Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 51-60

وَقَالَ اللّٰهُ لَا تَـتَّخِذُوۡۤا اِلٰهَيۡنِ اثۡنَيۡنِ​ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ​ ۚ فَاِيَّاىَ فَارۡهَبُوۡنِ‏ ﴿16:51﴾ وَلَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَلَهُ الدِّيۡنُ وَاصِبًا​ ؕ اَفَغَيۡرَ اللّٰهِ تَـتَّـقُوۡنَ‏ ﴿16:52﴾ وَمَا بِكُمۡ مِّنۡ نّـِعۡمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ​ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيۡهِ تَجْئَرُوۡنَ​ۚ‏ ﴿16:53﴾ ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنۡكُمۡ اِذَا فَرِيۡقٌ مِّنۡكُمۡ بِرَبِّهِمۡ يُشۡرِكُوۡنَۙ‏ ﴿16:54﴾ لِيَكۡفُرُوۡا بِمَاۤ اٰتَيۡنٰهُمۡ​ؕ فَتَمَتَّعُوۡا​ فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿16:55﴾ وَيَجۡعَلُوۡنَ لِمَا لَا يَعۡلَمُوۡنَ نَصِيۡبًا مِّمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ​ؕ تَاللّٰهِ لَـتُسۡـئَلُنَّ عَمَّا كُنۡتُمۡ تَفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿16:56﴾ وَيَجۡعَلُوۡنَ لِلّٰهِ الۡبَـنٰتِ سُبۡحٰنَهٗ​ۙ وَلَهُمۡ مَّا يَشۡتَهُوۡنَ‏  ﴿16:57﴾ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمۡ بِالۡاُنۡثٰى ظَلَّ وَجۡهُهٗ مُسۡوَدًّا وَّهُوَ كَظِيۡمٌ​ۚ‏ ﴿16:58﴾ يَتَوَارٰى مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡۤءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ ؕ اَيُمۡسِكُهٗ عَلٰى هُوۡنٍ اَمۡ يَدُسُّهٗ فِى التُّـرَابِ​ ؕ اَلَا سَآءَ مَا يَحۡكُمُوۡنَ‏ ﴿16:59﴾ لِلَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوۡءِ​ۚ وَلِلّٰهِ الۡمَثَلُ الۡاَعۡلٰى​ ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿16:60﴾

51 - اللہ کا فرمان ہے کہ ”دو خدا نہ بنا لو،43 خدا تو بس ایک ہی ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو، 52 - اُسی کا ہے وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، اور خالصًا اُسی کا دین (ساری کائنات میں)چل رہا ہے۔44 پھر کیا للہ کو چھوڑ کر تم کسی اور سے تقوٰی کرو گے؟“45
53 - تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اُسی کی طرف دوڑتے ہو۔46 54 - مگر جب اللہ اُس وقت کو ٹال دیتا ہے تو یکایک تم میں سے ایک گروہ اپنے ربّ کے ساتھ دُوسروں کو( اس مہربانی کے شکریے میں)شریک کرنے لگتا ہے۔47 55 - تاکہ اللہ کے احسان کی ناشکری کرے۔ اچھا، مزے کرلو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ 56 - یہ لوگ جن کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں48 اُن کے حصے ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے مقرر کرتے ہیں۔۔۔۔49 خدا کی قسم، ضرور تم سے پوچھا جائے گا کہ یہ جھُوٹ تم نے کیسے گھڑ لیے تھے؟ 57 - یہ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔50 سُبحان اللہ! اور اِن کے لیے وہ جو یہ خود چاہیں؟51 58 - جب اِن میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اُس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ 59 - لوگوں سے چھُپتا پھرتا ہے کہ اِس بُری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلّت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟ ۔۔۔۔ دیکھو، کیسے بُرے حکم ہیں جو یہ خُدا کے بارے میں لگاتے ہیں ۔52 60 - بُری صفات سے متّصف کیے جانے کے لائق تو وہ لوگ ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے۔ رہا اللہ، تو اُس کے لیے سب سے برتر صفات ہیں، وہی تو سب پر غالب اورحکمت میں کامل ہے۔ ؏ ۷


Notes

43. دو خداؤں کی نفی میں دو سے زیادہ خداؤں کی نفی آپ سے آپ شامل ہے۔

44. دوسرے الفاظ میں اسی کی اطاعت پر اِس پورے کارخانۂ ہستی کا نظام قائم ہے۔

45. بالفاظِ دیگر کیا اللہ کے بجائے کسی اور کا خوف اور کسی اور کی ناراضی سے بچنے کا جذبہ تمہارے نظامِ زندگی کی بنیا د بنے گا؟

46. یعنی یہ توحید کی ایک صریح شہادت تمہارے اپنے نفس میں موجود ہے۔ سخت مصیبت کے وقت جب تمام مَن گھڑت تصورات کا زنگ ہٹ جاتا ہے تو تھوڑی دیر کے لیے تمہاری اصل فطرت اُبھر آتی ہے جو اللہ کے سوا کسی الٰہ ، کسی رب، اور کسی مالِک ذی اختیار کو نہیں جانتی ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حواشی نمبر ۲۹ و نمبر ۴۱۔ یونس ، حاشیہ نمبر ۳۱)۔

47. یعنی اللہ کے شکریہ کے ساتھ ساتھ کسی بزرگ یا کسی دیوی یا دیوتا کے شکریے کی بھی نیازیں اور نذریں چڑھانی شروع کر دیتا ہے۔ اور اپنی بات بات سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کے نزدیک اللہ کی اس مہربانی میں اُن حضرت کی مہربانی کا بھی دخل تھا، بلکہ اللہ ہر گز مہربانی نہ کرتا اگر وہ حضرت مہربان ہو کر اللہ کو مہربانی پر آمادہ نہ کرتے۔

48. یعنی جن کے متعلق کسی مستند ذریعہ ٔ علم سے اِنہیں یہ تحقیق نہیں ہوا ہے کہ اللہ میاں نے اُن کو واقعی شریک ِ خدا نامزد کر رکھا ہے، اور اپنی خدائی کے کاموں میں سے کچھ کام یا اپنی سلطنت کے علاقوں میں سے کچھ علاقے ان کو سونپ رکھے ہیں۔

49. یعنی اُن کی نذر، نیاز اور بھینٹ کے لیے اپنی آمدنیوں اور اپنی اراضی کی پیداوار میں سے ایک مقرر حصہ الگ نکال رکھتے ہیں۔

50. مشرکینِ عرب کے معبودوں میں دیوتا کم تھے ، دیویاں زیادہ تھیں ، اور ان دیویوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں۔۔ اسی طرح فرشتوں کو بھی وہ خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔

51. یعنی بیٹے۔

52. یعنی اپنے لیے جس بیٹی کو یہ لوگ اس قدر موجب ننگ و عار سمجھتے ہیں، اسی کو خدا کے لیے بلا تامُل تجویز کر دیتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا بجائے خود ایک شدید جہالت اور گستاخی ہے، مشرکین عرب کی اس حرکت پر یہاں اِس خاص پہلو سے گرفت اس لیے کی گئی ہے کہ اللہ کے متعلق اُن کے تصور کی پستی واضح کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ مشرکانہ عقائد نے اللہ کے معاملے میں ان کو کس قدر جری اور گستاخ بنا دیا ہے اور وہ کس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے کوئی قباحت تک محسوس نہیں کرتے۔