20. یعنی آخرت کے انکار نے اُن کو اس قدر غیر ذمہ دار، بے فکر، اور دنیا کی زندگی میں مست بنا دیا ہےکہ اب انہیں کسی حقیقت کا انکار کردینے میں باک نہیں رہا، کسی صداقت کی ان کے دل میں قدر باقی نہیں رہی، کسی اخلاقی بندش کو اپنے نفس پر برداشت کرنے کے لیے وہ تیار نہیں رہے، اور انہیں یہ تحقیق کرنے کے پروا ہی نہیں رہی کہ جس طریقے پر وہ چل رہے ہیں وہ حق ہے بھی یا نہیں۔
21. یہاں سے تقریر کا رُخ دوسری طرف پھرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جو شرارتیں کفارِ مکہ کی طرف سے ہو رہی تھیں ، جو حُجتیں آپ کے خلاف پیش کی جارہی تھیں ، جو حیلے اور بہانے ایمان نہ لانے کے لیے گھڑے جا رہے تھے، جو اعتراضات آپ پر وارد کیے جا رہے تھے ان کو ایک ایک کر کے لیا جاتا ہے اور ان پر فہمائش ، زجر اور نصیحت کی جاتی ہے۔
22. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا چرچا جب اطراف و اکناف میں پھیلا تو مکے کے لوگ جہاں کہیں جاتے تھے اُن سے پوچھا جاتا تھا کہ تمہارے ہاں جو صاحب نبی بن کر اُٹھے ہیں وہ کیا تعلیم دیتے ہیں؟ قرآن کس قسم کی کتاب ہے؟ اس کے مضامین کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے سوالات کا جواب کفارِ مکہ ہمیشہ ایسے الفاظ میں دیتے تھے جن سے سائل کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی کتاب کے متعلق کوئی نہ کوئی شک بیٹھ جائے، یا کم از کم اُس کو آپ سے آپ کی نبوت کے معاملے سے کوئی دلچسپی باقی نہ رہے۔