Tafheem ul Quran

Surah 17 Al-Isra, Ayat 1-10

سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا​ ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ‏ ﴿17:1﴾ وَاٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡـكِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰهُ هُدًى لِّبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِىۡ وَكِيۡلًا ؕ‏ ﴿17:2﴾ ذُرِّيَّةَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ​ؕ اِنَّهٗ كَانَ عَبۡدًا شَكُوۡرًا‏ ﴿17:3﴾ وَقَضَيۡنَاۤ اِلٰى بَنِىۡۤ اِسۡرَاۤءِيۡلَ فِى الۡكِتٰبِ لَـتُفۡسِدُنَّ فِى الۡاَرۡضِ مَرَّتَيۡنِ وَلَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا كَبِيۡرًا‏ ﴿17:4﴾ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰٮهُمَا بَعَثۡنَا عَلَيۡكُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِىۡ بَاۡسٍ شَدِيۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّيَارِ ​ؕ وَكَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا‏ ﴿17:5﴾ ثُمَّ رَدَدۡنَا لَـكُمُ الۡكَرَّةَ عَلَيۡهِمۡ وَاَمۡدَدۡنٰـكُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّبَنِيۡنَ وَجَعَلۡنٰكُمۡ اَكۡثَرَ نَفِيۡرًا‏ ﴿17:6﴾ اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِكُمۡ​وَاِنۡ اَسَاۡتُمۡ فَلَهَا ​ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَةِ لِيَسُـوْۤءا وُجُوۡهَكُمۡ وَلِيَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ كَمَا دَخَلُوۡهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّلِيُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِيۡرًا‏ ﴿17:7﴾ عَسٰى رَبُّكُمۡ اَنۡ يَّرۡحَمَكُمۡ​ ۚ وَاِنۡ عُدْتُّمۡ عُدۡنَا​ۘ وَجَعَلۡنَا جَهَنَّمَ لِلۡكٰفِرِيۡنَ حَصِيۡرًا‏ ﴿17:8﴾ اِنَّ هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ يَهۡدِىۡ لِلَّتِىۡ هِىَ اَقۡوَمُ وَ يُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ الَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ اَجۡرًا كَبِيۡرًا ۙ‏ ﴿17:9﴾ وَّاَنَّ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ اَعۡتَدۡنَا لَهُمۡ عَذَابًا اَلِيۡمًا‏ ﴿17:10﴾

1 - پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔حقیقت1 میں وہی ہے سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا۔ 2 - ہم نے اِس سے پہلے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہٴ ہدایت بنایا تھا،2 اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔3 3 - تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نُوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا،4 اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا، 4 - پھر ہم نے اپنی کتاب 5میں بنی اسرائیل کو اِس بات پر بھی متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاوٴ گے۔6 5 - آخرِ کار جب اُن میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا، تو اے بنی اسرائیل، ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اُٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھُس کر ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پُورا ہو کر ہی رہنا تھا۔7 6 - اِس کے بعد ہم نے تمہیں اُن پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔8 7 - دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی، اور بُرائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے بُرائی ثابت ہوئی۔ پھر جب دُوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دُوسرے دشمنوں کو تم پر مسلّط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المَقدِس)میں اُسی طرح گھُس جائیں جس طرح پہلے دُشمن گھُسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اُسے تباہ کر کے رکھ دیں9 8 - ۔۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ اب تمہارا ربّ تم پر رحم کرے، لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے، اور کافرِ نعمت لوگوں کے لیے ہم ے جہنّم کو قید خانہ بنا رکھا ہے۔10 9 - حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے، 10 - اور جولوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں یہ خبر دیتا ہے کہ ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیّا کر رکھا ہے۔11 ؏ ۱


Notes

1. یہ وہی واقعہ ہے جو اصطاحاً”معراج“اور ”اسراء“کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ ؓ سے مروی ہیں جن کی تعداد ۲۵ تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ترین روایت حضرت انس بن مالک ؓ ، حضرت مالک بن صَعصَعہ ؓ، حضرت ابو ذر غفاری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ، حضرت ابو سعید خدری ؓ ، حضرت حذیفہ بن یمان ؓ ، حضرت عائشہ ؓ اور متعدد دوسرے صحابہ ؓ نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں۔

قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ )سے مسجد اقصٰی(یعنی بیت المقدس)تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتا ئی گئی ہے۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپ کو اُٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک بُراق پر لے گئے۔ وہاں آپ نے انبیاء علہیم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لےچلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ آخر کار آپ انتہائی بلندیو ں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔

حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پر اضافہ ہیں، اور ظاہر ہے کہ اضافے کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ تا ہم اگر کوئی شخص اُن تفصیلات کے کسی حصے کو نہ مانےجو حدیث میں آئی ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی، البتہ جس واقعے کی تصریح قرآن کر رہا ہے اس کا انکار موجب کفر ہے۔

اس سفر کی کیفیت کیا تھی؟ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا بیداری میں ؟ اور آیا حضور ؐ بذات خود تشریف لے گئے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر ہی آپ کو یہ مشاہدہ کرا دیا گیا؟ ان سوالات کا جواب قرآن مجید کے الفاظ خود دے رہے ہیں۔ سُبْحٰنَ الّذِیْ اَسْریٰ سے بیان کی ابتدا کرنا خود بتا رہا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا خارقِ عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا۔ ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا، یا کشف کے طور پر دیکھنا یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لیے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو یہ خواب دکھایا یا کشف میں یہ کچھ دکھایا ۔ پھر یہ الفاظ بھی کہ ”ایک رات اپنے بندے کو لے گیا“جسمانی سفر مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہد ہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرایا۔

اب اگر ایک رات میں ہوائی جہاز کے بغیر مکہ سے بیت المقدس جانا اور آنا اللہ کی قدرت سےممکن تھا، تو آخر اُن دوسری تفصیلات ہی کو نا ممکن کہہ کر کیوں رد کر دیا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں؟ ممکن اور نا ممکن کی بحث تو صرف اُس صورت میں پیدا ہوتی ہے جبکہ کسی مخلوق کے باختیار خود کوئی کام کرنے کا معاملہ زیربحث ہو۔ لیکن جب ذکر یہ ہو کہ خدا نے فلاں کام کیا، تو پھر امکان کا سوال وہی شخص اٹھا سکتا ہے جسے خدا کے قادر مطلق ہونے کا یقین نہ ہو۔ اس کے علاوہ جو دوسری تفصیلات حدیث میں آئی ہیں ان پر منکرین حدیث کی طرف سے متعدد اعتراضات کیے جاتے ہیں، مگر ان میں سے صرف دو ہی اعتراضات ایسے ہیں جو کچھ وزن رکھتے ہیں۔

