Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 84-89

وَيَوۡمَ نَـبۡعَثُ مِنۡ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيۡدًا ثُمَّ لَا يُؤۡذَنُ لِلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَلَا هُمۡ يُسۡتَعۡتَبُوۡنَ‏ ﴿16:84﴾ وَاِذَا رَاَ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوا الۡعَذَابَ فَلَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمۡ وَلَا هُمۡ يُنۡظَرُوۡنَ‏ ﴿16:85﴾ وَ اِذَا رَاَ الَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡا شُرَكَآءَهُمۡ قَالُوۡا رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۤءِ شُرَكَآؤُنَا الَّذِيۡنَ كُنَّا نَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِكَ​ۚ فَاَلۡقَوۡا اِلَيۡهِمُ الۡقَوۡلَ اِنَّكُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ​ۚ‏ ﴿16:86﴾ وَاَلۡقَوۡا اِلَى اللّٰهِ يَوۡمَـئِذٍ ۨالسَّلَمَ​ وَضَلَّ عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿16:87﴾ اَ لَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ زِدۡنٰهُمۡ عَذَابًا فَوۡقَ الۡعَذَابِ بِمَا كَانُوۡا يُفۡسِدُوۡنَ‏ ﴿16:88﴾ وَيَوۡمَ نَـبۡعَثُ فِىۡ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيۡدًا عَلَيۡهِمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ​ وَجِئۡنَا بِكَ شَهِيۡدًا عَلٰى هٰٓؤُلَاۤءِ ​ؕ وَنَزَّلۡنَا عَلَيۡكَ الۡـكِتٰبَ تِبۡيَانًا لِّـكُلِّ شَىۡءٍ وَّ هُدًى وَّرَحۡمَةً وَّبُشۡرٰى لِلۡمُسۡلِمِيۡنَ‏ ﴿16:89﴾

84 - (اِنہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اُس روز کی بنے گی)جب کہ ہم ہر اُمّت میں سے ایک گواہ80 کھڑا کریں گے، پھر کافروں کو نہ حُجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا81نہ ان سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا۔82 85 - ظالم لوگ جب ایک دفعہ عذاب دیکھ لیں گے تو اس کے بعد نہ اُن کے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائے گی اور نہ انہیں ایک لمحہ بھر کی مہلت دی جائے گی۔ 86 - اور جب وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں شرک کیا تھا اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے ” اے پروردگار، یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پُکارا کرتے تھے۔“ اس پر اُن کے وہ معبود انہیں صاف جواب دیں گے کہ ”تم جھُوٹے ہو۔“83 87 - اُس وقت یہ سب اللہ کے آگے جُھک جائیں گے اور ان کو وہ ساری افترا پردازیاں رفو چکّر ہو جائیں گی جو یہ دنیا میں کرتے رہے تھے۔84 88 - جن لوگوں نے خود کُفر کی راہ اختیار کی اور دُوسروں کو اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم عذاب پر عذاب دیں گے85 اُس فساد کے بدلے میں جو وہ دُنیا میں برپا کرتے رہے۔ 89 - (اے محمدؐ، اِنہیں اُس دن سے خبردار کر دو)جب کہ ہم ہر اُمّت میں خود اُسی کے اندر سے ایک گواہ اُٹھا کھڑا کریں گے جو اُس کے مقابلہ میں شہادت دے گا، اور اِن لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لیے ہم تمہیں لائیں گے۔ اور (یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ)ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے86 اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے سرِ تسلیم خَم کر دیا ہے۔87 ؏ ١۲


Notes

80. یعنی اُس امت کا نبی، یا کوئی ایسا شخص جس نے نبی کے گزر جانے کے بعد اس اُمت کو توحید اور خالص خدا پرستی کی دعوت دی ہو،شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم پر متنبہ کیا ہو، اور روزِ قیامت کی جواب دہی سے خبردار کیا ہو۔ وہ اس امر کی شہادت دے گا کہ میں نے پیغام حق اِن لوگوں کو پہنچا دیا تھا، ا س لیے جو کچھ انہوں نے کیا وہ ناواقفیت کی بنا پر نہیں کیا، بلکہ جانتے بوجھتے کیا۔

81. یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں صفائی پیش کر نے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے جرائم ایسی صریح ناقابلِ انکار اور ناقابلِ تاویل شہادتوں سے ثابت کر دیے جائیں گے کہ ان کے لیے صفائی پیش کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے گی۔

