Tafheem ul Quran

Surah 17 Al-Isra, Ayat 41-52

وَلَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِىۡ هٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِيَذَّكَّرُوۡا ؕ وَمَا يَزِيۡدُهُمۡ اِلَّا نُفُوۡرًا‏ ﴿17:41﴾ قُلْ لَّوۡ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا يَقُوۡلُوۡنَ اِذًا لَّابۡتَغَوۡا اِلٰى ذِى الۡعَرۡشِ سَبِيۡلًا‏ ﴿17:42﴾ سُبۡحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَقُوۡلُوۡنَ عُلُوًّا كَبِيۡرًا‏ ﴿17:43﴾ تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَالۡاَرۡضُ وَمَنۡ فِيۡهِنَّ​ؕ وَاِنۡ مِّنۡ شَىۡءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمۡدِهٖ وَلٰـكِنۡ لَّا تَفۡقَهُوۡنَ تَسۡبِيۡحَهُمۡ​ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِيۡمًا غَفُوۡرًا‏ ﴿17:44﴾ وَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ جَعَلۡنَا بَيۡنَكَ وَبَيۡنَ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسۡتُوۡرًا ۙ‏ ﴿17:45﴾ وَّجَعَلۡنَا عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ اَكِنَّةً اَنۡ يَّفۡقَهُوۡهُ وَفِىۡۤ اٰذَانِهِمۡ وَقۡرًا​ ؕ وَاِذَا ذَكَرۡتَ رَبَّكَ فِى الۡقُرۡاٰنِ وَحۡدَهٗ وَلَّوۡا عَلٰٓى اَدۡبَارِهِمۡ نُفُوۡرًا‏ ﴿17:46﴾ نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا يَسۡتَمِعُوۡنَ بِهٖۤ اِذۡ يَسۡتَمِعُوۡنَ اِلَيۡكَ وَاِذۡ هُمۡ نَجۡوٰٓى اِذۡ يَقُوۡلُ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا‏  ﴿17:47﴾ اُنْظُرۡ كَيۡفَ ضَرَبُوۡا لَكَ الۡاَمۡثَالَ فَضَلُّوۡا فَلَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ سَبِيۡلًا‏ ﴿17:48﴾ وَقَالُوۡۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ خَلۡقًا جَدِيۡدًا‏ ﴿17:49﴾ قُلۡ كُوۡنُوۡا حِجَارَةً اَوۡ حَدِيۡدًا‏ ﴿17:50﴾ اَوۡ خَلۡقًا مِّمَّا يَكۡبُرُ فِىۡ صُدُوۡرِكُمۡ​ۚ فَسَيَـقُوۡلُوۡنَ مَنۡ يُّعِيۡدُنَا​ ؕ قُلِ الَّذِىۡ فَطَرَكُمۡ اَوَّلَ مَرَّةٍ​ ۚ فَسَيُنۡغِضُوۡنَ اِلَيۡكَ رُءُوۡسَهُمۡ وَيَقُوۡلُوۡنَ مَتٰى هُوَ​ ؕ قُلۡ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنَ قَرِيۡبًا‏ ﴿17:51﴾ يَوۡمَ يَدۡعُوۡكُمۡ فَتَسۡتَجِيۡبُوۡنَ بِحَمۡدِهٖ وَتَظُنُّوۡنَ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا قَلِيۡلًا‏ ﴿17:52﴾

41 - ہم نے اِس قرآن میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا کہ ہوش میں آئیں، مگر وہ حق سے اور زیادہ دُور بھاگے جا رہے ہیں۔ 42 - اے محمدؐ ، ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو وہ مالکِ عرش کے مقام پر پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے۔ 47 43 - پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں۔ 44 - اُس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں۔48 کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو49، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بُردبار اور درگزر کرنے والا ہے۔50 45 - جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں، 46 - اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے، اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں۔51 اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی ربّ کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔52 47 - ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سُنتے ہیں تو دراصل کیا سُنتے ہیں، اور جب بیٹھ کر باہم سرگوشیاں کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں۔ یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جارہے ہو53 48 - ۔۔۔۔ دیکھو، کیسی باتیں ہیں جو یہ لوگ تم پر چھانٹتے ہیں۔ یہ بھٹک گئے ہیں۔ اِنہیں راستہ نہیں ملتا۔54 49 - وہ کہتے ہیں” جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اُٹھائے جائیں گے؟“ 50 - ۔۔۔۔ اِن سے کہو ”تم پتھر یا لوہا بھی ہو جاو، 51 - یا اس سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز جو تمہارے ذہن میں قبولِ حیات سے بعید تر ہو“(پھر بھی تم اُٹھ کر رہو گے)۔ وہ ضرور پوچھیں گے ”کون ہے وہ جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا کر لائے گا؟“ جواب میں کہو ”وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا۔“ وہ سر ہِلا ہِلا کر پوچھیں 55گے ”اچھا، تو یہ ہوگا کب؟“ تم کہو” کیا عجب، وہ وقت قریب ہی آلگا ہو۔ 52 - جس روز وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کے جواب میں نکل آوٴ گے اور تمہارا گمان اُس وقت یہ ہوگا کہ ہم بس تھوڑی دیر ہی اِس حالت میں پڑے رہے ہیں۔“56 ؏ ۵


