Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 77-83

وَلِلّٰهِ غَيۡبُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ وَمَاۤ اَمۡرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمۡحِ الۡبَصَرِ اَوۡ هُوَ اَقۡرَبُ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏  ﴿16:77﴾ وَاللّٰهُ اَخۡرَجَكُمۡ مِّنۡۢ بُطُوۡنِ اُمَّهٰتِكُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ شَيۡـئًا ۙ وَّ جَعَلَ لَـكُمُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصٰرَ وَالۡاَفۡـئِدَةَ​ ۙ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏  ﴿16:78﴾ اَلَمۡ يَرَوۡا اِلَى الطَّيۡرِ مُسَخَّرٰتٍ فِىۡ جَوِّ السَّمَآءِ ؕ مَا يُمۡسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُ​ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يُّؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿16:79﴾ وَاللّٰهُ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡۢ بُيُوۡتِكُمۡ سَكَنًا وَّجَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ جُلُوۡدِ الۡاَنۡعَامِ بُيُوۡتًا تَسۡتَخِفُّوۡنَهَا يَوۡمَ ظَعۡنِكُمۡ وَيَوۡمَ اِقَامَتِكُمۡ​ۙ وَمِنۡ اَصۡوَافِهَا وَاَوۡبَارِهَا وَاَشۡعَارِهَاۤ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰى حِيۡنٍ‏  ﴿16:80﴾ وَاللّٰهُ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّجَعَلَ لَـكُمۡ مِّنَ الۡجِبَالِ اَكۡنَانًا وَّجَعَلَ لَـكُمۡ سَرَابِيۡلَ تَقِيۡكُمُ الۡحَـرَّ وَسَرَابِيۡلَ تَقِيۡكُمۡ بَاۡسَكُمۡ​ؕ كَذٰلِكَ يُتِمُّ نِعۡمَتَهٗ عَلَيۡكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تُسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿16:81﴾ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَيۡكَ الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿16:82﴾ يَعۡرِفُوۡنَ نِعۡمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ يُنۡكِرُوۡنَهَا وَاَكۡثَرُهُمُ الۡكٰفِرُوۡنَ‏  ﴿16:83﴾

77 - اور زمین و آسمان کے پوشیدہ حقائق کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔70 اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے، بلکہ اس سے بھی کچھ 71کم۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ 78 - اللہ نے تم کو تمہاری ماوٴں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اُس نے تمہیں کان دیے ، آنکھیں دیں، اور سوچنےوالے دل دیے72، اس لیے کہ تم شکر گزار بنو۔73 79 - کیا اِن لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخَّر ہیں؟ اللہ کے سوا کس نے اِن کو تھام رکھا ہے؟ اِس میں بہت نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ 80 - >اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو جائے سکُون بنایا۔ اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے مکان پیدا کیے74 جنہیں تم سفر اور قیام، دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو۔75 اُس نے جانوروں کے صوف اور اُون اور بالوں سے تمہارے لیے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کر دیں جو زندگی کی مدّتِ مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں۔ 81 - اُس نے اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی چیزوں سے تمہارے لیے سائے کا انتظام کیا، پہاڑوں پر تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں، اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں76 اور کچھ دُوسری پوشاکیں جو آپس کی جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں۔77 اس طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے78 شاید کہ تم فرمانبردار بنو۔ 82 - اب اگر یہ لوگ مُنہ موڑتے ہیں تو اے محمد ؐ ، تم پر صاف صاف پیغامِ حق پہنچا دینے کے سوا اور کوئی ذمّہ داری نہیں ہے۔ 83 - یہ اللہ کے احسان کے پہچانتے ہیں ، پھر اس کا انکار کرتے ہیں۔79 اور اِن میں بیش تر لوگ ایسے ہیں جو حق ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ؏ ١١


Notes

70. بعد کے فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل جواب ہے کفارِ مکّہ کے اُس سوال کا جو وہ اکثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے کہ اگر واقعی وہ قیامت آنے والی ہے جس کی تم ہمیں خبر دیتے ہو تو آخر وہ کس تاریخ کو آئے گی۔ یہاں اُن کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جارہا ہے۔

71. یعنی قیامت رفتہ رفتہ کسی طویل مُدّت میں واقع نہ ہوگی، نہ اس کی آمد سے پہلے تم دُور سے اس کو آتے دیکھو گے کہ سنبھل سکو اور کچھ اس کے لیے تیاری کر سکو۔ وہ تو کسی روز اچانک چشم ِ زدن میں ، بلکہ اس سے بھی کم مدّت میں آجائے گی۔ لہٰذا جس کوغور کرنا ہو سنجیدگی کے ساتھ غور کرے، اوراپنے رویہ کے متعلق جو فیصلہ بھی کرنا ہو جلدی کر لے۔ کسی کو اس بھروسے پر نہ رہنا چاہیے کہ ابھی تو قیامت دور ہے ، جب آنے لگے گی تو اللہ سے معاملہ درست کر لیں گے ۔۔۔۔۔۔ توحید کی تقریر کے درمیان یکایک قیامت کا یہ ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ توحید اور شرک کے درمیان کسی ایک عقیدے کے انتخاب کے سوال کو محض ایک نظری سوال نہ سمجھ بیٹھیں۔ اُنہیں یہی احساس رہنا چاہیے کہ ایک فیصلے کی گھڑی کسی نامعلوم وقت پر اچانک آجانے والی ہے اور اُس وقت اِسی انتخاب کے صحیح یا غلط ہونے پر آدمی کی کامیابی و ناکامی کا مدار ہو گا۔ اس تنبیہ کے بعد پھر وہی سلسلہ ٔ تقریر شروع ہو جاتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا۔

