Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 35-40

وَقَالَ الَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡا لَوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدۡنَا مِنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ شَىۡءٍ نَّحۡنُ وَلَاۤ اٰبَآؤُنَا وَلَا حَرَّمۡنَا مِنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ شَىۡءٍ​ؕ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ​ۚ فَهَلۡ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿16:35﴾ وَلَـقَدۡ بَعَثۡنَا فِىۡ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ وَاجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ​ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ هَدَى اللّٰهُ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ حَقَّتۡ عَلَيۡهِ الضَّلٰلَةُ​ ؕ فَسِيۡرُوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِ فَانْظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُكَذِّبِيۡنَ‏  ﴿16:36﴾ اِنۡ تَحۡرِصۡ عَلٰى هُدٰٮهُمۡ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ مَنۡ يُّضِلُّ​ وَمَا لَهُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِيۡنَ‏ ﴿16:37﴾ وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰهِ جَهۡدَ اَيۡمَانِهِمۡ​ۙ لَا يَبۡعَثُ اللّٰهُ مَنۡ يَّمُوۡتُ​ؕ بَلٰى وَعۡدًا عَلَيۡهِ حَقًّا وَّلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَۙ‏  ﴿16:38﴾ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِىۡ يَخۡتَلِفُوۡنَ فِيۡهِ وَلِيَـعۡلَمَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنَّهُمۡ كَانُوۡا كٰذِبِيۡنَ‏ ﴿16:39﴾ اِنَّمَا قَوۡلُـنَا لِشَىۡءٍ اِذَاۤ اَرَدۡنٰهُ اَنۡ نَّقُوۡلَ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ‏  ﴿16:40﴾

35 - یہ مشرکین کہتے ہیں ”اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اُس کے سوا کسی اَور کی عبادت کرتے اور نہ اُس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔“30 ایسے ہی بہانے اِن سے پہلے کے لوگ بھی بناتے رہے ہیں۔31 تو کیا رسُولوں پر صاف صاف بات پہنچا دینے کے سوا اور بھی کوئی ذمّہ داری ہے؟ 36 - ہم نے ہر اُمّت میں ایک رسُول بھیج دیا، اور اُس کے ذریعہ سے سب کو خبر دار کر دیا کہ ” اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔“32 اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلّط ہو گئی۔33 پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھُٹلانے والوں کا کیا انجام ہو چکا ہے34 ۔۔۔۔ 37 - اَے محمدؐ، تم چاہے اِن کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو، مگر اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیا کرتا اور اس طرح کے لوگوں کی مدد کوئی نہیں کر سکتا۔ 38 - یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ”اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کر کے نہ اُٹھائے گا“۔۔۔۔ اُٹھائے گا کیوں نہیں، یہ تو ایک وعدہ ہے جسے پُورا کرنا اُس نے اپنے اُوپر واجب کر لیا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ 39 - اور ایسا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اللہ اِن کے سامنے اُس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں، اور منکرینِ حق کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھُوٹے تھے۔ 35 40 - (رہا اس کا امکان ، تو)ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا ہوتا کہ اسے حکم دیں ”ہو جا“ اور بس وہ ہو جاتی ہے۔36 ؏ ۵


Notes

30. مشرکین کی اس حجت کو سورۂ انعام آیات نمبر ۱۴۸ – ۱۴۹ میں بھی نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ وہ مقام اور اس کے حواشی اگر نگاہ میں رہیں تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہو گی۔ (ملاحظہ وہ سورۂ انعام، حواشی نمبر ۱۲۴ تا نمبر ۱۲۶ )۔

31. یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آج تم لوگ اللہ کی مشیت کو اپنی گمراہی اور بد اعمالی کے لیے حجت بنا رہے ہو۔ یہ تو بڑی پرانی دلیل ہے جسے ہمیشہ سے بگڑے ہوئے لوگ اپنے ضمیر کو دھوکا دینے اور ناصحوں کا منہ بند کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ مشرکین کی حجت کا پہلا جواب ہے۔ اس جواب کا پورا لطف اُٹھانے کے لیے یہ بات ذہن میں رہنی ضروری ہے کہ ابھی چند سطریں پہلے مشرکین کے اس پروپیگنڈا کا ذکر گزر چکا ہے جو وہ قرآن کے خلا ف یہ کہہ کہہ کر کیا کرتے تھےکہ ”اجی! وہ تو پرانے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں“۔ گویا ان کو نبی پر اعتراض یہ تھا کہ یہ صاحب نئی بات کونسی لائے ہیں ، وہی پرانی باتیں دہرا رہے ہیں جو طوفانِ نوح کے وقت سے لے کر آج تک ہزاروں مرتبہ کہی جا چکی ہیں۔ اس کے جواب میں ان کی دلیل ( جسے وہ بڑے زور کی دلیل سمجھتے ہوئے پیش کرتے تھے) کا ذکر کرنے کے بعد یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرات، آپ ہی کونسے ماڈرن ہیں ، یہ مایہ ٔ ناز دلیل جو آپ لائے ہیں ا س میں قطعی کو ئی اُپچ موجود نہیں ہے، وہی دقیا نوسی بات ہے جو ہزاروں برس سے لوگ کہتے چلے آرہے ہیں، آپ نے بھی اُسی کو دہرا دیا ہے۔

32. یعنی تم اپنے شرک اور اپنی خود مختارانہ تحلیل و تحریم کے حق میں ہماری مشیت کو کیسے سند جواز بنا سکتے ہو ، جبکہ ہم نے ہر امت میں اپنے رسول بھیجے اور ان کے ذریعہ سے لوگوں کو صاف صاف بتا دیا کہ تمہارا کام صرف ہماری بندگی کرنا ہے، طاغوت کی بندگی کے لیے تم پیدا نہیں کیے گئے ہو۔ اس طرح جبکہ ہم پہلے ہی معقول ذرائع سے تم کو بتا چکے ہیں کہ تمہاری ان گمراہیوں کو ہماری رضا حاصل نہیں ہے تو اس کے بعد ہماری مشیت کی آڑ لے کر تمہارا اپنی گمراہیوں کو جائز ٹھیرانا صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ تم چاہتے تھے کہ ہم سمجھانے والے رسول بھیجنے کے بجائے ایسے رسول بھیجتے جو ہاتھ پکڑ کر تم کو غلط راستوں سے کھینچ لیتے اور زبر دستی تمہیں راست رو بناتے۔ ( مشیت اور رضا کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حاشیہ نمبر ۸۰۔ سورۂ زمر حاشیہ نمبر ۲۰)۔

33. یعنی ہر پیغمبر کی آمد کے بعد اُس کی قوم دو حصّوں میں تقسیم ہوئی۔ بعض نے اس کی بات مانی ( اور یہ مان لینا اللہ کی توفیق سے تھا) اور بعض اپنی گمراہی پر جمے رہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حاشیہ نمبر ۲۸)۔

34. یعنی تجربے سے بڑھ کر تحقیق کے لیے قابل اعتماد کسوٹی اور کوئی نہیں ہے۔ اب تم خود دیکھ لو کہ تاریخ انسانی کے پے درپے تجربات کیا ثابت کر رہے ہیں۔ عذابِ الہٰی فرعون و آلِ فرعون پر آیا یا موسیٰؑ اور بنی اسرائیل پر؟ صالحؑ کے جھٹلانے والوں پر آیا یا ماننے والوں پر ؟ ہودؑ اور نوحؑ اور دوسرے انبیاء کے منکرین پر آیا یا مومنین پر؟ کیا واقعی اِن تاریخی تجربات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جن لوگوں کو ہماری مشیت نے شرک اور شریعت سازی کے ارتکاب کا موقع دیا تھا اُن کو ہماری رضا حاصل تھی ؟ اس کے برعکس یہ واقعات تو صریحًا یہ ثابت کررہے ہیں کہ فہمائش اور نصیحت کے باوجود جو لوگ اِن گمراہیوں پر اصرار کرتے ہیں انہیں ہماری مشیت ایک حد تک ارتکاب ِ جرائم کا موقع دیتی چلی جاتی ہے اور پھر ان کا سفینہ خوب بھر جانے کے بعد ڈبو دیا جاتاہے۔

