Tafheem ul Quran

Surah 17 Al-Isra, Ayat 31-40

وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَكُمۡ خَشۡيَةَ اِمۡلَاقٍ​ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُهُمۡ وَاِيَّاكُمۡ​ؕ اِنَّ قَتۡلَهُمۡ كَانَ خِطۡاً كَبِيۡرًا‏ ﴿17:31﴾ وَلَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً  ؕ وَسَآءَ سَبِيۡلًا‏  ﴿17:32﴾ وَلَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِىۡ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالۡحَـقِّ​ ؕ وَمَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِـوَلِيِّهٖ سُلۡطٰنًا فَلَا يُسۡرِفْ فِّى الۡقَتۡلِ​ ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنۡصُوۡرًا‏ ﴿17:33﴾ وَلَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡيَتِيۡمِ اِلَّا بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ حَتّٰى يَبۡلُغَ اَشُدَّهٗ​ وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَهۡدِ​ۚ اِنَّ الۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡـُٔوۡلًا‏  ﴿17:34﴾ وَاَوۡفُوا الۡـكَيۡلَ اِذَا كِلۡتُمۡ وَزِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِيۡمِ​ؕ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ وَّاَحۡسَنُ تَاۡوِيۡلًا‏ ﴿17:35﴾ وَلَا تَقۡفُ مَا لَـيۡسَ لَـكَ بِهٖ عِلۡمٌ​ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَالۡبَصَرَ وَالۡفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۤـئِكَ كَانَ عَنۡهُ مَسۡـُٔوۡلًا‏ ﴿17:36﴾ وَلَا تَمۡشِ فِى الۡاَرۡضِ مَرَحًا​ ۚ اِنَّكَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَلَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا‏ ﴿17:37﴾ كُلُّ ذٰ لِكَ كَانَ سَيِّئُهٗ عِنۡدَ رَبِّكَ مَكۡرُوۡهًا‏ ﴿17:38﴾ ذٰ لِكَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤى اِلَيۡكَ رَبُّكَ مِنَ الۡحِكۡمَةِ​ ؕ وَلَا تَجۡعَلۡ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتُلۡقٰى فِىۡ جَهَنَّمَ مَلُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا‏ ﴿17:39﴾ اَفَاَصۡفٰٮكُمۡ رَبُّكُمۡ بِالۡبَـنِيۡنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الۡمَلٰۤـئِكَةِ اِنَاثًا​ ؕ اِنَّكُمۡ لَتَقُوۡلُوۡنَ قَوۡلًا عَظِيۡمًا‏ ﴿17:40﴾

31 - (۷)اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔31 32 - (۸)زنا کے قریب نہ پھٹکو، وہ بہت بُرا فعل اور بڑا ہی بُرا راستہ۔32 33 - (۹)قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے33 مگر حق کے ساتھ۔34 اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے،35 پس چاہیے کے وہ قتل میں حد سے نہ گزرے،36 اُس کی مدد کی جائے گی37۔ 34 - (۱۰)مالِ یتیم کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنے شباب کو پہنچ جائے۔38
(۱۱)عہد کی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔39
35 - (۱۲)پیمانے سے دو تو پُورا بھر کر دو، اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔ 40یہ اچھا طریقہ ہے اور ہلحاظِ انجام بھی یہی بہتر ہے۔41 36 - (۱۳)کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے42۔ 37 - (۱۴)زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ 43 38 - اِن امور میں سے ہر ایک کا بُرا پہلو تیرے ربّ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔44 39 - یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جو تیرے ربّ نے تجھ پر وحی کی ہیں۔ اور دیکھ! اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا بیٹھ ورنہ تُو جہنّم میں ڈال دیا جائے گا ملامت زدہ اور ہر بھلائی سے محروم ہو کر 45 40 - ۔۔۔۔ کیسی عجیب بات ہے کہ تمہارے ربّ نے تمہیں تو بیٹوں سے نوازا اور خود اپنے لیے ملائکہ کو بیٹیاں بنا لیا؟46 بڑی جھوٹی بات ہے جو تم لوگ زبانوں سے نکالتے ہو۔ ؏ ۴


Notes

31. یہ آیت اُن معاشی بنیادوں کو قطعی منہدم کر دیتی ہے جن پر قدیم زمانے سے آج تک مختلف ادوار میں ضبطِ ولادت کی تحریک اُٹھتی رہی ہے۔ افلاس کا خوف قدیم زمانے میں قتلِ اطفال اور اسقاطِ حمل کا محرک ہوا کرتا تھا ، اور آج وہ ایک تیسری تدبیر، یعنی منع حمل کی طرف دنیاکو دھکیل رہا ہے۔ لیکن منشور اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر اُن تعمیری مساعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے جن سے اللہ کے بنائے ہوئے قانونِ فطرت کےمطابق رزق میں افزائش ہوا کرتی ہے۔ اس دفعہ کی رو سے یہ بات انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ بار بار معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشے سے افزائش ِ نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ یہ انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے۔ جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے، بعد کے آنے والوں کو بھی دے گا۔ تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتا تا ہے کہ دنیا کہ مختلف ملکوں میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی ہے، اُتنے ہی، بلکہ بار ہا اس سے بہت زیادہ معاشی ذرائع وسیع ہوتے چلے گئے ہیں۔ لہٰذا خدا کے تخلیقی انتظامات میں انسان کی بے جا دخل اندازیاں حماقت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ نزول قرآن کے دور سے لے کر آج تک کسی دور میں بھی مسلمانوں کے اندر نسل کشی کا کوئی عام میلان پیدا نہیں ہونے پایا۔