ایک یہ کہ اس سےاللہ تعالیٰ کا کسی خاص مقام پر مقیم ہونا لازم آتا ہے، ورنہ اس کے حضور بندے کی پیشی کے لیے کیا ضرورت تھی اسے سفر کراکے ایک مقامِ خاص تک لے جایا جاتا؟

دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ اور جنت کا مشاہدہ اور بعض لوگوں کے مبتلائے عذاب ہونے کا معائنہ کیسے کرا دیا گیا جبکہ ابھی بندوں کےمقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوا ہے؟ یہ کیا کہ سزا و جزا کا فیصلہ تو ہونا ہے قیامت کے بعد، اور کچھ لوگوں کو سزا دے ڈالی گئی ابھی سے؟

لیکن دراصل یہ دونوں اعتراض بھی قلت فکر کا نتیجہ ہیں۔ پہلا اعتراض اس لیے غلط ہے کہ خالق اپنی ذات میں تو بلا شبہ اطلاقی شان رکھتا ہے ۔ مگر مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ مخلوق کی کمزوریوں کی بنا پر محدود و سائط اختیار کرتا ہے۔ مثلاً جب وہ مخلوق سے کلام کرتا ہے تو کلام کا وہ محدود طریقہ استعمال کر تا ہے جسے ایک انسان سن اور سمجھ سے ، حالانکہ بجائے خود اس کا کلام ایک اطلاقی شان رکھتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنے بندے کو اپنی سلطنت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتا ہے تو اسے لے جاتا ہے اور جہاں جو چیز دکھانی ہوتی ہے اسی جگہ دکھاتا ہے، کیونکہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت اُس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح خدا دیکھتا ہے۔ خدا کو کسی چیز کے مشاہدے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر بندے کو ہوتی ہے۔ یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذاتِ خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے، مگر بندہ اس کی ملاقات کے لیے ایک جگہ کا محتاج ہےجہاں اس کے لیے تجلیات کو مرکوز کیا جائے۔ ورنہ اُس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندہ محدود کے لیے ممکن نہیں ہے۔

رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے غلط ہے کہ معراج کے موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں کو ممثل کر کے دکھا یاگیا تھا۔ مثلاً ایک فتنہ انگیز بات کی یہ تمثیل کہ ایک ذرا سے شگاف میں سے ایک موٹا سا بیل نکلا اور پھر اس میں واپس نہ جا سکا۔ بازناکاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ اسی طرح بُرے اعمال کی جو سزائیں آپ کو دکھائیں گئیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالم آخرت کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ تھیں۔

اصل بات جو معراج کے سلسلے سے سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیم السلام میں سےہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے اُن کے منصب کی مناسبت سے ملکوتِ سٰموات و ارض کا مشاہدہ کرایا ہے اور مادی حجابات بیچ میں سے ہٹا کر آنکھوں سے وہ حقیقتیں دکھائی ہیں جن پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دینے پر وہ مامور کیے گئے تھے، تاکہ ان کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالکل ممیز ہوجائے۔ فلسفی جو کچھ بھی کہتا ہے قیاس اور گمان سے کہتا ہے، وہ خود اگر اپنی حیثیت سے واقف ہو تو کبھی اپنی کسی رائے کی صداقت پر شہادت نہ دے گا۔ مگر انبیاء جو کچھ کہتے ہیں وہ براہ راست علم اور مشاہدے کے بنا پر کہتے ہیں ، اور وہ خلق کے سامنے یہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو جانتے ہیں اور یہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں۔

2. معراج کا ذکر صرف ایک فقرے میں کر کے یکایک بنی اسرائیل کا یہ ذکر جو شروع کر دیا گیا ہے، سر سری نگاہ میں یہ آدمی کو کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے۔ مگر سورت کےمدعا کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس کی مناسبت صاف سمجھ میں آجاتی ہے۔ سورت کا اصل مدعا کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے۔ آغاز میں معراج کا ذکر صرف اس غرض کے لیے کیا گیا ہے کہ مخاطبین کو آگاہ کر دیا جائے کہ یہ باتیں تم سے وہ شخص کر رہا ہے جو ابھی ابھی اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نشانیاں دیکھ کر آرہا ہے۔ اس کے بعد اب بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب پانے والے جب اللہ کے مقابلے میں سر اٹھا تے ہیں تو دیکھو کہ پھر ان کو کیسی درد ناک سزا دی جاتی ہے۔

3. وکیل، یعنی اعتماد اور بھروسے کا مدار، جس پر توکل کیا جائے،جس کے سپرد اپنے معاملات کر دیے جائیں ، جس کی طرف ہدایت اور استمداد کے لیے رجوع کیا جائے۔

4. یعنی نوح اور ان کے ساتھیوں کی اولاد ہونے حیثیت سے تمہارے شایانِ شان یہی ہے کہ تم صرف ایک اللہ ہی کو اپنا وکیل بناؤ، کیونکہ جن کی تم اولاد ہو وہ اللہ ہی کو وکیل بنانے کی بدولت طوفان کی تباہی سے بچے تھے۔

5. کتاب سے مراد یہاں توراةنہیں ہے بلکہ صُحُفِ آسمانی کا مجموعہ ہے جس کے لیے قرآن میں اصطلاح کے طور پر لفظ”الکتاب“کٕئی جگہ استعمال ہوا ہے۔

6. بائیبل کے مجموعہ کتبِ مقدسہ میں یہ تنبیہات مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ پہلے فساد اور اس کے بُر ے نتائج پر بنی اسرائیل کو زبور، یسعیاہ، یرمیاہ اور حزقی ایل میں متنبہ کیا گیا ہے، اور دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیش گوئی حضرت مسیح ؑ نے کی ہے جو متی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہے۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے اس بیان کی پوری تصدیق ہو جائے۔

پہلے فساد پر اولین تنبیہ حضرت داؤد نے کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں:

”انہوں نے اُن قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خدا وند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ اُن قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنےلگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے۔ بلکہ اُنہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا، یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا۔۔۔۔۔۔ اس لیے خدا وند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان قوموں کے قبضے میں کردیا اور ان سے عداوت رکھنے والے اُن پر حکمراں بن گئے“

(زبور، باب ١۰٦۔ آیات۳۴۔۴١)

اس عبارت میں اُن واقعات کو جو بعد میں ہونے والے تھے، بصیغہ ماضی بیان کیا گیا ہے ، گویا کہ وہ ہو چکے ۔ یہ کتبِ آسمانی کا خاص انداز بیان ہے۔

پھر جب یہ فساد عظیم رونما ہو گیا تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیاہ نبی اپنے صحیفے میں یوں دیتے ہیں:

”آہ، خطا کار گروہ، بد کرداری سے لدی ہوئی قوم، بد کرداروں کی نسل، مکار اولاد، جنہوں نے خدا وند کو ترک کیا، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ و برگشتہ ہو گئے، تم کیوں زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے“؟ (باب١۔آیت۴۔۵)

