Tafheem ul Quran

Surah 17 Al-Isra, Ayat 11-22

وَيَدۡعُ الۡاِنۡسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالۡخَيۡرِ​ ؕ وَكَانَ الۡاِنۡسَانُ عَجُوۡلًا‏ ﴿17:11﴾ وَجَعَلۡنَا الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ اٰيَتَيۡنِ​ فَمَحَوۡنَاۤ اٰيَةَ الَّيۡلِ وَجَعَلۡنَاۤ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبۡصِرَةً لِّتَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَلِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِيۡنَ وَالۡحِسَابَ​ؕ وَكُلَّ شَىۡءٍ فَصَّلۡنٰهُ تَفۡصِيۡلًا‏  ﴿17:12﴾ وَكُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰهُ طٰۤـئِرَهٗ فِىۡ عُنُقِهٖ​ؕ وَنُخۡرِجُ لَهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلۡقٰٮهُ مَنۡشُوۡرًا‏ ﴿17:13﴾ اِقۡرَاۡ كِتٰبَك َؕ كَفٰى بِنَفۡسِكَ الۡيَوۡمَ عَلَيۡكَ حَسِيۡبًا ؕ‏ ﴿17:14﴾ مَنِ اهۡتَدٰى فَاِنَّمَا يَهۡتَدِىۡ لِنَفۡسِهٖ ​ۚ وَمَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيۡهَا​ ؕ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰى​ ؕ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيۡنَ حَتّٰى نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا‏ ﴿17:15﴾ وَاِذَاۤ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نُّهۡلِكَ قَرۡيَةً اَمَرۡنَا مُتۡرَفِيۡهَا فَفَسَقُوۡا فِيۡهَا فَحَقَّ عَلَيۡهَا الۡقَوۡلُ فَدَمَّرۡنٰهَا تَدۡمِيۡرًا‏ ﴿17:16﴾ وَكَمۡ اَهۡلَكۡنَا مِنَ الۡقُرُوۡنِ مِنۡۢ بَعۡدِ نُوۡحٍ​ؕ وَكَفٰى بِرَبِّكَ بِذُنُوۡبِ عِبَادِهٖ خَبِيۡرًۢا بَصِيۡرًا‏ ﴿17:17﴾ مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ الۡعَاجِلَةَ عَجَّلۡنَا لَهٗ فِيۡهَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِيۡدُ ثُمَّ جَعَلۡنَا لَهٗ جَهَنَّمَ​ۚ يَصۡلٰٮهَا مَذۡمُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا‏  ﴿17:18﴾ وَمَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعۡيَهَا وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰۤـئِكَ كَانَ سَعۡيُهُمۡ مَّشۡكُوۡرًا‏ ﴿17:19﴾ كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۤءِ وَهٰٓؤُلَاۤءِ مِنۡ عَطَآءِ رَبِّكَ​ ؕ وَمَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحۡظُوۡرًا‏ ﴿17:20﴾ اُنْظُرۡ كَيۡفَ فَضَّلۡنَا بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ​ ؕ وَلَـلۡاٰخِرَةُ اَكۡبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكۡبَرُ تَفۡضِيۡلًا‏ ﴿17:21﴾ لَا تَجۡعَلۡ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَقۡعُدَ مَذۡمُوۡمًا مَّخۡذُوۡلًا‏  ﴿17:22﴾

