Tafheem ul Quran

Surah 17 Al-Isra, Ayat 78-84

اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوۡكِ الشَّمۡسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيۡلِ وَقُرۡاٰنَ الۡـفَجۡرِ​ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡـفَجۡرِ كَانَ مَشۡهُوۡدًا‏ ﴿17:78﴾ وَمِنَ الَّيۡلِ فَتَهَجَّدۡ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ​ۖ  عَسٰۤى اَنۡ يَّبۡعَـثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا‏ ﴿17:79﴾ وَقُلْ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِىۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِىۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّاجۡعَلْ لِّىۡ مِنۡ لَّدُنۡكَ سُلۡطٰنًا نَّصِيۡرًا‏ ﴿17:80﴾ وَقُلۡ جَآءَ الۡحَـقُّ وَزَهَقَ الۡبَاطِلُ​ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ كَانَ زَهُوۡقًا‏  ﴿17:81﴾ وَنُنَزِّلُ مِنَ الۡـقُرۡاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحۡمَةٌ لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ​ۙ وَلَا يَزِيۡدُ الظّٰلِمِيۡنَ اِلَّا خَسَارًا‏ ﴿17:82﴾ وَاِذَاۤ اَنۡعَمۡنَا عَلَى الۡاِنۡسَانِ اَعۡرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ​ۚ وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَـُٔوۡسًا‏ ﴿17:83﴾ قُلۡ كُلٌّ يَّعۡمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖؕ فَرَبُّكُمۡ اَعۡلَمُ بِمَنۡ هُوَ اَهۡدٰى سَبِيۡلًا‏ ﴿17:84﴾

78 - نماز قائم کرو91 زوالِ آفتاب92 سے لے کر رات کے اندھیرے93 تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو94 کیونکہ قرآنِ فجر مشہُود ہوتا ہے۔95 79 - اور رات کو تہجّد پڑھو،96 یہ تمہارے لیے نفل ہے97، بعید نہیں کہ تمہارا ربّ تمہیں مقامِ محمُود98 پر فائز کر دے۔ 80 - اور دُعا کرو کہ پروردگار ، مجھ کو جہاں بھی تُو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال،99 اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔100 81 - اور اعلان کر دو کہ ”حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔“101 82 - ہم اِس قرآن کے سلسلہٴ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کےلیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔ 102 83 - انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے، اور جب ذرا مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے۔ 84 - اے نبیؐ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ ”ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے، اب یہ تمہارا ربّ ہی بہتر جانتا ہے کہ سیدھی راہ پر کون ہے۔“ ؏ ۹


Notes

91. مشکلات و مصائب کے اس طوفان کا ذکر کرنے کے بعد فوراً ہی نماز قائم کرنے کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ لطیف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ثابت قدمی جو ان حالات میں ایک مومن کو درکار ہے اقامتِ صلوٰة سے حاصل ہوتی ہے۔

92. ”زوال آفتاب“ ہم نے دلوک الشمس کا ترجمہ کیا ہے۔ اگر چہ بعض صحابہ و تابعین نے دلوک سے مراد غروب بھی لیا ہے ، لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ اس سے مراد آفتاب کا نصف النہار سے ڈھل جانا ہے۔ حضرت عمر، ابن عمر، اَنَس بن مالک ، ابو بَرزة الاسلمی، حسن بصری۔ شعبی ، عطاء ۔ مجاہد، اور ایک روایت کی رو سے ابن عباس بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے بھی یہی قول مروی ہے۔ بلکہ بعض احادیث میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دلوکِ شمس کی یہی تشریح منقول ہے ، اگرچہ ان کی سند کچھ زیادہ قوی نہیں ہے۔

93. غسق اللیل بعض کے نزدیک”رات کا پور ی طرح تاریک ہو جانا“ہے ، اور بعض اس سے نصف شب مراد لیتے ہیں۔ اگر پہلا قول تسلیم کیا جائے تو اس سے عشاء کا اول وقت مراد ہوگا، اور اگر دوسرا قول صحیح مانا جائے تو پھر یہ اشارہ عشا کے آخر وقت کی طرف ہے۔

94. فجر کے لغوی معنی ہیں”پوپھٹنا“۔ یعنی وہ وقت جب اول اول سپیدہ صبح رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتا ہے۔