”وفادار بستی کیسی بد کار ہوگئی!وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راستبازی اس میں بستی تھی، لیکن اب خونی رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تیرے سردار گردن کش اور چوروں کے ساتھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام طلب ہے ۔ وہ یتیموں کا انصان نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔ اس لیے خداوند ربُّ الافواج اسرائیل کا قادریوں فرماتا ہے کہ آہ، میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا“۔(باب ١۔آیت۲١۔۲۴)

”وہ اہل مشرق کی رسوم سے پُر ہیں اور فِلِستِیِوں کی مانند شگون لیتے اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان کی سر زمین بتوں سے بھی پُر ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت ، یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ کرتے ہیں“۔(باب۲۔آیت٦۔۷)

”اور خدا وند فرماتا ہے ، چونکہ صہیون کی بیٹیاں(یعنی یروشلم کی رہنے والیاں)متکبر ہیں اور گردن کشی اور شوخ چشمی سے خراماں ہوتی اور اپنے پاوؤں سے ناز رفتاری کرتی اور گھنگھرو بجاتی جاتی ہیں اس لیے خدا وند صہیون کی بیٹیوں کے سر گنجے اور ان کے بدن بے پردہ کر دے گا۔۔۔۔۔۔تیرے بہادر تہ تیغ ہوں گے اور تیرے پہلوان جنگ میں قتل ہوں گے۔ اُس کے پھاٹک ماتم اور نوحہ کریں گے اور وہ اجاڑ ہو کر خاک پر بیٹھے گی “۔(باب۳۔آیت١٦۔۲٦)

”اب دیکھ ، خداوند دریائے فرات کے سخت شدید سیلاب ، یعنی شاہ اسور(اسیریا) اور اس کی ساری شوکت کو ان پر چڑھا لائے گا اور وہ اپنے سب نالوں پر اور اپنے سب کناروں پر بہہ نکلے گا“۔

(باب ۸۔ آیت۷)

”یہ باغی لوگ اور جھوٹے فرزند ہیں جو خدا کی شریعت کو سننے سے انکار کرتے ہیں، جو غیب بینوں سے کہتے ہیں کہ غیب بینی نہ کرو، اور نبیوں سے کہ ہم پر سچی نبوتیں ظاہر نہ کرو۔ ہم کو خوشگوار باتیں سناؤ اور ہم سے جھوٹی نبوت کرو۔۔۔۔۔۔ پس اسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس کلام کو حقیر جانتے ہو اور ظلم اور کجروی پر بھروسا کرتے ہو اور اسی پر قائم ہو اس لیے یہ بد کرداری تمہارے لیے ایسی ہو گی جیسے پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اسے کہا رکے بر تن کی طرح توڑ ڈالے گا، اسے بے دریغ چکنا چور کرے گا، اس کے ٹکڑوں میں ایک ٹھیکر ابھی ایسا نہ ملے گا جس میں چولھے پر سے آگ یا حوض سے پانی لیا جائے“۔

(باب ۳۰۔آیت۹۔١۴)

پھر جب سیلاب کے بند بالکل ٹوٹنے کو تھے تو یرمیاہ نبی کی آواز بلند ہوئی اور انہوں نے کہا:

”خداوند یوں فرماتا ہے کہ تمہارے باپ دادا نے مجھ میں کونسی بے انصافی پائی جس کے سبب سے وہ مجھ سےدور ہو گئے اور بطلان کی پیروی کر کے باطل ہوئے؟۔۔۔۔۔۔ میں تم کو باغوں والی زمین میں لایا کہ تم اس کے میوے اور اس کے اچھے پھل کھاؤ، مگر جب تم داخل ہوئے تو تم نے میری زمین کو ناپاک کر دیا، اور میری میراث کو مکر وہ بنایا۔۔۔۔۔۔ مدت ہوئی کہ تو نے اپنے جوئے کو توڑ ڈالا اور اپنے بندھنوں کے ٹکڑے کر ڈالے اور کہا کہ میں تابع نہ رہوں گی۔ ہاں، ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کے نیچے تو بدکاری کے لیے لیٹ گئی (یعنی ہر طاقت کے آگے جھکی اور ہربت کو سجدہ کیا)۔۔۔۔۔۔ جس طرح چور پکڑا جانے پر رسوا ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل کا گھرانا رسوا ہوا، وہ اور اس کے بادشاہ اور امراء اور کاہن اور (جھوٹے)نبی، جو لکڑی سے کہتے ہیں کہ تو میرا باپ ہے اور پتھر سے کہ تو نےمجھے جنم دیا، انہوں نے میری طرف منہ نہ کیا بلکہ پیٹھ کی، پر اپنی مصیبت کے وقت وہ کہیں گے کہ اُٹھ کر ہم کو بچا۔ لیکن تیرے وہ بُت کہاں ہیں جن کو تو نے اپنے لیے بنایا؟ اگر وہ تیری مصیبت کے وقت تجھ کو بچا سکتے ہیں تو اُٹھیں، کیونکہ اے یہوداہ!جتنےتیرے شہر ہیں اتنے ہی تیرےمعبود ہیں“۔(باب۲۔ آیت۵۔۲۸)

”خدا وند نے مجھ سے فرمایا، کیا تو نے دیکھا کہ بر گشتہ اسرائیل (یعنی سامریہ کی اسرائیلی ریاست)نے کیا کیا؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کی نیچے گئی اور وہاں بدکاری(یعنی بت پرستی)کی۔۔۔۔۔۔ اور اس کی بے وفا بہن یہودا۔(یعنی یروشلم کی یہودی ریاست)نے یہ حال دیکھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب بر گشتہ اسرائیل کی زنا کاری (یعنی شرک )کے سبب سے میں نے اس کو طلاق دے دی اور اسے طلاق نامہ لکھ دیا(یعنی اپنی رحمت سے محروم کر دیا)تو بھی اس کی بے وفا بہن یہوداہ نہ ڈری بلکہ اس نے بھی جا کر بد کاری کی اور اپنی بد کاری کی بُرائی سے زمین کو ناپاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زنا کاری (یعنی بت پرستی)کی“۔(باب ۳۔ آیت٦۔۹)

”یروشلم کے کوچوں میں گشت کرو اور دیکھو اور دریافت کرو اور اس کے چوکوں میں ڈھونڈو، اگر کوئی آدمی وہاں ملے جو انصاف کرنے والا اور سچائی کا طالب ہو تو میں اسے معاف کروں گا۔۔۔۔۔۔ میں تجھے کیسے معاف کروں، تیرے فرزندوں نے مجھ کو چھوڑا اور ان کی قسم کھائی جو خدا نہیں ہیں۔ جب میں نے ان کوسیر کیا تو انہوں نے بد کاری کی اور پرے باندھ کر قحبہ خانوں میں اکھٹے ہوئے۔ وہ پیٹ بھر ے گھوڑوں کے مانند ہوئے، ہر ایک صبح کے وقت اپنے پڑوسی کی بیوی پر ہنہنانے لگا۔ خدا فرماتا ہے کیا میں ان باتوں کے لیے سزا نہ دوں گا اور کیا میری روح ایسی قوم سے انتقام نہ لے گی“؟(باب۵۔آیت١۔۹)

