Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 26-34

قَدۡ مَكَرَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ فَاَتَى اللّٰهُ بُنۡيَانَهُمۡ مِّنَ الۡقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيۡهِمُ السَّقۡفُ مِنۡ فَوۡقِهِمۡ وَاَتٰٮهُمُ الۡعَذَابُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿16:26﴾ ثُمَّ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ يُخۡزِيۡهِمۡ وَيَقُوۡلُ اَيۡنَ شُرَكَآءِىَ الَّذِيۡنَ كُنۡتُمۡ تُشَآقُّوۡنَ فِيۡهِمۡ​ؕ قَالَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ اِنَّ الۡخِزۡىَ الۡيَوۡمَ وَالسُّوۡۤءَ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَۙ‏ ﴿16:27﴾ الَّذِيۡنَ تَتَوَفّٰٮهُمُ الۡمَلٰۤـئِكَةُ ظَالِمِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ​ فَاَلۡقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَـعۡمَلُ مِنۡ سُوۡۤءٍؕ بَلٰٓى اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌۢ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿16:28﴾ فَادۡخُلُوۡۤا اَبۡوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا​ؕ فَلَبِئۡسَ مَثۡوَى الۡمُتَكَبِّرِيۡنَ‏ ﴿16:29﴾ وَقِيۡلَ لِلَّذِيۡنَ اتَّقَوۡا مَاذَاۤ اَنۡزَلَ رَبُّكُمۡ​ؕ قَالُوۡا خَيۡرًاؕ لِّـلَّذِيۡنَ اَحۡسَنُوۡا فِىۡ هٰذِهِ الدُّنۡيَا حَسَنَةٌ​  ؕ وَلَدَارُ الۡاٰخِرَةِ خَيۡرٌ ​ ؕ وَلَنِعۡمَ دَارُ الۡمُتَّقِيۡنَۙ‏ ﴿16:30﴾ جَنّٰتُ عَدۡنٍ يَّدۡخُلُوۡنَهَا تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ​ لَهُمۡ فِيۡهَا مَا يَشَآءُوۡنَ​ؕ كَذٰلِكَ يَجۡزِى اللّٰهُ الۡمُتَّقِيۡنَۙ‏ ﴿16:31﴾ الَّذِيۡنَ تَتَوَفّٰٮهُمُ الۡمَلٰۤـئِكَةُ طَيِّبِيۡنَ​ ۙ يَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَيۡكُمُۙ ادۡخُلُوا الۡجَـنَّةَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿16:32﴾ هَلۡ يَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِيَهُمُ الۡمَلٰۤـئِكَةُ اَوۡ يَاۡتِىَ اَمۡرُ رَبِّكَ​ؕ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ​ؕ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَلٰـكِنۡ كَانُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ يَظۡلِمُوۡنَ‏ ﴿16:33﴾ فَاَصَابَهُمۡ سَيِّاٰتُ مَا عَمِلُوۡا وَحَاقَ بِهِمۡ مَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏  ﴿16:34﴾

26 - اِن سے پہلے بھی بہت سے لوگ ( حق کو نیچا دِکھانے کے لیے) ایسی ہی مکّاریاں کر چکے ہیں، تو دیکھ لو کہ اللہ نے اُن کے مکر کی عمارت جڑ سے اُکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اُوپر سے ان کے سر پر آرہی اورایسے رُخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا اُن کو گمان تک نہ تھا۔ 27 - پھر قیامت کے روز اللہ انہیں ذلیل و خوار کرے گا۔ وہ اُن سے کہے گا ”بتاوٴ اب کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کےلیے تم (اہلِ حق سے)جھگڑے کیا کرتے تھے؟“۔۔۔۔ 23جن لوگوں کو دنیا میں علم حاصل تھا وہ کہیں گے ”آج رُسوائی اور بدبختی ہے کافروں کے لیے ۔“ ہاں،24 28 - اُنہی کافروں کے لیے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے جب ملائکہ کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں25 تو (سرکشی چھوڑ کر)فوراً ڈَگیں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں ”ہم تو کوئی قصُور نہیں کر رہے تھے۔“ ملائکہ جواب دیتے ہیں ”کر کیسے نہیں رہے تھے! اللہ تمہارے کرتُوتوں سے خوب واقف ہے۔ 29 - اب جاوٴ، جہنّم کے دروازوں میں گھُس جاوٴ۔ وہیں تم کو ہمیشہ رہنا ہے۔“26 پس حقیقت یہی ہے کہ بڑا ہی بُرا ٹھکانہ ہے متکبّروں کے لیے۔ 30 - دُوسری طرف جب خدا ترس لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ”بہترین چیز اُتری ہے۔“27 اِس طرح کے نیکوکار لوگوں کے لیے اِس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا، 31 - دائمی قیام کی جنتیں ، جن میں وہ داخل ہوں گے، نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اور سب کچھ وہاں عین اُن کی خواہش کے مطابق ہوگا۔28 یہ جزا دیتا ہے اللہ متّقیوں کو۔ 32 - اُن متّقیوں کو جن کی رُوحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کر رہے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ”سلام ہو تم پر، جاوٴ جنّت میں اپنے اعمال کے بدلے۔“ 33 - اے محمدؐ، اب جو یہ لوگ انتظار کر رہے ہیں تو اِس کے سوا اب اور کیا باقی رہ گیا ہے کہ ملائکہ ہی آپہنچیں، یا تیرے ربّ کا فیصلہ صادر ہو جائے؟29 اِس طرح ڈِھٹائی اِن سے پہلے بہت سے لوگ کر چکے ہیں۔ پھر جو کچھ اُن کے ساتھ ہوا وہ اُن پر اللہ کا ظلم نہ تھا بلکہ اُن کا اپنا ظلم تھا جو اُنہوں نے خود اپنے اُوپر کیا۔ 34 - اُن کے کرتُوتوں کی خرابیاں آخرِ کار اُن کی دامنگیر ہوگئیں اور وُہی چیز اُن پر مسلّط ہر کر رہی جس کا وہ مذاق اُڑایا کرتے تھے۔ ؏ ۴