72. یعنی وہ ذرائع جن سے تمہیں دنیا میں ہر طرح کی واقفیت حاصل ہوئی اور تم اس لائق ہوئے کہ دنیا کے کام چلا سکو۔ انسان کا بچہ پیدائش کے وقت جتنا بے بس اور بے خبر ہوتا ہے اتنا کسی جانور کا نہیں ہوتا۔ مگر یہ صرف اللہ کے دیے ہوئے ذرائع علم( سماعت، بینائی ، اور تعقل و تفکر) ہی ہیں جن کی بدولت وہ ترقی کر کے تمام موجودات ِ ارضی پر حکمرانی کر نے کے لائق بن جاتا ہے۔

73. یعنی اُس خدا کے شکر گزار جس نے یہ بے بہا نعمتیں تم کو عطا کیں۔ اِن نعمتوں کی اس سے بڑھ کر ناشکری اور کیا ہو سکتی ہے کہ اِن کانوں سے آدمی سب کچھ سنے مگر ایک خدا ہی کی بات نہ سنے، اِن آنکھوں سے سب کچھ دیکھے مگر ایک خدا ہی کی آیات نہ دیکھے اور اس دماغ سے سب کچھ سوچے مگر ایک یہی بات نہ سوچے کہ میرا وہ محسن کون ہے جس نے یہ انعامات مجھے دیےہیں۔

74. یعنی چمڑے کے خیمے جن کا رواج عرب میں بہت ہے۔

75. یعنی آپ کوچ کرنا چاہتے ہو تو انہیں آسانی سے تہ کر کے اُٹھا لےجاتے ہو اور جب قیام کرنا چاہتے ہو تو آسانی سے اُن کو کھول کر ڈیرا جما لیتے ہو۔

76. سردی سے بچانے کا ذکر یا تو اس لیے نہیں فرمایا گیا کہ گرمی میں کپڑوں کا استعمال انسانی تمدن کا تکمیلی درجہ ہے اور درجہ ٔ کمال کا ذکر کر دینے کے بعد ابتدائی درجات کے ذکر کی حاجت نہیں رہتی، یا پھر اسے خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جن ملکوں میں نہایت مہلک قسم کی بادِ سموم چلتی ہے وہاں سردی کے لباس سے بھی بڑھ کر گرمی کا لباس اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے ممالک میں اگر آدمی سر، گردن ، کان اور سارا جسم اچھی طرح ڈھانک کر نہ نکلے تو گرم ہوا اُسے جھُلس کر رکھ دے، بلکہ بعض اوقات تو آنکھوں کو چھوڑ کر پورا منہ تک لپیٹ لینا پڑتا ہے۔

77. یعنی زرہ بکتر۔

78. اتمامِ حجت یا تکمیل نعمت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ زندگی کے ہر پہلو میں انسان کی ضروریات کا پوری جُز رسی کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور پھر ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا انتظام فرماتا ہے۔ مثلًا اِسی معاملے کو لیجیے کہ خارجی اثرات سے انسان کے جسم کی حفاظت مطلوب تھی۔ اس کے لیے اللہ نے کس کس پہلو سے کتنا کتنا اور کیسا کچھ سروسامان پیدا کیا، اس کی تفصیلات اگر کوئی لکھنے بیٹھے تو ایک پوری کتاب تیار ہو جائے ۔ یہ گویا لباس اور مکان کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے۔ یا مثلاً تغذیے کے معاملہ کو لیجیے ۔ اس کے لیے کتنے بڑے پیمانے پر کیسے کیسے تنّوعات کے ساتھ کیسی کیسی جُزئی ضرورتوں تک کا لحاظ کر کے اللہ تعالیٰ نے بے حد و حساب ذرائع فراہم کیے ، اُن کا اگر کوئی جائزہ لینے بیٹھے تو شاید محض اقسامِ غذا اور اشیاء ِ غذا کی فہرست ہی ایک ضخیم مجلّد بن جائے۔ یہ گویا تغذیہ کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے۔ اِسی طریقہ سے اگر انسانی زندگی کے ایک ایک گوشے کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر گوشے میں اللہ نے ہم پر اپنی نعمتوں کا اِتمام کر رکھا ہے۔

79. انکار سے مراد وہی طرزِ عمل ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ کفار ِ مکہ اس بات کے منکر نہ تھے کہ یہ سارے احسانات اللہ نے اُن پر کیے ہیں، مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ نے یہ احسانات اُن کے بزرگوں اور دیوتاؤں کی مداخلت سے کیے ہیں، اور اسی بنا پر وہ ان احسانات کا شکریہ اللہ کے ساتھ، بلکہ کچھ اللہ سے بڑھ کر اُن متوسط ہستیوں کو ادا کرتے تھے۔ اِسی حرکت کو اللہ تعالیٰ انکارِ نعمت اور احسان فراموشی اور کفران سے تعبیر کرتا ہے۔