Tafheem ul Quran

Surah 17 Al-Isra, Ayat 53-60

وَقُلْ لِّعِبَادِىۡ يَقُوۡلُوا الَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ​ؕ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ يَنۡزَغُ بَيۡنَهُمۡ​ؕ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ كَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِيۡنًا‏  ﴿17:53﴾ رَبُّكُمۡ اَعۡلَمُ بِكُمۡ​ؕ اِنۡ يَّشَاۡ يَرۡحَمۡكُمۡ اَوۡ اِنۡ يَّشَاۡ يُعَذِّبۡكُمۡ ​ؕ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ عَلَيۡهِمۡ وَكِيۡلًا‏ ﴿17:54﴾ وَرَبُّكَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ وَلَقَدۡ فَضَّلۡنَا بَعۡضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰى بَعۡضٍ​ وَّاٰتَيۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا‏ ﴿17:55﴾ قُلِ ادۡعُوا الَّذِيۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ فَلَا يَمۡلِكُوۡنَ كَشۡفَ الضُّرِّ عَنۡكُمۡ وَلَا تَحۡوِيۡلًا‏ ﴿17:56﴾ اُولٰۤـئِكَ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ يَبۡتَغُوۡنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الۡوَسِيۡلَةَ اَيُّهُمۡ اَقۡرَبُ وَيَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَهٗ وَيَخَافُوۡنَ عَذَابَهٗؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحۡذُوۡرًا‏ ﴿17:57﴾ وَاِنۡ مِّنۡ قَرۡيَةٍ اِلَّا نَحۡنُ مُهۡلِكُوۡهَا قَبۡلَ يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ اَوۡ مُعَذِّبُوۡهَا عَذَابًا شَدِيۡدًا​ ؕ كَانَ ذٰ لِكَ فِى الۡـكِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا‏  ﴿17:58﴾ وَمَا مَنَعَنَاۤ اَنۡ نُّرۡسِلَ بِالۡاٰيٰتِ اِلَّاۤ اَنۡ كَذَّبَ بِهَا الۡاَوَّلُوۡنَ​ؕ وَاٰتَيۡنَا ثَمُوۡدَ النَّاقَةَ مُبۡصِرَةً فَظَلَمُوۡا بِهَا​ؕ وَمَا نُرۡسِلُ بِالۡاٰيٰتِ اِلَّا تَخۡوِيۡفًا‏ ﴿17:59﴾ وَاِذۡ قُلۡنَا لَـكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ​ ؕ وَمَا جَعَلۡنَا الرُّءۡيَا الَّتِىۡۤ اَرَيۡنٰكَ اِلَّا فِتۡنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الۡمَلۡعُوۡنَةَ فِى الۡقُرۡاٰنِ​ ؕ وَنُخَوِّفُهُمۡۙ فَمَا يَزِيۡدُهُمۡ اِلَّا طُغۡيَانًا كَبِيۡرًا‏  ﴿17:60﴾

53 - اور اے محمدؐ ، میرے بندوں57 سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو۔58 دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کُھلا دشمن ہے۔59 54 - تمہارا ربّ تمہارے حال سے زیادہ واقف ہے، وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور چاہے تو تمہیں عذاب دے دے۔60 اور اے نبیؐ، ہم نے تم کو لوگوں پر حوالہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے۔61 55 - تیرا ربّ زمین اور آسمانوں کی مخلوقات کو زیادہ جانتا ہے۔ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیے62، اور ہم نے ہی داوٴدؑ کو زَبور دی تھی۔63 56 - اِن سے کہو، پکار دیکھو اُن معبودوں کو جن کو تم خدا کے سوا ( اپنا کارساز)سمجھتے ہو، وہ کسی تکلیف کو تم سے نہ ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں۔64 57 - جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے ربّ کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون اُس سے قریب تر ہو جائے اور وہ اُس کی رحمت کے اُمیدوار اور اُس کے عذاب سے خائف ہیں۔65 حقیقت یہ ہے کہ تیرے ربّ کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔ 58 - اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں یا سخت عذاب نہ دیں۔66 یہ نوشتہء الٰہی میں لکھا ہوا ہے۔ 59 - اور ہم کو نشانیاں67 بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ اِن سے پہلے کے لوگ اُن کو جُھٹلا چکے ہیں۔ (چنانچہ دیکھ لو)ثمود کو ہم علانیہ اُونٹنی لا کر دی اور اُنہوں نے اُس پر ظلم کیا۔ 68ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں۔69 60 - یاد کرو اے محمد ؐ ، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے ربّ نے اِن لوگوں کو گھیر رکھا ہے۔70 اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے71، اِس کو اور اُس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے،72 ہم نے اِن لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا۔73 ہم اِنہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں، مگر ہر تنبیہ اِن کی سرکشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے۔ ؏ ۶