11 - انسان شر اُس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔12 12 - دیکھو، ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بے نُور بنایا، اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے ربّ کا فضل تلاش کر سکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کر سکو۔ اِسی طرح ہم نے ہر چیز کو الگ الگ ممیَّز کر کے رکھا ہے۔13 13 - ہر انسان کا شگون ہم نے اُس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے،14 اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اُس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھُلی کتاب کی طرح پائے گا۔ 14 - ۔۔۔ پڑھ اپنا نامہٴ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تُو خود ہی کافی ہے۔ 15 - جو کوئی راہِ راست اختیار کرے اس کی راست روی اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گُمراہ ہو اُس کی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے۔15 کوئی بوجھ اُٹھانے والا دُوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔16 اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے)ایک پیغام بر نہ بھیج دیں۔17 16 - جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔18 17 - دیکھ لو، کتنی ہی نسلیں ہیں جو نُوحؑ کے بعد ہمارے حکم سے ہلاک ہوئیں۔ تیرا ربّ اپنے بندوں کے گناہوں سے پُوری طرح باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ 18 - جو کوئی عاجلہ 19کا خواہشمند ہو، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں، پھر اس کے مقسُوم میں جہنّم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا ملامت زدہ اور رحمت سے محرُوم ہو کر۔20 19 - اور جو آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔21 20 - اِن کو بھی اور اُن کو بھی ، دونوں فریقوں کو ہم (دُنیا میں)سامانِ زیست دیے جارہے ہیں، یہ تیرے ربّ کا عطیہ ہے، اور تیرے ربّ کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔22 21 - مگر دیکھ لو، دُنیا ہی میں ہم نے ایک گروہ کو دُوسرے پر کیسی فضیلت دے رکھی ہے، اور آخرت میں اُس کے درجے اور بھی زیادہ ہوں گے، اور اس کی فضیلت اور بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوگی۔23 22 - تُو اللہ کے ساتھ کوئی دُوسرا معبود نہ بنا24 ورنہ ملامت زدہ اور بے یار و مددگار بیٹھا رہ جائے گا۔ ؏ ۲


Notes

12. یہ جواب ہے کفار مکہ کی اُن احمقانہ باتوں کا جو وہ بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےکہتے تھے کہ بس لے آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرایا کرتے ہو۔ اوپر کے بیان کے بعد معاً یہ فقرہ ارشاد فرمانے کے غرض اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ بیوقوفو! خیر مانگنے کے بجائے عذاب مانگتے ہو؟ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے خدا کا عذاب جب کسی قوم پر آتا ہے تو اس کی کیا گت بنتی ہے؟

اس کے ساتھ اس فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مسلمانوں کے لیے بھی تھی جو کفار کے ظلم و ستم اور ان کی ہٹ دھر میوں سے تنگ آ کر کبھی کبھی ان کے حق میں نزول عذاب کی دعا کرنے لگتے تھے، حالانکہ ابھی انہی کفار میں بہت سے وہ لوگ موجود تھے جوآگے چل کر ایمان لانے والے اور دنیا بھر میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان بڑا بے صبر واقع ہوا ہے ۔، ہر وہ چیز مانگ بیٹھتا ہے جس کی بر وقت ضرورت محسوس ہوتی ہے، حالانکہ بعد میں اسے خود تجربہ سے معلوم ہو جا تا ہے کہ اگر اُس وقت اُس کی دعا قبول کر لی جاتی تووہ اس کے حق میں خیر نہ ہوتی۔

13. مطلب یہ ہے کہ اختلافات سے گھبرا کر یکسانی ویک رنگی کے لیے بے چین نہ ہو۔ اس دنیا کا تو سارا کار خانہ ہی اختلاف اور امتیاز اور تنوع کی بدولت چل رہا ہے۔ مثال کے طور پر تمہارے سامنے نمایاں ترین نشانیاں یہ رات اور دن ہیں جو روز تم پر طاری ہوتے رہتے ہیں۔ دیکھو کہ ان کے اختلافات میں کتنی عظیم الشان مصلحتیں موجود ہیں۔ اگر تم پر دائماً ایک ہی حالت طاری رہتی تو کیا یہ ہنگامہ وجود چل سکتا تھا؟ پس جس طرح تم دیکھ رہےہو کہ عالم طبیعیات میں فرق و اختلاف اور امتیاز کے ساتھ بے شمار مصلحتیں وابستہ ہیں، اسی طرح انسانی مزاجوں اور خیالات اور رحجانات میں بھی جو فرق و امتیاز پایا جاتا ہے وہ بڑی مصلحتوں کا حامل ہے۔ خیر اس میں نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سےاس کو مٹا کر سب انسانوں کو جبراً نیک اور مومن بنا دے، یا کافروں اور فاسقوں کو ہلاک کر کے دنیا میں صرف اہل ایما ن و طاعت ہی کو باقی رکھا کرے۔ اس کی خواہش کر نا تو اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خواہش کرنا کہ صرف دن ہی دن رہا کرے،رات کی تاریکی سرے سے کبھی طاری ہی نہ ہو۔ البتہ خیر جس چیز میں ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہدایت کی روشنی جن لوگوں کے پاس ہے وہ اسے لے کر ضلالت کی تاریکی دور کرنے کے لیے مسلسل سعی کرتے رہیں، اور جب رات کی طرح کوئی تاریکی کا دور آئے تو وہ سورج کی طرح اُس کا پیچھا کریں، یہاں تک کہ روزِ روشن نمودار ہو جائے۔

