اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ لیکن ایک مقام پر سورۂ انعام میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَالَکُمْ اَلَّا تَاْ کُلُوْ ا مِمَّا ذَکِرَ اسمُ اللہِ عَلَیْہٖ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّ مَ عَلَیْکُمْ (آیت نمبر ۱۱۹) ۔ اس میں سورۂ نحل کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ مکّی سورتوں میں سورۂ انعام کے سوا بس یہی ایک سورۃ ہے جس میں حرام چیزوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سی سورۃ پہلے نازل ہوئی تھی اور کون سی بعدمیں؟ ہمارے نزدیک اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ پہلے سورۂ نحل نازل ہوئی تھی جس کا حوالہ سورۂ انعام کی مذکورۂ بالا آیت میں دیا گیا ہے۔ بعد میں کسی موقع پر کفار مکہ نے سورۂ نحل کی اِن آیتوں پر وہ اعتراضات وارد کیے جو ابھی ہم بیان کرچکے ہیں ۔ اس وقت سورۂ انعام نازل ہو چکی تھی۔ اس لیے ان کو جواب دیا گیا کہ ہم پہلے، یعنی سورۂ انعام میں بتا چکے ہیں کہ یہودیوں پر چند چیزیں خاص طور پر حرام کی گئی تھیں۔ اور چونکہ یہ اعتراض سورۂ نحل پر کیا گیا تھا اس لیے اس کا جواب بھی سورۂ نحل ہی میں جملۂ معترضہ کے طور پر درج کیا گیا۔