Tafheem ul Quran

Surah 16 An-Nahl, Ayat 90-100

اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِيۡتَآىـئِ ذِى الۡقُرۡبٰى وَيَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ وَالۡبَغۡىِ​ۚ يَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿16:90﴾ وَ اَوۡفُوۡا بِعَهۡدِ اللّٰهِ اِذَا عَاهَدتُّمۡ وَلَا تَنۡقُضُوا الۡاَيۡمَانَ بَعۡدَ تَوۡكِيۡدِهَا وَقَدۡ جَعَلۡتُمُ اللّٰهَ عَلَيۡكُمۡ كَفِيۡلًا​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ‏ ﴿16:91﴾ وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّتِىۡ نَقَضَتۡ غَزۡلَهَا مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّةٍ اَنۡكَاثًا ؕ تَتَّخِذُوۡنَ اَيۡمَانَكُمۡ دَخَلًاۢ بَيۡنَكُمۡ اَنۡ تَكُوۡنَ اُمَّةٌ هِىَ اَرۡبٰى مِنۡ اُمَّةٍ​ ؕ اِنَّمَا يَبۡلُوۡكُمُ اللّٰهُ بِهٖ ​ؕ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَـكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ مَا كُنۡـتُمۡ فِيۡهِ تَخۡتَلِفُوۡنَ‏ ﴿16:92﴾ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ لَجَـعَلَكُمۡ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰـكِنۡ يُّضِلُّ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ​ ؕ وَلَـتُسۡـئَلُنَّ عَمَّا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿16:93﴾ وَلَا تَتَّخِذُوۡۤا اَيۡمَانَكُمۡ دَخَلًاۢ بَيۡنَكُمۡ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعۡدَ ثُبُوۡتِهَا وَتَذُوۡقُوا السُّوۡۤءَ بِمَا صَدَدْتُّمۡ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ​ۚ وَ لَـكُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿16:94﴾ وَلَا تَشۡتَرُوۡا بِعَهۡدِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِيۡلًا​ ؕ اِنَّمَا عِنۡدَ اللّٰهِ هُوَ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿16:95﴾ مَا عِنۡدَكُمۡ يَنۡفَدُ​ وَمَا عِنۡدَ اللّٰهِ بَاقٍؕ وَلَـنَجۡزِيَنَّ الَّذِيۡنَ صَبَرُوۡۤا اَجۡرَهُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿16:96﴾ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًـا مِّنۡ ذَكَرٍ اَوۡ اُنۡثٰى وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَـنُحۡيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً​ ۚ وَلَـنَجۡزِيَـنَّهُمۡ اَجۡرَهُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏  ﴿16:97﴾ فَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيۡطٰنِ الرَّجِيۡمِ‏  ﴿16:98﴾ اِنَّهٗ لَـيۡسَ لَهٗ سُلۡطٰنٌ عَلَى الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَلٰى رَبِّهِمۡ يَتَوَكَّلُوۡنَ‏ ﴿16:99﴾ اِنَّمَا سُلۡطٰنُهٗ عَلَى الَّذِيۡنَ يَتَوَلَّوۡنَهٗ وَالَّذِيۡنَ هُمۡ بِهٖ مُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿16:100﴾