Notes

47. یعنی وہ خود مالک عرش بننے کی کوشش کرتے۔ اس لیے کہ چند ہستیوں کا خدائی میں شریک ہونا دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا ۔ یا تو وہ سب اپنی اپنی جگہ مستقل خدا ہوں۔ یا ان میں سے ایک اصل خدا ہو، اور باقی اس کے بندے ہوں جنہیں اس نے کچھ خدا ئی اختیارات دے رکھے ہوں۔ پہلی صورت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ یہ سب آزاد خود مختار خدا ہمیشہ، ہر معاملے میں،ایک دوسرے کے ارداے سے موافقت کر کے اس اتھاہ کائنات کے نظم کو اتنی مکمل ہم آہنگی، یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے۔ نا گزیر تھا کہ اُن کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا اور ہر ایک اپنی خدائی دوسرے خداؤں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک بن جائے۔ رہی دوسری صورت، تو بندے کا ظرف خدائی اختیارات تو درکنار خد ائی کے ذرا سے وہم اور شائبے تک کا تحمل نہیں کر سکتا ۔ اگر کہیں کسی مخلوق کی طرف ذرا سی خدا ئی بھی منتقل کر دی جاتی تو وہ پھٹ پڑتا، چند لمحوں کے لیے بھی بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوتا، اور فوراً ہی خدا وند عالم بن جانے کی فکر شروع کردیتا۔

جس کائنات میں گیہوں کا ایک دانہ اور گھاس کا ایک تنکا بھی اُس وقت تک پید ا نہ ہوتا ہو جب تک کہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں مل کر اُس کے لیے کام نہ کریں، اُس کے متعلق صرف ایک انتہا درجے کا جاہل اور کند ذہن آدمی ہی یہ تصور کر سکتا ہے کہ اُس کی فرمانروائی ایک سے زیادہ خود مختار یا نیم مختار خدا کر رہے ہونگے۔ ورنہ جس نے کچھ بھی اس نظام کے مزاج اور طبیعت کو سمجھنے کی کوشش کی ہو وہ تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہاں خدائی بالکل ایک ہی کی ہے اور اس کے ساتھ کسی درجے میں بھی کسی اور کے شریک ہونے کا قطعی امکان نہیں ہے۔

48. یعنی ساری کائنات اورا س کی ہر شے اپنے پورے وجود سے اس حقیقت پر گواہی دے رہی ہے کہ جس نے اس کو پیدا کیا ہے اور جو اس کی پروردگار ی و نگہبانی کر رہا ہے اس کی ذات ہر عیب اور نقص اور کمزوری سے منزہ ہے ، اور وہ اس سے بالکل پاک ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک و سہیم ہو۔

49. حمد کے ساتھ تسبیح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شے نہ صرف یہ کہ اپنے خالق اور رب کا عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہونا ظاہر کر رہی ہے، بلکہ اس کے ساتھ وہ اُس کا تمام کمالات سے متصف اور تمام تعریفوں کا مستحق ہونا بھی بیان کرتی ہے۔ ایک ایک چیز اپنے پورے وجود سے یہ بتا رہی ہے کہ اس کا صانع اور منتظم وہ ہے جس پر سارے کمالات ختم ہوگئے ہیں اور حمد اگر ہے تو بس اسی کے لیے ہے۔

50. :یعنی اس کا علم اور اس کی شان غفاری ہے کہ تم اس کی جناب میں گستاخیوں پر گستاخیاں کیے جاتے ہو، اور اُس پر طرح طرح کے بہتان تراشتے ہو اور پھر بھی وہ درگزر کیے چلا جاتا ہے۔ نہ رزق بند کرتا ہے، نہ اپنی نعمتوں سے محروم کرتا ہے، اور نہ ہر گستاخ پر فوراً بجلی گرا دیتا ہے۔ پھر یہ بھی اس کی برد باری اور اس کے درگزر ہی کا ایک کرشمہ ہے کہ وہ افراد کو بھی اور قوموں کو بھی سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے، انبیاء اور مصلحین اور مبلغین کو اُن کی فہمائش اور رہنمائی کے لیے بار بار اٹھا تا رہتا ہے ، اور جو بھی اپنی غلطی کو محسوس کرکے سیدھا راستہ اختیار کر لے اس کی پچھلی غلطیوں کو معاف کر دیتا ہے۔

