Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 66-70

وَاِنَّ لَـكُمۡ فِىۡ الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَةً​  ؕ نُّسۡقِيۡكُمۡ مِّمَّا فِىۡ بُطُوۡنِهٖ مِنۡۢ بَيۡنِ فَرۡثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِيۡنَ‏  ﴿16:66﴾ وَمِنۡ ثَمَرٰتِ النَّخِيۡلِ وَالۡاَعۡنَابِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡهُ سَكَرًا وَّرِزۡقًا حَسَنًا ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لِّقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿16:67﴾ وَاَوۡحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحۡلِ اَنِ اتَّخِذِىۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُيُوۡتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعۡرِشُوۡنَۙ‏ ﴿16:68﴾ ثُمَّ كُلِىۡ مِنۡ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسۡلُكِىۡ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا​ ؕ يَخۡرُجُ مِنۡۢ بُطُوۡنِهَا شَرَابٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُهٗ فِيۡهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ​ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ‏ ﴿16:69﴾ وَاللّٰهُ خَلَقَكُمۡ ثُمَّ يَتَوَفّٰٮكُمۡ​ۙ وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِكَىۡ لَا يَعۡلَمَ بَعۡدَ عِلۡمٍ شَيۡـئًا​ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ قَدِيۡرٌ‏ ﴿16:70﴾

66 - اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے ۔ اُن کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پِلاتے ہیں، یعنی خالص دُودھ54، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔ 67 - (اسی طرح)کھجور کے درختوں اور انگُور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنا لیتے ہو اور پاک رزق بھی۔ 55یقیناً اِس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لیے۔ 68 - اور دیکھو، تمہارے ربّ نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی56 کہ پہاڑوں میں، اور درختوں میں، اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں، اپنے چھتّے بنا 69 - اور ہر طرح کا رَس چُوس اور اپنے ربّ کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔57 اِس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔58یقیناً اس میں بھی ایک نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔59 70 - اور دیکھو، اللہ نے تم کو پیدا کیا، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے،60 اور تم میں سے کوئی بدترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔61 حق یہ ہے کہ اللہ ہی علم میں بھی کامل ہے اور قدرت میں بھی۔ ؏ ۹


Notes

54. گوبر اور خون کے درمیان“ کا مطلب یہ ہے کہ جانور جو غذا کھاتے ہیں اُس سے ایک طرف تو خون بنتا ہے، اور دوسری طرف فضلہ، مگر انہی جانوروں کی صنفِ اُناث میں اُسی غذا سے ایک تیسری چیز بھی پیدا ہو جاتی ہے جو خاصیت ، رنگ و بو، فائدے اور مقصد میں ان دونوں سے بالکل مختلف ہے۔ پھر خاص طور پر مویشیوں میں اس چیز کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ضرورت پوری کرنے کے بعد انسان کے لیے بھی یہ بہترین غذا کثیر مقدار میں فراہم کرتے رہتے ہیں۔

55. اس میں ایک ضمنی اشارہ اس مضمون کی طرف بھی ہے کہ پھلوں کے اِس عرق میں وہ مادہ بھی موجود ہے جو انسان کے لیے حیات بخش غذا بن سکتا ہے، اور وہ مادّہ بھی موجود ہے جو سڑ کر الکوہل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اب یہ انسان کی اپنی قوتِ انتخاب پر منحصر ہے کہ وہ اس سرچشمے سے پاک رزق حاصل کرتا ہے یا عقل و خرد زائل کر دینے والی شراب ۔ ایک اور ضمنی اشارہ شراب کی حرمت کی طرف بھی ہے کہ وہ پاک رزق نہیں ہے۔

56. وحی کے لغوی معنی ہیں خفیہ اور لطیف اشارے کے جسے اشارہ کرنے والے اور اشارہ پانے والے کے سوا کوئی اور محسوس نہ کر سکے۔ اسی مناسبت سے یہ لفظ اِلقاء (دل میں بات ڈال دینے) اور الہام (مخفی تعلیم و تلقین) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو جو تعلیم دیتا ہے وہ چونکہ کسی مکتب و درسگاہ میں نہیں دی جاتی بلکہ ایسے لطیف طریقوں سے دی جاتی ہے کہ بظاہر کوئی تعلیم دیتا اور کوئی تعلیم پاتا نظرنہیں آتا ، اس لیے ا س کو قرآن میں وحی، الہام اور القاء کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اب یہ تینوں الفاظ الگ الگ اصطلاحوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ لفظ وحی انبیاء کے لیے مخصوص ہو گیا ہے۔ الہام کو اولیاء اور بندگانِ خاص کے لیے خاص کر دیا گیا ہے۔ اور القاء نسبتًہ عام ہے۔

