Tafheem ul Quran

Surah 17 Al-Isra, Ayat 101-111

وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسٰى تِسۡعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ​ فَسۡـئَلۡ بَنِىۡۤ اِسۡرَاۤءِيۡلَ اِذۡ جَآءَهُمۡ فَقَالَ لَهٗ فِرۡعَوۡنُ اِنِّىۡ لَاَظُنُّكَ يٰمُوۡسٰى مَسۡحُوۡرًا‏  ﴿17:101﴾ قَالَ لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَاۤ اَنۡزَلَ هٰٓؤُلَاۤءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ بَصَآئِرَ​ ۚ وَاِنِّىۡ لَاَظُنُّكَ يٰفِرۡعَوۡنُ مَثۡبُوۡرًا‏ ﴿17:102﴾ فَاَرَادَ اَنۡ يَّسۡتَفِزَّهُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ فَاَغۡرَقۡنٰهُ وَ مَنۡ مَّعَهٗ جَمِيۡعًا ۙ‏ ﴿17:103﴾ وَّقُلۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِهٖ لِبَنِىۡۤ اِسۡرَاۤءِيۡلَ اسۡكُنُوا الۡاَرۡضَ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَةِ جِئۡنَا بِكُمۡ لَفِيۡفًا ؕ‏ ﴿17:104﴾ وَبِالۡحَـقِّ اَنۡزَلۡنٰهُ وَبِالۡحَـقِّ نَزَلَ​ ؕ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيۡرًا ​ۘ‏ ﴿17:105﴾ وَقُرۡاٰنًا فَرَقۡنٰهُ لِتَقۡرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكۡثٍ وَّنَزَّلۡنٰهُ تَنۡزِيۡلًا‏ ﴿17:106﴾ قُلۡ اٰمِنُوۡا بِهٖۤ اَوۡ لَا تُؤۡمِنُوۡٓا​ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مِنۡ قَبۡلِهٖۤ اِذَا يُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ يَخِرُّوۡنَ لِلۡاَذۡقَانِ سُجَّدًا ۙ‏ ﴿17:107﴾ وَّيَقُوۡلُوۡنَ سُبۡحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنۡ كَانَ وَعۡدُ رَبِّنَا لَمَفۡعُوۡلًا‏  ﴿17:108﴾ وَيَخِرُّوۡنَ لِلۡاَذۡقَانِ يَبۡكُوۡنَ وَيَزِيۡدُهُمۡ خُشُوۡعًا ۩‏ ﴿17:109﴾ قُلِ ادۡعُوا اللّٰهَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ​ ؕ اَ يًّا مَّا تَدۡعُوۡا فَلَهُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى ​ۚ وَلَا تَجۡهَرۡ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتۡ بِهَا وَابۡتَغِ بَيۡنَ ذٰ لِكَ سَبِيۡلًا‏ ﴿17:110﴾ وَقُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ لَمۡ يَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّلَمۡ يَكُنۡ لَّهٗ شَرِيۡكٌ فِى الۡمُلۡكِ وَلَمۡ يَكُنۡ لَّهٗ وَلِىٌّ مِّنَ الذُّلِّ​ وَكَبِّرۡهُ تَكۡبِيۡرًا‏  ﴿17:111﴾