51. یعنی آخرت پر ایمان نہ لانے کا یہ قدرتی نتیجہ ہے کہ آدمی کے دل پر قفل چڑھ جائیں اور اس کے کان اُس دعوت کے لیے بند ہو جائیں جو قرآن پیش کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی تو دعوت ہی اس بنیاد پر ہے کہ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ یہاںاگر کوئی حساب لینے والا جواب طلب کرنے والا نظر نہیں آتا تو یہ نہ سمجھو کہ تم کسی کے سامنے ذمہ دار اورجواب دہ ہو ہی نہیں۔ یہاں اگر شرک ،دہریت، کفر، توحید، سب ہی نظریے آزادی سے اختیار کیے جاسکتے ہیں، اور دنیوی لحاظ سے کوئی خاص فرق پڑتا نظر نہیں آتا، تو یہ نہ سمجھو کہ ان کے کوئی الگ الگ مستقل نتائج ہیں ہی نہیں۔ یہاں اگر فسق و فجور اور اطاعت وتقویٰ، ہر قسم کے رویے اختیار کیے جا سکتے ہیں اور عملاً ان میں سے کسی رویے کا کوئی ایک لازمی نتیجہ رونما نہیں ہوتا تو یہ نہ سمجھو کہ کوئی اٹل اخلاقی قانون سرے سے ہے ہی نہیں۔ دراصل حساب طلبی و جواب دہی سب کچھ ہے، مگر وہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ہوگی۔ توحید کا نظریہ برحق اور باقی سب نظریات باطل ہیں، مگر ان کے اصلی اور قطعی نتائج حیات بعد الموت میں ظاہر ہوں گے اور وہیں وہ حقیقت بے نقاب ہوگی جو اس پر دہ ظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ ایک اٹل اخلاقی قانون ضرور ہے جس کے لحاظ سے فسق نقصان رساں اور طاعت فائدہ بخش ہے ، مگر اس قانون کے مطابق آخری اور قطعی فیصلے بھی بعد کی زندگی ہی میں ہوں گے۔ لہٰذا تم دنیا کی اس عارضی زندگی پر فریفتہ نہ ہو اور اس کے مشکوک نتائج پر اعتماد نہ کرو، بلکہ اُس جواب دہی پر نگاہ رکھو جو تمہیں آخر کار اپنے خدا کے سامنے کرنی ہوگی، اور وہ صحیح اعتقادی اور اخلاقی رویہ اختیار کرو جو تمہیں آخرت کے امتحان میں کامیاب کرے۔۔۔۔۔۔ یہ ہے قرآن کی دعوت۔ اب یہ بالکل ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جو شخص سرے سے آخرت ہی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور جس کا سارا اعتماد اسی دنیا کے مظاہر اور محسوسات و تجربات پر ہے ، وہ کبھی قرآن کی اس دعوت کو ناقابل ِ التفات نہیں سمجھ سکتا ۔ اُس کے پردہ گوش سے تو یہ آواز ٹکرا ٹکرا کر ہمیشہ اچٹتی ہی رہے گی، کبھی دل تک پہنچنے کی راہ نہ پائے گی۔ اسی نفسیاتی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ جو آخرت کو نہیں مانتا ، ہم اس کے دل اور اس کے کان قرآن کی دعوت کے لیے بند کر دیتے ہیں۔یعنی یہ ہمارا قانونِ فطرت ہے جو اُس پر یوں نافذ ہوتا ہے۔

یہ بھی خیال رہے کہ کفار مکہ کا اپنا قول تھا جسے اللہ تعالیٰ نے ان پر اُلٹ دیا ہے۔ سورہ حٰم سجدہ میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وَقَالُوْ ا قُلُوْبُنَا فِیْ اَکِنَّةٍ مِّمَّا تَدْ عُوْنَا اِلَیْہِ وَفِی ْاٰذَانِنَا وَقْرٌوَّ مِنْۢ بَینِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ(آیت ۵)یعنی وہ کہتے ہیں کہ ”اے محمد، تو جس چیز کی طرف ہمیں دعوت دیتا ہے اس کے لیے ہمارے دل بند ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان حجاب حائل ہو گیا ہے۔ پس تو اپنا کام کر، ہم اپنا کام کیے جا رہےہیں“۔ یہاں ان کے اس قول کو دہرا کر اللہ تعالیٰ یہ بتا رہا ہے کہ یہ کیفییت جسے تم اپنی خوبی سمجھ کر بیان کر رہے ہو، تو دراصل ایک پھٹکار ہے جو تمہارے انکار آخرت کی بدولت ٹھیک قانونِ فطرت کے مطابق تم پر پڑی ہے۔