لیکن قرآن میں یہ اصطلاحی فرق نہیں پایا جاتا ۔ یہاں آسمانوں پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق ان کا سارا نظام چلتا ہے( وَاَوْ حٰی فِیْ کُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَھَا ۔ حٰمِ السجدہ)۔ زمین پر بھی وحی ہوتی ہے جس کا اشارہ پاتے ہی وہ اپنی سرگزشت سنانے لگتی ہے۔ (یَوْ مَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَاo بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَاo ۔ الزلزال)۔ ملائکہ پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ کام کرتے ہیں ۔(اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ ۔ الانفال) شہد کی مکھی کو اس کا پورا کام وحی (فطری تعلیم ) کے ذریعہ سے سکھایا جاتا ہے جیسا کہ آیت زیر بحث میں آپ دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ وحی صرف شہد کی مکھی تک ہی محدود نہیں ہے ۔ مچھلی کو تیرنا، پرندے کو اُڑنا اور نوزائیدہ بچے کو دودھ پینا بھی وحی خداوندی ہی سکھایا کرتی ہے ۔ پھر ایک انسان کو غور و فکر اور تحقیق و تجسُس کے بغیر جو صحیح تدبیر، یا صائب رائے ، یا فکر و عمل کی صحیح راہ سُجھائی جاتی ہے وہ بھی وحی ہے (وَاَوْحِیْنَآ اِلیٰ اُمِّ مُوْسیٰٓ اَنْ اَرْ ضِعِیْہِ ۔ القصص)۔ اور اس وحی سے کوئی انسان بھی محروم نہیں ہے۔ دنیا میں جتنے اکتشافات ہوئے ہیں، جتنی مفید ایجادیں ہوئی ہیں، بڑے بڑے مدبرین ، فاتحین ، مفکرین اور مصنفین نے جو معرکے کے کام کیے ہیں ، اُن سب میں اس وحی کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ بلکہ عام انسانوں کو آئے دن اس طرح کے تجربات ہوتے رہتے ہیں کہ کبھی بیٹھے بیٹھے دل میں ایک بات آئی ، یا کوئی تدبیر سوجھ گئی، یا خواب میں کچھ دیکھ لیا، اور بعد میں تجربے سے پتہ چلا کہ وہ ایک صحیح رہنمائی تھی جو غیب سے انہیں حاصل ہوئی تھی۔

ان بہت سے اقسام میں سے ایک خاص قسم کی وحی وہ ہے جس سے انبیاء علیہم السلام نوازے جاتے ہیں اور یہ وحی اپنی خصوصیات میں دوسری اقسام سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس میں وحی کیے جانے والے کو پورا شعور ہوتا ہے کہ یہ وحی خدا کی طرف سے آرہی ہے۔ اُسے اس کے مِن جانب اللہ ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ عقائد اور احکام اور قوانین اور ہدایات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور اسے نازل کرنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ نبی اس کے ذریعہ سے نوع انسانی کی رہنمائی کرے۔

57. رب کی ہموار کی ہوئی راہوں“ کا اشارہ اُس پورے نظام اور طریق کا ر کی طرف ہے جس پر شہد کی مکھیوں کا ایک گروہ کام کرتا ہے۔ ان کے چھتوں کی ساخت ، ان کے گروہ کی تنظیم، ان کے مختلف کارکنوں کی تقسیم کار، ان کی فراہمی غذا کے لیے پیہم آمدو رفت ، ان کا باقاعدگی کے ساتھ شہد بنا بنا کر ذخیرہ کرتے جانا، یہ سب وہ راہیں ہیں جو ان کے عمل کے لیے ان کے رب نے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ انہیں کبھی سوچنے اور غور فکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بس ایک مقرر نظام ہے جس پر ایک لگے بندھے طریقے پر شَکَر کے یہ بے شمار چھوٹے چھوٹے کارخانے ہزار ہا برس سے کام کیے چلے جارہے ہیں۔

