Tafheem ul Quran

Surah 17 Al-Isra, Ayat 61-70

وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰۤـئِكَةِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَ قَالَ ءَاَسۡجُدُ لِمَنۡ خَلَقۡتَ طِيۡنًا​ ۚ‏ ﴿17:61﴾ قَالَ اَرَءَيۡتَكَ هٰذَا الَّذِىۡ كَرَّمۡتَ عَلَىَّ لَـئِنۡ اَخَّرۡتَنِ اِلٰى يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ لَاَحۡتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهٗۤ اِلَّا قَلِيۡلًا‏ ﴿17:62﴾ قَالَ اذۡهَبۡ فَمَنۡ تَبِعَكَ مِنۡهُمۡ فَاِنَّ جَهَـنَّمَ جَزَآؤُكُمۡ جَزَآءً مَّوۡفُوۡرًا‏ ﴿17:63﴾ وَاسۡتَفۡزِزۡ مَنِ اسۡتَطَعۡتَ مِنۡهُمۡ بِصَوۡتِكَ وَاَجۡلِبۡ عَلَيۡهِمۡ بِخَيۡلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكۡهُمۡ فِى الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَوۡلَادِ وَعِدۡهُمۡ​ ؕ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا‏ ﴿17:64﴾ اِنَّ عِبَادِىۡ لَـيۡسَ لَـكَ عَلَيۡهِمۡ سُلۡطٰنٌ​ ؕ وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيۡلًا‏  ﴿17:65﴾ رَبُّكُمُ الَّذِىۡ يُزۡجِىۡ لَـكُمُ الۡفُلۡكَ فِى الۡبَحۡرِ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمۡ رَحِيۡمًا‏ ﴿17:66﴾ وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِى الۡبَحۡرِ ضَلَّ مَنۡ تَدۡعُوۡنَ اِلَّاۤ اِيَّاهُ​ ۚ فَلَمَّا نَجّٰٮكُمۡ اِلَى الۡبَرِّ اَعۡرَضۡتُمۡ​ ؕ وَكَانَ الۡاِنۡسَانُ كَفُوۡرًا‏  ﴿17:67﴾ اَفَاَمِنۡتُمۡ اَنۡ يَّخۡسِفَ بِكُمۡ جَانِبَ الۡبَرِّ اَوۡ يُرۡسِلَ عَلَيۡكُمۡ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوۡالَـكُمۡ وَكِيۡلًا ۙ‏ ﴿17:68﴾ اَمۡ اَمِنۡتُمۡ اَنۡ يُّعِيۡدَكُمۡ فِيۡهِ تَارَةً اُخۡرٰى فَيُرۡسِلَ عَلَيۡكُمۡ قَاصِفًا مِّنَ الرِّيۡحِ فَيُغۡرِقَكُمۡ بِمَا كَفَرۡتُمۡ​ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوۡا لَـكُمۡ عَلَيۡنَا بِهٖ تَبِيۡعًا‏ ﴿17:69﴾ وَلَـقَدۡ كَرَّمۡنَا بَنِىۡۤ اٰدَمَ وَحَمَلۡنٰهُمۡ فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ وَرَزَقۡنٰهُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلۡنٰهُمۡ عَلٰى كَثِيۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِيۡلًا‏ ﴿17:70﴾

61 - اور یاد کرو جبکہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا۔ 74اس نے کہا” کیا میں اُس کو سجدہ کروں جسے تُو نے مٹی سے بنایا ہے؟“ 62 - پھر وہ بولا ”دیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ تُو نے اِسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تُو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پُوری نسل کی بیخ کَنی کر ڈالوں،75 بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔“ 63 - اللہ تعالیٰ نے فرمایا،” اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں، تجھ سمیت اُں سب کے لیے جہنّم ہی بھرپور جزا ہے۔ 64 - تُو جس جس کو اپنی دعوت سے پھِسلا سکتا ہے پِھسلا لے76، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا،77 مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا،78 اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس79 ۔۔۔۔ اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں 65 - ۔۔۔۔ یقیناً میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا،80 اور توکّل کے لیے تیرا ربّ کافی ہے۔“81 66 - تمہارا (حقیقی)ربّ تو وہ ہے جو سمندر میں تمہاری کشتی چلاتا ہے82 تا کہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔83 حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارے حال پر نہایت مہربان ہے ۔ 67 - جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اُس ایک کے سوا دُوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گُم ہوجاتے ہیں84، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اُس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔ 68 - اچھا، تو کیا تم اِس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے، یا تم پر پتھراوٴ کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پاوٴ؟ 69 - اور کیا تمہیں اِس کا کوئی اندیشہ نہیں کہ خدا پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے اور تمہاری ناشکری کے بدلے تم پر سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمہیں غرق کر دے اور تم کو ایسا کوئی نہ ملے جو اُس سے تمہارے اِس انجام کی پُوچھ گچھ کر سکے؟ 70 - ۔۔۔۔ یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیااور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔85 ؏ ۷