101 - ہم نے موسیٰؑ کو نو نشانیاں عطا کی تھیں جو صریح طور پر دکھائی دے رہی تھیں۔113 اب یہ تم خود بنی اسرائیل سے پُوچھ لو کہ جب وہ سامنے آئیں تو فرعون نے یہی کہا تھا نہ کہ ”اے موسیٰ، میں سمجھتا ہوں کہ تُو ضرور ایک سحر زدہ آدمی ہے۔“114 102 - موسیٰؑ نے اس کے جواب میں کہا ”تُو خوب جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں ربّ السّماوات و الارض کے سوا کسی نے نازل نہیں کی ہیں115، اور میرا خیال یہ ہے کہ اے فرعون ، تُو ضرور ایک شامت زدہ آدمی ہے۔“116 103 - آخرِ کار فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کو زمین سے اُکھاڑ پھینکے، مگر ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو اکٹھا غرق کر دیا 104 - اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ اب تم زمین میں بسو117، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آن پُورا ہوگا تو ہم تم سب کو ایک ساتھ لاحاضر کریں گے۔ 105 - اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور حق ہی کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے، اور اے محمدؐ، تمہیں ہم نے اِس کے سوا اور کسی کام کے لیے نہیں بھیجا کہ (جو مان لے اسے)بشارت دے دو اور(جو نہ مانے اُسے)متنبّہ کر دو۔118 106 - اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھہر ٹھہر کر اسے لوگوں کو سُناوٴ، اور اسے ہم نے( موقع موقع سے)بتدریج اُتارا ہے۔119 107 - اے محمدؐ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانویا نہ مانو، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے120 انہیں جب یہ سُنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں 108 - اور پکار اُٹھتے ہیں ”پاک ہے ہمارا ربّ، اُس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔“121 109 - اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گِر جاتے ہیں اور اسے سُن کو اُن کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔122 السجدة ۴ 110 - اے نبیؐ ، اِن سے کہو، اللہ کہہ کر پُکارو یا رحمان کہہ کر، جس نام سے بھی پُکارو اُس کے لیے سب اچھے نام ہیں۔123 اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے، ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو۔124 111 - اور کہو ”تعریف ہے اُس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ کوئی بادشاہی میں اُس کا شریک ہے، اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو۔“125 اور اُس کی بڑائی بیان کرو، کمال درجے کی بڑائی۔ ؏ ۱۲


Notes

113. واضح رہے کہ یہاں پھر کفار مکہ کو معجزات کے مطالبے کا جواب دیا گیا ہے، اور تیسرا جواب ہے۔ کفار کہتے تھے کہ ہم تم پر ایمان نہ لائیں گے جب تک تم یہ اور یہ کام کر کے نہ دکھاؤ۔ جواب میں ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم سے پہلے فرعون کوا یسے ہی صریح معجزات ، ایک دو نہیں، پے در پے ۹ دکھائے گئے تھے، پھر تمہیں معلوم ہے کہ جو نہ ماننا چاہتا تھا اس نے انہیں دیکھ کر کیا کہا؟ اور یہ بھی خبر ہے کہ جب اس نے معجزات دیکھ کر بھی نبی کو جھٹلایا تو اس کا انجام کیا ہوا؟

وہ نونشانیاں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ، اس سے پہلے سورہ اعراف میں گزر چکی ہیں۔ یعنی عصاء، جو اژدہا بن جاتا تھا، ید ِ بیضاء جو بغل سے نکالتے ہی سورج کی طرح چمکنے لگتا تےتھا، جادوگروں کے جادو کو بر سرِ عام شکست دینا، ایک اعلان کے مطابق سارے ملک میں قحط برپا ہو جانا، اور پھر یکے بعد دیگرے طوفان، ٹڈی دل، سُرسریوں، مینڈکوں اور خون کی بلاؤں کا نازل ہونا۔

114. یہ وہی خطاب ہے جو مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے۔ اسی سورت کی آیت ۴۷ میں ان کا یہ قول گزر چکا ہے کہ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسحُوراً۔ (تم تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے چلے جارہے ہو)۔ اب ان کو بتا یا جا رہا ہے کہ ٹھیک اسی خطاب سے فرعون نے موسٰی علیہ السلام کو نوازا تھا۔

اسی مقام پر ایک ضمنی مسئلہ اور بھی ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ زمانہ حال میں منکرینِ حدیث نے احادیث پر جو اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ حدیث کی رو سے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادہ اثر ہوگیا تھا، حالانکہ قرآن کی رو سے کفار کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمی ہیں۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ اس طرح راویانِ حدیث نے قرآن کی تکذیب اور کفار مکہ کی تصدیق کی ہے۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ بعینہٖ قرآن کی رُو سے حضرت موسٰی پر بھی فرعون کا یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمی ہیں، اور پھر قرآن خود ہی سورہ طٰہٰ میں کہتا ہے کہ فَاِذَا حِبَا لُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّل اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِ ھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی ۵ فَاَوجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَةً مُّوْسٰی ۔ یعنی”جب جادوگر وں نے اپنے انچھر پھینکے تو یکایک ان کے جادو سے موسٰی کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں دوڑ رہی ہیں ، پس موسٰی اپنے دل میں ڈر سا گیا“۔ کیا یہ الفاظ صریح طور پر دلالت نہیں کر رہے ہیں کہ حضرت موسٰی اس وقت جادو سے متاثر ہو گئے تھے؟ اور کیا اس کے متعلق بھی منکرین ِ حدیث یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ یہاں قرآن نے خود اپنی تکذیب اور فرعون کے جھوٹے الزام کی تصدیق کی ہے؟