82. یعنی اُس وقت اُن سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اب اپنے رب سے اپنے قصوروں کی معافی مانگ لو۔ کیونکہ وہ فیصلے کا وقت ہو گا، معافی طلب کر نے کا وقت گزر چکا ہوگا۔ قرآن اور حدیث دونوں اس معاملہ میں ناطق ہیں کہ تو بہ و استغفار کی جگہ دنیا ہے نہ کہ آخرت۔ اور دنیا میں بھی اس کا موقع صرف اسی وقت تک ہے جب تک آثارِ موت طاری نہیں ہو جاتے جس وقت آدمی کو یقین ہو جائے کہ ا سکا آخری وقت آن پہنچا ہے اُس وقت کی توبہ ناقابلِ قبول ہے ۔ موت کی سرحد میں داخل ہوتے ہی آدمی کی مہلتِ عمل ختم ہو جاتی ہے اور صرف جزا و سزا ہی کا اسحقاق باقی رہ جاتا ہے۔

83. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بجائے خود اِس واقعہ کا انکار کریں گے کہ مشرکین انہیں حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے پکارا کرتے تھے، بلکہ دراصل وہ اس واقعہ کے متعلق اپنے علم و اطلاع اور اس پر اپنی رضامندی و ذمہ داری کا انکار کریں گے ۔ وہ کہیں گے کہ ہم نے کبھی تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم خدا کو چھوڑ کر ہمیں پکارا کرو، نہ ہم تمہاری اس حرکت پر راضی تھے، بلکہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہمیں پکار رہے ہو۔ تم نے اگر ہمیں سمیع الدُّعا ء اور مجیب الدعوات ، اور دستگیر و فریاد رس قرار دیا تھا تو یہ قطعی ایک جھوٹی بات تھی جو تم نے گھڑ لی تھی اور اس کے ذمہ دار تم خود تھے۔ اب ہمیں اس کی ذمہ داری میں لپیٹنے کی کوشش کیوں کر تے ہو۔

84. یعنی وہ سب غلط ثابت ہوں گی۔ جن جن سہاروں پر وہ دنیا میں بھروسا کیے ہوئے تھے وہ سارے کے سارے گم ہو جائیں گے۔ کسی فریاد رس کو وہاں فریاد رسی کے لیے موجود نہ پائیں گے ۔ کوئی مشکل کشا ان کی مشکل حل کرنے کے لیے نہیں ملے گا۔ کوئی آگے بڑھ کر یہ کہنے والا نہ ہو گا کہ یہ میرے متوسل تھے، انہیں کچھ نہ کہا جائے۔

85. یعنی ایک عذاب خود کفر کرنے کا اور دوسرا عذاب دوسروں کو راہِ خدا سے روکنے کا۔

86. یعنی ہر ایسی چیز کی وضاحت جس پر ہدایت و ضلالت اور فلاح و خسران کا مدار ہے ، جس کا جاننا راست روی کے لیے ضروری ہے ، جس سے حق اور باطل کا فرق نمایاں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ غلطی سے لوگ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ اور اس کی ہم معنی آیات کا مطلب یہ لے لیتے ہیں کہ قرآن میں سب کچھ بیان کر دیا گیا ہے۔ پھر وہ اسے نباہنے کے لیے قرآن سے سائنس اور فنون کے عجیب عجیب مضامین نکالنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔

87. یعنی جولوگ آج اِس کتاب کو مان لیں گے اور اطاعت کی راہ اختیار کر لیں گے ان کو یہ زندگی کے ہر معاملہ میں صحیح رہنمائی دے گی اور اس کی پیروی کی وجہ سے اُن پر اللہ کی رحمتیں ہوں گی اور انہیں یہ کتاب خوشخبری دے گی کہ فیصلہ کے دن اللہ کی عدالت سے وہ کامیاب ہو کر نکلیں گے۔ بخلاف اس کے جو لوگ اسے نہ مانیں گے و ہ صرف یہی نہیں کہ ہدایت اور رحمت سے محروم رہیں گے ، بلکہ قیامت کے روز جب خدا کا پیغمبر ان کے مقابلہ میں گواہی دینے کو کھڑا ہو گا تو یہی دستاویز اُن کے خلاف ایک زبر دست حجت ہو گی۔ کیونکہ پیغمبرؐ یہ ثابت کر دے گا کہ اس نے وہ چیز انہیں پہنچا دی تھی جس میں حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا گیا تھا۔