Notes

74. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ آیات ۳۰ تا ۳۹، النساء آیات ١١۷۔ ١۲١، الاعراف آیات ١١۔۲۵، الحجر آیات ۲٦۔۴۲، اور ابراہیم آیت ۲۲۔

اس سلسلہ کلام میں یہ قصہ دراصل یہ بات ذہن نشین کرنے کے لیے بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے مقابلے میں ان کافروں کا یہ تمرُّد، اور تنبیہات سے ان کی یہ بے اعتنائی، اور کجروی پر ان کا یہ اصرار ٹھیک ٹھیک اُس شیطان کی پیروی ہے جو ازل سے انسان کا دشمن ہے ، اور اس روش کو اختیار کر کے درحقیقت یہ لوگ اُس جال میں پھنس رہے ہیں جس میں اولادِ آدم کو پھانس کر تباہ کر دینے کے لیے شیطان نے آغازِ تاریخ انسانی میں چلینج کیا تھا۔

75. ”بیخ کنی کر ڈالوں“، یعنی ان کے قدم سلامتی کی راہ سے اکھاڑ پھینکوں۔”احتناک“کے اصل معنی کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے ہیں۔ چونکہ انسان کا اصل مقام خلافتِ الہٰی ہے جس کا تقاضا اطاعت میں ثابت قدم رہنا ہے، اس لیے اس مقام سے اُس کا ہٹ جانا بالکل ایسا ہے جیسے کسی درخت کا بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکا جانا۔

76. اصل میں لفظ” استفزاز“ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی استخفاف کے ہیں۔ یعنی کسی کو ہلکا اور کمزور پا کر اسے بہالے جانا، یا اس کے قدم پھسلا دینا۔

77. اس فقرے میں شیطان کو اس ڈاکو سے تشبیہ دی گئی ہے جو کسی بستی پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لائے اور ان کو اشارہ کرتا جائے کہ ادھر لُوٹو، اُدھر چھاپہ مارو، اور وہاں غارتگری کرو۔ شیطان کے سواروں اور پیادوں سے مراد وہ سب جن اور انسان ہیں جو بے شمار مختلف شکلوں اور حیثیتوں میں ابلیس کے مشن کی خدمت کر رہے ہیں۔

78. یہ ایک بڑا ہی معنی خیز فقرہ ہے جس میں شیطان اور اس کے پیرووں کے باہمی تعلق کی پوری تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ جو شخص مال کمانے اور اس کو خرچ کرنے میں شیطان کے اشاروں پر چلتا ہے، اس کے ساتھ گویا شیطان مفت کا شریک بنا ہواہے ۔ محنت میں اس کا کوئی حصہ نہیں، جرم اور گناہ اور غلط کار ی کے بُرے نتائج میں وہ حصہ دار نہیں، مگراس کے اشاروں پر یہ بیوقوف اس طرح چل رہا ہے جیسے اس کے کاروبار میں وہ برابر کا شریک، بلکہ شریک غالب ہے ۔ اسی طرح اولاد تو آدمی کی اپنی ہوتی ہے ، اور اُسے پالنے پوسنے میں سارے پاپڑ آدمی خود بیلتا ہے، مگر شیطان کے اشاروں پر و ہ اس اولاد کو گمراہی اور بداخلاقی کی تربیت اس طرح دیتا ہے، گویا اس اولاد کا تنہا وہی باپ نہیں ہے بلکہ شیطان بھی باپ ہونے میں اس کا شریک ہے۔

79. یعنی ان کو غلط امیدیں دلا۔ ان کو جھوٹی توقعات کےچکر میں ڈال ۔ اُن کو سبز باغ دکھا۔