Notes

23. پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے سامع کا ذہن تھوڑے غور و فکر سے خود بھر سکتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ یہ سوال کرے گا تو سارے میدانِ حشر میں ایک سناٹا چھا جائے گا۔ کفار و مشرکین کی زبانیں بند ہو جائیں گی۔ اُن کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ ہوگا ۔ اس لیے وہ دم بخود رہ جائیں گے اور اہلِ علم کے درمیان آپس میں یہ باتیں ہوں گی۔

24. یہ فقرہ اہلِ علم کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ خود بطور تشریح فرما رہا ہے۔ جن لوگوں نے اسے بھی اہلِ علم ہی کو قول سمجھا ہے انہیں بڑی تاویلوں سے بات بنانی پڑی ہے اور پھر بھی بات پوری نہیں بن سکی ہے۔

25. یعنی جب موت کے وقت ملائکہ ان کی روحیں ان کے جسم سے نکال کر اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔

26. یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت ، جس میں قبضِ روح کے بعد متقیوں اور ملائکہ کی گفتگو کا ذکر ہے ، قرآن کی اُن متعدد آیات میں سے ہے جو صریح طور پر عذاب و ثواب ِ قبر کا ثبوت دیتی ہیں۔ حدیث میں ”قبر“ کا لفظ مجازًا عالمِ برزخ کے لیے استعمال ہوا ہے ، اور اس سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعث بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی۔ منکرینِ حدیث کو اس پر اصرار ہے کہ یہ عالم بالکل عدم محض کا عالم ہے جس میں کوئی احساس اور شعور نہ ہوگا۔ اور کسی قسم کا عذاب یا ثواب نہ ہوگا۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ کفار کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو موت کی سرحد کے پار کا حال بالکل اپنی توقعات کے خلاف پا کر سراسیمہ ہو جاتی ہیں۔ اور فورًا سلام ٹھونک کر ملائکہ کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ہم کوئی بُرا کام نہیں کر رہے تھے۔ جواب میں ملائکہ ان کو ڈانٹ بتاتے ہیں اور جہنم واصل ہونے کی پیشگی خبر دیتے ہیں۔ دوسری طرف اتقیاء کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو ملائکہ اُن کو سلام بجا لاتے ہیں اور جنتی ہونے کی پیشگی مبارکباد دیتے ہیں۔ کیا برزخ کی زندگی ، احساس، شعور، عذاب اور ثواب کا اس سے بھی زیادہ کھلا ہوا کوئی ثبوت درکار ہے؟ اسی سے ملتا جُلتا مضمون سورۂ نساء آیت نمبر ۹۷ میں گزر چکا ہے۔جہاں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانو ں سے قبضِ روح کے بعد ملائکہ کی روح کا ذکر آیا ہے اور ان سب سے زیادہ صاف الفاظ میں عذابِ برزخ کی تصریح سورۂ مومن آیت نمبر ۴۵ – ۴۶ میں کی گئی ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرعون اور آلِ فرعون کے متعلق بتاتا ہے کہ”ایک سخت عذاب ان کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی صبح و شام وہ آگے کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ، پھر قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم دیا جائے گا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو“۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں سے موت اور قیامت کے درمیان کی حالت کا ایک ہی نقشہ معلوم ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ موت محض جسم و روح کی علیحدگی کا نام ہے نہ کہ بالکل معدوم ہو جانے کا۔ جسم سے علیٰحدہ ہو جانے بعد روح معدوم نہیں ہو جاتی بلکہ اُس پوری شخصیت کے ساتھ زندہ رہتی ہے جو دنیا کی زندگی کے تجربات اور ذہنی و اخلاقی اکتسابات سے بنی تھی۔ اس حالت میں روح کے شعور، احساس، مشاہدات اور تجربات کی کیفیت خواب سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ یہ مجرم روح سے فرشتوں کی باز پرس اور پھر اس کا عذاب اور اذیت میں مبتلا ہونا اور دوزخ کے سامنے پیش کیا جانا ، سب کچھ اُس کیفیت سے مشابہہ ہوتا ہے جو ایک قتل کے مجرم پر پھانسی کی تاریخ سے ایک دن پہلے ایک ڈراؤنے خواب کی شکل میں گزرتی ہو گی۔ اسی طرح ایک پاکیزہ روح کا استقبال ، اور پھر اُس کا جنت کی بشارت سننا ، اور جنت کی ہواؤں اور خوشبوؤں سے متمتع ہونا ، یہ سب بھی اُس ملازم کے خواب سے ملتا جلتا ہو گا جو حسنِ کارکردگی کے بعد سرکاری بلاوے پر ہیڈ کوارٹر میں حاضر ہوا ہو اور وعدہ ٔ ملاقات کی تاریخ سے ایک دن پہلے آئندہ انعامات کی امیدوں سے لبریز ایک سہانا خواب دیکھ رہا ہو۔ یہ خواب ایک لختِ نفخ صورِ دوم سے ٹوٹ جائے گا اور یکایک میدانِ حشر میں اپنے آپ کو جسم و روح کے ساتھ زندہ پا کر مجرمین حیرت سے کہیں گے کہ یٰوَیْلَنَا مَنْم بَعَثَنَا مِنْ مَّرْ قَدِنَا (ارے یہ کون ہمیں ہماری خواب گاہ سے اُٹھا لایا؟) مگر اہلِ ایمان پورے اطمینان سے کہیں گے ھِذَا مَا وَعَدَ الرَّ حْمٰنُ وَصَدَ قَ الْمُرْسَلُوْنَ (یہ وہی چیز ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کا بیان سچّا تھا)۔ مجرمین کا فوری احساس اُس وقت یہ ہو گا کہ وہ اپنی خواب گاہ میں (جہاں بستر موت پر اُنہوں نے دنیا میں جان دی تھی) شاید کوئی ایک گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے اور اب اچانک اس حادثہ سے آنکھ کھلتے ہی کہیں بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ مگر اہلِ ایمان پورے ثباتِ قلب کے ساتھ کہیں گے کہ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللہ ِ اِلیٰ یُوْ مِ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (اللہ کے دفتر میں تو تم روز حشر تک ٹھیرے رہے ہو اور یہی روز حشر ہے مگر تم اِ س چیز کو جانتے نہ تھے)۔