”اے اسرائیل کے گھرانے!دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑ ھا لاؤں گا ۔ خدا وند فرماتا ہے وہ زبردست قوم ہے ۔ وہ قدیم قوم ہے۔ وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا۔ ان کے تر کش کھلی قبریں ہیں۔ وہ سب بہادر مرد ہیں۔ وہ تیری فصل کا اناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے۔ تیرے گائے بیل اور تیری بکریوں کو چٹ کر جائیں گے۔ تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے ۔ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسا ہے تلوار سے ویران کردیں گے“۔ (باب۵۔آیت١۵۔ا۷)

”اس قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوراک ہوں گی اور ان کو کوئی نہ ہنکائے گا۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یروشلم کے بازاروں میں خوشی اور شاد مانی کی آواز، دولہا اور دلہن کی آوازموقوف کروں گا کیونکہ یہ ملک ویران ہو جائےگا“۔(باب۷۔آیت۳۳۔۳۴)

”ان کو میرے سامنے سے نکال دے کر چلے جائیں۔ اور جب وہ پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں تو ان سے کہنا کہ خدا وند یوں فرماتا ہے کہ جو موت کے لیے ہیں وہ موت کی طرف، اور جو تلوار کے لیے ہیں وہ تلوار کی طرف، اور جو کال کےلیے ہیں وہ کال کو، اور جو اسیری کے لیے ہیں وہ اسیری میں“۔(باب ١۵۔آیت۲۔۳)

پھر عین وقت پر حزقی ایل نبی اُٹھے اور انہوں نے یروشلم کو خطاب کر کے کہا:

”اے شہر، تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے تاکہ تیرا وقت آجائے اور تو اپنے لیے بُت بناتا ہے تاکہ تجھے ناپاک کریں۔۔۔۔۔۔ دیکھ، اسرائیل کے امراء سب کے سب جو تجھ میں ہیں مقدور بھر خونریزی پر مستعد تھے۔ تیرے اندر انہوں نے ماں باپ کو حقیر جانا۔ تیرے اندر انہوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا۔ تیرے اندر انہوں نے یتیموں اور بیواؤں پر ستم کیا۔ تو نے میرے پاک چیزوں کو ناپاک جانااور میرے سبتوں کو ناپاک کیا۔ تیرے اندر وہ ہیں جو چلغخوری کر کے خون کرواتے ہیں۔ تیرے اندر وہ ہیں جو بُتوں کی قربانی سے کھاتے ہیں۔ تیرے اندر وہ ہیں جو فسق و فجور کرتے ہیں۔ تیرے اندر وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے باپ کی حرم شکنی کی۔ تجھ میں اُنہوں نے اُس عورت سے جو ناپاکی کی حالت میں تھی مباشرت کی۔ کسی نے دوسرے کی بیوی سے بدکاری کی ، کسی نے اپنی بہو سے بد ذاتی کی، اور کسی نے اپنی بہن ، اپنے باپ کی بیٹی کو تیرے اندر رسوا کیا۔ تیرے اندر انہوں نے خونریزی کے لیے رشوت خواری کی۔ تو نے بیاج اور سود کیا اور ظلم کر کے اپنے پڑوسی کو لوٹا اور مجھے فراموش کیا۔۔۔۔۔۔ کیا تیرے ہاتھوں میں زور ہوگا جب میں تیرا معاملہ فیصل کروں گا؟۔۔۔۔۔۔ ہاں تجھ کو قوموں میں تتر بتر کر وں گا اور تیری گندگی تجھ میں سے نابود کردوں گا اور قوموں کے سامنے اپنے آپ میں ناپاک ٹھیرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خداوند ہوں“۔(باب ۲۲۔آیت۳۔١٦)

یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کو پہلے فساد عظیم کے موقع پر کی گئیں۔ پھر دوسرے فساد عظیم اور اس کے ہولناک نتائج پرحضرت مسیح علیہ السلام نے ان کو خبر دار کیا۔ متی باب ۲۳ میں آنجناب کا ایک مفصل خطبہ درج ہے جس میں وہ اپنی قوم کے شدید اخلاقی زوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

”اے یروشلم! اے یروشلم!تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں، مگر تو نے نہ چاہا۔ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے“۔(آیت ۳۷۔۳۸)

”میں تم کو سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو کریا نہ جائے“۔(باب۲۴۔آیت۲)

پھر جب رومی حکومت کے اہل کار حضرت مسیح کو صلیب دینے کے لیے لے جا رہے تھے اور لوگوں کی ایک بھیڑ جن میں عورتیں بھی تھیں،روتی پیٹتی ان کے پیچھے جا رہی تھیں، تو انہوں نے آخری خطاب کرتے ہوئے مجمع سے فرمایا:

”اے یروشلم کی بیٹیو: میرے لیے نہ رؤو بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لے رؤو۔ کیونکہ دیکھو، وہ دن آتے ہیں جب کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو نہ جنے اور وہ چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا۔ اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپالو“

(لوقا۔باب ۲۳۔ آیت ۲۸۔۳۰)

7. اس سے مراد وہ ہولناک تباہی ہے جو آشوریوں اور اہل بابل کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر نازل ہوئی۔ اس کا تاریخی پس منظر سمجھنے کے لیے صرف وہ اقتباسات کافی نہیں ہیں جو اوپر ہم صُحف انبیاء سے نقل کر چکے ہیں ، بلکہ ایک مختصر تاریخی بیان بھی ضروری ہے تا کہ ایک طالب علم کے سامنے وہ تمام اسباب آجائیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک حامل کتاب قوم کو امامت ِ اقوام کے منصب سے گر اکر ایک شکست خوردہ، غلام اور سخت پسماندہ قوم بنا کر رکھ دیا۔

حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوئے تو یہاں مختلف قومیں آباد تھیں۔ حتِّی اَمَّوری کنعانی ، فِرِزِّی، حَوِی،یبوسی، فِلستی وغیرہ ان قوموں میں بد ترین قسم کا شرک پایا جاتا تھا۔ ان کے سب سے بڑے معبود کا نام ایل تھا جسے یہ دیوتاؤں کا باپ کہتے تھے اور اسے عموماً سانڈ سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ اس کی بیوی کا نام عشیرہ تھا اور اس سے خداؤں اور خدانیوں کی ایک پوری نسل چلی تھی جن کی تعداد۷۰ تک پہنچتی تھی۔ اس کی اولاد میں سب سے زیادہ زبردست بعل تھا جس کو بارش اور روئیدگی کا خدا اور زمین و آسمان کا مالک سمجھا جاتا تھا۔شمالی علاقوں میں اس کی بیوی اُناث کہلاتی تھی اور فلسطین میں عستارات۔ یہ دونوں خواتین عشق اور افزائش ِ نسل کی دیویاں تھیں۔ ان کے علاوہ کوئی دیوتا موت کا مالک تھا، کسی دیوی کے قبضے میں صحت تھی۔ کسی دیوتا کو وبا اور قحط لانے کے اختیارات تفویض کیے گئے تھے ، اور یوں ساری خدائی بہت سے معبودوں میں بٹ گئی تھی۔ ان دیوتاؤں اور دیویوں کی طرف ایسے ایسے ذلیل اوصاف و اعمال منسوب تھے کہ اخلاقی حیثیت سے انتہائی بد کر دار انسان بھی ان کے ساتھ مشتہر ہونا پسند نہ کریں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جولوگ ایسی کمینہ ہستیوں کو خدا بنائیں اور ان کی پرستش کریں وہ اخلاق کی ذلیل ترین پستیوں میں گرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جو حالات آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں وہ شدید اخلاقی گراوٹ کی شہادت بہم پہنچاتے ہیں۔ ان کے ہاں بچوں کی قربانی کا عام رواج تھا۔ ان کے معابد زنا کاری کے اڈے بنے ہوئے تھے۔ عورتوں کو دیوداسیاں بنا کر عبادت گاہوں میں رکھنا اور ان سے بدکاریاں کرنا عبادت کے اجزاء میں داخل تھا ۔ اور اسی طرح کی اور بہت سی بد اخلاقیاں ان میں پھیلی ہوئی تھیں۔

توراة میں حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ تم ان قوموں کو ہلاک کر کے ان کے قبضے سے فلسطین کی سر زمین چھین لینا اور ان کےساتھ رہنے بسنے اور ان کی اخلاقی و اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے پر ہیز کرنا۔

لیکن بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہوئے تو وہ اس ہدایت کو بھول گئے۔ انہوں نے اپنی کوئی متحدہ سلطنت قائم نہ کی۔ وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا تھے۔ ان کے ہر قبیلے نے اس بات کو پسند کیا کہ مفتوحہ علاقے کا ایک حصہ لے کر الگ ہوجائے۔ اس تفرقے کی وجہ سے ان کا کوئی قبیلہ بھی اتنا طاقتور نہ ہو سکا کہ اپنے علاقے کو مشرکین سے پوری طرح پاک کر دیتا۔ آخر کار انہیں یہ گوارا کرنا پڑا کہ مشرکین ان کےساتھ رہیں بسیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ ان کے مفتوحہ علاقوں میں جگہ جگہ ان مشرک قوموں کی چھوٹی چھوٹی شہری ریاستیں بھی موجود رہیں جن کو بنی اسرائیل مسخر نہ کر سکے۔ اسی بات کی شکایت زبور کی اُس عبارت میں کی گئی ہے جسے ہم نے حاشیہ نمبر ٦ کےآغاز میں نقل کیا ہے۔

اس کا پہلا خمیازہ تو بنی اسرائیل کو یہ بھگتنا پڑا کہ ان قوموں کےذریعے سے ان کے اندر شرک گھس آیا اور اس کے ساتھ بتدریج دوسری اخلاقی گندگیاں بھی راہ پانے لگیں۔ چنانچہ اس کی شکایت بائیبل کی کتاب قُضاة میں یوں کی گئی ہے:

”اور بنی اسرائیل نےخداوند کے آگے بدی کی بعلیم کی پرستش کرنے لگے۔ اور انہوں نے خدا وند اپنے باپ دادا کے خدا کو جو انہیں ملک مصر سے نکال لایا تھا چھوڑ دیا او دوسرے معبودوں کی جو اُن کے گرداگرد کی قوموں کے دیوتاؤں میں سے تھے پیروی کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگے اور خداوند کو غصہ دلایا۔ وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے اور خدا وند کا قہر اسرائیل پر بھڑکا۔

(باب۲۔آیت١١۔١۳)

اس کے بعد دوسرا خمیازہ انہیں یہ بھگتنا پڑا کہ جن قوموں کی شہری ریاستیں انہوں نے چھوڑ دی تھیں انہوں نے اور فلستیوں نے، جن کا پورا علاقہ غیر مغلوب رہ گیا تھا، بنی اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کیا اور پے در پے حملے کر کے فلستین کے بڑے حصے سے ان کو بے دخل کر دیا، حتٰی کہ ان سے خدا وند کے عہد کا صندوق (تابوتِ سکینہ)تک چھین لیا۔ آخر کار بنی اسرائیل کو ایک فرمانروا کے تحت اپنی ایک متحدہ سلطنت قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اور ان کی درخواست پر حضرت سموئیل نبی نے سن١۰۲۰ قبل مسیح میں طالوت کا ان کا بادشاہ بنایا۔ (اس کی تفصیل سورہ بقرہ رکوع ۳۲ میں گزر چکی ہے)۔

اس متحدہ سلطنت کے تین فرمانروا ہوئے۔طالوت(سن ١۰۲۰ تا١۰۰۴ ق م)، حضرت داؤد علیہ السلام (سن١۰۰۴ تا ۹٦۵ ق م) اور حضرت سلیمان علیہ السلام(سب ۹٦۵ تا ۹۲٦ ق م )۔ ان فرمانرواؤں نے اُس کام کو مکمل کیا جسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کے بعد نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ صرف شمالی ساحل پر فنیقیوں کی اورجنوبی ساحل پر فلستیوں کی ریاستیں باقی رہ گئیں جنہیں مسخر نہ کیا جاسکا اور محض باج گزار بنانے پر اکتفا کیا گیا ۔

حضرت سلیمان ؑ کے بعد بنی اسرائیل پر دنیا پرستی کا پھر شدید غلبہ ہوا اور انہوں نے آپس میں لڑ کر اپنی دو الگ سلطنتیں قائم کر لیں۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن میں سلطنت اسرائیل ، جس کا پایہ تخت آخر کار سا مِریہ قرار پایا۔ اور جنوبی فلسطین اور ادُوم کے علاقے میں سلطنت یہود یہ جس کا پایہ تخت یروشلم رہا۔ ان دونوں سلطنتوں میں سخت رقابت اور کشمکش اول روز سے شروع ہو گئی اور آخر تک رہی۔