35. یہ حیات بعد الموت اور قیام ِ حشر کی عقلی اور اخلاقی ضرورت ہے۔ دنیا میں جب سے انسان پیدا ہوا ہے، حقیقت کے بارےمیں بے شمار اختلاف رونما ہوئے ہیں۔ انہی اختلافات کی بنا پر نسلوں اور قوموں اور خاندانوں میں پھوٹ پڑی ہے۔ انہی کی بنا پر مختلف نظریات رکھنے والوں نے اپنے الگ مذہب ، الگ معاشرے ، الگ تمدن بنائے یا اختیار کیے ہیں۔ ایک ایک نظریے کی حمایت اور وکالت میں ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے مختلف زمانوں میں جان ، مال ، آبرو، ہر چیز کی بازی لگا دی ہے۔ اور بے شمار مواقع پر ان مختلف نظریات کے حامیوں میں ایسی سخت کشاکش ہوئی ہے کہ ایک نے دوسرے کو بالکل مٹا دینے کی کوشش کی ہے، اور مٹنے والے نے مٹتے مٹتے بھی اپنا نقطۂ نظر نہیں چھوڑا ہے ۔ عقل چاہتی ہے کہ ایسے اہم اور سنجیدہ اختلافات کے متعلق کبھی توصحیح اور یقینی طور پر معلوم ہو کہ فی الواقع ان کے اندر حق کیا تھا اور باطل کیا، راستی پر کون تھا، اور ناراستی پر کون۔ اِس دنیا میں تو کوئی امکان اس پردے کے اُٹھنے کا نظر نہیں آتا ۔ اس دنیا کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ اس میں حقیقت پر سے پردہ اُٹھ نہیں سکتا۔ لہٰذا لا محالہ عقل کے اِس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے۔

اور یہ صرف عقل کا تقاضا ہی نہیں ہے بلکہ اخلاق کا تقاضا بھی ہے۔ کیونکہ ان اختلافات اور ان کشمکشوں میں بہت سے فرقوں نے حصّہ لیا ہے۔ کسی نے ظلم کیا ہے اور کسی نے سہا ہے۔ کسی نے قربانیاں کی ہیں اور کسی نے ان قربانیوں کو وصول کیا ہے۔ ہر ایک نے اپنے نظریے کے مطابق ایک اخلاقی فلسفہ اور ایک اخلاقی رویہ اختیار کیا ہے اور اس سے اربوں اور کھربوں انسانوں کی زندگیاں بُرے یا بھلے طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ آخر کوئی وقت تو ہونا چاہیے جبکہ ان سب کا اخلاقی نتیجہ صِلے یا سزا کی شکل میں ظاہر ہو۔ اس دنیا کا نظام اگر صحیح اور مکمل اخلاقی نتائج کے ظہور کا متحمل نہیں ہے تو ایک دوسری دنیا ہونی چاہیے جہاں یہ نتائج ظاہر ہو سکیں۔

36. یعنی لوگ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اور تمام اگلے پچھلے انسانوں کو بیک وقت جِلا اُٹھانا کوئی بڑا ہی مشکل کام ہے۔ حالانکہ اللہ کی قدرت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے کسی ارادے کو پورا کرنے کے لیے کسی سروسامان، کسی سبب اور وسیلے، اور کسی سازگاریٔ احوال کی محتاج نہیں ہے۔ اس کا ہر ارادہ محض اس کے حکم سے پورا ہوتا ہے۔ اس کا حکم ہی سروسامان وجود میں لاتا ہے۔ اس کے حکم ہی سے اسباب و وسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کا حکم ہی اس کی مراد کے عین مطابق احوال تیار کر لیتا ہے۔ اِس وقت جو دنیا موجود ہے یہ بھی مجرد حکم سے وجود میں آئی ہے، اور دوسری دنیا بھی آناً فاناً صرف ایک حکم سے ظہور میں آ سکتی ہے۔