90 - اللہ عدل اور احسان اور صلہء رحمی کا حکم دیتا ہے88 اور بدی اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے ۔89 وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔ 91 - اللہ کے عہد کو پُورا کرو جب کہ تم نے اُس سے کوئی عہد باندھا ہو، اور اپنی قسمیں پُختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جب کہ تم اللہ اپنے اُوپر گواہ بنا چکے ہو۔ اللہ تمہارے سب افعال سے با خبر ہے۔ 92 - تمہاری حالت اُس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سُوت کاتا اور پھر آپ ہی اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔90 تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دُوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے حالانکہ اللہ اس عہد و پیمان کے ذریعے سے تم کو آزمائش میں ڈالتا ہے91، اور ضرور وہ قیامت کے روز تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا۔92 93 - اگر اللہ کی مشیّت یہ ہوتی (کہ تم میں کوئی اختلاف نہ ہو)تو وہ تم سب کو ایک ہی اُمّت بنا دیتا،93 مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہِ راست دکھا دیتا ہے،94 اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کی باز پُرس ہو کر رہے گی۔ 94 - (اور اے مسلمانو)تم اپنی قسموں کو آپس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کا ذریعہ نہ بنا لینا، کہیں ایسا نہ ہو کے کوئی قدم جمنے کے بعد اُکھڑ جائے95 اور تم اِس جُرم کی پاداش میں کہ تم نے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا، بُرا نتیجہ دیکھو اور سخت سزا بُھگتو۔ 95 - اللہ کے عہد96 کو تھوڑے سے فائدے کے بدلے نہ بیچ ڈالو،97 جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو 96 - جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے، اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں98 کو اُن کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔ 97 - جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اُسے ہم دُنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے99 اور (آخرت میں )ایسے لوگوں کو اُں کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔ 100 98 - پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔101 99 - اُسے اُن لوگوں پر تسلّط حاصل نہیں ہوتا جو ایمان لاتے اور اپنے ربّ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ 100 - اُس کا زور تو اُنہی لوگوں پر چلتا ہے جو اُس کو اپنا سرپرست بناتے اور اُس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں۔ ؏ ١۳


Notes

88. اس مختصر سے فقرے میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جن پر پورے انسانی معاشرے کی درستی کا انحصار ہے۔:

پہلی چیز عدل ہے جس کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے ۔ ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسُب قائم ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دیا جائے۔ اُردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ”انصاف“سے ادا کیا جاتا ہے، مگر یہ لفظ غلط فہمی پیدا کر نے والا ہے۔ اس سے خواہ مخواہ یہ تصوّر پیدا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیا د پر ہو۔ اور پھر اسی سے عدل کے معنی مساویانہ تقسیم حقوق کے سمجھ لیے گئے ہیں جو سراسر فطرت کے خلاف ہے۔ دراصل عدل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ توازن اور تناسب ہے نہ کہ برابری ۔ بعض حیثیتوں سے تو عدل بے شک افرادِ معاشرہ میں مساوات چاہتا ہے ، مثلاً حقوقِ شہریت میں۔ مگر بعض دوسری حیثیتوں سے مساوات بالکل خلاف عدل ہے، مثلاً والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی و اخلاقی مساوات ، اور اعلیٰ درجے کی خدمات انجام دینے والوں اور کم تر درجے کی خدمت ادا کرنے والوں کے درمیان معاوضوں کی مساوات۔ پس اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حقوق میں مساوات نہیں بلکہ توازن و تناسب ہے، اور اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی ، معاشرتی ، معاشی، قانونی ، اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ ادا کیے جائیں۔

دوسری چیز احسان ہے جس سے مراد نیک برتاؤ ، فیاضانہ معاملہ ، ہمدردانہ رویّہ، رواداری ، خوش خلقی ، درگزر، باہمی مراعات، ایک دوسرے کا پاس و لحاظ ، دوسرے کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دینا، اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہوجاتا یہ عدل سے زائد ایک چیز ہے جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیادہ ہے۔ عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال اور اس کا کما ل ہے۔ عدل اگر معاشرے کو نا گواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوش گواریاں اور شیرینیاں پیدا کرتا ہے۔ کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کر کے دیکھتا رہے کہ اس کا کیا حق ہے اور اسے وصول کر کے چھوڑے ، اور دوسرے کا کتنا حق ہے اور اسے بس اتنا ہی دے دے۔ ایسے ایک ٹھنڈے اور کھُرّے معاشرے میں کشمکش تو نہ ہوگی مگر محبت اور شکر گزاری اور عالی ظرفی اور ایثار اور اخلاص وخیر خواہی کی قدروں سے وہ محروم رہے گا جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرنے والی اور اجتماعی محاسن کو نشونما دینے والی قدریں ہیں۔