ان میں اسرائیل ریاست کے فرمانروا اور باشندے ہمسایہ قوموں کے مشرکانہ عقائد اور اخلاقی فساد سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور یہ حالت اپنی انتہا کو پہنچ گئی جب اس ریاست کے فرمانروا اخی اب نے صیدا کی مشرک شہزادی ایزِ بل سے شادی کر لی۔ اس وقت حکومت کی طاقت اور ذرائع سےشرک اور بد اخلاقیاں سیلاب کی طرح اسرائیلیوں میں پھیلنی شروع ہوئیں۔ حضرت الیاس اور حضرت الیَسع علیہما السلام نے اس سیلاب کو روکنے کی انتہائی کوشش کی۔ مگر یہ قوم جس تنزل کی طرف جا رہی تھی اس سے باز نہ آئی۔ آخر کار اللہ کا غضب اشوریوں کی شکل میں دولت اسرائیل کی طرف متوجہ ہوا اور نویں صدی قبل مسیح سے فلسطین پر اشوری فاتحین کے مسلسل حملے شروع ہو گئے۔ اس دور میں عامو س نبی ( سن۷۸۷ تا ۷۴۷ قبل مسیح)اور پھر ہوسیع نبی(سن۷۴۷ تا۷۳۵ قبل مسیح) نے اٹھ کر اسرائیلیوں کو پے در پے تنبیہات کیں، مگر جس غفلت کے نشے میں وہ سر شار تھے وہ تنبیہ کی ترشی سے اور زیادہ تیز ہو گیا۔ یہاں تک کہ عاموس نبی کو شاہ اسرائیل نے ملک سے نکل جانے اور دولت سامریہ کے حدود میں اپنی نبوت بند کردینے کا نوٹس دے دیا۔ اس کے بعد کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ خدا کا عذاب اسرائیلی سلطنت اور کے باشندوں پر ٹوٹ پڑا۔ 721 قبل مسیح میں اشور کے سخت گیر فرمانروا سارگون کو فتح کرکے دولت اسرائیل کا خاتمہ کر دیا، ہزار ہا اسرائیلی تہ تیغ کیے گیے،۲۷ ہزار سے زیادہ با ا ثر اسرائیلیوں کو ملک سے نکال کر اشوری سلطنت کے مشرقی اضلاع میں تتر بتر کر دیا گیا، اور دوسرے علاقوں سے لا کر غیر قوموں کو اسرائیل کے علاقے میں بسا یا گیا جن کے درمیان رہ بس کر بچا کھچا اسرائیلی عنصر بھی اپنی قومی تہذیب سے روز بروز زیادہ بیگانہ ہوتا چلا گیا۔

بنی اسرائیل کی دوسری ریاست جو یہود یہ کے نام سے جنوبی فلسطین میں قائم ہوئی، وہ بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بہت جلدی شرک اور بد اخلاقی میں مبتلا ہو گئی، مگر نسبتہً اس کا اعتقادی اور اخلاقی زوال دولتِ اسرائیل کی بہ نسبت سُست رفتار تھا، اس لیے اس کو مہلت بھی کچھ زیادہ دی گئی ۔ اگر چہ دولتِ اسرائیل کی طرح اس پر بھی اشوریوں نے پے در پے حملے کیے، اس کے شہروں کو تباہ کیا، اس کے پایہ تخت کا محاصرہ کیا، لیکن یہ ریاست اشوریوں کے ہاتھوں ختم نہ ہو سکی بلکہ صرف باج گزار بن کر رہ گئی۔ پھر جب حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہود یہ کہ لوگ بُت پرستی اور بد اخلاقیوں سے باز نہ آئے تو سن ۵۹۸ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم سمیت پوری دولت یہودیہ کو مسخر کر لیا اور یہودیہ کا بادشاہ اس کے پاس قیدی بن کر رہا۔ یہودیوں کی بد اعمالیوں کا سلسلہ اس پر بھی ختم نہ ہوا اور حضرت یر میاہ کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف بغاوت کر کے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر سن ۵۸۷ قبل مسیح میں بخت نصر نے ایک سخت حملہ کر کے یہودیہ کے تمام بڑے چھوٹے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوند خاک کیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ کھڑی نہ رہی ، یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کے علاقے سے نکال کر ملک ملک میں تتر بتر کر دیا اور جو یہودی اپنے علاقے میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بُری طرح ذلیل اور پامال ہو کر رہے۔

یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا ، اور یہ تھی وہ پہلی سزا جو اس کی پاداش میں ان کو دی گئی۔

8. یہ اشارہ ہے اُس مہلت کی طرف جو یہودیوں(یعنی اہل یہودیہ) کو بابل کی اسیری سے رہائی کے بعد عطا کی گئی۔ جہاں تک سامریہ اور اسرئیل کے لوگوں کا تعلق ہے ، وہ تو اخلاقی و اعتقادی زوال کی پستیوں میں گرنے کے بعد پھر نہ اُٹھے، مگر یہودیہ کے باشندوں میں ایک بقیہ ایسا موجود تھا جو خیر پر قائم اور خیر کی دعوت دینے والاتھا۔ اُس نے اُن لوگوں میں بھی اصلاح کا کام جاری رکھا جو یہودیہ میں بچے کھچے رہ گئے تھے، اور ان لوگوں کو بھی توبہ و انابت کی ترغیب دی جو بابل اور دوسرے علاقوں میں جلا وطن کر دیے گئے تھے۔ آخر کار رحمتِ الہٰی ان کی مدد گار ہوئی۔ بابل کی سلطنت کو زوال ہوا۔سن ۵۳۹ قبل مسیح میں ایرانی فاتح سائرس(خورس یا خسرو) نے بابل کو فتح کیا اور اس کے دوسرے ہی سال اس نے فرمان جاری کر دیا کہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی عام اجازت ہے۔ چنانچہ اس کے بعد یہودیوں کے قافلے پر قافلے یہودیہ کی طرف جانے شروع ہو گئے جن کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔ سائرس نے یہودیوں کو ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کی اجازت بھی دی، مگر ایک عرصے تک ہمسایہ قومیں جو اس علاقے میں آباد ہو گئی تھیں، مزاحمت کرتی رہیں۔ آخر داریوس(دارا)اوّل نے سن ۵۲۲ ق م یہودیہ کے آخری بادشاہ کے پوتے زرُو بابل کو یہودیہ کا گورنر مقرر کیا اور اس نے حِجِّی نبی، زکریاہ نبی اور سردار کا ہن یشوع کی نگرانی میں ہیکلِ مقدس نئے سرے سے تعمیر کیا۔ پھر سن۴۵۷ ق م میں ایک جلاوطن گروہ کے ساتھ حضرت عُزیر (عزرا)یہودیہ پہنچے اور شاہِ ایران ارتخششتا(ارٹا کسر سزیا اردشیر)نے ایک فرمان کی رو سے ان کو مجاز کیا کہ:

”تو اپنے خدا کی اُس دانش کے مطابق جو تجھ کو عنایت ہوئی، حاکموں اور قاضیوں کو مقرر کراتا کہ دریا پار کے سب لوگوں کا جو تیرے خدا کی شریعت کو جانتے ہیں انصاف کریں، اور تم اُس کو جو نہ جانتا ہو سکھاؤ، اور جو کوئی تیرے خدا کی شریعت پر اور بادشاہ کے فرمان پر عمل نہ کرے اس کو بلا توقف قانونی سزا دی جائے، خواہ موت ہو، یا جلاوطنی، یا مال کی ضبطی، یا قید“۔ (عزرا۔باب۸۔آیت۲۵۔۲٦)

