41. یعنی وہ زندگی بھی بخشتا ہے اور موت بھی۔ وہ عروج بھی عطا کرتا ہے اور زوال بھی۔ اس کے حکم سے بہار آتی ہے تو خزاں بھی آ جاتی ہے۔ اگر آج تمہیں عیش اور خوشحالی میسر ہے تو اس غرے میں نہ رہو کہ یہ حالت لازوال ہے۔ جس خدا کے حکم سے یہ کچھ تمہیں ملا ہے اسی کے حکم سے سب کچھ تم سے چھن بھی سکتا ہے۔
42. یعنی جبکہ زمین کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی اور پہاڑ اس طرح چلنے شروع ہونگے جیسے بادل چلتے ہیں۔ اس کیفیت کو ایک دوسرے مقام پر قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَتَرَی الْجِبَا لَ تَحْسَبُھَا جَا مِدَۃً وَّھِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ (النحل۔ آیت ۸۸)۔ ’’تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ سخت جمے ہوئے ہیں۔ مگر وہ چلیں گے اس طرح جیسے بادل چلتے ہیں ‘‘۔
43. یعنی اس پر کوئی روئیدگی اور کوئی عمارت باقی نہ رہے گی، بالکل ایک چٹیل میدان بن جائے گی۔ یہ وہی بات ہے جو اس سورے کے آغاز میں ارشاد ہوئی تھی کہ ’’ جو کچھ اس زمین پر ہے اسے ہم نے لوگوں کی آزمائش کے لیے ایک عارضی آرائش بنا یا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بالکل ایک بے آب و گیاہ صحرا بن کر رہ جائے گی‘‘۔
44. یعنی ہر انسان جو آدم سے لے کر قیامت کی آخری ساعت تک پیدا ہوا ہے ، خواہ ماں کے پیٹ سے نکل کر اس نے ایک ہی سانس لیا ہو، اس وقت دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور سب کو ایک وقت میں جمع کر دیا جائے گا۔
45. یعنی اس وقت منکرین آخرت سے کہا جائے گا کہ دیکھو، انبیاء کی دی ہوئی خبر سچی ثابت ہوئی نا۔ وہ تمہیں بتاتے تھے کہ جس طرح اللہ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے اسی طرح دو بارہ پیدا کرے گا ، مگر تم اسے ماننے سے انکار کرتے تھے۔ بتاؤ، اب دوبارہ تم پیدا ہو گئے یا نہیں ؟
46. یعنی ایسا ہر گز نہ ہوگا کہ کسی نے کوئی جرم نہ کیا ہو اور وہ خواہ مخواہ اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جائے ، اور نہ یہی ہوگا کہ آدمی کو اس کے جرم سے بڑھ کر سزا دی جائے یا بیگناہ پکڑ کر سزا دے ڈالی جائے۔