دراصل اس طرح کے اعتراضات اُٹھانے والوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ کفار مکہ اور فرعون کس معنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسٰی کو ”مسحور“کہتے تھے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ کسی دشمن نے جادو کر کے ان کو دیوا نہ بنا دیا ہے اور اسی دیوانگی کے زیر اثر یہ نبوت کا دعویٰ کرتے اور ایک نرالا پیغام سناتے ہیں۔ قرآن ان کے اسی الزام کو جھوٹا قرار دیتا ہے ۔ رہا وقتی طور پر کسی شخص کے جسم یا کسی حاسئہ جسم کا جادو سے متاثر ہوجانا تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کو پتھر مارنے سے چوٹ لگ جائے، اس چیز کا نہ کفار نے الزام لگا یا تھا ، نہ قرآن نے اس کی تردید کی، اور نہ اس طرح کے کسی وقتی تاثر سے نبی کے منصب پر کوئی حرف آتا ہے۔ نبی پر اگر زہر کا اثر ہو سکتا تھا، نبی اگر زخمی ہوسکتا تھا تو اس پر جادو کا اثر بھی ہوسکتا تھا۔اس سے منصب نبوت پر حرف آنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔ منصبِ نبوت میں اگر قادح ہو سکتی ہے تو یہ بات کہ نبی کے قوائے عقلی و ذہنی جادو سے مغلوب ہوجائیں، حتٰی کہ اس کا کام اور کلام سب جادو ہی کے زیر اثر ہونے لگے۔ مخالفینِ حق حضرت موسٰی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہی الزام لگا تے تھے اور اسی کی تردید قرآن نے کی ہے۔

115. یہ بات حضرت موسٰی نے اس لیے فرمائی کہ کسی ملک پرقحط آجانا، یا لاکھوں مربع میل زمین پر پھیلے ہوئے علاقے میں مینڈکوں کا ایک بلا کی طرح نکلنا ، یا تمام ملک کے غلے کے گوداموں میں گھن لگ جانا، اور ایسے ہی دوسرے عام مصائب کسی جادو گر کے جادو، یا کسی انسانی طاقت کے کرتب سے رونما نہیں ہو سکتے۔ پھر جبکہ ہر بلا کے نزول سے پہلے حضرت موسٰی فرعون کو نوٹس دے دیتے تھے کہ اگر تو اپنی ہٹ سے باز نہ آیا تو یہ بلا تیری سلطنت پر مسلط کی جائے گی ، اور ٹھیک ان کے بیان کے مطابق وہی بلا پوری سلطنت پر نازل پر جاتی تھی، تو اس صورت میں صرف ایک دیوانہ یا ایک سخت ہٹ دھرم آدمی ہی یہ کہہ سکتا تھا کہ ان بلاؤں کا نزول ربّ السٰموات والارض کے سوا کسی اور کی کارستانی کا نتیجہ ہے۔

116. یعنی میں تو سحر زدہ نہیں ہوں مگر تو ضرور شامت زدہ ہے۔ تیرا ان خدائی نشانیوں کے پے درپے دیکھنے کے بعد بھی اپنی ہٹ پر قائم رہنا صاف بتا رہا ہے کہ تیری شامت آگئی ہے۔