اس فرمان سے فائدہ اٹھا کر حضرت عزیر نے دین موسوی کی تجدید کا بہت بڑا کام انجام دیا۔ انہوں نے یہودی قوم کے تمام اہل خیر و صلاح کو ہر طرف سے جمع کر کے ایک مضبوط نظام قائم کیا۔ با ئیبل کی کتب خمسہ کو، جن میں توراة تھی ، مرتب کر کے شائع کیا، یہودیوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا، قوانین شریعت کو نافذ کر کے اُن اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا شروع کیا جو بنی اسرائیل کے اندر غیر قوموں کے اثر سے گھس آئی تھیں، اُن تمام مشرک عورتوں کو طلاق دلوائی جن سے یہودیوں نے بیاہ کر رکھے تھے، اور بنی اسرائیل سے از سرِ نو خدا کی بندگی اور اس کے آئین کی پیروی کا میثاق لیا۔

سن ۴۴۵ ق م میں نحمیاہ کے زیر قیادت ایک اور جلا وطن گروہ یہودیہ واپس آیا اور شاہِ ایران نے نحمیاہ کو یروشلم کا حاکم مقرر کر کے اس امر کی اجازت دی کہ وہ اس کی شہر پناہ تعمیر کرے۔ اس طرح ڈیڑھ سو سال بعد بیتُ المقدس پھر سے آباد ہوا اور یہودی مذہب و تہذیب کا مرکز بن گیا۔ مگر شمالی فلسطین اور سامریہ کے اسرائیلیوں نے حضرت عزیر کی اصلاح و تجدید سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا، بلکہ بیت المقدس کے مقابلہ میں اپنا ایک مذہبی مرکز کوہِ جرزیم پر تعمیر کر کے اس کو قبلہ اہل کتاب بنانے کی کوشش کی۔ اس طرح یہودیوں اور سامریوں کے درمیان بُعد اور زیادہ بڑھ گیا۔

ایرانی سلطنت کے زوال اور سکندر اعظم کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج سے یہودیوں کو کچھ مدت کے لیے ایک سخت دھکا لگا۔ سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت جن تین سلطنتوں میں تقسیم ہوئی تھی، ان میں سے شام کا علاقہ اُس سلوقی سلطنت کے حصے میں آیا جس کا پایہ تخت انطاکیہ تھا اور اس کے فرمانرواانٹیو کس ثالث نے سن ١۹۸ ق م میں فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ یہ یونانی فاتح، جو مذہباً مشرک، اور اخلاقاً ابا حیت پسند تھے، یہودی مذہب و تہذیب کو سخت ناگوار محسوس کرتے تھے۔ انہوں نے اس کے مقابلے میں سیاسی اور معاشی دباؤ سے یونانی تہذیب کو فروغ دینا شروع کیا اور خود یہودیوں میں سے ایک اچھا خاصا عنصران کا آلہ کا ر بن گیا۔ اس خارجی مداخلت نے یہودی قوم میں تفرقہ ڈال دیا۔ ایک گروہ نے یونانی لباس، یونانی زبان، یونانی طرزِ معاشرت اور یونانی کھیلوں کو اپنا لیا اور دوسرا گروہ اپنی تہذیب پر سختی کے ساتھ قائم رہا۔ سن ١۵۷ ق م میں انٹیو کس چہارم(جس کا لقب ایپی فائنیس یعنی مظہر خدا)تھا، جب تخت نشین ہوا تو اس نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب و تہذیب کی بیخ کنی کرنی چاہی۔ اس نے بیت المقدس کے ہیکل میں زبر دستی بُت رکھوائے اور یہودیوں کو مجبور کیا کہ ان کو سجدہ کریں۔ اس نے قربان گاہ پر قربانی بند کرائی۔ اس نے یہودیوں کو مشرکانہ قربان گاہوں پر قربانیاں کرنے کا حکم دیا۔ اس نے ان سب لوگوں کے لیے سزائے موت تجویز کی جو اپنے گھروں میں توراة کا نسخہ رکھیں، یا سَبت کے احکام پر عمل کریں، یا اپنے بچوں کے ختنے کرائیں۔ لیکن یہودی اس جبر سے مغلوب نہ ہوئے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اُٹھی جو تاریخ میں مُکّابی بغاوت کے نام سے مشہور ہے ۔ اگرچہ اس کشمکش میں یو نانیت زدہ یہودیوں کی ساری ہمدردیاں یونانیوں کے ساتھ تھیں، اور انہوں نے عملاً مُکّا بی بغاوت کو کچلنے میں انطاکیہ کے ظالموں کا پورا ساتھ دیا، لیکن عام یہودیوں میں حضرت عزیر کی پھونکی ہوئی روح ِ دینداری کا اتنا زبردست اثر تھا کہ وہ سب مکابیوں کے ساتھ ہو گئے اور آخر کار انہوں نے یونانیوں کو نکال کر اپنی ایک آزاد دینی ریاست قائم کر لی جو سن ٦۷ ق م تک قائم رہی۔ اس ریاست کے حدود پھیل کر رفتہ رفتہ اس پورے رقبے پر حاوی ہو گئے جو کبھی یہودیہ اور اسرائیل کی ریاستوں کے زیر نگین تھے، بلکہ فِلسِتیہ کا بھی ایک بڑا حصہ اس کے قبضے میں آگیا جو حضرت داؤد سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں بھی مسخر نہ ہوا تھا۔

انہی واقعات کی طرف قرآن مجید کی زیر تفسیرآیت اشارہ کرتی ہے۔

9. اس دوسرے فساد اور اس کی سزا کا تاریخی پس منظر یہ ہے:

مکابیوں کی تحریک جس اخلاقی و دینی روح کے ساتھ اُٹھی تھی وہ بتدریج فنا ہوتی چلی گئی اور اس کی جگہ خالص دنیا پرستی اور بے روح ظاہر داری نے لے لی۔ آخر کار ان کے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور انہوں نے خود رومی فاتح پومپی کو فلسطین آنے کی دعوت دی ۔ چنانچہ پومپی سن ٦۳ ق م میں اس ملک کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن رومی فاتحین کی یہ مستقل پالیسی تھی کہ وہ مفتوح علاقوں پر براہ راست اپنا نظم و نسق قائم کرنے کی بہ نسبت مقامی حکمرانوں کے ذریعے سے بالواسطہ اپنا کام نکلوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے فلسطین میں اپنے زیر سایہ ایک دیسی ریاست قائم کر دی جو بالآخر سن ۴۰ ق م میں ایک ہوشیار یہودی ہیرو دنامی کے قبضے میں آئی۔ یہ ہیرو د اعظم کے نام سے مشہور ہے ۔ اس کی فرمانروائی پورے فلسطین اور شرق اردن پر سن ۴۰ سے ۴ قبل مسیح تک رہی۔ اس نے ایک طرف مذہبی پیشواؤں کی سر پرستی کر کے یہودیوں کو خوش رکھا، اور دوسری طرف رومی تہذیب کو فروغ دے کر اور رومی سلطنت کی وفاداری کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کرکے قیصر کی بھی خوشنودی حاصل کی۔ اس زمانے میں یہودیوں کی دینی و اخلاقی حالت گرتے گرتے زوال کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی۔

