Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 71-76

وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعۡضَكُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ فِى الرِّزۡقِ​ۚ فَمَا الَّذِيۡنَ فُضِّلُوۡا بِرَآدِّىۡ رِزۡقِهِمۡ عَلٰى مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ فَهُمۡ فِيۡهِ سَوَآءٌ​ ؕ اَفَبِنِعۡمَةِ اللّٰهِ يَجۡحَدُوۡنَ‏ ﴿16:71﴾ وَاللّٰهُ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِكُمۡ بَنِيۡنَ وَحَفَدَةً وَّرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ​ؕ اَفَبِالۡبَاطِلِ يُؤۡمِنُوۡنَ وَبِنِعۡمَتِ اللّٰهِ هُمۡ يَكۡفُرُوۡنَۙ‏ ﴿16:72﴾ وَيَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمۡلِكُ لَهُمۡ رِزۡقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ شَيۡـئًا وَّلَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ​ۚ‏ ﴿16:73﴾ فَلَا تَضۡرِبُوۡا لِلّٰهِ الۡاَمۡثَالَ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿16:74﴾ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبۡدًا مَّمۡلُوۡكًا لَّا يَقۡدِرُ عَلٰى شَىۡءٍ وَّمَنۡ رَّزَقۡنٰهُ مِنَّا رِزۡقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنۡفِقُ مِنۡهُ سِرًّا وَّجَهۡرًا​ؕ هَلۡ يَسۡتَوٗنَ​ؕ اَ لۡحَمۡدُ لِلّٰهِ​ؕ بَلۡ اَكۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿16:75﴾ وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً رَّجُلَيۡنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبۡكَمُ لَا يَقۡدِرُ عَلٰى شَىۡءٍ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوۡلٰٮهُۙ اَيۡنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَاۡتِ بِخَيۡرٍ​ؕ هَلۡ يَسۡتَوِىۡ هُوَۙ وَمَنۡ يَّاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ​ۙ وَهُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏  ﴿16:76﴾

71 - اور دیکھو، اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے، پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دیا کرتے ہوں تاکہ دونوں اِس رزق میں برابر کے حصہ دار بن جائیں۔ تو کیا اللہ ہی کا اِحسان ماننے سے اِن لوگوں کو اِنکار ہے؟62 72 - اور وہ اللہ ہی جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں۔ پھر کیا یہ لوگ (یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی)باطل کو مانتے ہیں63 اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں64 73 - اور اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پُوجتے ہیں جن کے ہاتھ میں نہ آسمانوں سے انہیں کچھ بھی رزق دینا ہے نہ زمین سے اور نہ یہ کام وہ کر ہی سکتے ہیں؟ 74 - پس اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو،65 اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ 75 - اللہ ایک مثال دیتا ہے 66۔ ایک تو ہے غلام، جو دُوسرے کا مملوک ہے اور خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ دُوسرا شخص ایسا ہے جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق عطا کیا ہے اور وہ اس میں سے کھُلے اور چھُپے خوب خرچ کرتا ہے ۔بتاوٴ، کیا یہ دونوں برابر ہیں؟ ۔۔۔۔ الحمدُللہ 67 مگر اکثر لوگ (اس سیدھی بات کو)نہیں جانتے۔68 76 - اللہ ایک اور مثال دیتا ہے۔ دو آدمی ہیں۔ ایک گونگا بہرا ہے، کوئی کام نہیں کرسکتا، اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے، جدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اُس سے بن نہ آئے۔ دُوسرا شخص ایسا ہے کہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود راہِ راست پر قائم ہے۔ بتاوٴ کیا یہ دونوں یکساں ہیں؟69 ؏ ۱۰


