Tafheem ul Quran

Surah 17 Al-Isra, Ayat 85-93

وَيَسۡـئَلُوۡنَكَ عَنِ الرُّوۡحِ​ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّىۡ وَمَاۤ اُوۡتِيۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِيۡلًا‏ ﴿17:85﴾ وَلَـئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡهَبَنَّ بِالَّذِىۡۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَـكَ بِهٖ عَلَيۡنَا وَكِيۡلًا ۙ‏ ﴿17:86﴾ اِلَّا رَحۡمَةً مِّنۡ رَّبِّكَ​ ؕ اِنَّ فَضۡلَهٗ كَانَ عَلَيۡكَ كَبِيۡرًا‏  ﴿17:87﴾ قُلْ لَّـئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَالۡجِنُّ عَلٰٓى اَنۡ يَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ هٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا يَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِهٖ وَلَوۡ كَانَ بَعۡضُهُمۡ لِبَعۡضٍ ظَهِيۡرًا‏  ﴿17:88﴾ وَلَقَدۡ صَرَّفۡنَا لِلنَّاسِ فِىۡ هٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ كُلِّ مَثَلٍ فَاَبٰٓى اَكۡثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوۡرًا‏ ﴿17:89﴾ وَقَالُوۡا لَنۡ نُّـؤۡمِنَ لَـكَ حَتّٰى تَفۡجُرَ لَنَا مِنَ الۡاَرۡضِ يَنۡۢبُوۡعًا ۙ‏ ﴿17:90﴾ اَوۡ تَكُوۡنَ لَـكَ جَنَّةٌ مِّنۡ نَّخِيۡلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الۡاَنۡهٰرَ خِلٰلَهَا تَفۡجِيۡرًا ۙ‏ ﴿17:91﴾ اَوۡ تُسۡقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمۡتَ عَلَيۡنَا كِسَفًا اَوۡ تَاۡتِىَ بِاللّٰهِ وَالۡمَلٰۤـئِكَةِ قَبِيۡلًا ۙ‏ ﴿17:92﴾ اَوۡ يَكُوۡنَ لَـكَ بَيۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ اَوۡ تَرۡقٰى فِى السَّمَآءِ ؕ وَلَنۡ نُّـؤۡمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيۡنَا كِتٰبًا نَّـقۡرَؤُهٗ​ ؕ قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّىۡ هَلۡ كُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا‏ ﴿17:93﴾

85 - یہ لوگ تم سے رُوح کے متعلق پُوچھتے ہیں۔ کہو ”یہ رُوح میرے ربّ کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے۔“103 86 - اور اے محمدؐ ، ہم چاہیں تو وہ سب کچھ تم سے چھین لیں جو ہم نے وحی کے ذریعہ سے تم کو عطا کیا ہے، پھر تم ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہ پاوٴ گے جو اسے واپس دلا سکے۔ 87 - یہ تو جو کچھ تمہیں ملا ہے تمہارے ربّ کی رحمت سے مِلا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کا فضل تم پر بہت بڑا ہے۔104 88 - کہہ دو کہ اگر انسان اور جِن سب کے سب مل کر اِس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لا سکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔105 89 - ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر لوگ انکار ہی پر جمے رہے۔ 90 - اور انہوں نے کہا ”ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تُو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے۔ 91 - یا تیرے لیے کھُجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تُو اس میں نہریں رواں کر دے۔ 92 - یا تُو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اُوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے۔ یا خدا اور فرشتوں کو رُو در رُو ہمارے سامنے لے آئے۔ 93 - یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے۔ یا تُو آسمان پر چڑھ جائے، اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تُو ہمارے اُوپر ایک ایسی تحریر نہ اُتار لائے جسے ہم پڑھیں“ ۔۔۔۔ اے محمدؐ، اِن سے کہو ”پاک ہے میرا پروردگار ! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں؟“106 ؏ ۱۰


Notes

103. !عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں روح سے مراد جان ہے، یعنی لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روحِ حیات کے متعلق پوچھا تھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے، اور اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ معنی تسلیم کرنے میں سخت تامل ہے، اس لیے کہ یہ معنی صرف اُس صورت میں لیے جا سکتے ہیں جبکہ سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیا جائے اور سلسلہ کلام سے بالکل الگ کر کے اس آیت کو ایک منفر د جملے کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ ورنہ اگر سلسلہ کلام میں رکھ کر دیکھا جائے تو رُوح کو جان کے معنی میں لینے سے عبارت میں سخت بے ربطی محسوس ہوتی ہے اور اس امر کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جہاں پہلے تین آیتوں میں قرآن کے نسخہ شفا ہونے اور منکرین ِ قرآن کے ظالم اور کافرِ نعمت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، اور جہاں بعد کی آیتوں میں پھر قرآن کے کلام الہٰی ہونے پر استدلال کیاگیا ہے، وہاں آخر کس مناسبت سے یہ مضمون آگیا کہ جانداروں میں جان خدا کے حکم سے آتی ہے؟