ہیرود کے بعد اس کی ریاست تین حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

اس کا ایک بیٹا ارخلاؤس سامریہ یہودیہ اور شمالی اُدومیہ کا فرمانروا ہوا، مگر سن ٦ عیسوی میں قیصر آگسٹس نے اس کو معزول کر کے اس کی پوری ریاست اپنے گورنر کے ماتحت کردی اور ۴١ عیسوی تک یہی انتظام قائم رہا۔ یہی زمانہ تھا جب حضرت مسیح علیہ السلام بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے اُٹھے اور یہودیوں کے تمام مذہبی پیشواؤں نے مل کر ان کی مخالفت کی اور رومی گورنر پونتس پیلاطس سے ان کو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی۔

ہیرود کا دوسرا بیٹا ہیرود اینٹی پاس شمالی فلسطین کے علاقہ گلیل اور شرق اُردن کا مالک ہوا اور یہ وہ شخص ہے جس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کرکے اس کی نذر کیا۔

اس کا تیسرا بیٹا فلپ، کوہ حرمون سے دریائے یر موک تک کے علاقے کا مالک ہوا اور یہ اپنے باپ اور بھائیوں سے بھی بڑھ کر رومی و یونانی تہذیب میں غرق تھا۔ اس کے علاقے میں کسی کلمہ خیر کے پننپے کی اتنی گنجائش بھی نہ تھی جتنی فلسطین کے دوسرے علاقوں میں تھی۔

سن ۴١ ء میں ہیرود اعظم کے پوتے ہیرود اَگرِپا کو رومیوں نے ان تمام علاقوں کا فرمانروا بنا دیا جن پر ہیرود اعظم اپنے زمانے میں حکمران تھا۔ اس شخص نے بر سر اقتدار آنے کے بعد مسیح علیہ السلام کے پیرووں پر مظالم کی انتہا کر دی اور اپنا پورا زور خدا ترسی و اصلاح اخلاق کی اس تحریک کو کچلنے میں صرف کر ڈالا جو حواریوں کی رہنمائی میں چل رہی تھی۔

اس دور میں عام یہودیوں اور ان کے مذہبی پیشواؤں کی جو حالت تھی اس کا صحیح اندازہ کر نے کے لیے اُن تنقیدوں کا مطالعہ کر نا چاہیے جو مسیح علیہ السلام نے اپنے خطبوں میں ان پر کی ہیں۔ یہ سب خطبے انا جیل اربعہ میں موجود ہیں۔ پھر اس کا اندازہ کر نے کے لیے یہ امر کافی ہے کہ اس قوم کی آنکھوں کے سامنے یحییٰ علیہ السلام جیسے پاکیزہ انسان کا سر قلم کیا گیا مگر ایک آواز بھی اس ظلم عظیم کے خلاف نہ اُٹھی ۔ اور پوری قوم کے مذہبی پیشواؤں نے مسیح علیہ السلام کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا مگر تھوڑے سے راستباز انسانوں کے سوا کوئی نہ تھا جو اس بد بختی پر ماتم کرتا ۔ حدیہ ہے کہ جب پونتس پیلا طس نے ان شامت زدہ لوگوں سے پوچھا کہ آج تمہاری عید کا دن ہے اور قاعدے کے مطابق میں سزائے موت کے مستحق مجرموں میں سے ایک کو چھوڑدینے کا مجاز ہوں، بتاؤ یسوع کو چھوڑوں یا برا بّاڈا کو کو؟ تو ان کے پورے مجمع نے بیک آواز ہو کر کہا کہ برابّا کو چھوڑدے ۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری حجت تھی جو اس قوم پر قائم کی گئی۔

اس پر تھوڑا زمانہ ہی گزرا تھا کہ یہودیوں اور رومیوں کے درمیان سخت کشمکش شروع ہو گئی اور ٦۴ اور ٦٦ء کےدرمیان یہودیوں نے کھلی بغاوت کر دی ۔ ہیرود اگرِ پاثانی اور رومی پر وکیوریٹر فلورس، دونوں اس بغاوت کو فرو کرنے میں ناکام ہوئے۔ آخر کار رومی سلطنت نے ایک سخت فوجی کاروائی سے اس بغاوت کو کچل ڈالا اور۷۰ ء میں ٹیٹُس نے بزور شمشیر یروشلم کو فتح کر لیا۔ اس موقع پر قتلِ عام میں ایک لاکھ ۳۳ ہزار آدمی مارے گئے، ٦۷ ہزار آدمی گرفتار کر کے غلام بنائے گئے ہزار ہا آدمی پکڑ پکڑ کر مصری کانوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیے گئے، ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر مختلف شہروں میں بھیجا گیا تا کہ ایمفی تھیڑوں اور کلوسمیوں میں ان کو جنگلی جانوروں سے پھڑوانے یا شمشیر زنوں کے کھیل کا تختہ مشق بننے کے لیے استعمال کیا جائے۔ تمام دراز قامت اور حسین لڑکیاں فاتحین کے لیے چن لی گئیں، اور یروشلم کے شہر اور ہیکل کو مسمار کر کے پیوند ِ خاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد فلسطین سے یہودی اثرواقتدار ایسامٹا کہ دوہزار برس تک اس کو پھر سر اٹھانے کا موقع نہ ملا، اور یروشلم کا ہیکل مقدس پھر کبھی تعمیر نہ ہو سکا۔ بعد میں قیصر ہیڈ ریان نے اس شہر کر دوبارہ آباد کیا، مگر اب اس کا نام ایلیا تھا اور اس میں مدتہائے دراز تک یہودیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔

یہ تھی وہ سزا جو بنی اسرائیل کو دوسرے فسادِ عظیم کی پاداش میں ملی۔

10. اس سے یہ شبہہ نہ ہونا چاہیے کہ اس پوری تقریر کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں۔ مخاطب تو کفار مکہ ہی ہیں، مگر چونکہ اُن کو متنبہ کرنے کے لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند عبرتناک شواہد پیش کیے گئے تھے، اس لیے بطور ایک جملہ معترضہ کے یہ فقرے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرمادیا گیا تا کہ اُن اصلاحی تقریروں کے لیے تمہید کا کام دے جن کی نوبت ایک ہی سال بعد مدینے میں آنے والی تھی۔

11. مدعا یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ یا قوم اس قرآن کی تنبیہ و فہمائش سے راہ راست پر نہ آئے، اسے پھر اُس سزا کے لیے تیار رہنا چاہیے جو بنی اسرائیل نے بھگتی ہے۔