Notes

62. زمانہ ٔ حال میں اس آیت سے جو عجیب و غریب معنی نکالے گئے ہیں وہ اس امر کی بدترین مثال ہیں کہ قرآن کی آیات کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے ایک ایک آیت کے الگ معنی لینے سے کیسی کیسی لا طائل تاویلوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ لوگوں نے اس آیت کو اسلام کے فلسفہ ٔ معیشت کی اصل اور قانون معیشت کی ایک اہم دفعہ ٹھیرایا ہے۔ ان کے نزدیک آیت کا منشا یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے رزق میں فضیلت عطا کی ہو انہیں اپنا رزق اپنے نوکروں اور غلاموں کی طرف ضرور لوٹا دینا چاہیے ، اگر نہ لوٹائیں گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پائیں گے۔ حالانکہ اس پورے سلسلۂ کلام میں قانونِ معیشت کے بیان کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ اوپر سے تمام تقریر شرک کے ابطال اور توحید کے اثبات میں ہوتی چلی رہی ہے اور آگے بھی مسلسل یہی مضمون چل رہا ہے۔ اس گفتگو کے بیچ میں یکایک قانون معیشت کی ایک دفعہ بیان کر دینے کا آخر کونسا تُک ہے ؟ آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جا ئے تو صا ف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسکے بالکل برعکس مضمون بیا ن ہو رہا ہے ۔ یہاں استدلال یہ کیا گیا ہے کہ تم خود اپنے مال میں اپنے غلاموں اور نوکروں کو جب برابر کا درجہ نہیں دیتے۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ مال خدا کا دیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ تو آخر کس طرح یہ بات تم صحیح سمجھتے ہو کہ جو احسانات اللہ نے تم پر کیے ہیں ان کے شکریے میں اللہ کے ساتھ اس کے بے اختیار غلاموں کو بھی شریک کر لو اور اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھو کہ اختیارات اور حقوق میں اللہ کے یہ غلام بھی اس کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں؟

ٹھیک یہی استدلال ، اسی مضمون سے سورۂ روم، آیت نمبر ۲۸ میں کیا گیا ہے ۔ وہاں اس کے الفاظ یہ ہیں: ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآ ءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَ آ ءٌ تَخَا فُوْ نَھُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُونَ۔ اللہ تمہارے سامنے ایک مثال خود تمہاری اپنی ذات سے پیش کرتا ہے ۔ کیا تمہارے اُس رزق میں جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے تمہارےغلام تمہارے شریک ہیں حتیٰ کہ تم اور وہ اس میں برابر ہوں؟ اور تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر والوں سے ڈرا کرتے ہو؟ اس طرح اللہ کھول کھول کر نشانیاں پیش کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں“۔

دونوں آیتوں کا تقابل کر نے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں ایک ہی مقصد کے لیے ایک ہی مثال سے استدلال کیا گیا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک دوسری کی تفسیر کر رہی ہے۔

شاید لوگوں کو غلط فہمی اَفَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ انہوں نے تمثیل کے بعد متصلًا یہ فقرہ دیکھ کر خیا ل کیا کہ ہو نہ ہو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ اپنے زیر دستوں کی طرف رزق نہ پھیر دینا ہی اللہ کی نعمت کا انکا ر ہے حالانکہ جو شخص قرآن میں کچھ بھی نظر رکھتا ہے و ہ اس بات کو جانتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ غیراللہ کو ادا کرنا اس کتاب کی نگاہ میں اللہ کی نعمتوں کا انکار ہے۔ یہ مضمون اس کثرت سے قرآن میں دُہرایا گیا ہے کہ تلاوت و تدبُّر کی عادت رکھنے والوں کو تو اس میں اشتباہ پیش

نہیں آسکتا، البتہ انڈکسوں کی مدد سے اپنے مطلب کی آیات نکال کر مضامین تیار کرنے والے حضرات اس سے ناواقف ہو سکتے ہیں۔

نعمتِ الہٰی کے انکار کا یہ مفہوم سمجھ لینے کے بعد اس فقرے کا یہ مطلب صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ جب یہ لوگ مالک اور مملوک کا فرق خوب جانتے ہیں ، اور خود اپنی زندگی میں ہر وقت اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں ، تو کیا پھر ایک اللہ ہی کے معاملہ میں انہیں اس بات پر اصرار ہے کہ اُس کے بندوں کو اس کا شریک و سہیم ٹھیرائیں اور جو نعمتیں انہوں نے اُس سے پائی ہیں اُن کا شکریہ اُس کے بندوں کو ادا کریں؟

63. ”باطل کو مانتے ہیں“، یعنی یہ بے بنیاد اور بے حقیقت عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا ، ان کی مرادیں بر لانا اور دُعائیں سُننا ، انہیں اولاد دینا ، ان کو روزگار دلوانا، ان کے مقدمے جِتوانا، اور انہیں بیماریوں سے بچانا کچھ دیویوں اور دیوتاؤں اور جِنوں اور اگلے پچھلے بزرگوں کے اختیار میں ہے۔