تیسری چیز جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے ،صلۂ رحمی ہے جو رشتہ داروں کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور خوشی و غمی میں ان کا شریک حال ہو اور جائز حدود کے اندر ان کا حامی و مددگار بنے۔ بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے۔ شریعت ِ الہٰی ہر خاندان کے خوشحال افراد کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ و ہ اپنے خاندا ن کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں۔ اُس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اِس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص عیش کر رہا ہو اور اسی کے خاندان میں اس کے اپنے بھائی بند روٹی کپڑے تک کو محتاج ہوں۔ وہ خاندان کو معاشرے کا ایک اہم عنصر ترکیبی قرار دیتی ہے اور یہ اصول پیش کرتی ہے کہ ہر خاندان کے غریب افراد کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوشحال افرا د پر ہے، پھر دوسروں پر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ اور ہر خاندان کے خوشحال افراد پر پہلا حق ان کے اپنے غریب رشتہ داروں کا ہے، پھر دوسروں کے حقوق اُن پر عائد ہوتے ہیں ۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف ارشادات میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ متعدد احادیث میں اس کی تصریح ہے کہ آدمی کے اوّلین حقدار اس کے والدین، اس کے بیوی بچے، اور اس کے بھائی بہن ہیں ، پھر وہ جو اُن کے بعد قریب تر ہوں، اور پھر وہ جو اُن کے بعد قریب تر ہوں۔ اور یہی اصول ہے جس کی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک یتیم بچے کے چچا زاد بھائیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی پرورش کے ذمہ دار ہوں۔ اور ایک دوسرے یتیم کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اگر اس کا کوئی بعید ترین رشتہ دار بھی موجود ہو تو امیں اس پر اس کی پرورش لازم کر دیتا ۔۔۔۔۔۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس معاشرے کا واحدہ(Unit ) اِس طرح اپنے اپنے افراد کو سنبھال لے اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوشحالی ، معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اور اخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی و بلندی پیدا ہو جائے گی۔

89. اوپر کی تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو ، اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں:

پہلی چیز فَحْشَآء ہے جس کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو، فحش ہے۔ مثلًا بخل ، زنا، برہنگی و عُریانی، عملِ قومِ لوط، محرّمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا اور بدکلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان بُرے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے، مثلًا جھوٹا پروپیگنڈا ، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے اور ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا، اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمائش کرنا وغیرہ۔

دوسری چیز مُنکر ہے جس سے مراد ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں ، ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں ، اور عام شرائع الہٰیہ نے جس سے منع کیا ہے۔

تیسری چیز بَغی ہے جس کے معنی ہیں اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا ، خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے۔

90. یہاں علی الترتیب تین قسم کے معاہدوں کو ان کی اہمیت کے لحاظ سے الگ الگ بیان کر کے ان کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے ۔ایک وہ عہد جو انسان نے خدا کے ساتھ باندھا ہو، اور یہ اپنی اہمیت میں سب سے بڑھ کر ہے۔ دوسرا وہ عہد جو ایک انسان یا گروہ نے دوسرے انسان یا گروہ سے باندھا ہو اور اس پر اللہ کی قسم کھائی ہو، یا کسی نہ کسی طور پر اللہ کا نام لے کر اپنے قول کی پختگی کا یقین دلایا ہو۔ یہ دوسرے درجے کی اہمیت رکھتا ہے ۔ تیسرا وہ عہد و پیمان جو اللہ کا نام لیے بغیر کیا گیا ہو۔ اس کی اہمیت اوپر کی دوقسموں کے بعد ہے۔ لیکن پابندی ان سب کی ضروری ہے اور خلاف ورزی ان میں سے کسی کی بھی روا نہیں ہے۔