32. ”زنا کے قریب نہ پھٹکو“، اس حکم کے مخاطب افراد بھی ہیں، اور معاشرہ بحیثیت مجموعی بھی۔ افراد کے لیے اس حکم کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض فعل زنا ہی سے بچنے پر اکتفا نہ کریں ، بلکہ زنا کے مقدمات اور اس کے اُن ابتدائی محرکات سے بھی دور ہیں جو اس راستے کی طرف لےجاتے ہیں۔ رہا معاشرہ ، تو اس حکم کی رو سے اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں زنا، اور محرکاتِ زنا ، اور اسبابِ زنا کا سدِ باب کرے، اور اس غرض کےلیے قانون سے، تعلیم و تربیت سے، اجتماعی ماحول کی اصلاح سے، معاشرتی زندگی کی مناسب تشکیل سے، اور دوسری تمام موثر تدابیر سے کام لے۔

یہ دفعہ آخر کار اسلامی نظام ِ زندگی کے ایک وسیع باب کی بنیادبنی۔ اس کے منشا کے مطابق زنا اور تہمتِ زنا کو فوجداری جرم قرار دیاگیا ، پردے کے احکام جاری کیے گئے، فواحش کی اشاعت کو سختی کےساتھ روک دیا گیا، شراب اور موسیقی اور رقص اور تصاویر پر (جو زنا کے قریب ترین رشتہ دار ہیں)بندشیں لگائی گئیں، اور ایک ایسا ازدواجی قانون بنایا گیا جس سے نکاح آسان ہو گیا اور زنا کے معاشرتی اسباب کی جڑ کٹ گئی۔

33. قتلِ نفس سے مراد صرف دوسرے انسان کا قتل ہی نہیں ہے، بلکہ خود اپنے آپ کو قتل کرنا بھی ہے۔ اس لیے کہ نفس،جس کو اللہ نے ذی حرمت ٹھیرایا ہے ، اس کی تعریف میں دوسرے نفوس کی طرح انسان کا اپنا نفس بھی داخل ہے۔ لہٰذا جتنا بڑا جرم اور گناہ قتلِ انسان ہے، اتنا ہی بڑا جرم اور گناہ خود کشی بھی ہے۔ آدمی کی بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنےآپ کو اپنی جان کا مالک، اور اپنی اس ملکیت کو با ختیارِ خود تلف کر دینے کا مجاز سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ جان اللہ کی ملکیت ہے، اور ہم اس کے اتلاف تو درکنار، اس کے کسی بے جا استعمال کے بھی مجاز نہیں ہیں۔ دنیا کی اس امتحان گاہ میں اللہ تعالیٰ جس طرح بھی ہمارا امتحان لے، اسی طرح ہمیں آخر وقت تک امتحان دیتے رہنا چاہیے، خواہ حالاتِ امتحان اچھے ہوں یا بُرے۔ اللہ کے دیے ہوئے وقت کو قصداً ختم کر کے امتحان گاہ سے بھاگ نکلنے کی کوشش بجائے خود غلط ہے، کجا کہ یہ فرار بھی ایک ایسے جرمِ عظیم کے ذریعہ سے کیا جائے جسے اللہ نے صریح الفاظ میں حرام قرار دیا ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آدمی دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور ذلتوں اور رسوائیوں سے بچ کر عظیم تر اور ابدی تکلیف و رسوائی کی طرف بھاگتا ہے۔

34. بعد میں اسلامی قانون نے قتل با لحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کر دیا: ایک قتلِ عمد کے مجرم سے قصاص دوسرے دینِ حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ ۔ تیسرے اسلامی نظامِ حکومت کو اُلٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا ۔ چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکاب زنا کی سزا۔ پانچویں ارتداد کی سزا۔ صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے۔

35. اصل الفاظ ہیں”اس کے ولی کو ہم نے سلطان عطا کیا ہے“۔ سلطان سے مراد یہاں ”حجت “ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس سے اسلامی قانون کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں بلکہ اولیائے مقتول ہیں، اور وہ قاتل کو معاف کرنے اور قصاص کے بجائے خوں بہا لینے پر راضی ہو سکتے ہیں۔

36. قتل میں حد سے گزر نے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں اور وہ سب ممنوع ہیں۔ مثلاً جو ش انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا، یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا، یا مار دینے کے بعد اس کی لعش پر غصہ نکالنا، یا خوں بہالینے کے بعد پھر اسے قتل کرنا وغیرہ۔