Notes

57. یعنی اہل ایمان سے۔

58. یعنی کفار و مشرکین سے اور اپنے دین کے مخالفین سے گفتگو اور مباحثے میں تیز کلامی اور مبالغے اور غلو سے کام نہ لیں۔ مخالفین خواہ کیسی ہی ناگوار باتیں کریں مسلمانوں کو بہر حال نہ تو کوئی بات خلاف ِ حق زبان سے نکالنی چاہیے، اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو کر بیہودگی کا جواب بیہودگی سے دینا چاہیے۔ انہیں ٹھنڈے دل سے وہی بات کہنی چاہیے جو جچی تلی ہو، برحق ہو، اور ان کی دعوت کے وقار کے مطابق ہو۔

59. یعنی جب کبھی تمہیں مخالفین کی بات کا جواب دیتے وقت غصے کی آگ اپنے اندر بھڑکتی محسوس ہو، اور طبیعت بے اختیار جوش میں آتی نظر آئے، تو فوراً سمجھ لو کہ یہ شیطان ہے جو تمہیں اکسا رہا ہے تا کہ دعوت دین کا کام خراب ہو۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ تم بھی اپنے مخالفین کی طرح اصلاح کا کام چھوڑ کر اسی جھگڑے اور فساد میں لگ جاؤ جس میں وہ نوع انسانی کو مشغول رکھنا چاہتا ہے۔

60. یعنی اہل ایمان کی زبان پر کبھی ایسے دعوے نہ آنے چاہییں کہ ہم جنتی اور فلاں شخص یا گروہ دوزخی ہے۔ اس چیز کا فیصلہ اللہ کےاختیار میں ہے۔ وہی سب انسانوں کے ظاہر و باطن اور ان کے حال و مستقبل سے واقف ہے ۔ اسی کو یہ فیصلہ کر نا ہے کہ کس پر رحمت فرمائے اور کسے عذاب دے۔ انسان اصولی حیثیت سے تو یہ کہنے کا ضرور مجاز ہے کہ کتاب اللہ کی رو سے کس قسم کے انسان رحمت کے مستحق ہیں اور کس قسم کے انسان عذاب کے مستحق۔ مگر کسی انسان کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ فلاں شخص کو عذاب دیا جائے گا او ر فلاں شخص بخشا جائے گا۔

غالبًا یہ نصیحت اس بنا پر فرمائی گئی ہے کہ کبھی کبھی کفار کی زیادتیوں سے تنگ آکر مسلمانوں کی زبان سے ایسے فقرے نکل جاتے ہوں گے کہ تم لوگ دوزخ میں جاؤ گے ، یا تم کو خدا عذاب دے گا۔