91. ”یہاں خصوصیت کے ساتھ عہد شکنی کی اُس بدترین قسم پر ملامت کی گئی ہے جو دنیا میں سب سے بڑھ کر موجبِ فساد ہوتی ہے اور جسے بڑے بڑے اونچے درجے کے لوگ بھی کارِ ثواب سمجھ کر کرتے اور اپنی قوم سے داد پاتے ہیں ۔ قوموں اور گروہوں کی سیاسی، معاشی اور مذہبی کشمکش میں یہ آئے دن ہوتا رہتا ہے کہ ایک قوم کا لیڈر ایک وقت میں دوسری قوم سے ایک معاہدہ کرتا ہے اور دوسرے وقت میں محض اپنے قومی مفاد کی خاطر یا تو اسے علانیہ توڑ دیتا ہے یا درپردہ اس کی خلاف ورزی کر کے ناجائز فائدہ اُٹھاتا ہے۔ یہ حرکتیں ایسے ایسے لوگ تک کر گزرتے ہیں جو اپنی ذانی زندگی میں بڑے راستباز ہوتے ہیں۔ اور ان حرکتوں پر صرف یہی نہیں کہ ان کی پوری قوم میں سے ملامت کی کوئی آواز نہیں اُٹھتی ، بلکہ ہر طرف سے اُن کی پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے اوراس طرح کی چالبازیوں کو ڈپلومیسی کا کما ل سمجھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر متنبہ فرماتا ہے کہ ہر معاہدہ دراصل معاہدہ کرنے والے شخص اور قوم کے اخلاق و دیانت کی آزمائش ہے اور جو لوگ اس آزمائش میں ناکام ہوں گے وہ اللہ کی عدالت میں مؤاخذہ سے نہ بچ سکیں گے۔

92. یعنی یہ فیصلہ تو قیامت ہی کے روز ہو گا کہ جن اختلافات کی بنا پر تمہارے درمیان کشمکش برپا ہے ان میں برسرِ حق کون ہے اور برسر باطل کون۔ لیکن بہر حال ، خواہ کوئی سراسر حق پر ہی کیوں نہ ہو، اور اس کا حریف بالکل گمراہ اور باطل پرست ہی کیوں نہ ہو ، اس کے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے حریف کے مقابلہ میں عہد شکنی اور کذب و افترا اور مکر و فریب کے ہتھیار استعمال کرے ۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو قیامت کے روز اللہ کے امتحان میں ناکام ثابت ہوگا ، کیونکہ حق پرستی صرف نظریے اور مقصد ہی میں صداقت کا مطالبہ نہیں کرتی ، طریقِ کار اور ذرائع میں بھی صداقت ہی چاہتی ہے ۔ یہ بات خصوصیت کے ساتھ اُن مذہبی گروہوں کی تنبیہ کے لیے فرمائی جا رہی ہے جو ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ ہم چونکہ خدا کے طرفدار ہیں اور ہمارا فریقِ مقابل خدا کا باغی ہے اس لیے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اسے جس طریقہ سے بھی ممکن ہو زک پہنچائیں۔ ہم پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بھی صداقت ، امانت اور وفائے عہد کا لحا ظ رکھیں۔ ٹھیک یہی بات تھی جو عرب کے یہودی کہا کرتے تھے کہ لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمّیِّیْنَ سَبِیْلٌ۔ یعنی مشرکین ِ عرب کے معاملہ میں ہم پر کوئی پابندی نہیں ہے ، اُن سے ہر طرح کی خیانت کی جا سکتی ہے، جس چال اور تدبیر سے بھی خدا کے پیاروں کا بھلا ہو اور کافروں کو زک پہنچے وہ بالکل روا ہے، اس پر کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا۔