ربطِ عبارت کو نگا ہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں روح سے مراد”وحی“یا وحی لانے والا فرشتہ ہی ہوسکتا ہے۔ مشرکین کا سوال دراصل یہ تھا کہ قرآن تم کہاں سے لاتے ہو؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ؐ ،تم سے یہ لوگ روح، یعنی ماخذِ قرآن ، یا ذریعہ حصولِ قرآن کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ انہیں بتا دو کہ یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے اتنا کم بہرہ پایا ہے کہ تم انسانی ساخت کے کلام اور وحی ربانی کے ذریعہ سے نازل ہونے والے کلام کا فرق نہیں سمجھتے اور اس کلام پر یہ شبہ کرتے ہو کہ اسے کوئی انسان گھڑ رہا ہے۔

یہ تفسیر صرف اس لحاظ سے قابل ترجیح ہے کہ تقریر ماسبق اور تقریر مابعد کے ساتھ آیت کا ربط اسی تفسیر کا متقاضی ہے ، بلکہ خودقرآن مجید میں بھی دوسرے مقامات پر یہ مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں بیان کیا گیاہے۔ چنانچہ سورہ مومن میں ارشاد ہوا ہےیُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ لِیُنْذِ رَ یَوْمَ التَّلَاقِ (آیت ١۵)۔ ”وہ اپنے حکم سے اپنے جس بندے پر چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے تا کہ وہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کے دن سے آگاہ کرے“۔ اور سورہ شوریٰ میں فرمایا وَکَذٰلِکَ اَوْ حَینَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الاِْیْمَانُ ( آیت ۵۲)۔”اور اسی طرح ہم نے تیری طرف ایک روح اپنے حکم سے بھیجی۔ تو نہ جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہے“۔

سلف میں سے ابن عباس، قتادہ اور حسن بصری رحمہم اللہ نے بھی یہی تفسیر اختیار کی ہے۔ ابن جریر نے اس قول کو قتادہ کے حوالہ سے ابن عباس ؓ کی طرف منسوب کیا ہے، مگر یہ عجیب بات لکھی ہے کہ ابن عباس اس خیال کو چھپا کر بیان کرتے تھے۔ اور صاحبِ روح المعانی حسن اور قتادہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ”روح سے مراد جبرائیل ہیں اور سوال در اصل یہ تھا کہ وہ کیسے نازل ہوتے ہیں اور کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر وحی کا القاء ہوتا ہے“۔

104. خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر مقصود دراصل کفار کو سنانا ہے جو قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا گھڑا ہوا یا کسی انسان کا در پردہ سکھایا ہوا کلام کہتے تھے۔ اُن سے کہا جارہا ہے کہ یہ کلام پیغمبر نے نہیں گھڑا بلکہ ہم نے عطا کیا ہے اور اگر ہم اسے چھین لیں تو نہ پیغمبر کی یہ طاقت ہے کہ وہ ایسا کلام تصنیف کر کے لاسکے اور نہ کوئی دوسری طاقت ایسی ہے جو اس کو ایسی معجزانہ کتاب پیش کرنے کے قابل بنا سکے۔

105. یہ چیلنج اس سے پہلے قرآن مجید میں تین مقامات پر گزر چکا ہے۔ سوررہ بقرہ ، آیات۲۳،۲۴ ۔ سورہ یونس، آیت ۳۸ اور سورہ ہود، آیت ١۳۔ آگے سورہ طور، آیات ۳۳۔۳۴ میں بھی یہی مضمون آرہا ہے۔ ان سب مقامات پر یہ بات کفار کے اس الزام کے جواب میں ارشاد ہوئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ قرآن تصنیف کر لیا ہے اور خواہ مخواہ وہ اسے خدا کا کلام بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ مزید بر آں سورہ یونس، آیت ١٦ میں اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیا کہ قُلْ لَّوْ شَآ ءَ اللہ ُ مَا تَلَوْ تُہُ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُونَ۔ یعنی”اے محمد ؐ ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا کہ میں قرآن تمہیں سناؤں تو میں ہر گز نہ سنا سکتا تھا بلکہ اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا ۔ آخر میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے“؟

ان آیات میں قرآن کے کلام الہٰی ہونے پر جو استدلال کیاگیا ہے وہ دراصل تین دلیلوں سےمرکّب ہے:

ایک یہ کہ یہ قرآن اپنی زبان ، اسلوب بیان ، طرزِ استدلال، مضامین، مباحث، تعلیمات اور اخبار غیب کے لحاظ سے ایک معجزہ ہے جس کی نظیر لانا انسانی قدرت سے باہر ہے ۔ تم کہتے ہو کہ اسے ایک انسان نے تصنیف کیا ہے، مگر ہم کہتے ہیں کہ تمام دنیا کے انسان مل کر بھی اس شان کی کتاب تصنیف نہیں کر سکتے ۔ بلکہ اگر وہ جن جنہیں مشرکین نے اپنا معبود بنا رکھا ہے، اور جن کی معبودیت پر یہ کتاب علانیہ ضرب لگا رہی ہے، منکرین قرآن کی مدد پر اکٹھے ہو جائیں تو وہ بھی ان کواس قابل نہیں بنا سکتے کہ قرآن کے پائے کی کتاب تصنیف کر کے اس چلینج کو رد کر سکیں۔

تیسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں قرآن سنا کر کہیں غائب نہیں ہو جاتے بلکہ تمہارے درمیان ہی رہتے سہتے ہیں۔ تم ان کی زبان سے قرآن بھی سنتے ہو اور دوسری گفتگو ئیں اور تقریر یں بھی سنا کرتے ہو۔ قرآن کے کلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے کلام میں زبان او ر اسلوب کا اتنا نمایاں فرق ہے کہ کسی ایک انسان کے دو اس قدر مختلف اسٹائل کبھی ہو نہیں سکتے ۔ یہ فرق صرف اسی زمانہ میں واضح نہیں تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک کے لوگوں میں رہتے سہتے تھے۔ بلکہ آج بھی حدیث کی کتابوں میں آپ کے سینکڑوں اقوال اور خطبے موجود ہیں۔ ان کی زبان اسلوب قرآن کی زبان اور اسلوب سے اس قدر مختلف ہیں کہ زبان و ادب کا کوئی رمز آشنا نقاد یہ کہنے کی جرأ ت نہیں کر سکتا کہ یہ دونوں ایک ہی شخص کے کلام ہو سکتے ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یونس حاشیہ ۲١۔ الطور، حواشی ۲۲،۲۷)

106. معجزات کے مطالبے کا ایک جواب اس سے پہلے آیت ۵۹ وَمَا مَنَعَنَآ ااَن نُّرْسِلَ بِالاٰیٰتِ میں گزر چکا ہے۔ اب یہاں اسی مطالبے کا دوسرا جواب دیا گیا ہے۔ اس مختصر سے جواب کی بلاغت تعریف سے بالا تر ہے۔ مخالفین کا مطالبہ یہ تھا کہ اگر تم پیغمبر ہو تو ابھی زمین کی طرف ایک اشارہ کرو اور یکایک ایک چشمہ پھوٹ بہے، یا فوراً ایک لہلہاتا باغ پیدا ہو جائے اور اس میں نہریں جاریں ہوجائیں۔ آسمان کی طرف اشارہ کرو اور تمہارےجھٹلانے والوں پر آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر جائے۔ ایک پھونک مارو اور چشم زدن میں سونے کا ایک محل بن کر تیار ہوجائے۔ ایک آواز دو اور ہمارے سامنے خدا اور اس کے فرشتے فوراً آکھڑے ہوں اور وہ شہادت دیں کہ ہم ہی نے محمد ؐ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے آسمان پر چڑھ کر جاؤ اور اللہ میاں سے ایک خط ہمارے نام لکھوا لاؤ جسے ہم ہاتھ سے چھوئیں اور آنکھوں سے پڑھیں۔۔۔۔۔۔ ان لمبے چوڑے مطالبوں کا بس یہ جواب دے کر چھوڑ دیا گیا کہ ”ان سے کہو، پاک ہے میرا پر وردگار! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں“؟ یعنی بیوقوفو ! کیا میں نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا کہ تم یہ مطالبے مجھ سےکرنے لگے؟ میں نے تم سےکب کہا تھا کہ میں قادرِ مطلق ہوں؟ میں نے کب کہا تھا کہ زمین و آسمان پر میری حکومت چل رہی ہے؟ میرا دعوٰی تواوّل روز سے یہی تھا کہ میں خدا کی طرف سے پیغام لانے والا ایک انسان ہوں۔ تمہیں جانچنا ہے تو میرے پیغام کو جانچو۔ ایما ن لانا ہےتو اس پیغام کی صداقت و معقولیت دیکھ کر ایمان لاؤ۔ انکا ر کرنا ہے تو اس پیغام میں کوئی نقص نکال کر دکھاؤ۔ میری صداقت کا اطمینان کرنا ہے تو ایک انسان ہونے کی حیثیت سے میری زندگی کو، میرے اخلاق کو، میرے کام کو دیکھو۔ یہ سب کچھ چھوڑ کر تم مجھ سے یہ کیا مطالبہ کرنے لگے کہ زمین پھاڑ و اور آسمان گراؤ؟ آخر پیغمبری کا ان کاموں سے کیا تعلق ہے؟