14. یعنی ہر انسان کی نیک بختی و بد بختی ، اور اس کے انجام کی بھلائی اور برائی کے اسباب ووجوہ خود اس کی اپنی ذات ہی میں موجود ہیں ۔ اپنے اوصاف، اپنی سیرت و کردار، اور اپنی قوتِ تمیز اور قوت فیصلہ و انتخاب کے استعمال سے وہ خود ہی اپنے آپ کو سعادت کا مستحق بھی بناتا ہے اور شقاوت کا مستحق بھی۔ نادان لوگ اپنی قسمت کے شگون باہر لیتے پھرتے ہیں اور ہمیشہ خارجی اسباب ہی کو اپنی بدبختی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا پروانہ خیر و شر اُن کے اپنے گلے کا ہار ہے۔ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈالیں تو دیکھ لیں کہ جس چیز نے ان کو بگاڑ اور تباہی کے راستے پر ڈالا اور آخر کار خائب و خاسر بنا کر چھوڑا وہ ان کے اپنے ہی برے اوصاف اور برے فیصلے تھے، نہ یہ کہ باہر سے آکر کوئی چیز زبر دستی ان پر مسلط ہوگئی تھی۔

15. یعنی راہ راست اختیار کر کے کوئی شخص خدا پر ، یا رسول پر ، یا اصلاح کی کوشش کرنے والوں پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ خود اپنے ہی حق میں بھلا کرتا ہے۔ اور اسی طرح گمراہی اختیار کرکے یا اس پر اصرار کر کے وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا، اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ خدا اور رسول اور داعیانِ حق انسان کو غلط راستوں سے بچانے اور صحیح راہ دکھانے کی جو کوشش کرتے ہیں وہ اپنی کسی غرض کے لیے نہیں بلکہ انسان کی خیر خواہی کے لیے کرتےہیں۔ ایک عقلمند آدمی کا کام یہ ہے کہ جب دلیل سے اس کے سامنے حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کر دیا جائے تو وہ تعصبات اور مفاد پرستیوں کو چھوڑ کر سیدھی طرح باطل سے باز آجائے او ر حق اختیار کر لے۔ تعصب یا مفاد پرستی سے کام لےگا تو وہ آپ ہی اپنا بدخواہ ہوگا۔

16. یہ ایک نہایت اہم اصولی حقیقت ہے جسے قرآن مجید میں جگہ جگہ ذہن نشین کرنے کے کوشش کی گئی ہے، کیونکہ اسے سمجھے بغیر انسان کا طرز عمل کبھی درست نہیں ہو سکتا ۔ اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ایک مستقل اخلاقی ذمہ داری رکھتا ہے اور اپنی شخصی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ دنیا میں خواہ کتنے ہی آدمی، کتنی ہی قومیں اور کتنی ہی نسلیں اور پشتیں ایک کام یا ایک طریق عمل میں شریک ہوں، بہر حال خدا کی آخری عدالت میں اُس مشترک عمل کا تجزیہ کر کے ایک ایک انسان کی ذاتی ذمہ داری الگ مشخص کر لی جائے گی اور اس کو جو کچھ بھی جزا یا سزا ملے گی، اس عمل کی ملے گی جس کا وہ خود اپنی انفرادی حیثیت میں ذمہ دار ثابت ہوگا۔اس انصاف کی میزان میں نہ یہ ممکن ہوگا کہ دوسروں کے کیے کا وبال اس پر ڈال دیا جائے، اور نہ یہی ممکن ہوگا کہ اس کے کرتوتوں کا بارِ گناہ کسی اور پر پڑجائے۔ اس لیے ایک دانش مند آدمی کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں، بلکہ اسے ہر وقت اس بات پر نگاہ رکھنی چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے۔ اگر اسے اپنی ذاتی ذمہ داری کا صحیح احساس ہو تو دوسرے خواہ کچھ کر رہے ہوں ، وہ بہر حال اُسی طرزِ عمل پر ثابت قدم رہےگا جس کی جواب دہی خدا کے حضور وہ کامیابی کے ساتھ کر سکتاہو۔