61. یعنی نبی کا کام دعوت دینا ہے۔ لوگوں کی قسمتیں اس کے ہاتھ میں نہیں دے دی گئی ہیں کہ وہ کسی کے حق میں رحمت کا اور کسی کے حق میں عذاب کا فیصلہ کرتا پھرے۔ ا س کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی کوئی غلطی سر زد ہوئی تھی جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ تنبیہ فرمائی۔ بلکہ دراصل اس سے مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے۔ ان کو بتا یا جا رہا ہے کہ جب نبی تک کا یہ منصب نہیں ہے تو تم جنت اور دوزخ کے ٹھیکیدار کہاں بنے جا رہے ہو۔

62. اس فقرے کہ اصل مخاطب کفار مکہ ہیں، اگر چہ بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ۔ جیسا کہ معاصرین کا بالعموم قاعدہ ہوتاہے، آنحضرت ؐ کے ہم عصر اور ہم قوم لوگوں کو آپ کے اندر کوئی فضل و شرف نظر نہ آتا تھا۔ وہ آپ کو اپنی بستی کا ایک معمولی انسان سمجھتے تھے، اور جن مشہور شخصیتوں کو گزرے ہوئے چند صدیاں گزر چکی تھیں، ان کے متعلق یہ گمان کرتے تھے کہ عظمت تو بس اُن پر ختم ہو گئی ہے ۔ اس لیے آپ کی زبان سے نبوت کا دعوٰی سُن کر وہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ شخص دوں کی لیتا ہے، اپنے آپ کو نہ معلوم کیا سمجھ بیٹھا ہے ، بھلا کہاں یہ اور کہاں اگلے وقتوں کے وہ بڑے بڑے پیغمبر جن کی بزرگی کا سکہ ایک دنیا مان رہی ہے ۔ اس کا مختصر جواب اللہ تعالی ٰ نے یہ دیا ہے کہ زمین اور آسمان کی ساری مخلوق ہماری نگاہ میں ہے ۔ تم نہیں جانتے کہ کون کیا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے ۔ اپنے فضل کے ہم خود مالک ہیں اور پہلے بھی ایک سے ایک بڑھ کر عالی مرتبہ نبی پیدا کر چکے ہیں۔

63. یہاں خاص طور پر داؤد علیہ السلام کو زبور دیے جانے کا ذکر غالباً اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ داؤد علیہ السلام بادشاہ تھے، اور بادشاہ بالعموم خدا سے زیادہ دور ہوا کرتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین جس وجہ سے آپ کی پیغمبری وخدا رسیدگی ماننے سے انکار کرتے تھے وہ ان کے اپنے بیان کے مطابق یہ تھی کہ آپ عام انسانوں کی طرح بیوی بچے رکھتے تھے، کھاتے پیتے تھے، بازاروں میں چل پھر کر خریدوفروخت کرتے تھے، اور وہ سارے ہی کام کرتے تھے جو کوئی دنیا دار آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے کیا کرتے ہیں۔ کفار مکہ کا کہنا یہ تھا کہ تم تو ایک دنیا دار آدمی ہو۔ تمہیں خدا رسیدگی سے کیا تعلقِ پہنچے ہوئے لوگ تو وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنےتن بدن کا ہوش بھی نہیں ہوتا، بس ایک گوشے میں بیٹھے اللہ کی یاد میں غرق رہتے ہیں۔ وہ کہاں اور گھر کےآٹے دال کی فکر کہاں! اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ ایک پوری بادشاہت کے انتظام سے بڑھ کر دنیا داری اور کیا ہوگی۔ مگر اس کے با وجود داؤد کو نبوت اور کتاب سے سرفراز کیا گیا۔

64. اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا ہی شرک نہیں ہے ، بلکہ خدا کے سوا کسی دوسری ہستی سے دعا مانگنا، یا اس کو مدد کے لیے پکارنا بھی شرک ہے۔ دعا اور استمدادو استعانت ، اپنی حقیقت کے اعتبار سے عبادت ہی ہیں اور غیر اللہ سے مناجات کرنے والا ویسا ہی مجرم ہے جیسا ایک بت پرست مجرم ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کچھ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔نہ کوئی دوسرا کسی مصیبت کو ٹال سکتا ہے نہ کسی بُری حالت کو اچھی حالت سے بدل سکتا ہے ۔ اس طرح کا اعتقاد خدا کے سوا جس ہستی کے بارے میں بھی رکھا جائے، بہر حال ایک مشرکانہ اعتقاد ہے۔

