Tafheem ul Quran

Surah 18 Al-Kahf, Ayat 13-17

نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَيۡكَ نَبَاَهُمۡ بِالۡحَـقِّ​ؕ اِنَّهُمۡ فِتۡيَةٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّهِمۡ وَزِدۡنٰهُمۡ هُدًى​ۖ‏ ﴿18:13﴾ وَّرَبَطۡنَا عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ اِذۡ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ لَنۡ نَّدۡعُوَا۫ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اِلٰهًـا​ لَّـقَدۡ قُلۡنَاۤ اِذًا شَطَطًا‏  ﴿18:14﴾ هٰٓؤُلَاۤءِ قَوۡمُنَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اٰلِهَةً​ ؕ لَوۡ لَا يَاۡتُوۡنَ عَلَيۡهِمۡ بِسُلۡطٰنٍۢ بَيِّنٍ​ ؕ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا ؕ‏ ﴿18:15﴾ وَاِذِ اعۡتَزَلۡـتُمُوۡهُمۡ وَمَا يَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاۡوٗۤا اِلَى الۡـكَهۡفِ يَنۡشُرۡ لَـكُمۡ رَبُّكُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِهٖ وَيُهَيِّئۡ لَـكُمۡ مِّنۡ اَمۡرِكُمۡ مِّرۡفَقًا‏ ﴿18:16﴾ وَتَرَى الشَّمۡسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ كَهۡفِهِمۡ ذَاتَ الۡيَمِيۡنِ وَاِذَا غَرَبَتۡ تَّقۡرِضُهُمۡ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمۡ فِىۡ فَجۡوَةٍ مِّنۡهُ​ ؕ ذٰ لِكَ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ​ ؕ مَنۡ يَّهۡدِ اللّٰهُ فَهُوَ الۡمُهۡتَدِ ​ۚ وَمَنۡ يُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَهٗ وَلِيًّا مُّرۡشِدًا‏ ﴿18:17﴾

13 - ہم اِن کا اصل قصہ تم کو سُناتے ہیں۔9 وہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔10 14 - ہم نے ان کے دل اُس وقت مضبُوط کر دیے جب وہ اُٹھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ ”ہمارا ربّ تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا ربّ ہے ۔ ہم اُسے چھوڑ کر کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بیجا بات کریں گے۔“ 15 - (پھرانہوں نے آپس میں ایک دُوسرے سے کہا) ”یہ ہماری قوم تو ربِّ کائنات کو چھوڑ کر دُوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبُود، ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ آخراُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھُوٹ باندھے؟ 16 - اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبُودانِ غیراللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔11 تمہارا ربّ تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لیے سروسامان مہیّا کر دے گا۔“ 17 - تم انہیں غار میں دیکھتے12 تو تمہیں یُوں نظر آتا کہ سُورج جب نِکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اُتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔13 یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولیِّ مُرشد نہیں پاسکتے۔ ؏ ۲


Notes

9. اس قصے کی قدیم ترین شہادت شام کے ایک عیسائی پادری جیمس سروجی کے مواعظ میں پائی گئی ہے جو سریانی زبان میں لکھے گئے تھے۔ یہ شخص اصحاب کہف کی وفات کے چند سال بعد ۴۵۲ ء میں پیدا ہوا تھا اور اس نے ۴۷۴ ء کے لگ بھگ زمانے میں اپنے یہ مواعظ مرتب کیے تھے۔ ان مواعظ میں وہ اس پورے واقعے کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہی سریانی روایت ایک طرف ہمارے ابتدائی دور کے مفسرین کو پہنچی جسے ابن جریر طبری نے مختلف سندوں کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے ، اور دوسری طرف یورپ پہنچی جہاں یونانی اور لاطینی زبانوں میں اس کے ترجمے اور خلاصے شائع ہوئے۔ گبن نے اپنی کتاب ’’ تاریخ زوال و سقوط دولت روم‘‘ کے باب ۳۳ میں ’’ سات سونے والوں ‘‘ (Seven Sleepers ) کے عنوان کے تحت ان مآخذ سے اس قصے کا جو خلاصہ دیا ہے وہ ہمارے مفسرین کی روایات سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ دونوں قصے قریب قریب ایک ہی ماخذ سے ماخوذ معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً جس بادشاہ کے ظلم سے بھاگ کر اصحاب کہف غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے ، ہمارے مفسرین اس کا نام وَقٗیَنُوس یا دقیانوس یا دَقْیُوس بتاتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ وہ قیصر ڈِیسِیس (Decius )تھا جس نے ۲۴۹ ء سے ۲۵۱ ء تک سلطنت روم پر فرمانروائی کی ہے اور مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر ظلم و ستم کرنے کے معاملہ میں جس کا عہد بہت بد نام ہے۔ جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام ہمارے مفسرین اَفْسُس یا افسوس لکھتے ہیں ، اور گبن اس کا نام اِفِسُس(Ephesus ) بتاتا ہے جو ایشیائے کو چک کے مغربی ساحل پر رومیوں کا سب سے بڑا شہر اور مشہور بندر گاہ تھا، جس کے کھنڈر آج موجودہ ٹرکی کے شہر از میر (سمرنا) سے ۲۰۔ ۲۵ میل بجانب جنوب پائے جاتے ہیں (ملاحظہ ہو نقشہ نمبر ۲ صفحہ ۴۳)۔ پھر جس بادشاہ کے عہد میں اصحاب کہف جاگے اس کا نام ہمارے مفسرین تیذو سیس لکھتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ ان کے بعث کا واقعہ قیصر تھیوڈو سیس (Theodosious ) ثانی کے زمانے میں پیش آیا جو رومی سلطنت کے عیسائیت قبول کر لینے کے بعد ۴۰۸ ء سے ۴۵۰ ء تک روم کا قیصر رہا۔ دونوں بیانات کی مماثلت کی حد یہ ہے کہ اصحاب کہف نے بیدار ہونے کے بعد اپنے جس رفیق کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا تھا اس کا نام ہمارے مفسرین یَمْلِیخا بتاتے ہیں اور گبن اسے یَمْلِیخسُ (Jamblichus ) لکھتا ہے قصے کی تفصیلات دونوں روایتوں میں یکساں ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ قیصر ڈیسیس کی سلطنت کے اڑ تیسویں سال (یعنی تقریباً ۴۴۵ ء یا ۴۴۶ء میں ) یہ لوگ بیدار ہوئے جبکہ پوری رومی سلطنت مسیح علیہ السلام کی پیرو بن چکی تھی۔ اس حساب سے غار میں ان کے رہنے کی مدت تقریباً ۱۹۶ سال بنتی ہے۔ بعض مستشرقین نے اس قصے کو قصۂ اصحاب کہف کا مترادف ماننے سے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ آگے قرآن ان کے قیام غار کی مدت ۳۰۹ سال بیان کر رہا ہے۔ لیکن اس کا جواب ہم نے حاشیہ نمبر ۲۵ میں دے دیا ہے۔