27. یعنی مکے سے باہر کے لوگ جب خدا سے ڈرنے والے اور راستباز لوگوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو ان کا جواب جھوٹے اور بد دیانت کافروں کے جواب سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ وہ جھوٹا پروپیگنڈا نہیں کرتے۔ وہ عوام کو بہکانے اور غلط فہمیوں میں ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ حضور کی اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کی تعریفیں کرتے ہیں اور لوگوں کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہیں۔

28. یہ ہے جنت کی اصل تعریف۔ وہاں انسان جو کچھ چاہے گا وہی اسے ملے گا اور کوئی چیز اس کی مرضی اور پسند کے خلا ف واقع نہ ہوگی۔ دنیا میں کسی رئیس ، کسی امیر کبیر، کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی یہ نعمت کبھی میسر نہیں آئی ہے، نہ یہاں اس کے حصول کا کوئی امکان ہے۔ مگر جنت کے ہر مکین کو راحت و مسرت کا یہ درجہ ٔ کمال کہ اُس کی زندگی میں ہر وقت ہر طرف سب کچھ اس کی خواہش اور پسند کے عین مطابق ہو گا۔ اس کا ہر ارمان نکلے گا۔ اس کی ہر آرزو پوری ہو گی۔ اس کی ہر چاہت عمل میں آکر رہے گی۔

29. یہ چند کلمے بطور ِ نصیحت اور تنبیہ کے فرمائے جا رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں تک سمجھانے کا تعلق تھا ، تم نے ایک ایک حقیقت پوری طرح کھول کر سمجھا دی۔ دلائل سے اس کا ثبوت دے دیا ۔ کائنات کے پورے نظام سے اس کی شہادتیں پیش کردیں ۔ کسی ذی فہم آدمی کے لیے شرک پر جمے رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔ اب یہ لوگ ایک صاف سیدھی بات کو مان لینے میں کیوں تامُل کر رہے ہیں؟ کیا اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ موت کا فرشتہ سامنے آکھڑا ہو تو زندگی کے آخری لمحے میں مانیں گے؟ یا خدا کا عذاب سر پر آجائے تو اس کی پہلی چوٹ کھا لینے کے بعد مانیں گے؟