36. اس مثال کی مناسبت سمجھنے کے لیے پچھلے رکوع کی وہ آیت نگاہ میں رہنی چاہیے جس میں مکے کے متکبر سرداروں کی اس بات کا جواب دیا گیا تھا کہ ہم غریب مسلمانوں کے ساتھ آ کر نہیں بیٹھ سکتے ، انہیں ہٹا دیا جائے تو ہم آ کر سنیں گے کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ اس مقام پر وہ مثال بھی نگاہ میں رہے جو سورہ القلم، آیات ۱۷ تا ۳۳ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ نیز سورہ مریم، آیات ۷۳، ۷۴۔ سورہ المومنون ، آیات ۵۵ تا ۶۱۔ سورہ سبا ، آیات ۳۴ تا ۳۶ ، اور حٰمٰ سجدہ ، آیات ۴۹۔ ۵۰ پربھی ایک نظر ڈال لی جائے۔
37. یعنی جن باغوں کو وہ اپنی جنت سمجھ رہا تھا۔ کم ظرف لوگ جنہیں دنیا میں کچھ شان و شوکت حاصل ہو جاتی ہے ، ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انہیں دنیا ہی میں جنت نصیب ہو چکی ہے ، اب اور کونسی جنت ہے جسے حاصل کرنے کی وہ فکر کریں۔
38. یعنی اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہے بھی تو میں وہاں اس سے بھی زیادہ خوش حال رہوں گا کیونکہ یہاں میرا خوشحال ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ میں خدا کا محبوب اور اس کا چہیتا ہوں۔
39. اگر چہ اس شخص نے خدا کی ہستی سے انکار نہیں کیا تھا، بلکہ وَلَئِنْ رُّ دِدْتُّ اِلٰی رِبِّیْ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خدا کے وجود کا قائل تھا، لیکن اس کے باوجود اس کے ہمسائے نے اسے کفر باللہ کا مجرم قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر باللہ محض ہستی باری کے انکار ہی کا نام نہیں ہے بلکہ تکبُّر اور فخر و غرور اور انکار آخرت بھی اللہ سے کفر ہی ہے۔ جس نے یہ سمجھا کہ بس میں ہی میں ہوں ، میری دولت اور شان و شوکت کسی کا عطیہ نہیں بلکہ میری قوت و قابلیت کا نتیجہ ہے ، اور میری دولت لازوال ہے ، کوئی اس کو مجھ سے چھیننے والا نہیں ، اور کسی کے سامنے مجھے حساب دینا نہیں ، وہ اگر خدا کو مانتا بھی ہے تو محض ایک وجود کی حیثیت سے مانتا ہے ، اپنے مالک اور آقا اور فرماں روا کی حیثیت سے نہیں مانتا۔ حالانکہ ایمان باللہ اِسی حیثیت سے خدا کو ماننا ہے نہ کہ محض ایک موجود ہستی کی حیثیت سے۔
40. ’’ یعنی جو کچھ اللہ چاہے وہی ہوگا۔ میرا اور کسی کا زور نہیں ہے۔ ہمارا اگر کچھ بس چل سکتا ہے تو اللہ ہی کی توفیق و تائید سے چل سکتا ہے۔‘‘