80. اس کے دو مطلب ہیں، اور دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ میرے بندوں ، یعنی انسانوں پر تجھے یہ اقتدار حاصل نہ ہوگا کہ تو انہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے۔ تو فقط بہکانے اور پُھسلانے اور غلط مشورے دینے اور جھوٹے وعدے کرنے کا مجاز کیا جاتا ہے۔ مگر تیری بات کو قبول کرنا یا نہ کرنا ان بندوں کا اپنا کام ہوگا۔ تیرا ایسا تسلط اُن پر نہ ہوگا کہ وہ تیری راہ پر جانا چا ہیں یا نہ چاہیں، بہر حال تو ہاتھ پکڑ کر ان کو گھسیٹ لے جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ میرے خاص بندوں ، یعنی صالحین پر تیرا بس نہ چلے گا۔ کمزور اور ضعیف الارادہ لوگ تو ضرور تیرے وعدوں سے دھوکا کھائیں گے ، مگر جو لوگ میری بندگی پر ثابت قدم ہوں ، وہ تیرے قابو میں نہ آسکیں گے۔

81. یعنی جو لوگ اللہ پر اعتماد کریں ، اور جن کا بھروسہ اسی کی رہنمائی اور توفیق اور مدد پر ہو، اُن کا بھروسہ ہر گز غلط ثابت نہ ہوگا۔ انہیں کسی اور سہارے کی ضرورت نہ ہوگی۔ اللہ ان کی ہدایت کے لیے بھی کافی ہوگا اور ان کی دست گیری و اعانت کے لیے بھی۔ البتہ جن کا بھروسہ اپنی طاقت پر ہو، یا اللہ کے سوا کسی اور پر ہو، وہ اس آزمائش سے بخیریت نہ گزر سکیں گے۔

82. اوپر کےسلسلہ بیان سے اس کا تعلق سمجھنے کے لیے اس رکوع کے ابتدائی مضمون پر پھر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ اس میں یہ بتایا گیاہے کہ ابلیس اولِ روزِ آفرنیش سے اولاد آدم کے پیچھے پڑا ہوا ہے تا کہ اس کو آرزؤوں اور تمناؤں اور جھوٹے وعدوں کے دام میں پھانس کر راہ راست سے ہٹا لے جائے اور یہ ثابت کر دے کہ وہ اس بزرگی کا مستحق نہیں ہے جو اسے خدا نے عطا کی ہے ۔ اس خطرے سےا گر کوئی چیز انسان کو بچا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی بندگی پر ثابت قدم رہے اور ہدایت و اعانت کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے اور اسی کو اپنا وکیل(مدارِ توکل)بنائے۔ اس کے سوا دوسری جو راہ بھی انسان اختیار کرے گا، شیطان کے پھندوں سے نہ بچ سکے گا۔۔۔۔۔۔اس تقریر سے یہ بات خود بخود نکل آئی کہ جو لوگ توحید کی دعوت کو رد کر رہے ہیں اور شرک پر اصرار کیے جاتے ہیں وہ دراصل آپ ہی اپنی تباہی کے درپے ہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں توحید کا اثبات اور شرک کا ابطال کیا جا رہا ہے۔

83. یعنی ان معاشی اور تمدنی اور علمی و ذہنی فوائد سے متمتع ہونے کی کوشش کرو جو بحری سفروں سے حاصل ہوتے ہیں۔

84. یعنی اس بات کی دلیل ہے کہ تمہاری اصلی فطرت ایک خدا کے سوا کسی رب کو نہیں جانتی، اور تمہارے اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ شعور موجود ہے کہ نفع و نقصان کے حقیقی اختیارات کا مالک بس وہی ایک ہے ۔ ورنہ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ جو اصل وقت دستگیری کا ہے اُس وقت تم کو ایک خدا کے سوا کوئی دوسرا دستگیر نہیں سوجھتا؟

85. یعنی یہ ایک بالکل کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ نوع انسانی کو زمین اور اس کی اشیاء پر یہ اقتدار کسی جن یا فرشتے یا سیارے نے نہیں عطا کیا ہے، نہ کسی ولی یا نبی نے اپنی نوع کو یہ اقتدار دلوایا ہے ۔ یقیناً یہ اللہ ہی کی بخشش او ر اس کا کرم ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر حماقت اور جہالت کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اس مرتبے پر فائز ہو کر اللہ کے بجائے اس کی مخلوق کے آگے جھکے۔