93. یہ پچھلے مضمون کی مزید توضیح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کا طرفدار سمجھ کر بھلے اور بُرے ہر طریقے سے اپنے مذہب کو (جسے وہ خدائی مذہب سمجھ رہا ہے ) فروغ دینے اور دوسرے مذاہب کو مٹا دینے کی کوشش کرتا ہے ، تو اس کی یہ حرکت سراسر اللہ تعالیٰ کے منشا کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر اللہ کا منشا واقعی یہ ہوتا کہ انسان سے مذہبی اختلاف کا اختیار چھین لیا جائے اور چار و ناچار سارے انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پیرو بنا کر چھوڑا جائے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کو اپنے نام نہاد ”طرف داروں“ کی اور ان کے ذلیل ہتھکنڈوں سے مدد لینے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ یہ کام تو وہ خود اپنی تخلیقی طاقت سے کر سکتا تھا۔ وہ سب کو مومن و فرماں بردار پیدا کر دیتا اور کفر و معصیت کی طاقت چھین لیتا۔ پھر کسی کی مجا ل تھی کہ ایمان و طاعت کی راہ سے بال برابر بھی جنبش کرسکتا؟

94. یعنی انسان کو اختیار و انتخاب کی آزادی اللہ نے خود ہی دی ہے، اس لیے انسانوں کی راہیں دنیا میں مختلف ہیں۔ کوئی گمراہی کی طرف جانا چاہتا ہے اور اللہ اس کے لیے گمراہی کے اسباب ہموار کردیتا ہے ، اور کوئی راہِ راست کا طالب ہوتا ہے اور اللہ ا س کی ہدایت کا انتظام فرما دیتا ہے۔

95. یعنی کوئی شخص اسلام کی صداقت کا قائل ہو جانے کے بعد محض تمہاری بد اخلاقی دیکھ کر اِس دین سے برگشتہ ہو جائے اور اس وجہ سے وہ اہلِ ایمان کے گروہ میں شامل ہو نے سے رُک جائے کہ اس گروہ کے جن لوگوں سے اس کو سابقہ پیش آیا ہو ان کو اخلاق اور معاملا ت میں اُس نے کفار سے کچھ بھی مختلف نہ پایا ہو۔

96. یعنی اُس عہد کو جو تم نے اللہ کے نام پر کیا ہو، یا دینِ الہٰی کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کیا ہو۔

97. یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے بڑے فائدے کے بدلے بیچ سکتے ہو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ دنیا کا جو فائدہ بھی ہے وہ اللہ کے عہد کی قیمت میں تھوڑا ہے۔ اس لیے اس بیش بہا چیز کو اس چھوٹی چیر کے عوض بیچنا بہر حال خسارے کا سودا ہے۔

98. ”صبر سے کام لینے والوں کو“، یعنی ان لوگوں کو جو ہر طمع اور خواہش اور جذبۂ نفسانی کے مقابلہ میں حق اور راستی پر قائم رہیں، ہر اُس نقصان کو برداشت کر لیں جو اِس دنیا میں راستباز ی اختیار کرنے سے پہنچتا ہو، ہر اُس فائدے کو ٹھکرا دیں جو دنیا میں ناجائز طریقے اختیار کرنے سے حاصل ہو سکتا ہو، اور حسنِ عمل کے مفید نتائج کے لیے اُس وقت تک انتظار کر نے کے لیے تیار ہوں جو موجودہ دنیوی زندگی ختم ہو جانے کے بعد دوسری دنیا میں آنے والا ہے۔

