112. یہاں جس بستی کی مثال پیش کی گئی ہے اس کی کوئی نشان دہی نہیں کی گئی۔ نہ مفسرین یہ تعین کر سکے ہیں کہ یہ کونسی بستی ہے۔ بظاہر ابن عباسؓ ہی کا یہ قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خود مکّے کو نام لیے بغیر مثال کے طور پرپیش کیا گیا ہے ۔ اس صورت میں خوف اور بھوک کی جس مصیبت کے چھا جانے کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ، اس سے مراد وہ قحط ہو گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ایک مدّت تک اہلِ مکّہ پر مسلّط رہا۔
113. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کے نزول کے وقت وہ قحط ختم ہو چکا تھا جس کی طرف اوپر اشارہ گزر چکا ہے۔
114. یعنی اگر واقعی تم اللہ کی بندگی کے قائل ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے ، تو حرام و حلال کے خود مختار نہ بنو۔ جس رزق کو اللہ نے حلال و طیب قرار دیا ہے اسے کھاؤ اور شکر کرو۔ اور جو کچھ اللہ کے قانون میں حرام و خبیث ہے اس سے پرہیز کرو۔
115. یہ حکم سورۂ بقرہ آیت نمبر ۳ ، سورۂ مائدہ آیت نمبر ۱۷۳ اور سورۂ انعام آیت نمبر ۳۵ میں بھی گزر چکا ہے۔
116. یہ آیت صاف تصریح کرتی ہے کہ خدا کے سوا تحلیل و تحریم کا حق کسی کو بھی نہیں، یا بالفاظِ دیگر قانون ساز صرف اللہ ہے۔ دوسرا جو شخص بھی جائز اور ناجائز کا فیصلہ کرنے کی جرأت کرے گا وہ اپنے حد سے تجاوز کرے گا ، اِلّا یہ کہ وہ قانون الہٰی کو سند مان کر اُس کے فرامین سے استنباط کرتےہوئے یہ کہے کہ فلاں چیز یا فلاں فعل جائز ہے اور فلاں ناجائز۔
اِس خود مختارانہ تحلیل و تحریم کو اللہ پر جھوٹ اور افترا اس لیے فرمایا گیا کہ جو شخص اِس طرح کے احکام لگاتا ہے اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ جسے وہ کتابِ الہٰی کی سند سے بے نیاز ہو کر جائز یا ناجائز کہہ رہا ہے اسے خدا نے جائز یا ناجائز ٹھیرایا ہے۔ یا اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اللہ نے تحلیل و تحریم کے اختیارات سے دست بردار ہو کر انسان کوخود اپنی زندگی کی شریعت بنانے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ ان میں سے جو دعویٰ بھی وہ کرے وہ لامحالہ جھوٹ اور اللہ پر افترا ہے۔
117. یہ پورا پیراگراف اُن اعتراضات کے جواب میں ہے جو مذکورۂ بالا حکم پر کیے جا رہے تھے ۔ کفارِ مکہ کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں تو اور بھی بہت سی چیزیں حرام ہیں جن کو تم نے حلال کر رکھا ہے ۔ اگر وہ شریعت خدا کی طرف سے تھی تو تم خود اس کی خلاف ورزی کر رہے ہو۔ اور اگر وہ بھی خدا کی طرف سے تھی اور یہ تمہاری شریعت بھی خدا کی طرف سے ہے تو دونوں میں یہ اختلاف کیسا ہے؟ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں سبت کی حرمت کا جو قانون تھا ا س کو بھی تم نے اڑا دیا ہے۔ یہ تمہارا اپنا خود مختارانہ فعل ہے یا اللہ ہی نے اپنی دو شریعتوں میں دو متضاد حکم دے رکھے ہیں؟
118. اشارہ ہے سورۂ انعام کی آیت وَعَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْ ا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرِ، الاٰ یَۃ (آیت نمبر ۱۴۶) کی طرف ، جس میں بتایاگیا ہے کہ یہودیوں پر ان کی نافرمانیوں کے باعث خصوصیّت کے ساتھ کون کون سی چیزیں حرام کی گئی تھیں۔
اس جگہ ایک اِشکال پیش آتا ہے۔ سورۂ نحل کی اس آیت میں سورۂ انعام کی ایک آیت کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ انعام اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ لیکن ایک مقام پر سورۂ انعام میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَالَکُمْ اَلَّا تَاْ کُلُوْ ا مِمَّا ذَکِرَ اسمُ اللہِ عَلَیْہٖ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّ مَ عَلَیْکُمْ (آیت نمبر ۱۱۹) ۔ اس میں سورۂ نحل کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ مکّی سورتوں میں سورۂ انعام کے سوا بس یہی ایک سورۃ ہے جس میں حرام چیزوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سی سورۃ پہلے نازل ہوئی تھی اور کون سی بعدمیں؟ ہمارے نزدیک اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ پہلے سورۂ نحل نازل ہوئی تھی جس کا حوالہ سورۂ انعام کی مذکورۂ بالا آیت میں دیا گیا ہے۔ بعد میں کسی موقع پر کفار مکہ نے سورۂ نحل کی اِن آیتوں پر وہ اعتراضات وارد کیے جو ابھی ہم بیان کرچکے ہیں ۔ اس وقت سورۂ انعام نازل ہو چکی تھی۔ اس لیے ان کو جواب دیا گیا کہ ہم پہلے، یعنی سورۂ انعام میں بتا چکے ہیں کہ یہودیوں پر چند چیزیں خاص طور پر حرام کی گئی تھیں۔ اور چونکہ یہ اعتراض سورۂ نحل پر کیا گیا تھا اس لیے اس کا جواب بھی سورۂ نحل ہی میں جملۂ معترضہ کے طور پر درج کیا گیا۔