65. یہ الفاظ خود گواہی دے رہے ہیں کہ مشرکین کے جن معبودوں اور فریاد رسوں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ان سے مراد پتھر کے بت نہیں ہیں، بلکہ یا تو فرشتے ہیں یا گزرے ہوئے زمانے کے بر گزیدہ انسان ۔ مطلب صاف صاف یہ ہے کہ انبیاء ہوں یا اولیاء یا فرشتے، کسی کی بھی یہ طاقت نہیں ہےکہ تمہاری دعائیں سنے اور تمہاری مدد کو پہنچے ۔ تم حاجت روائی کے لیے اُن کو وسیلہ بنا رہے ہو، اور اُن کا حال یہ ہے کہ وہ خود اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں ، اور اس کا زیادہ سے زیادہ تقرب حاصل کرنے کے وسائل ڈھونڈ رہے ہیں۔

66. یعنی بقائے دوام کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ ہر بستی کو یا تو طبعی موت مرنا ہے، یا خدا کے عذاب سے ہلاک ہونا ہے۔ تم کہاں اس غلط فہمی میں پڑ گئے کہ ہماری یہ بستیاں ہمیشہ کھڑی رہیں گی؟

67. یعنی محسوس معجزات جو دلیل نبوت کی حیثیت سے پیش کیے جائیں ، جن کا مطالبہ کفار قریش بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے۔

68. مدعا یہ ہے کہ ایسا معجزہ دیکھ لینے کے بعد جب لوگ اُس کی تکذیب کرتے ہیں،تو پھر لا محالہ ان پر نزول ِ عذاب واجب ہوجا تا ہے، اور پھر ایسی قوم کو تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا ۔ پچھلی تا ریخ اس بات کی شاید ہے کہ متعدد قوموں نے صریح معجزے دیکھ لینے کے بعد بھی اُن کو جھٹلایا اور پھر تباہ کر دی گئیں۔ اب یہ سراسر اللہ کی رحمت ہے کہ وہ ایسا کوئی معجزہ نہیں بھیج رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمہیں سمجھنے اور سنبھلنے کے یے مہلت دے رہا ہے۔ مگر تم ایسے بیوقوف لوگ ہو کہ معجزے کا مطالبہ کر کر کے ثمود کے سے انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو۔

69. یعنی معجزے دکھانے سے مقصود تماشا دکھانا تو کبھی نہیں رہا ہے ۔ اس سے مقصود تو ہمیشہ یہی رہا ہے کہ لوگ انہیں دیکھ کر خبر دار ہو جائیں، انہیں معلوم ہو جائے کہ نبی کی پشت پر قادرِ مطلق کی بے پناہ طاقت ہے ، اور وہ جان لیں کہ اس کی نا فرمانی کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔

70. یعنی تمہاری دعوت پیغمبرانہ کے ابتدائی دور میں ہی، جبکہ قریش کے ان کافروں نے تمہاری مخالفت و مزاحمت شروع کی تھی، ہم نے صاف صاف یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے، یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیں، یہ کسی طرح تیری دعوت کا راستہ نہ روک سکیں گے، اور یہ کام جو تو نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے، ان کی ہر مزاحمت کے باوجود ہو کر رہے گا۔ اب اگر ان لوگوں کو معجزہ دیکھ کر ہی خبر دار ہونا ہے ، تو انہیں یہ معجزہ دکھایا جا چکا ہے کہ جو کچھ ابتدا میں کہہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہا، ان کی کوئی مخالفت بھی دعوتِ اسلامی کو پھیلنے سے نہ روک سکی، اور یہ تیرا بال تک بیکا نہ کر سکے۔ ان کے پاس آنکھیں ہوں تو یہ اس امر واقعہ کو دیکھ کر خود سمجھ سکتے ہیں کہ نبی کی اس دعوت کے پیچھے اللہ کا ہاتھ کام کر رہا ہے۔