فجر کے قرآن سے مراد فجر کی نماز ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے لیے کہیں تو صلوٰة کا لفظ استعمال ہوا ہے اورکہیں اس کے مختلف اجزاء میں سے کسی جُز کا نام لے کر پوری نماز مراد لی گئی ہے، مثلاً تسبیح، حمد ،ذکر ، قیام، رکوع، سجود وغیرہ۔ اسی طرح یہاں فجر کےوقت قرآن پڑھنے کا مطلب محض قرآن پڑھنا نہیں، بلکہ نماز میں قرآن پڑھنا ہے۔ اس طریقہ سے قرآن مجید نے ضمناً یہ اشارہ کر دیا ہے کہ نماز کن اجزاء سے مرکب ہونی چاہیے۔ اور انہی اشارات کی رہنمائی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی وہ ہئیت مقرر فرمائی جو مسلمانوں میں رائج ہے۔

95. قرآن فجر کے مشہود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے فرشتے اس کے گواہ بنتے ہیں ، جیسا کہ احادیث میں بتصریح بیان ہوا ہے ۔ اگر چہ فرشتے ہر نماز اور ہر نیکی کے گواہ ہیں، لیکن جب خاص طور پر نمازِ فجر کی قر أت پر ان کی گواہی کا ذکر کیاگیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجرکی نماز میں طویل قرأت کرنے کا طریقہ اختیار فرمایا اور اسی کی پیروی صحابہ کرام نے کی اور بعد کے ائمہ نے اسے مستحب قرار دیا۔

اس آیت میں مجملاً یہ بتا یا گیا ہے کہ پنج وقتہ نماز، جو معراج کے موقع پر فرض کی گئی تھی ، اس کے اوقات کی تنظیم کس طرح کی جائے۔ حکم ہوا کہ ایک نماز تو طلوع آفتا ب سے پہلے پڑھ لی جائے، او ر باقی چار نمازیں زوال آفتاب کے بعد سے ظلمتِ شب تک پڑھی جائیں۔ پھر اس حکم کی تشریح کے لیے جبریل علیہ السلام بھیجے گئے جنہوں نے نماز کے ٹھیک ٹھیک اوقات کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ۔ چنانچہ ابو داؤد اور ترمذی میں ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”جبریل نے دو مرتبہ مجھ کو بیت اللہ کے قریب نماز پڑھائی۔ پہلے دن ظہر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ سورج ابھی ڈھلا ہی تھا اور سایہ ایک جوتی کے تسمے سے زیادہ دراز نہ تھا، پھرعصر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے اپنے قد کے برابر تھا ، پھر مغرب کی نماز ٹھیک اُس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے، پھر عشا ء کی نماز شفق غائب ہوتے ہی پڑھا دی، اور فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار پر کھانا پیناحرام ہو جاتاہے۔ دوسرے دن اُنہوں نے ظہر کی نماز مجھے اس وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اُس کے قد کے برابر تھا، اور عصر کی نماز اس وقت جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد سے دوگنا ہو گیا، اور مغرب کی نماز اس وقت جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے، اور عشاء کی نماز ایک تہائی رات گزر جانے پر، اور فجر کی نماز اچھی طرح روشنی پھیل جانے پر۔ پھر جبریل ؑ نے پلٹ کر مجھ سے کہا کہ اے محمد ؐ ، یہی اوقات انبیاء کے نماز پڑھنے کے ہیں ، اور نمازوں کے صحیح اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں“۔ (یعنی پہلے دن ہر وقت کی ابتداء اور دوسرے دن ہر وقت کی انتہا بتا ئی گئی ہے ۔ ہر وقت کی نماز ان دونوں کے درمیان ادا ہونی چاہیے)۔

قرآن مجید میں خود بھی نما ز کے ان پانچوں اوقات کی طرف مختلف مواقع پر اشارے کیے گئے ہیں۔ چنانچہ سورہ ہود میں فرمایا:

اَقِمِ الصَّلوٰةَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ۔ط (آیت ١١۴)

”نماز قائم کر دن کے دونوں کناروں پر (یعنی فجر اور مغرب) اور کچھ رات گزرنے پر (یعنی عشاء) “

وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُو عِ الشَّمسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا وَمِنْ اٰنآئیَ الّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ ہ (آیت ١۳۰)

”اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر طلوع آفتاب سے پہلے (فجر)اور غروب آفتاب سے پہلے (عصر) اور رات کے اوقات میں پھر تسبیح کر (عشاء) اور دن کے سروں پر (یعنی صبح، ظہر اور مغرب) “

پھر سورہ روم میں ارشاد ہوا:

فَسُبْحٰنَ اللہِ حِینَ تُمسُونَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْ نَہ وَلَہُ الْحَمدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ وَعَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْھِرُوْنَ ہ (آیات ١۷۔١۸)