99. اس آیت میں مسلم اور کافر دونوں ہی گروہوں کے اُن تمام کم نظر اور بے صبر لوگوں کی غلط فہمی دور کی گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سچائی اور دیانت اور پرہیز گاری کی روش اختیار کر نے سے آدمی کی آخرت چاہے بن جاتی ہو مگر اس کی دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے۔ اِ س صحیح رویہ سے محض آخرت ہی نہیں بنتی، دنیا بھی بنتی ہے۔ جو لوگ حقیقت میں ایماندار اور پاکباز اور معاملہ کےکھرے ہوتے ہیں ان کی دنیوی زندگی بھی بے ایمان اور بد عمل لوگوں کے مقابلہ میں صریحًا بہتر رہتی ہے ۔ جو ساکھ اور سچی عزت اپنی بے داغ سیرت کی وجہ سے انہیں نصیب ہوتی ہے و ہ دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی۔ جو ستھری اور پاکیزہ کامیابیاں انہیں حاصل ہوتی ہیں وہ ان لوگوں کو میسر نہیں آتیں جن کی ہر کامیابی گندے اور گھناؤنے طریقوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ بوریا نشین ہو کر بھی قلب کے جس اطمینان اور ضمیر کی جس ٹھنڈک سے بہرہ مند ہوتے ہیں اس کا کوئی ادنیٰ سا حصّہ بھی محلوں میں رہنے والے فساق و فجار نہیں پا سکتے۔

100. یعنی آخرت میں ان کا مرتبہ اُن کے بہتر سے بہتر اعمال کے لحاظ سے مقرر ہو گا۔ بالفاظ دیگر جس شخص نے دنیا میں چھوٹی اور بڑی، ہر طرح کی نیکیاں کی ہوں گی اُسے وہ اونچا مرتبہ دیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہو گا۔

101. اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس زبان سے اَعُوْ ذُ بِا للہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ کہہ دیا جائے، بلکہ اس کے ساتھ فی الواقع دل میں یہ خواہش اور عملًا یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ آدمی قرآن پڑھتے وقت شیطان کے گمراہ کُن وسوسوں سے محفوظ رہے، غلط اور بے جا شکوک و شبہات میں مبتلا نہ ہو ، قرآن کی ہر بات کو اس کی صحیح روشنی میں دیکھے، اور اپنے خودساختہ نظریات یا باہر سے حاصل کیے ہوئے تخیلات کی آمیزش سے قرآن کے الفاظ کو وہ معنی نہ پہنانے لگے جو اللہ تعالیٰ کے منشا کے خلاف ہوں۔ ا س کے ساتھ آدمی کے دل میں یہ احساس بھی موجود ہو نا چاہیے کہ شیطان سب سے بڑھ کر جس چیز کے درپے ہے وہ یہی ہے کہ ابنِ آدم قرآن سے ہدایت نہ حاصل کر نے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب اس کتاب کی طرف رجوع کرتاہے تو شیطان اُسے بہکانے اور اخذِ ہدایت سے روکنے اور فکر و فہم کی غلط راہوں پر ڈالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتا ہے۔ اس لیے آدمی کو اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت انتہائی چوکنّا رہنا چاہیے اور ہر وقت خدا سے مانگتے رہنا چاہیے کہ کہیں شیطان کی در اندازیاں اُسے اِس سر چشمۂ ہدایت کے فیض سے محروم نہ کردیں۔ کیونکہ جس نے یہاں سے ہدایت نہ پائی وہ پھر کہیں ہدایت نہ پا سکے گا، اور جو اس کتاب سے گمراہی اخذ کر بیٹھا اسے پھر دنیا کی کوئی چیز گمراہیوں کے چکر سے نہ نکال سکے گی۔

اس سلسلۂ کلام میں یہ آیت جس غرض کے لیے آئی ہے وہ یہ ہے کہ آگے چل کر اُن اعتراضات کا جواب دیا جارہا ہے کہ جو مشرکین مکہ قرآن مجید پر کیا کرتے تھے ۔ اس لیے پہلے تمہید کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ قرآن کو اس کی اصلی روشنی میں صرف وہی شخص دیکھ سکتا ہے جو شیطان کی گمراہ کُن وسوسہ اندازیوں سے چوکنّا ہو اور ان سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ سے پناہ مانگے۔ ورنہ شیطان کبھی آدمی کو اس قابل نہیں رہنے دیتا کہ وہ سیدھی طرح قرآن کو اور اس کی باتوں کو سمجھ سکے۔