64. اگرچہ مشرکین ِ مکّہ اس بات سے انکار نہیں کرتےتھے کہ یہ ساری نعمتیں اللہ کی دی ہوئی ہیں، اور اِن نعمتوں پر اللہ کا احسان ماننے سے بھی اُنہیں انکار نہ تھا، لیکن جو غلطی وہ کرتے تھے وہ یہ تھی کہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر یہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اُن بہت سی ہستیوں کا شکریہ بھی زبان اور عمل سے ادا کرتے تھے جن کوانہوں نے بلا کسی ثبوت اور بلا کسی سند کے اِس نعمت بخشی میں دخیل اور حصّہ دار ٹھیرا رکھا تھا۔ اِسی چیز کو قرآن”اللہ کے احسان کا انکار”قرار دیتا ہے۔ قرآن میں یہ بات بطور ایک قاعدہ کلیہ کے پیش کی گئی ہے کہ محسن کے احسان کا شکریہ غیر محسن کو ادا کرنا دراصل محسن کے احسان کا انکار کرنا ہے۔ اسی طرح قرآن یہ بات بھی اصول کے طور پر بیان کرتا ہے کہ محسن کے متعلق بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے یہ گمان کر لینا کہ اس نے خود اپنے فضل و کرم سے یہ احسان نہیں کیا ہے بلکہ فلاں شخص کے طفیل ، یا فلاں کی رعایت سے ، یا فلاں کی سفارش سے ، یا فلاں کی مداخلت سے کیا ہے، یہ بھی دراصل اس کے احسان کا انکار ہی ہے۔

یہ دونوں اصولی باتیں سراسر انصاف اور عقلِ عام کے مطابق ہیں۔ ہر شخص خود بادنیٰ تأمّل ان کی معقولیت سمجھ سکتا ہے۔ فرض کیجیے کہ آپ ایک حاجت مند آدمی پر رحم کھا کر اس کی مدد کرتے ہیں، اور وہ اسی وقت اُٹھ کر آپ کے سامنے ایک دوسرے آدمی کا شکریہ ادا کر دیتا ہے جس کا اس امداد میں کوئی دخل نہ تھا۔ آپ چاہے اپنی فراخ دلی کی بنا پر اُس کی اِس بیہودگی کو نظر انداز کر دیں اور آئندہ بھی اپنی امداد کا سلسلہ جاری رکھیں، مگر اپنے دل میں یہ ضرور سمجھیں گے کہ یہ ایک نہایت بدتمیز اور احسان فراموش آدمی ہے۔ پھر اگر دریافت کر نے پر آپ کو معلوم ہو کہ اس شخص نے یہ حرکت اس خیال کی بنا پر کی تھی کہ آپ نے اس کی جو کچھ بھی مدد کی ہے وہ اپنی نیک دلی اور فیاضی کی وجہ سے نہیں کی بلکہ اُس دوسرے شخص کی خاطر کی ہے ، درانحالیکہ یہ واقعہ نہ تھا، تو آپ لا محالہ اِسے اپنی توہین سمجھیں گے۔ اُس کی اِس بیہودہ تاویل کا صریح مطلب آپ کے نزدیک یہ ہو گا کہ وہ آپ سے سخت بدگمان ہے اور آپ کے متعلق یہ رائے رکھتا ہے کہ آپ کوئی رحیم اور شفیق انسان نہیں ہیں ، بلکہ محض ایک دوست نواز اور یارباش آدمی ہیں، چند لگے بندھے دوستوں کے توسُّل سے کوئی آئے تو آپ اس کی مدد اُن دوستوں کی خاطر کر دیتے ہیں، ورنہ آپ کے ہاتھ سے کسی کو کچھ فیض حاصل نہیں ہو سکتا۔

65. ”اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو“، یعنی اللہ کو دنیوی بادشاہوں اور راجوں اور مہاراجوں پر قیاس نہ کرو کہ جس طرح کوئی ان کے مصاحبوں اور مُقرب بار گاہ ملازموں کے توسّط کے بغیر اُن تک اپنی عرض معروض نہیں پہنچا سکتا اسی طرح اللہ کے متعلق بھی تم یہ گمان کرنے لگو کہ وہ اپنے قصر شاہی میں ملائکہ اور اولیاء اور دوسرے مقربین کے درمیان گھِرا بیٹھا ہے اور کسی کاکوئی کام اِن واسطوں کے بغیر اس کے ہاں سے نہیں بن سکتا۔