”پس اللہ کی تسبیح کرو جبکہ تم شام کرتے ہو(مغرب) اور صبح کرتے ہو(فجر)۔ اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں۔ اور اس کی تسبیح کرو دن کے آخری حصے میں (عصر) اور جبکہ تم دوپہر کرتے ہو(ظہر) “

نماز کے اوقات کا یہ نظام مقرر کرنے میں جو مصلحتیں ملحوظ رکھی گئی ہیں ان میں سے ایک اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ آفتاب پرستوں کے اوقات ِ عبادت سے اجتناب کیا جائے۔ آفتاب ہر زمانے میں مشرکین کا سب سے بڑا، یا بہت بڑا معبود رہا ہے، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات خاص طور پر اُن کے اوقاتِ عبادت رہے ہیں، اس لیے ان اوقات میں تو نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ آفتاب کی پرستش زیادہ تر اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے، لہٰذا اسلام میں حکم دیا گیا کہ تم دن کی نمازیں زوال آفتاب کے بعد پڑھنی شروع کرو اور صبح کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لیا کرو۔ اس مصلحت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت عمر و بن عَبَسہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے اوقات دریافت کیے تو آپ نے فرمایا:

صل صلوة الصبح ثم اقصر عن الصلوة حین تطلع الشمس حتٰی ترتفع فانھا تطلع حین تطلع بین قرنی الشیطن وحینئِذ یسجد لہ الکفار۔

”صبح کی نماز پڑھو اور جب سورج نکلنے لگے تو نماز سے رُک جاؤ، یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے۔ کیونکہ سورج جب نکلتا ہے تو شیطان کے سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں“۔

پھر آپ نے عصر کی نماز کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

ثم اقصر عن الصلوة حتی تغرب الشمس فانھا تغرب بین قرنی الشیطن وحینئذ یسجد لھا الکفار (رواہ مسلم)

”پھر نماز سے رک جاؤ یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے، کیونکہ سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں۔“

اس حدیث میں سورج کا شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہونا ایک استعارہ ہے یہ تصور دلانے کے لیے کہ شیطان اس کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات کو لوگوں کے لیے ایک فتنہ عظیم بنا دیتا ہے۔ گویا جب لوگ اس کو نکلتے اور ڈوبتے دیکھ کر سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان اسے اپنے سر پر لیے ہوئے آیا ہے اور سر ہی پر لیے جا رہا ہے۔ اس استعارے کی گرہ حضور ؐ نے خود اپنے اس فقرے میں کھول دی ہےکہ”اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں“۔

96. تہجد کے معنی ہیں نیند توڑ کر اُٹھنے کے ۔ پس رات کے وقت تہجد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رات کا ایک حصہ سونے کے بعد پھر اُٹھ کر نماز پڑھی جائے۔

97. نفل کے معنی ہیں”فرض سے زائد“۔ اس سے خود بخود یہ اشارہ نکل آیا کہ وہ پانچ نمازیں جن کے اوقات کا نظام پہلی آیت میں بیان کیا گیا تھا، فرض ہیں، اور یہ چھٹی نماز فرض سے زائد ہے۔

98. یعنی دنیا اور آخرت میں تم کو ایسے مرتبے پر پہنچا دے جہاں تم محمود خلائق ہو کر رہو، ہر طرف سے تم پر مدح و ستائش کی بارش ہو، اورتمہاری ہستی ایک قابل تعریف ہستی بن کر رہے۔آج تمہارے مخالفین تمہاری تواضع گالیوں اور ملامتوں سے کر رہے ہیں اور ملک بھر میں تم کو بدنام کر نے کے لیے انہوں نے جھوٹے الزامات کا ایک طوفان برپا کر رکھا ہے ، مگر وہ وقت دور نہیں ہے جبکہ دنیا تمہاری تعریفوں سے گونج اُٹھے گی اور آخرت میں بھی تم ساری خلق کے ممدوح ہو کر رہو گے۔ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام شفاعت پر کھڑا ہونا بھی اسی مرتبہ محمود یت کا ایک حصہ ہے۔

99. اس دعا کی تلقین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کا وقت اب بالکل قریب آلگاتھا۔ اس لیے فرمایا کہ تمہاری دعا یہ ہونی چاہیے کہ صداقت کا دامن کسی حال میں تم سے نہ چھوٹے، جہاں سے بھی نکلو صداقت کی خاطر نکلو اور جہاں بھی جاؤ صداقت کے ساتھ جاؤ۔

