Tafheem ul Quran

Surah 18 Al-Kahf, Ayat 102-110

اَفَحَسِبَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنۡ يَّتَّخِذُوۡا عِبَادِىۡ مِنۡ دُوۡنِىۡۤ اَوۡلِيَآءَ​ ؕ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا جَهَـنَّمَ لِلۡكٰفِرِيۡنَ نُزُلًا‏ ﴿18:102﴾ قُلۡ هَلۡ نُـنَبِّئُكُمۡ بِالۡاَخۡسَرِيۡنَ اَعۡمَالًا ؕ‏ ﴿18:103﴾ اَ لَّذِيۡنَ ضَلَّ سَعۡيُهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَهُمۡ يَحۡسَبُوۡنَ اَنَّهُمۡ يُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا‏ ﴿18:104﴾ اُولٰۤـئِكَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمۡ وَلِقَآئِهٖ فَحَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ فَلَا نُقِيۡمُ لَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ وَزۡنًـا‏ ﴿18:105﴾ ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمۡ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوۡا وَاتَّخَذُوۡۤا اٰيٰتِىۡ وَرُسُلِىۡ هُزُوًا‏ ﴿18:106﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتۡ لَهُمۡ جَنّٰتُ الۡفِرۡدَوۡسِ نُزُلًا ۙ‏ ﴿18:107﴾ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا لَا يَـبۡغُوۡنَ عَنۡهَا حِوَلًا‏ ﴿18:108﴾ قُلْ لَّوۡ كَانَ الۡبَحۡرُ مِدَادًا لِّـكَلِمٰتِ رَبِّىۡ لَـنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَـنۡفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّىۡ وَلَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِهٖ مَدَدًا‏ ﴿18:109﴾ قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ يُوۡحٰٓى اِلَىَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ​  ۚ فَمَنۡ كَانَ يَرۡجُوۡالِقَآءَ رَبِّهٖ فَلۡيَـعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًـاوَّلَايُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا‏ ﴿18:110﴾

102 - تو کیا 74 یہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا ہے، یہ خیال رکھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنالیں؟ 75 ہم نے ایسے کافروں کی ضیافت کے یے جہنّم تیار کر رکھی ہے۔ 103 - اے محمدؐ ، ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ 104 - وہ کہ دنیا کہ زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی 76 اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ 105 - یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ 77 106 - ان کی جزا جہنّم ہے اُس کُفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اُس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسُولوں کے ساتھ کرتے رہے۔ 107 - البتہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے فردوس 78 کے باغ ہوں گے 108 - جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اُس جگہ سے نِکل کر کہیں جانے کو اُن کا جی نہ چاہے گا۔ 79 109 - اے محمدؐ ، کہو کہ اگر سمندر میرے ربّ کی باتیں 80 لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے ربّ کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے۔ 110 - اے محمدؐ ، کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میرے طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے ربّ کی ملاقات کا اُمیدوار ہواسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے ربّ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ ؏ ۱۲


Notes

74. یہ پوری سورت کا خاتمۂ کلام ہے ، اس لیے اس کی مناسبت ذو القرنین کے قصے میں نہیں بلکہ سورۃ کے مجموعی مضمون میں تلاش کرنی چاہیے۔ سورۃ کا مجموعی مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قوم کو شرک چھوڑ کر توحید اختیار کرنے اور دنیا پرستی چھوڑ کر آخرت پر یقین لانے کی دعوت دے رہے تھے۔مگر قوم کے بڑے بڑے سردار اپنی دولت اور شوکت و حشمت کے زعم میں نہ صرف آپ کی اس دعوت کو رد کر رہے تھے ، بلکہ ان چند راستی پسند انسانوں کو بھی، جنہوں نے یہ دعوت قبول کر لی تھی، ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اس پر وہ ساری تقریر کی گئی جو شروع سورہ سے یہاں تک چلی آ رہی ہے ، اور اسی تقریر کے دوران میں یکے بعد دیگرے ان تین قصوں کو بھی ، جنہیں مخالفین نے امتحاناً دریافت کیا تھا۔ ٹھیک موقع پر نگینوں کی طرح جڑ دیا گیا۔ اب تقریر ختم کر تے ہوئے پھر کلام کا رخ اسی مدعا کی طرف پھیرا جا رہا ہے جسے تقریر کے آغاز میں پیش کیا گیا تھا اور جس پر رکوع 4 سے 8 تک مسلسل گفتگو کی جا چکی ہے۔

75. یعنی یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی ان کا خیال یہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ روش ان کے لیے نافع ہوگی ؟

76. اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ’’ جن کی ساری سعی و جہد دنیا کی زندگی ہی میں گم ہو کر رہ گئی‘‘۔ یعنی انہوں نے جو کچھ بھی کیا خدا سے بے نیاز اور اور آخرت سے بے فکر ہو کر صرف دنیا کے لیے کیا۔ دنیوی زندگی ہی کو اصل زندگی سمجھا۔ دنیا کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو اپنا مقصود بنا یا۔ خدا کی ہستی کے اگر قائل ہوئے بھی تو اس بات کی کبھی فکر نہ کی کہ اس کی رضا کیا ہے اور ہمیں کبھی اس کے حضور جا کر اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہے۔ اپنے آپ کو محض ایک خود مختار و غیر ذمہ دار حیوان عاقل سمجھتے رہے جس کے لیے دنیا کی اس چراگاہ سے تمتع کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔

77. یعنی اس طرح کے لوگوں نے دنیا میں خواہ کتنے ہی بڑے کارنامے کیے ہوں ، بہر حال وہ دنیا کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گے۔ اپنے قصر اور محلات،اپنی یونیورسٹیاں اور لائبریریاں ، اپنے کار خانے اور معمل ، اپنی سڑکیں اور ریلیں ، اپنی ایجادیں اور صنعتیں ، اپنے علوم و فنون اور اپنی آرٹ گیلریاں ، اور دوسری وہ چیزیں جن پر وہ فخر کرتے ہیں ، ان میں سے تو کوئی چیز بھی اپنے ساتھ لیے ہوئے وہ خدا کے ہاں نہ پہنچیں گے کہ خدا کی میزان میں اس کو رکھ سکیں۔ وہاں جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ صرف مقاصد عمل اور نتائج عمل ہیں۔ اب اگر کسی کے سارے مقاصد دنیا تک محدود تھے اور نتائج بھی اس کو دنیا ہی میں مطلوب تھے اور دنیا میں وہ اپنے نتائج عمل دیکھ بھی چکا ہے تو اس کا سب کیا کرایا دنیائے فانی کے ساتھ ہی فنا ہو گیا۔ آخرت میں جو کچھ پیش کر کے وہ کوئی وزن پا سکتا ہے وہ تو لازماً کوئی ایسا ہی کارنامہ ہونا چاہیے جو اس نے خدا کی رضا کے لیے کیا ہو، اس کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے کیا ہو اور ان نتائج کو مقصود بنا کر کیا ہو جو آخرت میں نکلنے والے ہیں۔ ایسا کوئی کارنامہ اگر اس کے حساب میں نہیں ہے تو وہ ساری دوڑ دھوپ بلاشبہ اکارت گئی جو اس نے دنیا میں کی تھی۔

78. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ 10۔

79. یعنی اس حالت سے بہتر ور کوئی حالت ہوگی ہی نہیں کہ جنت کی زندگی کو اس سے بدل لینے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی خواہش پیدا ہو۔

80. ’’ باتوں ‘‘سے مراد اس کے کام اور کمالات اور عجائبِ قدرت و حکمت ہیں۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، لقمان ، حاشیہ 48۔