37. چونکہ اس وقت تک اسلامی حکومت قائم نہ ہو ئی تھی اس لیے اس بات کو نہیں کھولاگیا کہ اس کی مدد کون کریگا۔ بعد میں جب اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو یہ طے کر دیا گیا کہ اس کی مدد کرنا اس کے قبیلے یا اس کے حلیفوں کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اس کے نظام ِ عدالت کا کام ہے ۔ کوئی شخص یا گروہ بطورِ خود قتل کا انتقام لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ یہ منصب اسلامی حکومت کا ہے کہ حصولِ انصاف کےلیے اس سے مدد مانگی جائے۔

38. یہ بھی محض ایک اخلاقی ہدایت نہ تھی بلکہ آگے چل کر جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو یتامیٰ کے حقو ق کی حفاظت کے لیے انتظامی اور قانونی ، دونوں کی طرح کی تدابیر اختیا ر کی گئیں جن کی تفصیل ہم کو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں ملتی ہے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ اسلامی یاست اپنے اُن تمام شہریوں کے مفاد کی محافظ ہے جو اپنے مفاد کی خود حفاظت کرنے کے قابل نہ ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اَنَاوَ لِیُّ مَنْ لَّا وَلِیَّ لَہُ( میں ہر اس شخص کا سرپرست ہوں جس کا کوئی سرپرست نہ ہو)اسی طرف اشارہ کرتا ہے، اور یہ اسلامی قانون کے ایک وسیع باب کی بنیاد ہے۔

39. یہ بھی صرف انفرادی اخلاقیات ہی کی ایک دفعہ نہ تھی بلکہ جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسی کو یوری قوم کی داخلی اور خارجی سیاست کا سنگِ بنیاد ٹھیرا یا گیا۔

40. یہ ہدایت بھی صرف افراد کے باہمی معاملات تک محدود نہ رہی، بلکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد یہ حکومت کے فرائض میں داخل کی گئی کہ وہ منڈیوں اور بازاروں میں اوزان اور پیمانوں کی نگرانی کرے اور تطفیف کر بزور بند کردے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ تجارت اور معاشی لین دین میں ہر قسم کی بے ایمانیوں اور حق تلفیوں کا سد باب کرنا حکومت کے فرائض میں سے ہے۔

41. یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں اس کا انجام اس لیے بہتر ہے کہ اس سے باہمی اعتماد قائم ہوتا ہے، بائع اور خریدار دونوں ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں، اور یہ چیز انجام کار تجارت کے فروغ اور عام خوشحالی کی موجب ثابت ہوتی ہے۔ رہی آخرت ، تو وہاں انجام کی بھلائی کا سارا دارومدار ہی ایمان اور خدا ترسی پر ہے۔

42. اس دفعہ کا منشا یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہم و گمان کے بجائے”علم“کی پیروی کریں۔ اسلامی معاشرے میں اس منشا کی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں ، قانون میں ، سیاست اور انتظام ِ ملکی میں ، علوم و فنون اور نظامِ تعلیم میں، غرض ہر شعبہ حیات میں کی گئی اور اُن بے شمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کر دیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنےسے انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بد گمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگاؤ۔ قانون میں مستقل اصول طے کر دیا گیا کہ محض شہبے پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائےتفتیش جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی نا جا ئز ہے ۔ غیر قوموں کے ساتھ برتاؤ میں یہ پالیسی متعین کر دی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ مجرد شبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں۔ نظام تعلیم میں بھی اُن نام نہاد علوم کو نا پسند کیا گیا جو محض ظن و تخمین اور لا طائل قیاست پر مبنی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں او ہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اُس چیز کو مانیں جو خدا اور رسول کے دیے ہوئے علم کی رو سے ثابت ہو۔

43. مطلب یہ ہے کہ جباروں اور متکبروں کی روش سے بچو ۔ یہ ہدایت بھی انفرادی طرز عمل اور قومی رویے دونوں پر یکساں حاوی ہے ۔ اور یہ اسی ہدایت کا فیض تھا کہ مدینہ طیبہ میں جو حکومت اس منشور پر قائم ہوئی اس کے فرماں رواؤں، گورنروں اور سپہ سالاروں کی زندگی میں جباری اور کبریائی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ حتیٰ کہ عین حالتِ جنگ میں بھی کبھی ان کی زبان سے فخر و غرور کی کوئی بات نہ نکلی ۔ ان کی نشست و بر خاست ، چال ڈھال ، لباس، مکان ، سواری اور عام برتاؤ میں انکسار و تواضع، بلکہ فقیری ودرویشی کی شان پائی جاتی تھی، اور جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی شہر میں داخل ہوتے تھے اس وقت بھی اکڑ اور بتختُر سے کبھی اپنا رعب بٹھانے کی کوشش نہ کرتے تھے۔

44. یعنی ان میں سے جو چیز بھی ممنوع ہے اس کا ارتکاب اللہ کو نا پسند ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں، جس حکم کی بھی نافرمانی کی جائے وہ ناپسندیدہ ہے۔

45. بظاہرتو خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو خطاب کر کے جو بات فرمایا کرتا ہے اس کا اصل مخاطب ہر انسان ہوا کرتا ہے۔

46. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نحل آیات ۵۷ تا ۵۹ مع حواشی۔