Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 41-50

وَالَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا فِى اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا لَـنُبَوِّئَنَّهُمۡ فِى الدُّنۡيَا حَسَنَةً​  ؕ وَلَاَجۡرُ الۡاٰخِرَةِ اَكۡبَرُ​ۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَۙ‏  ﴿16:41﴾ الَّذِيۡنَ صَبَرُوۡا وَعَلٰى رَبِّهِمۡ يَتَوَكَّلُوۡنَ‏ ﴿16:42﴾ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِىۡۤ اِلَيۡهِمۡ​ فَسۡـئَلُوۡۤا اَهۡلَ الذِّكۡرِ اِنۡ كُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَۙ‏ ﴿16:43﴾ بِالۡبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ​ؕ وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُوۡنَ‏ ﴿16:44﴾ اَفَاَمِنَ الَّذِيۡنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنۡ يَّخۡسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الۡاَرۡضَ اَوۡ يَاۡتِيَهُمُ الۡعَذَابُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَشۡعُرُوۡنَۙ‏ ﴿16:45﴾ اَوۡ يَاۡخُذَهُمۡ فِىۡ تَقَلُّبِهِمۡ فَمَا هُمۡ بِمُعۡجِزِيۡنَۙ‏ ﴿16:46﴾ اَوۡ يَاۡخُذَهُمۡ عَلٰى تَخَوُّفٍؕ فَاِنَّ رَبَّكُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ‏  ﴿16:47﴾ اَوَلَمۡ يَرَوۡا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنۡ شَىۡءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الۡيَمِيۡنِ وَالشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلَّهِ وَهُمۡ دٰخِرُوۡنَ‏ ﴿16:48﴾ وَلِلّٰهِ يَسۡجُدُ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ مِنۡ دَآبَّةٍ وَّالۡمَلٰۤـئِكَةُ وَهُمۡ لَا يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ‏ ﴿16:49﴾ يَخَافُوۡنَ رَبَّهُمۡ مِّنۡ فَوۡقِهِمۡ وَيَفۡعَلُوۡنَ مَا يُؤۡمَرُوۡنَ ۩‏  ﴿16:50﴾

41 - جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔37 کاش جان لیں مظلوم 42 - وہ جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے ربّ کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے)۔ 43 - اے محمدؐ، ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسُول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے ۔38 اہلِ ذکر 39سے پُوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔ 44 - پچھلے رسُولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور اب یہ ذِکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاوٴ جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے40، اور تاکہ لوگ (خود بھی)غور و فکر کریں۔ 45 - پھر کیا وہ لوگ جو (دعوتِ پیغمبرؐ کے مخالف ہیں)بدتر سے بدتر چالیں چل رہے ہیں اِس بات سے بالکل ہی بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے ، یا ایسے گوشے سے ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا ان کو وہم و گمان تک نہ ہو، 46 - یا اچانک چلتے پھرتے ان کو پکڑ لے، وہ جو کچھ بھی کرنا چاہے یہ لوگ اس کو عاجز کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ 47 - یا ایسی حالت میں انہیں پکڑے جبکہ انہیں خود آنے والی مصیبت کا کھٹکا لگا ہُوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنّے ہوں؟ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا ربّ بڑا ہی نرم خو اور رحیم ہے۔ 48 - اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضُور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے؟41 سب کے سب اِس طرح اظہارِ عجز کر رہے ہیں۔ 49 - زمین اور آسمانوں میں جس قدر جان دار مخلوقات ہیں اور جتنے ملائکہ ہیں سب اللہ کے آگے سر بسجُود ہیں۔42 وہ ہر گز سرکشی نہیں کرتے، 50 - اپنے ربّ سے جو اُن کے اُوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ؏ ۶ ۳السجدة


Notes

37. یہ اشارہ ہے اُس مہاجرین کی طرف جو کفار کے ناقابلِ برداشت مظالم سے تنگ آکر مکّے سے حبش کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ منکرینِ آخرت کی بات کا جواب دینے کے بعد یکایک مہاجرین ِ حبشہ کا ذکر چھیڑ دینے میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ اِس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ ظالمو! یہ جفاکاریاں کرنے کے بعد اب تم سمجھتے ہو کہ کبھی تم سے باز پرس اور مظلوموں کی داد رسی کا وقت ہی نہ آئے گا۔

38. یہاں مشرکین مکہ کے ایک اعتراض کو نقل کیے بغیر اسکا جواب دیا جا رہا ہے ۔ اعتراض وہی ہے جو پہلے بھی تمام انبیاء پر ہو چکا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین نے بھی آپ پر بارہا کیا تھا کہ تم ہماری ہی طرح کے انسان ہو ، پھر ہم کیسے مان لیں کہ خدا نے تم کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔

39. یعنی علماء اہلِ کتاب ، اور وہ دوسرے لوگ جو چاہے سکّہ بند علما ء نہ ہوں مگر بہر حال کتب ِ آسمانی کی تعلیمات سے واقف اور انبیاء ِ سابقین کی سرگزشت سے آگاہ ہوں۔

