Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 120-128

اِنَّ اِبۡرٰهِيۡمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيۡفًاؕ وَلَمۡ يَكُ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَۙ‏ ﴿16:120﴾ شَاكِرًا لِّاَنۡعُمِهِ​ؕ اِجۡتَبٰٮهُ وَهَدٰٮهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏  ﴿16:121﴾ وَاٰتَيۡنٰهُ فِى الدُّنۡيَا حَسَنَةً​  ؕ وَاِنَّهٗ فِى الۡاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيۡنَؕ‏ ﴿16:122﴾ ثُمَّ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا​ ؕ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ‏ ﴿16:123﴾ اِنَّمَا جُعِلَ السَّبۡتُ عَلَى الَّذِيۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِيۡهِ​ؕ وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَحۡكُمُ بَيۡنَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ فِيۡمَا كَانُوۡا فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ‏  ﴿16:124﴾ اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ​ وَجَادِلۡهُمۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ​ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ​ وَهُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُهۡتَدِيۡنَ‏ ﴿16:125﴾ وَاِنۡ عَاقَبۡتُمۡ فَعَاقِبُوۡا بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبۡتُمۡ بِهٖ​ۚ وَلَـئِنۡ صَبَرۡتُمۡ لَهُوَ خَيۡرٌ لِّلصّٰبِرِيۡنَ‏ ﴿16:126﴾ وَاصۡبِرۡ وَمَا صَبۡرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ​ وَلَا تَحۡزَنۡ عَلَيۡهِمۡ وَلَا تَكُ فِىۡ ضَيۡقٍ مِّمَّا يَمۡكُرُوۡنَ‏ ﴿16:127﴾ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيۡنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيۡنَ هُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ‏  ﴿16:128﴾

120 - واقعہ یہ ہے کہ ابراہیمؑ اپنی ذات سے ایک پوری اُمّت تھا،119 اللہ کا مطیعِ فرمان اور یکسُو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ 121 - اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اُس کو منتخب کر لیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔ 122 - دنیا میں اس کو بھلائی دی اور آخرت میں وہ یقیناً صالحین میں سے ہوگا۔ 123 - پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یکسُو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔120 124 - رہا سَبت، تو وہ ہم نے اُن لوگوں پر مسلّط کیا تھا جنہوں نے اس کے احکام میں اختلاف کیا،121 اور یقیناً تیرا ربّ قیامت کے روز ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ 125 - اے نبیؐ، اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ،122 اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔123 تمہارا ربّ ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔ 126 - اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔ 127 - اے محمدؐ، صبر سے کام کیے جاوٴ۔ ۔۔۔ اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے ۔۔۔۔ اِن لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔ 128 - اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقوٰی سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں۔124 ؏ ١٦


Notes

119. یعنی وہ اکیلا انسان بجائے خو د ایک اُمت تھا۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا تو ایک طرف وہ اکیلااسلام کا علمبردار تھا اور دوسری طرف ساری دنیا کفر کی علمبردار تھی۔ اُس اکیلے بندۂ خدا نے وہ کام کیا جو ایک امّت کے کرنے کا تھا۔ وہ ایک شخص نہ تھا بلکہ ایک پورا ادارہ تھا۔

120. یہ معترضین کے پہلے اعتراض کا مکمل جواب ہے۔ اس جواب کے دو اجزا ہیں ۔ ایک یہ کہ خدا کی شریعت میں تضاد نہیں ہے، جیسا کہ تم نے یہودیوں کے مذہبی قانون اور شریعت محمدیؐ کے ظاہری فرق کو دیکھ کر گمان کیا ہے ، بلکہ دراصل یہودیوں کو خاص طور پر ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں چند نعمتوں سے محروم کیا گیا تھا جن سے دوسروں کو محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ دوسرا جزء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے وہ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ ملتِ ابراہیمی میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو یہودیوں کے ہاں حرام ہیں۔ مثلًا یہودی اونٹ نہیں کھاتے، مگر مِلّتِ ابراہیمی میں وہ حلال تھا۔ یہودیوں کے ہاں شتر مرغ ، بط، خرگوش وغیرہ حرام ہیں، مگر ملّتِ ابراہیمی میں یہ سب چیزیں حلال تھیں۔ اس جواب کے ساتھ ساتھ کفارِ مکّہ کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا گیا کہ نہ تم کو ابراہیمؑ سے کوئی واسطہ ہے نہ یہودیوں کو ، کیونکہ تم دونوں ہی شرک کر رہے ہو۔ ملّتِ ابراہیمی کا اگر کوئی صحیح پیرو ہے تو وہ یہ نبی اور اس کے ساتھی ہیں جن کے عقائد اور اعمال میں شرک کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔

121. یہ کفارِ مکّہ کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے۔ اس میں یہ بیان کرنے کی حاجت نہ تھی کہ سَبت بھی یہودیوں کے لیے مخصوص تھا اور مِلّتِ ابراہیمی میں حرمتِ سبت کا کوئی وجود نہ تھا ، کیونکہ اس بات کو خود کفار مکہ بھی جانتے تھے ۔ اس لیے صرف اتنا ہی اشارہ کر نے پر اکتفا کیا گیا کہ یہودیوں کے ہاں سبت کے قانون میں جو سختیاں تم پاتے ہو یہ ابتدائی حکم میں نہ تھیں بلکہ یہ بعد میں یہودیوں کی شرارتوں اور احکام کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ان پر عائد کی گئی تھیں ۔ قرآن مجید کے اس اشارے کو آدمی اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ ایک طرف بائیبل کے اُن مقامات کو نہ دیکھے جہاں سبت کے احکام بیان ہوئے ہیں (مثلاً ملاحظہ ہو خروج باب ۲۰، آیت ۸ تا ۱۱۔ باب ۲۳، آیت ۱۲ و ۱۳۔ باب ۳۱، آیت ۱۲ تا ۱۷۔ باب ۳۵، آیت ۲ و ۳۔ گنتی باب ۱۵، آیت ۳۲ تا ۳۶)، اور دوسری طرف اُن جسارتوں سے واقف نہ ہو جو یہودی سبت کی حرمت کو توڑنے میں ظاہر کرتے رہے(مثلًا ملاحظہ ہو یر میاہ باب ۱۷، آیت ۲۱ تا ۲۷۔ حِزقِی ایل ، باب ۲۰، آیت ۱۲ تا ۲۴)۔

122. یعنی دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہیں۔ ایک حکمت ۔ دوسرے عمدہ نصیحت۔

حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت استعداد اور حالات کو سمجھ کر ، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکا نہ جائے، جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے ، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں۔

عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کی اجائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں اُن کے لیے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی اُبھار ا جائے اور ان کے بُرے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت او ر عمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلًا ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقہ سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے۔ بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔

123. یعنی اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کُشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو۔ اس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اورپھبتیاں نہ ہوں۔ اس کا مقصود حریفِ مقابل کو چپ کر دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو۔ بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو۔ اعلیٰ درجہ کا شریفانہ اخلاق ہو۔ معقول اور دل لگتے دلائل ہوں ۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے۔ سیدھے سیدھے طریقے سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اتر آیا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دُور نہ نکل جائے۔

124. یعنی جو خدا سے ڈر کر ہر قسم کے بُرے طریقوں سے پرہیز کرتے ہیں اور ہمیشہ نیک رویہ پر قائم رہتے ہیں ۔ دوسرے ان کے ساتھ خواہ کتنی ہی بُرائی کریں، وہ ان کا جواب برائی سے نہیں بلکہ بھلائی ہی سے دیے جاتے ہیں۔