Tafheem ul Quran

Surah 17 Al-Isra, Ayat 71-77

يَوۡمَ نَدۡعُوۡا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمۡ​ۚ فَمَنۡ اُوۡتِىَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيۡنِهٖ فَاُولٰۤـئِكَ يَقۡرَءُوۡنَ كِتٰبَهُمۡ وَلَا يُظۡلَمُوۡنَ فَتِيۡلًا‏ ﴿17:71﴾ وَمَنۡ كَانَ فِىۡ هٰذِهٖۤ اَعۡمٰى فَهُوَ فِى الۡاٰخِرَةِ اَعۡمٰى وَاَضَلُّ سَبِيۡلًا‏ ﴿17:72﴾ وَاِنۡ كَادُوۡا لَيَـفۡتِنُوۡنَكَ عَنِ الَّذِىۡۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ لِتَفۡتَرِىَ عَلَيۡنَا غَيۡرَهٗ​ ​ۖ  وَاِذًا لَّاتَّخَذُوۡكَ خَلِيۡلًا‏ ﴿17:73﴾ وَلَوۡلَاۤ اَنۡ ثَبَّتۡنٰكَ لَقَدۡ كِدْتَّ تَرۡكَنُ اِلَيۡهِمۡ شَيۡـئًـا قَلِيۡلًا  ۙ‏ ﴿17:74﴾ اِذًا لَّاَذَقۡنٰكَ ضِعۡفَ الۡحَيٰوةِ وَضِعۡفَ الۡمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَـكَ عَلَيۡنَا نَصِيۡرًا‏ ﴿17:75﴾ وَاِنۡ كَادُوۡا لَيَسۡتَفِزُّوۡنَكَ مِنَ الۡاَرۡضِ لِيُخۡرِجُوۡكَ مِنۡهَا​ وَاِذًا لَّا يَلۡبَـثُوۡنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيۡلًا‏ ﴿17:76﴾ سُنَّةَ مَنۡ قَدۡ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَكَ مِنۡ رُّسُلِنَا​ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحۡوِيۡلًا‏ ﴿17:77﴾

71 - پھر خیال کرو اس دن کا جب کہ ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔ اُس وقت جن لوگوں کو ان کا نامہٴ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنا کارنامہ پڑھیں گے86 اور ان پر ذرّہ برابر ظلم نہ ہوگا۔ 72 - اور جو اِس دُنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔ 73 - اے محمد ؐ ، ان لوگوں نے اِس کوشش میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی کہ تمہیں فتنے میں ڈال کر اُس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو۔ 87اگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمہیں اپنا دوست بنالیتے۔ 74 - اور بعید نہ تھا کہ اگر ہم تمیں مضبوط نہ رکھتے تو تم ان کی طرف کچھ نہ کچھ جُھک جاتے، 75 - لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم تمہیں دُنیا میں بھی دوہرے عذاب کا مزّہ چکھاتے اور آخرت میں بھی دوہرے عذاب کا، پھر ہمارے مقابلے میں تم کوئی مددگار نہ پاتے۔88 76 - اور یہ لوگ اس بات پر بھی تُلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اِس سرزمین سے اُکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں۔ لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں گے۔89 77 - یہ ہمارا مستقل طریقِ کار ہے جو اُن سب رسُولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جنہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا90 تھا،اور ہمارے طریقِ کار میں تم کوئی تغیّر نہ پاوٴ گے۔ ؏ ۸


Notes

86. یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ قیامت کے روز نیک لوگوں کو ان کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ خوشی خوشی اسے دیکھیں گے ، بلکہ دوسروں کو بھی دکھائیں گے۔ رہے بد اعمال لوگ، تو ان کا نامۂ سیاہ ان کو بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ اسے لیتے ہی پیٹھ پیچھے چھپانے کی کوشش کریں گے۔ ملاحظہ ہو سورہ الحاقہ آیت ١۹۔ ۲۸۔ اور سورہ انشقاق آیت ۷۔١۳

87. یہ اُن حالات کی طر ف اشارہ ہے جو پچھلے دس بارہ سال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکے میں پیش آرہے تھے ۔ کفارِ مکہ اس بات کے درپے تھے کہ جس طرح بھی ہو آپ کو توحید کی اس دعوت سے ہٹا دیں جسے آپ پیش کر رہے تھے اور کسی نہ کسی طرح آپ کو مجبور کر دیں کہ آپ ان کے شرک اور رسومِ جاہلیت سے کچھ نہ کچھ مصالحت کر لیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے آپ کو فتنے میں ڈالنے کی ہر کوشش کی۔ فریب بھی دیے، لالچ بھی دلائے، دھمکیاں بھی دیں، جھوٹے پر پگنڈے کا طوفان بھی اُٹھایا، ظلم و ستم بھی کیا، معاشی دباؤ بھی ڈالا، معاشرتی مقاطعہ بھی کیا، اور وہ سب کچھ کر ڈالا جو کسی انسان کے عزم کو شکست دینے کے لیے کیا جاسکتا تھا۔

88. اللہ تعالیٰ اس ساری روداد پر تبصرہ کرتے ہوئے دوباتیں ارشاد فرماتا ہے ۔ ایک یہ کہ اگر تم حق کو حق جان لینے کے بعد باطل سے کوئی سمجھوتہ کر لیتے تو یہ بگڑی ہوئی قوم تو ضرور تم سے خوش ہو جاتی، مگر خدا کا غضب تم پر بھڑک اٹھتا اور تمہیں دنیا و آخرت ، دونوں میں دہری سزا دی جاتی۔ دوسرے یہ کہ انسان خواہ وہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، خود اپنے بل بوتے پر باطل کے ان طوفانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ کی مدد اور اس کی توفیق شاملِ حال نہ ہو۔ یہ سراسر اللہ کا بخشا ہوا صبر ثبات تھا جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم حق و صداقت کے موقف پر پہاڑ کی طرح جمے رہے اور کوئی سیلابِ بلا آپ کو بال برابر بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکا۔

89. یہ صریح پیشن گوئی ہے جو اُس وقت تو صرف ایک دھمکی نظر آتی تھی، مگر دس گیارہ سال کے اندر ہی حرف بحرف سچی ثابت ہو گئی۔ اس سورة کے نزول پر ایک ہی سال گزرا تھا کہ کفار مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کر دیا او راس پر ۸ سال سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ اور پھر دوسال کے اندر اندر سر زمینِ عرب مشرکین کے وجود سے پاک کر دی گئی۔ پھر جو بھی اس ملک میں رہا مسلمان بن کر رہا، مشرک بن کر وہاں نہ ٹھیر سکا۔

90. یعنی سارے انبیا کے ساتھ اللہ کا یہ معاملہ رہا ہے کہ جس قوم نے ان کو قتل یا جلا وطن کیا، پھر وہ زیادہ دیر تک اپنی جگہ نہ ٹھیر سکی۔ پھر یا تو خدا کے عذاب نے اسے ہلاک کیا، یا کسی دشمن قوم کو اس پر مسلط کیا گیا، یا خود اسی نبی کے پیرووں سے اس کو مغلوب کر ادیا گیا۔