17. یہ ایک اور اصولی حقیقت ہے جسے قرآن بار بار مختلف طریقوں سے انسان کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نظام ِ عدالت میں پیغمبر ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔ پیغمبر اور اس کا لایا ہوا پیغام ہی بندوں پر خدا کی حجت ہے۔ یہ حجت قائم نہ ہو تو بندوں کو عذاب دینا خلافِ انصاف ہوگا ، کیونکہ اس صورت میں وہ یہ عذر پیش کر سکیں گے کہ ہمیں آگاہ کیا ہی نہ گیا تھا پھر اب ہم پر یہ گرفت کیسی۔ مگر جب یہ حجت قائم ہو جائے تو اس کے بعد انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اُن لوگوں کو سزا دی جائے جنہوں نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغام سے منہ موڑا ہو، یا اسے پا کر پھر اس سے انحراف کیا ہو۔ بے وقوف لوگ اس طرح کی آیات پڑھ کر اس سوال پر غور کرنے لگتے ہیں کہ جن لوگوں کے پاس کسی نبی کا پیغام نہیں پہنچا ان کی پوزیشن کیا ہوگی۔ حالانکہ ایک عقلمند آدمی کو غور اس بات پر کرنا چاہیے کہ تیرے پاس تو پیغام پہنچ چکا ہے ۔ اب تیری اپنی پوزیشن کیا ہے۔ رہے دوسرے لوگ، تو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے پاس ، کب ، کس طرح اور کس حد تک اس کا پیغام پہنچا اور اس نے اس کے معاملے میں کیا رویہ اختیار کیا اور کیوں کیا ۔ عالم الغیب کے سوا کوئی بھی یہ نہیں جان سکتا کہ کس پر اللہ کی حجت پوری ہوئی ہے اور کس پر نہیں ہوئی۔

18. اس آیت میں حکم سے مراد حکم طبعی اور قانون فطری ہے۔ یعنی قدرتی طور پر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے مترفین فاسق ہوجاتے ہیں۔ ہلاک کرنے کے ارداے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے ،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کاظہور اس طریقے سے ہوتا ہے۔

دراصل جس حقیقت پر اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخر کار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے ،خوشحال لوگوں اور اونچے طبقوں کا بگاڑ ہے۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحبِ اقتدار لوگ فسق وفجور پر اُتر آتے ہیں، ظلم و ستم اور بد کاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں، اورآخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو اسے فکر رکھنی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بد اخلاق لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے پائیں۔

19. عاجلہ کےلغوی معنی ہیں جلدی ملنے والی چیز۔ اور اصطلاحاً قرآن مجید اس لفظ کو دنیا کے لیے استعمال کرتا ہے جس کے فائدے اور نتائج اسی زندگی میں حاصل ہوجا تے ہیں۔ اس کے مقابلے کی اصطلاح”آخرت“ہے جس کے فوائد اور نتائج کو موت کے بعد دوسری زندگی تک موخر کر دیا گیاہے۔

20. مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو نہیں مانتا ، یا آخرت تک صبر کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنی کوششوں کا مقصود صرف دنیا اور اس کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو بناتا ہے، اسے جو کچھ بھی ملےگا بس دنیا میں مل جائے گا۔ آخرت میں وہ کچھ نہیں پا سکتا ۔ اور بات صرف یہیں تک نہ رہے گی کہ اسے کوئی خوشحالی آخرت میں نصیب نہ ہوگی، بلکہ مزید برآں دنیا پرستی ، اور آخرت کی جوابدہی وذمہ داری سے بے پر واہی اس کے طرز عمل کو بنیادی طور پر ایسا غلط کر کے رکھ دے گی کہ آخرت میں وہ اُلٹا جہنم کا مستحق ہو گا۔

21. یعنی اس کےکام کی قدر کی جائے گی اور جتنی اور جیسی کوشش بھی اس نے آخرت کی کامیابی کے لیے کی ہوگی اس کا پھل وہ ضرور پائے گا۔

22. یعنی دنیا میں رزق اور سامان زندگی دنیا پرستوں کو بھی مل رہا ہے اور آخرت کے طلبگاروں کو بھی عطیہ اللہ ہی کا ہے، کسی اور کا نہیں ہے۔ نہ دنیا پرستوں میں یہ طاقت ہے کہ آخر ت کے طلبگاروں کو رزق سے محروم کردیں، اور نہ آخرت کے طلب گار ہی یہ قدرت رکھتے ہیں کہ دنیا پرستوں تک اللہ کی نعمت نہ پہنچنے دیں۔

23. یعنی دنیا ہی میں یہ فرق نمایاں ہوجاتا ہے کہ آخرت کے طلبگار دنیا پرست لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔ یہ فضیلت اس اعتبار سے نہیں ہے کہ ان کے کھانے اور لباس اور مکان اور سواریاں اور تمدن و تہذیب کے ٹھاٹھ اُن سے کچھ بڑھ کر ہیں۔ بلکہ اس اعتبار سے ہے کہ یہ جو کچھ بھی پاتے ہیں صداقت ، دیانت اور امانت کےساتھ پاتے ہیں، اور وہ جو کچھ پا رہے ہیں ظلم سے ، بے ایمانیوں سے، اور طرح طرح کی حرام خوریوں سے پا رہے ہیں ۔ پھر ان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اعتدال کے ساتھ خرچ ہوتا ہے، اس میں سے حق داروں کے حقوق ادا ہوتے ہیں، اس میں سائل اور محروم کا حصہ بھی نکلتا ہے، اور اس میں سے خدا کی خوشنودی کے لیے دوسرے نیک کاموں پر بھی مال صرف کیاجاتا ہے۔ اس کے بر عکس دنیا پرستوں کو جو کچھ ملتا ہے وہ بیش تر عیاشیوں اور حرام کاریوں اور طرح طرح کے فساد انگیز اور فتنہ خیز کاموں میں پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔اسی طرح تمام حیثیتوں سے آخرت کے طلب گار کی زندگی خدا ترسی اور پا کیزگی اخلاق کا ایسا نمونہ ہوتی ہے جو پیوند لگے ہوئے کپڑوں اور خس کی جھونپڑیوں میں بھی اس قدردرخشاں نظر آتا ہے کہ دنیا پرست کی زندگی اس کے مقابلے میں ہر چشم بینا کو تاریک نظرآتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے جبار بادشاہوں اور دولت مند امیروں کے لیے بھی ان کے ہم جنس انسانوں کے دلوں میں کوئی سچی عزت اور محبت اور عقیدت کبھی پیدا نہ ہوئی اور اس کے بر عکس فاقہ کش اور بوریا نشین اتقیا کی فضیلت کو خود دنیا پرست لوگ بھی ماننے پر مجبور ہو گئے۔ یہ کھلی کھلی علامتیں اس حقیقت کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہیں کہ آخرت کی پائدار مستقل کامیابیاں ان دونوں گروہوں میں سے کس کے حصے میں آنے والی ہیں۔

24. دوسرا ترجمہ اس فقرے کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور خدا نہ گھڑلے، یا کسی اور کوخدا نہ قرار دے لے۔