107. یعنی ہر زمانے کے جاہل لوگ اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ بشر کبھی پیغمبر نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے جب کوئی رسول آیا تو انہوں نے یہ دیکھ کر کہ کھاتا ہے، پیتا ہے ، بیوی بچے رکھتا ہے، گوشت پوست کا بنا ہوا ہے، فیصلہ کر دیا کہ پیغمبر نہیں ہے، کیونکہ بشر ہے۔ اور جب وہ گزر گیا تو ایک مدت کے بعد اس کے عقیدت مندوں میں ایسے لوگ پیدا ہونے شروع ہو گئے جو کہنے لگے کہ وہ بشر نہیں تھا، کیونکہ پیغمبر تھا۔ چنانچہ کسی نے اس کو خدا بنایا، کسی نے اسے خدا کا بیٹا کہا، او ر کسی نے کہا کہ خدا اس میں حلول کر گیا تھا۔ غرض بشریت اور پیغمبری کا ایک ذات میں جمع ہونا جاہلوں کے لیے ہمیشہ ایک معما ہی بنا رہا۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یٰس، حاشیہ ١١)۔
108. یعنی پیغمبر کا کام صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ آکر پیغام سنا دیا کرے، بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ اس پیغام کے مطابق انسانی زندگی کی اصلاح کرے۔ اسے انسانی احوال پر اُس پیغام کے اصولوں کا انطباق کرنا ہوتا ہے۔ اسے خودا پنی زندگی میں ان اصولوں کا عملی مظاہر ہ کرنا ہوتا ہے۔ اسے اُن بے شمار مختلف انسانوں کےذہن کی گتھیاں سلجھانی پڑتی ہیں جو اس کا پیغام سننے اور سمجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے ماننے والوں کی تنظیم اور تربیت کرنی ہوتی ہے تا کہ اس پیغام کی تعلیمات کے مطابق ایک معاشرہ وجود میں آئے۔ اسے انکار اور مخالفت و مزاحمت کرنے والوں کے مقابلے میں جدو جہد کرنی ہوتی ہے تا کہ بگاڑ کی حمایت کرنے والی طاقتوں کو نیچا دکھایا جائے اور وہ اصلاح عمل میں آسکے جس کے لیے خدا نے اپنا پیغمبر مبعوث فرمایا ہے۔ یہ سارے کام جبکہ انسانوں ہی میں کرنے کے ہیں تو ان کے لیے انسان نہیں تو اور کون بھیجا جاتا؟ فرشتہ تو زیادہ سے زیادہ بس یہی کرتا کہ آتا اور پیغام پہنچا کر چلا جاتا۔ انسانوں میں انسان کی طرح رہ کر انسان کے سے کام کرنا اور پھر انسانی زندگی میں منشائے الہٰی کے مطابق اصلاح کر کے دکھا دینا کسی فرشتے کے بس کا کام نہ تھا۔ اس کے لیے تو ایک انسان ہی موزوں ہو سکتا تھا۔
109. یعنی جس طرح سے میں تمہیں سمجھا رہا ہوں اور تمہاری اصلاح حال کے لیے کوشش کر رہا ہوں اسے بھی اللہ جانتا ہے، اور جو جو کچھ تم میری مخالفت میں کر رہے ہو اس کو بھی اللہ دیکھ رہا ہے۔ فیصلہ آخر کار اسی کو کرنا ہے اس لیے بس اسی کا جاننا اور دیکھنا کافی ہے۔
110. یعنی جس کی ضلالت پسندی اور ہٹ دھر می کے سبب سے اللہ نے اس پر ہدایت کے دروازے بند کر دیے ہوں اور جسے اللہ ہی نے ان گمراہیوں کی طرف دھکیل دیا ہو جن کی طرف وہ جانا چاہتا تھا، تو اب اور کون ہے جو اس کو راہِ راست پر لاسکے؟ جس شخص نے سچائی سے منہ موڑ کر جھوٹ پر مطمئن ہونا چاہا ، اور جس کی اس خباثت کو دیکھ کر اللہ نے بھی اس کے لیے وہ اسباب فراہم کر دیے جن سے سچائی کے خلاف اُس کی نفرت میں اور جھوٹ پر اس کے اطمینان میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا جائے، اسے آخر دنیا کی کونسی طاقت جھوٹ سے منحرف اور سچائی پر مطمئن کر سکتی ہے ؟ اللہ کا یہ قاعدہ نہیں کہ جو خود بھٹکنا چاہے اسے زبر دستی ہدایت دے ، اور کسی دوسری ہستی میں یہ طاقت نہیں کہ لوگوں کے دل بدل دے۔
111. یعنی جیسے وہ دنیا میں بن کررہے کہ نہ حق دیکھتے تھے، نہ حق سنتے تھے اور نہ حق بولتے تھے، ویسے ہی وہ قیامت میں اُٹھائے جائیں گے۔
112. یہ اشارہ اسی مضمون کی طرف ہے جو اس سے پہلے آیت ۵۵ و َ رَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ میں گزر چکا ہے۔ مشرکین مکہ جن نفسیاتی وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے ان میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس طرح انہیں آپ کا فضل وشرف ماننا پڑتا تھا، اور اپنے کسی معاصر اور ہم چشم کا فضل ماننے کے لیے انسان مشکل ہی سے آمادہ ہوا کرتا ہے۔ اسی پر فرمایا جارہاہے کہ جن لوگوں کی بخیلی کا حال یہ ہے کہ کسی کے واقعی مرتبے کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے بھی ان کا دل دکھتا ہے، انہیں اگر کہیں خدا نے اپنے خزانہائے رحمت کی کنجیاں حوالے کر دی ہوتیں تو وہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیتے۔