66. یعنی اگر مثالوں ہی سے بات سمجھنی ہے تو اللہ صحیح مثالوں سے تم کو حقیقت سمجھاتا ہے ۔ تم جو مثالیں دے رہے ہو وہ غلط ہیں، ا س لیے تم ان سے غلط نتیجے نکال بیٹھتے ہو۔

67. سوال اور الحمد للہ کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے بھرنے کے لیے خود لفظ الحمد للہ ہی میں بلیغ اشارہ موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ نبیؐ کی زبان سے یہ سوال سُن کر مشرکین کے لیے اس کا یہ جواب دینا تو کسی طرح ممکن نہ تھا کہ دونوں برابر ہیں۔ لا محالہ اس کے جواب میں کسی نے صاف صاف اقرار کیا ہو گا کہ واقعی دونوں برابر نہیں ہیں، اور کسی نے اس اندیشے سے خاموشی اختیار کر لی ہوگی کہ اقراری جواب دینے کی صورت میں اُس کے منطقی نتیجے کا بھی اقرار کرنا ہو گا اور اس سے خود بخود اُن کے شرک کا ابطال ہو جائے گا۔ لہٰذا نبی نے دونوں کا جواب پا کر فرمایا الحمد للہ ۔ اقرار کرنے والوں کے اقرار پر بھی الحمد للہ ، اور خاموش رہ جانے والوں کی خاموشی پر بھی الحمد للہ ۔ پہلی صورت میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ”خدا کا شکر ہے، اتنی بات تو تمہاری سمجھ میں آئی“۔ دوسری صورت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ”خاموش ہوگئے؟ الحمد للہ ۔ اپنی ساری ہٹ دھرمیوں کے باوجود دونوں کو برابر کہہ دینے کی ہمت تم بھی نہ کر سکے“۔

68. یعنی باوجودیکہ انسانوں کے درمیان وہ صریح طور پر با اختیار اور بے اختیار کے فرق کو محسوس کرتے ہیں ، اور اس فرق کو ملحوظ رکھ کر ہی دونوں کے ساتھ الگ الگ طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں، پھر بھی وہ ایسے جاہل و نادان بنے ہوئے ہیں کہ خالق اور مخلوق کا فرق ان کو سمجھ میں نہیں آتا۔ خالق کی ذات اور صفات اور حقوق اور اختیارات ، سب میں وہ مخلوق کو اس کا شریک سمجھ رہے ہیں اور مخلوق کے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار کر رہے ہیں جو صرف خالق کے ساتھ ہی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ عالمِ اسباب میں کوئی چیز مانگنی ہو تو گھر کے مالک سے مانگیں گے نہ کہ گھر کے غلام سے۔ مگر مبدًا فیض سے حاجات طلب کرنی ہوں تو کائنات کے مالک کو چھوڑ کر اس کے بندوں کے آگے ہاتھ پھیلا دیں گے۔

69. پہلی مثال میں اللہ اور بناوٹی معبودوں کے فرق کو صرف اختیار اور بے اختیاری کے اعتبار سے نمایاں کیا گیا تھا۔ اب اس دوسری مثال میں وہی فرق اور زیادہ کھول کر صفات کے لحاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اِن بناوٹی معبودوں کے درمیان فرق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ایک با اختیار مالک ہے اور دوسرا بے اختیار غلام۔ بلکہ مزید برآں یہ فرق بھی ہے کہ یہ غلام نہ تمہاری پکار سنتا ہے ، نہ اس کا جواب دے سکتا ہے، نہ کوئی کام با ختیار ِ خود کر سکتا ہے۔ اس کی اپنی زندگی کا سارا انحصار اُس کے آقا کی ذات پر ہے۔ اور آقا اگر کوئی کام اس پر چھوڑ دے تو وہ کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ بخلاف اس کے آقا کا حال یہ ہے کہ صرف ناطق ہی نہیں ناطق حکیم ہے، دنیا کو عدل کا حکم دیتا ہے۔ اور صرف فاعلِ مختار ہی نہیں، فاعلِ برحق ہے ، جو کچھ کرتا ہے راستی اور صحت کے ساتھ کرتا ہے۔ بتاؤ یہ کونسی دانائی ہے کہ تم ایسے آقا اور ایسے غلام کو یکساں سمجھ رہے ہو؟