52. یعنی انہیں یہ بات سخت نا گوار ہوتی ہے کہ تم بس اللہ ہی کو رب قرار دیتے ہو، ان کے بنائے ہوئے دوسرے ارباب کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ اُن کو یہ وہابّیت ایک آن پسند نہیں آتی کہ آدمی بس اللہ ہی اللہ کی رٹ لگائے چلا جائے۔ نہ بزرگوں کے تصرفات کا کوئی ذکر۔ نہ آستانوں کی فیض رسانی کا کوئی اعتراف۔ نہ اُن شخصیتوں کی خدمت میں کوئی خراج تحسین جن پر، ان کے خیال میں، اللہ نے اپنی خدائی کے اختیارات بانٹ رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عجیب شخص ہے جس کے نزدیک علم غیب ہے تو اللہ کو، قدرت ہے تو اللہ کی ، تصرفات و اختیارات ہیں تو بس ایک اللہ ہی کے۔ آخر یہ ہمارے آستانوں والے بھی کوئی چیز ہیں یا نہیں جن کے ہاں سے ہمیں اولاد ملتی ہے، بیماریوں کو شفا نصیب ہوتی ہے، کاروبار چمکتے ہیں، اور منہ مانگی مرادیں بر آتی ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الزمر، آیت ۴۵، حاشیہ ۴٦)

53. یہ اشارہ ہےاُن باتوں کی طرف جو کفار ِ مکہ کے سردار آپس میں کیا کرتے تھے۔اُن کا حال یہ تھا کہ چُھپ چھپ کر قرآن سنتے اور پھر آپس میں مشورے کرتے تھے کہ اس کا توڑ کیا ہونا چاہییے۔ بسا اوقات انہیں اپنے ہی آدمیوں میں سے کسی پر یہ شبہہ بھی ہو جاتا تھا کہ شاید یہ شخص قرآن سن کر کچھ متاثر ہو گیا ہے۔ اس لیے وہ سب مل کر اس کو سمجھاتے تھے کہ اجی، یہ کس کے پھیر میں آرہے ہو، یہ شخص تو سحر زدہ ہے ، یعنی کسی دشمن نے اس پر جادو کر دیا ہے اس لیے بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔

54. یعنی یہ تمہارے متعلق کوئی ایک رائے ظاہر نہیں کرتے بلکہ مختلف اوقات میں بالکل مختلف اور متضاد باتیں کہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں تم خود جادو گر ہو۔ کبھی کہتے ہیں تم پر کسی اور نے جادو کر دیا ہے۔ کبھی کہتے ہیں تم شاعر ہو۔ کبھی کہتے ہیں تم مجنون ہو۔ ان کی یہ متضاد باتیں خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ حقیقت ان کو معلوم نہیں ہے ، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ آئے دن ایک نئی بات چھانٹنے کے بجائے کوئی ایک ہی قطعی رائے ظاہر کرتے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے کسی قول پر بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ایک الزام رکھتے ہیں۔ پھر آپ ہی محسوس کرتے ہیں کہ یہ چسپاں نہیں ہوتا ۔ اس کے بعد دوسرا الزام لگاتے ہیں ۔ اور اسے بھی لگتا ہوانہ پا کر ایک تیسرا الزام تصنیف کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کا ہر نیا الزام ان کے پہلے الزام کی تردید کر دیتا ہے، اور اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ صداقت سے ان کو کوئی واسطہ نہیں ہے، محض عداوت کی بنا پر ایک سے ایک بڑھ کر جھوٹ گھڑ ے جا رہے ہیں۔

55. انغاض کے معنی ہیں سر کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف ہلانا، جس طرح اظہار تعجب کے لیے، یا مذاق اڑانے کے لیے آدمی کرتا ہے۔

56. یعنی دنیا میں مرنے کے وقت سے لے کر قیامت میں اُٹھنے کے وقت تک کی مدت تم کو چند گھنٹوں سے زیادہ محسوس نہ ہو گی۔ تم اس وقت یہ سمجھو گے کہ ہم ذرا دیر سوئے پڑے تھے کہ یکایک اس شور محشر نے ہمیں جگا اُٹھایا۔

اور یہ جو فرمایا کہ تم اللہ کی حمد کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہو گے، تو یہ ایک بڑی حقیقت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن اور کافر، ہر ایک کی زبان پر اس وقت اللہ کی حمد ہو گی۔ مومن کی زبان پر اس لیے کہ پہلی زندگی میں اس کا اعتقاد یقین اور اس کا وظیفہ یہی تھا۔ اور کافر کی زبان پر اس لیے کہ اس کی فطرت میں یہی چیز ودیعت تھی، مگر اپنی حماقت سے وہ اس پر پردہ ڈالے ہوئے تھا۔ اب نئے سرے سے زندگی پاتے وقت سارے مصنوعی حجابات ہٹ جائیں گے اور اصل فطرت کی شہادت بلا ارادہ اس کی زبان پر جاری ہو جائے گی۔