58. شہد کا ایک مفید اور لذیذ غذا ہونا تو ظاہر ہے، اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ البتہ اس کے اندر شفا ہونا نسبتًہ ایک مخفی بات ہے اِس لیے اس پر متنبہ کر دیا گیا۔ شہد اول تو بعض امراض میں بجائے خود مفید ہے ، کیونکہ اسکے اندر پھولوں اور پھلوں کا رس، اور ان کا گلوکوز اپنی بہترین شکل میں موجود ہوتا ہے۔ پھر شہد کا یہ خاصّہ کہ وہ خود بھی نہیں سڑتا اور دوسری چیزوں کو بھی اپنے اندر ایک مدت تک محفوظ رکھتا ہے، اسے اس قابل بنا دیتا ہے کہ دوائیں تیار کرنے میں اس سے مدد لی جائے۔ چنانچہ الکوہل کے بجائے دنیا کے فنِّ دوا سازی میں وہ صدیوں اسی غرض کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مزید براں شہد کی مکھی اگر کسی ایسے علاقے میں کام کرتی ہے جہاں کوئی خاص جڑی بوٹی کثرت سے پائی جاتی ہو تو اس علاقے کا شہد محض شہد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس جڑی بوٹی کا بہترین جوہر بھی ہوتا ہے اور اُس مرض کے لیے مفید بھی ہوتا ہے جس کی دوائیں اُس جڑی بوٹی میں خدا نے پیدا کی ہے۔ شہد کی مکھی سے یہ کام اگر باقاعدگی سے لیا جائے ، اور مختلف نباتی دواؤں کے جو ہر اس سے نکلوا کر ان کے شہد علیٰحدہ علیٰحدہ محفوظ کیے جائیں تو ہمارا خیال ہے کہ یہ شہد لیبارٹریوں میں نکالے ہوئے جوہروں سے زیادہ مفید ثابت ہو ں گے۔

59. اس پورے بیان سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے دوسرے جُز کی صداقت ثابت کرتا ہے۔ کفار و مشرکین دو ہی باتوں کی وجہ سے آپ کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایک یہ کہ آپ آخرت کی زندگی کا تصور پیش کرتے ہیں، جو اخلاق کے پورے نظام کا نقشہ بدل ڈالتا ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ صرف ایک اللہ کو معبود اور مطاع اور مشکل کشا فریاد رس قرار دیتے ہیں جس سے وہ پورا نظامِ زندگی غلط قرار پاتا ہے جو شرک یا دہریت کی بنیاد پر تعمیر ہوا ہو۔ دعوت محمدی ؐ کے انہی دونوں اجزاء کو برحق ثابت کرنے کے لیے یہاں آثارِ کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ بیان کا مدعا یہ ہے کہ اپنے گردوپیش کی دنیا پر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، یہ آثار جو ہرطرف پائے جاتے ہیں نبی کے بیان کی تصدیق کر رہے ہیں یا تمہارے اوہام و تخیلات کی؟ نبی کہتا ہے کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جاؤ گے ۔ تم اسے ایک اَن ہونی بات قرار دیتےہو۔ مگر زمین ہر بارش کے موسم میں اس کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اعادۂ خلق نہ صرف ممکن ہے بلکہ روز تمہاری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے ۔ نبی کہتا ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے۔ تمہارے دہریے اس بات کو ایک بے ثبوت دعویٰ قرار دیتے ہیں ۔ مگر مویشیوں کی ساخت، کھجوروں اور انگوروں کی بناوٹ اور شہد کی مکھیوں کی خلقت گواہی دے رہی ہے کہ ایک حکیم اور رب رحیم نے ان چیزوں کو ڈیزائن کیا ہے ، ورنہ کیونکر ممکن تھا کہ اتنے جانور اور اتنے درخت اور اتنی مکھیاں مِل جُل کر انسان کے لیے ایسی ایسی نفیس اور لذیذ اور مفید چیزیں اس باقاعدگی کے ساتھ پیدا کرتی رہتیں۔ نبی کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی تمہاری پرستش اور حمد و ثنا اور شکر و وفا کا مستحق نہیں ہے۔ تمہارے مشرکین اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اپنے بہت سے معبودوں کی نذر و نیاز بجا لانے پر اصرار کرتے ہیں۔ مگر تم خود ہی بتاؤ کہ یہ دودھ اور یہ کھجوریں اور یہ انگور اور یہ شہد ، جو تمہاری بہترین غذائیں ہیں، خدا کے سوا اور کسی کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں؟ کس دیوی یا دیوتا یا ولی نےتمہاری رزق رسانی کے لیے یہ انتظامات کیے ہیں؟

60. یعنی حقیقت صر ف اتنی ہی نہیں ہے کہ تمہاری پرورش اور رزق رسانی کا سارا انتظام اللہ کے ہاتھ میں ہے بلکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ تمہاری زندگی اور موت دونوں اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے کا اختیار رکھتا ہے نہ موت دینے کا۔

61. یعنی یہ علم جس پر تم ناز کرتے ہو اور جس کی بدولت ہی زمین کی دوسری مخلوقات پر تم کو شرف حاصل ہے، یہ بھی خدا کا بخشا ہوا ہے۔ تم اپنی آنکھوں سے یہ عبرت ناک منظر دیکھتے رہتے ہو کہ جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ لمبی عمر دے دیتا ہے تو وہی شخص جو کبھی جوانی میں دوسروں کو عقل سکھاتا تھا، کس طرح گوشت کا ایک لوتھڑا بن کر رہ جاتا ہے جسے اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا۔