100. یعنی یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر، یا کسی حکومت کو میرا مدد گار بنا دے تا کہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کر سکوں ، فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں ، اور تیرے قانونِ عدل کو جاری کر سکوں۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصری اور قتادہ نے کی ہے، اور اسی کو ابن جریر اور ابن کثیر جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیا ر کیا ہے، اور اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کرتی ہے کہ اِنَّ اللہ َ لَیَزَعُ بِالسُّلطَانِ مَا لَا یَزَعُ بِالقُرْاٰنِ،یعنی”اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے اُن چیزوں کا سد باب کر دیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں کرتا“۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے ۔ پھر جبکہ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہو ا کہ اقامتِ دین اور نفاذِ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے او ر وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دنیا پر ستی یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں۔ دنیا پرستی اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لیے حکومت کا طالب ہو ۔ رہا خدا کے دین کے لیے حکومت کا طالب ہونا تو یہ دنیا پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہی کا عین تقاضا ہے ۔ اگر جہاد کے لیے تلوار کا طالب ہو نا گناہ نہیں ہے تو اجرائے احکام شریعت کے لیے سیاسی اقتدار کا طالب ہونا آخر کیسے گناہ ہو جائے گا؟

101. یہ اعلان اس وقت کیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ چھوڑ کر حبش میں پناہ گزین تھی، اور باقی مسلمان سخت بے کسی و مظلومی کی حالت میں مکہ او ر اطراف مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہر وقت خطرے میں تھی۔ اس وقت بظاہر باطل ہی کا غلبہ تھا اور غلبہ حق کے آثار کہیں دور دور نظر نہ آتے تھے۔ مگر اسی حالت میں نبی ؐ کو حکم دے دیا گیا کہ تم صاف صاف ان باطل پرستوں کو سنا دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ ایسے وقت میں یہ عجیب اعلان لوگوں کو محض زبان کا پھاگ محسوس ہوا او ر انہوں نے اسے ٹھٹھوں میں اُڑادیا۔ مگر اس پر نو برس ہی گزرے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی شہر مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور آپ نے کعبے میں جا کر اس باطل کو مٹادیا جو تین سو ساٹھ بتوں کی صورت میں وہاں سجا رکھا تھا۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیا ن ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور ؐ کعبے کے بتوں پر ضرب لگا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ” جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ جآء الحق ومایُبدئُ الباطل ومایُعید“۔

102. یعنی جو لوگ اس قرآن کو اپنا رہنما اور اپنے لیے کتاب آئین مان لیں ان کے لیے تو یہ خدا کی رحمت اور ان کے تمام ذہنی، نفسانی، اخلاقی اور تمدنی امراض کا علاج ہے۔ مگر جو ظالم اسے رد کر کے اور اس کی رہنمائی سے منہ موڑ کر اپنے اوپر آپ ظلم کریں ان کو یہ قرآن اُس حالت پر بھی نہیں رہنے دیتا جس پر وہ اس کے نزول سے، یا اس کے جاننے سے پہلے تھے،بلکہ یہ انہیں اُلٹا اس سے زیادہ خسارے میں ڈال دیتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک قرآن آیا نہ تھا، یا جب تک وہ اس سے واقف نہ ہوئے تھے، ان کا خسارہ محض جہالت کا خسارہ تھا۔ مگر جب قرآن ان کے سامنے آگیا او ر اس نے حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا تو ان پر خدا کی حجت تمام ہوگئی۔ اب اگر وہ اسے رد کر کے گمراہی پر اصرار کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جاہل نہیں بلکہ ظالم اور باطل پرست اور حق سے نفور ہیں۔ اب ان کی حیثیت وہ ہے جو زہر اور تریاق، دونوں کو دیکھ کر زہر انتخاب کرنے والے کی ہوتی ہے۔ اب اپنی گمراہی کے وہ پورے ذمہ دار، اور ہر گناہ جو اس کے بعد وہ کریں اس کی پوری سزا کے مستحق ہیں۔ یہ خسارہ جہالت کا نہیں بلکہ شرارت کا خسارہ ہے جسے جہالت کے خسارے سے بڑھ کر ہی ہونا چاہیے۔ یہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت مختصر سے بلیغ جملے میں بیان فرمائی ہے کہ القراٰن حجة لک او علیک یعنی قرآن یا تو تیرے حق میں حجت ہے یا پھر تیرے خلاف حجت۔