117. یہ ہے اصل غرض اس قصے کو بیان کرنے کی۔ مشرکین مکہ اس فکر میں تھے کہ مسلمانوں کو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سرزمین عرب سے نا پید کردیں۔ اس پر انہیں یہ سنایا جا رہا ہے کہ یہی کچھ فرعون نے موسٰی اور بنی اسرائیل کے ساتھ کر نا چاہا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ فرعون اور اس کے ساتھی ناپید کر دیے گئے اور زمین پر موسٰی اور پیروانِ موسٰی ہی بسائے گئے۔ اب اگر اسی روش پر تم چلو گے تو تمہارا انجام اس سے کچھ بھی مختلف نہ ہوگا۔

118. یعنی تمہارے ذمے یہ کام نہیں کیا گیا ہے کہ جولوگ قرآن کی تعلیمات کو جانچ کر حق اور باطل کا فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اُن کو تم چشمے نکال کر اور باغ اُگا کر اور آسمان پھاڑ کر کسی نہ کسی طرح مومن بنانے کی کوشش کرو، بلکہ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے حق بات پیش کردو اور پھر انہیں صاف صاف بتادو کہ جو اسے مانے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو نہ مانے گا وہ بُرا انجام دیکھے گا۔

119. یہ مخالفین کے اس شبہہ کا جواب ہے کہ اللہ میاں کو پیغام بھیجنا تھاتو پورا پیغام بیک وقت کیوں نہ بھیج دیا ؟ یہ آخر ٹھیر ٹھیر کر تھوڑا تھوڑا پیغام کیوں بھیجا جا رہا ہے؟ کیا خدا کو بھی انسانوں کی طرح سوچ سوچ کر بات کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے؟ اس شبہہ کا مفصل جواب سورہ نحل آیات ١۰١،١۰۲ میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں، اس لیے یہاں اس کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔

120. یعنی وہ اہل کتاب جو آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہیں اور ان کے انداز کلام کو پہچانتے ہیں۔

121. یعنی قرآن کو سن کر وہ فورًا سمجھ جاتے ہیں کہ جس نبی کے آنے کا وعدہ پچھلے انبیاء کے صحیفوں میں کیا گیا تھا وہ آگیا ہے۔

122. صالحین اہل کتاب کے اس رویے کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً آل عمران آیات ١١۳ تا ١١۵، ١۹۹۔ اور المائدہ آیات ۸۲۔۸۵۔

123. یہ جواب ہے مشرکین کے اس اعتراض کا کہ خالق کے لیے ”اللہ“کا نام تو ہم نے سنا تھا، مگر یہ ”رحمان“ کا نام تم نے کہاں سے نکالا؟ ان کے ہاں چونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ نام رائج نہ تھا اس لیے وہ اس پر ناک بَھوں چڑھاتے تھے۔

124. ابن عباس کا بیان ہے کہ مکے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے صحابہ کرام ؓ نماز پڑھتے وقت بلند آواز سے قرآن پڑھتے تھے تو کفار شور مچانے لگتے اور بسا اوقات گالیوں کی بوچھاڑ شروع کردیتے تھے۔ اس پر حکم ہوا کہ نہ تو اتنے زور سے پڑھو کہ کفار سن کر ہجوم کریں، اور نہ اس قدر آہستہ پڑھو کہ تمہارے اپنے ساتھی بھی نہ سن سکیں۔ یہ حکم صرف انہی حالات کے لیے تھا۔ مدینے میں جب حالات بدل گئے تو یہ حکم باقی نہ رہا۔ البتہ جب کبھی مسلمانوں کو مکے کے سے حالات سے دوچار ہونا پڑے ، انہیں اسی ہدایت کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔

125. اس فقرے میں ایک لطیف طنز ہے ان مشرکین کے عقائد پر جو مختلف دیوتاؤں اور بزرگ انسانوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ میاں نے اپنی خدائی کے مختلف شعبے یا اپنی سلطنت کے مختلف علاقے ان کے انتظام میں دے رکھے ہیں۔ اس بیہودہ عقیدے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی خدائی کا بار سنبھالنے سے عاجز ہے اس لیے وہ اپنے پشتیباں تلاش کررہا ہے۔ اسی بنا پر فرمایاگیا کہ اللہ عاجز نہیں ہے کہ اسے کچھ ڈپٹیوں اور مددگاروں کی حاجت ہو۔