اس سریانی روایت اور قرآن کے بیان میں کچھ جزوی اختلافات بھی ہیں جن کو بنیاد بنا کر گبن نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ’’جہالت ‘‘ کا الزام لگایا ہے ، حالانکہ جس روایت کے اعتماد پر وہ اتنی بڑی جسارت کر رہا ہے اس کے متعلق وہ خود مانتا ہے کہ وہ اس واقعے کے تیس چالیس سال بعد شام کے ایک شخص نے لکھی ہے اور اتنی مدت کے اندر زبانی روایات کے ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچنے میں کچھ نہ کچھ فرق ہو جایا کرتا ہے۔ اس طرح کی ایک روایت کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ حرف بحرف صحیح ہے اور اس کے کسی جز میں اختلاف ہونا لازماً قرآن ہی کی غلطی ہے ، صرف ان ہٹ دھرم لوگوں کو زیب دیتا ہے جو مذہبی تعصب میں عقل کے معمولی تقاضوں تک کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ (قصہ اصحاب کہف کے متعلق مزید معلومات ضمیمہ نمبر ۱ میں بیان کی گئی ہیں جو کتاب کے آخرت میں درج ہے )۔

10. یعنی جب وہ سچے دل سے ایمان لے آئے تو اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا اور ان کو یہ توفیق بخشی کہ حق اور صداقت پر ثابت قدم رہیں ، اور اپنے آپ کو خطرے میں ڈال لینا گوارا کر لیں مگر باطل کے آگے سر نہ جھکائیں۔

11. جس زمانے میں ان خدا پرست نوجوانوں کو آبادیوں سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی تھی اس وقت شہر اِفسُس ایشیائے کو چک میں بُت پرسی اور جادو گری کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہاں ڈائنا دیوی کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا کے لیے آتے تھے۔ وہاں کے جادو گر، عامل ، فال گیر اور تعویذ نویس دنیا بھر میں مشہور تھے۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی اچھا خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کو حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب کرتے تھے (ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر عنوان Ephesus شرک اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں خدا پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اصحاب کہف کے اس فقرے سے کیا جا سکتا ہے ، جو اگلے رکوع میں آ رہا ہے ، کہ ’’ اگر ان کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس ہمیں سنگسار ہی کر ڈالیں گے یا پھر زبردستی اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے۔

12. بیچ میں یہ ذکر چھوڑ دیا گیا کہ اس قرار داد باہمی کے مطابق یہ لوگ شہر سے نکل کر پہاڑوں کے درمیان ایک غار میں جا چھپے تاکہ سنگسار ہونے یا مجبوراً مرتد ہو جانے سے بچ سکیں۔

13. یعنی ان کے غار کا دہانہ شمال کے رخ تھا جس کی وجہ سے سورج کی روشنی کسی موسم میں بھی اندر نہ پہنچتی تھی اور باہر سے گزرنے والا یہ نہ دیکھ سکتا تھا کہ اندر کون ہے۔