40. تشریح و توضیح صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی، اور اپنی رہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کر کے بھی، اور ”ذکرِ الہٰی“ کے منشا کے مطابق اُس کے نظام کو چلا کر بھی۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہ حکمت بیان کر دی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ لازمًا ایک انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا جائے۔ ”ذکر“ فرشتوں کے ذریعہ سے بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ براہِ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک بھی پہنچا یا جا سکتا تھا۔ مگر محض ذکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت اور ربوبیت اس کی تنزیل کی متقاضی تھی۔ اُس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس ”ذکر“ کو ایک قابل ترین انسان لے کر آئے۔ وہ ا س کو تھوڑا تھوڑا کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ جن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اس کا مطلب سمجھائے۔ جنہیں کچھ شک ہو ان کا شک رفع کرے ، جنہیں کوئی اعتراض ہو ان کے اعتراض کا جواب دے۔ جو نہ مانیں اور مخالفت اور مزاحمت کریں اُن کے مقابلہ میں وہ اُس طرح کا رویہ برت کر دکھائے جو اِس ”ذکر“ کے حاملین کی شان کے شایان ہے۔ جو مان لیں انہیں زندگی کی ہر گوشے اور ہر پہلو کے متعلق ہدایات دے۔ ان کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کرے، اور ان کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی کو بطور مثال رکھ دے جس کا پورا اجتماعی نظام”ذکر“ کے منشا کی شرح ہو۔

یہ آیت جس طرح اُن منکرینِ نبوت کی حجّت کے لیے قاطع تھی جو خدا کا ”ذِکر“ بشر کے ذریعہ سے آنے کو نہیں مانتے تھے اُسی طرح آج یہ اُن منکرینِ حدیث کی حجت کے لیے بھی قاطع ہے جو نبی کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف ”ذکر“ کو لے لینا چاہتے ہیں۔ وہ خواہ اس بات کے قائل ہوں کہ نبی نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی صرف ذکر پیش کر دیا تھا ، یا اِس کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف ذکر ہے نہ نبی کی تشریح، یا اِس کے قائل ہوں کہ اب ہمارے لیے صرف ذکر کافی ہے نبی کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں، یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف ذکر ہی قابلِ اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے ، نبی کی تشریح یا تو باقی ہی نہیں رہی یا با قی ہے بھی تو بھروسے کے لائق نہیں ہے ، غرض اِن چاروں باتوں میں سے جس بات کے بھی وہ قائل ہوں ، اُن کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے۔

اگر وہ پہلی بات کے قائل ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی نے اُس منشا ہی کو فوت کر دیا جس کی خاطر ذکر کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہِ راست لوگوں تک پہنچا دینے کے بجائے اُسے واسطۂ تبلیغ بنایا گیا تھا۔

اور اگر وہ دوسری یا تیسری بات کے قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ میاں نے (معاذ اللہ) یہ فضول حرکت کی کہ اپنا”ذکر“ ایک نبی کے ذریعہ سے بھیجا۔ کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف ذکر کے مطبوعہ شکل میں نازل ہو جانے کا ہو سکتا تھا۔

اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوت محمدیؐ ، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد اگر کوئی مسلکِ معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ صر ف اُن لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ خود قرآ ن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لیے نبی کی تشریح کو نا گزیر ٹھیرارہا ہے اور نبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ ذکر کے منشا کی توضیح کرے۔ اب اگر منکرینِ حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی توضیح و تشریح دنیا میں باقی نہیں رہی ہے تو اس کے دو نتیجے کھلے ہوئے ہیں۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ نمونۂ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدیؐ ختم ہو گئی اور ہمارا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اُن طرح کا رہ گیا جیسا ہُود اور صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کر تے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں، مگر ان کا کوئی اُسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں یہ چیز نئی نبوت کی ضرورت آپ سے آپ ثابت کر دیتی ہے، صرف ایک بے وقوف ہی اس کے بعد ختم ِ نبوت پر اصرار کر سکتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اکیلا قرآن نبی کی تشریح و تبیین کے بغیر خود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لیے ناکافی ہے، اس لیے قرآن کے ماننے والے خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں، مُدعی سست کی حمایت میں گواہانِ چُست کی بات ہر گز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت آپ سے آپ خود قرآن کی رو سے ثابت ہو جاتی ہے ۔ قاتلہم اللہ ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکارِ حدیث کے ذریعے سے دین کی جڑ کھود رہے ہیں۔

41. یعنی تمام جسمانی اشیاء کے سائے اس بات کی علامت ہیں کہ پہاڑ ہوں یا درخت ، جانور ہوں یا انسان، سب کے سب ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں ، سب کی پیشانی پر بندگی کا داغ لگا ہوا ہے ، اُلوہیت میں کسی کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی نہیں ہے۔ سایہ پڑنا ایک چیز کے مادّی ہونے کی کھلی علامت ہے، اور مادّی ہونا بندہ و مخلوق ہونے کا کھلا ثبوت ۔

42. یعنی زمین ہی کی نہیں ، آسمانوں کی بھی وہ تمام ہستیاں جن کو قدیم زمانے سے لے کر آج تک لوگ دیوی، دیوتا اور خدا کے رشتہ دار ٹھیراتے آئے ہیں دراصل غلام اور تابعدار ہیں۔ ان میں سے بھی کسی کا خداوندی میں کوئی حصہ نہیں۔

ضمنًا اس آِت سے ایک اشارہ اس طرف بھی نکل آیا ہے کہ جاندار مخلوقات صرف زمین ہی میں نہیں ہیں بلکہ عالم بالا کے سیّاروں میں بھی ہیں۔ یہی بات سورۂ شوریٰ آیت ۲۹ میں بھی ارشاد ہوئی ہے۔