یہ بات کہ اللہ نے مخالفین کو گھیرے میں لے رکھا ہے ، اور نبی کی دعوت اللہ کی حفاظت میں ہے، مکے کے ابتدائی دور کی سورتوں میں متعدد جگہ ارشاد ہوئی ہے۔ مثلاً سورہ بروج میں فرمایا: بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا فِیْ تَکْذِیْبٍ وَّاللہُ مِنْ وَّرَآ ءِھِمْ مُّحِیطٌ(مگر یہ کافرجھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں، اور اللہ نے ان کو ہر طرف سے گھیرے میں لے رکھا ہے)۔

71. اشارہ ہے معراج کی طرف۔ اس کے لیے یہاں لفظ”رؤیا“ جو استعمال ہوا ہے یہ ”خواب“ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ آنکھوں دیکھنے کے معنی میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ محض خواب ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خواب ہی کی حیثیت سے کفار کے سامنے بیا ن کیا ہوتا توکوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان کے لیے فتنہ بن جاتا۔ خواب ایک سے ایک عجیب دیکھا جاتا ہے ، اور لوگوں سے بیان بھی کیا جاتا ہے، مگر وہ کسی کے لیے بھی ایسے اچنھبے کی چیز نہیں ہوتا کہ لوگ اس کی وجہ سے خواب دیکھنے والے کا مذاق اڑائیں اور اس پر جھوٹے دعوے یا جنون کا الزام لگانے لگیں۔

72. یعنی زقوم، جس کے متعلق قرآن میں خبر دی گئی ہے کہ وہ دوزخ کی تہ میں پیدا ہوگا اور دوزخیوں کو اسے کھانا پڑے گا اس پر لعنت کرنے سے مراد اُس کا اللہ کی رحمت سے دور ہونا ہے۔ یعنی وہ اللہ کی رحمت کا نشان نہیں ہے کہ اسے اپنی مہربانی کی وجہ سے اللہ نے لوگوں کی غذا کے لیے پیدا فرمایاہو، بلکہ وہ اللہ کی لعنت کا نشان ہے جسے ملعون لوگوں کے لیے اس نے پیدا کیا ہے تا کہ وہ بھوک سے تڑپ کر اس پر منہ ماریں اور مزید تکلیف اُٹھائیں۔ سورہ دُخان(آیات ۴۳۔ ۴٦)میں اس درخت کی جو تشریح کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ دوذخی جب اس کو کھائیں گے تو وہ ان کے پیٹ میں ایسی آگ لگائے گا جیسے ان کے پیٹ میں پانی کھول رہا ہو۔

73. یعنی ہم نے ان کی بھلائی کے لیے تم کو معراج کے مشاہدات کرائے، تاکہ تم جیسے صادق و امین انسان کے ذریعہ سے ان لوگوں کوحقیقت نفس الامری کا علم حاصل ہو اور یہ متنبہ ہو کر راہ راست پر آجائیں ، مگر ان لوگوں نے اُلٹا اُس پر تمہارا مذاق اڑایا ہم نے تمہارے ذریعہ سے ان کو خبر دار کیا کہ یہاں کی حرام خوریاں آخر کار تمہیں زقوم کے نوالے کھلواکر رہیں گی، مگر انہوں نے اُس پر ایک ٹھٹھا لگا یا اور کہنے لگے،ذرا ا س شخص کو دیکھو، ایک طرف کہتاہے کہ دوزخ میں بلا کی آگ بھڑک رہی ہوگی، اور دوسری طرف خبر دیتا ہے کہ وہاں درخت اُگیں گے!