Tafheem ul Quran

Surah 18 Al-Kahf, Ayat 50-53

وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰۤـئِكَةِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَؕ كَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّهٖؕ اَفَتَـتَّخِذُوۡنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗۤ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِىۡ وَهُمۡ لَـكُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِيۡنَ بَدَلًا‏  ﴿18:50﴾ مَّاۤ اَشۡهَدْتُّهُمۡ خَلۡقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَلَا خَلۡقَ اَنۡفُسِهِمۡ وَمَا كُنۡتُ مُتَّخِذَ الۡمُضِلِّيۡنَ عَضُدًا‏ ﴿18:51﴾ وَيَوۡمَ يَقُوۡلُ نَادُوۡا شُرَكَآءِىَ الَّذِيۡنَ زَعَمۡتُمۡ فَدَعَوۡهُمۡ فَلَمۡ يَسۡتَجِيۡبُوۡا لَهُمۡ وَجَعَلۡنَا بَيۡنَهُمۡ مَّوۡبِقًا‏ ﴿18:52﴾ وَرَاَ الۡمُجۡرِمُوۡنَ النَّارَ فَظَنُّوۡۤا اَنَّهُمۡ مُّوَاقِعُوۡهَا وَ لَمۡ يَجِدُوۡا عَنۡهَا مَصۡرِفًا‏ ﴿18:53﴾

50 - یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔ 47 وہ جِنّوں میں سے تھا اس لیے اپنے ربّ کے حکم کی اطاعت سے نِکل گیا۔ 48 اب کیا تم مجھے چھوڑ کو اُس کو اور اُس کی ذُرّیّت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دُشمن ہیں؟ بڑا ہی بُرا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں۔ 51 - میں نے آسمان و زمین پیدا کرتے وقت اُن کو نہیں بُلایا تھا اور نہ خود اُن کی اپنی تخلیق میں انہیں شریک کیا تھا۔ 49 میرا یہ کام نہیں ہے کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا مدد گار بنایا کروں۔ 52 - پھر کیا کریں گے یہ لوگ اُس روز جبکہ اِن کا ربّ اِن سے کہے گا کہ پکارو اب اُن ہستیوں کو جنھیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے۔ 50 یہ اُن کو پکاریں گے ، مگر وہ اِن کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کر دیں گے۔ 51 53 - سارے مُجرم اُس روز آگ دیکھیں گے اور سمجھ لیں گے کہ اب انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پائیں گے۔ ؏ ۷


Notes

47. اس سلسلہ کلام میں قصہ آدم و ابلیس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود گمراہ انسانوں کو ان کی اس حماقت پر متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنے رحیم و شفیق پروردگار اور خیر خواہ پیغمبروں کو چھوڑ کر اپنے اس ازلی دشمن کے پھندے میں پھنس رہے ہیں جو اول روزِ آفرینش سے ان کے خلاف حسد رکھتا ہے۔

48. یعنی ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا بلکہ جنوں میں سے تھا، اسی لیے اطاعت سے باہر ہوجانا اس کے لیے ممکن ہوا۔ فرشتوں کے متعلق قرآن تصریح کرتا ہے کہ وہ فطرۃً مطیع فرمان ہیں : لَایَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُؤْمَرْوْنَ التحریم 6)جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ (النحل ۵۰) ’’ وہ سرکشی نہیں کرتے ، اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے ‘‘۔ بخلاف اس کے جن انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے پیدائشی فرمان بردار نہیں بنایا گیا بلکہ کفر و ایمان اور طاعت و معصیت ، دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ اس حقیقت کو یہاں کھولا گیا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اس لیے اس نے خود اپنے اختیار سے فسق کی راہ انتخاب کی۔ یہ تصریح ان تمام غلط فہمیوں کو رفع کر دیتی ہے جو عموماً لوگوں میں پائی جاتی ہیں کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا اور فرشتہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ معلم الملکوت۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الحِجر،آیت ۲۷۔ اور الجِن ، آیات ۱۳۔ ۱۵)۔ رہا یہ سوال کی جب ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا تو پھر قرآن کا یہ طرزِ بیان کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے کہ ’’ ہم نے ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس ان سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا‘‘؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے کے معنی یہ تھے کہ وہ تمام مخلوقات ارضی بھی انسان کی مطیع فرمان بن جائے جو کرۂ زمین کی عملداری میں فرشتوں کے زیر انتظام آباد ہیں۔چنانچہ فرشتوں کے ساتھ یہ سب مخلوقات بھی سر بسجود ہوئیں۔ مگر ابلیس نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ (لفظ ابلیس کے معنی کے لیے ملاحظہ ہو المومنون حاشیہ ۷۳)

49. مطلب یہ ہے کہ یہ شیاطین آخر تمہاری طاعت و بندگی کے مستحق کیسے بن گئے ؟ بندگی کا مستحق تو صرف خالق ہی ہو سکتا ہے۔ اور ان شیاطین کا حال یہ ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق میں شریک ہونا تو درکنار، یہ تو خود مخلوق ہیں۔

50. یہاں پھر وہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلے بھی کئی جگہ قرآن میں گزر چکا ہے کہ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے احکام اور رہنمائی کا اتباع کرنا در اصل اس کو خدائی میں اللہ کا شریک ٹھیرانا ہے ، خواہ آدمی اس دوسرے کو زبان سے خدا کا شریک قرار دیتا ہو یا نہ قرار دیتا ہو۔ بلکہ اگر آدمی ان دوسری ہستیوں پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی امر الہٰی کے مقابلے میں ان کے اوامر کا اتباع کر رہا ہو تب بھی وہ شرک کا مجرم ہے۔ چنانچہ یہاں شیاطین کے معاملے میں آپ علانیہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر ایک ان پر لعنت کرتا ہے ، مگر اس لعنت کے باوجود جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں ، قرآن ان سب کو یہ الزام دے رہا ہے کہ تم شیاطین کو خدا کا شریک بنائے ہوئے ہو۔ یہ شرک اعتقادی نہیں بلکہ شرک عملی ہے اور قرآن اس کو بھی شرک ہی کہتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول، النساء حاشیہ ۹۱۔ ۱۴۵۔ الانعام، حاشیہ ۶۷۔ ۱۰۷ جلد دوم التوبہ ، حاشیہ ۳۱۔ ابراہیم، حاشیہ ۲۳۔ جلد سوم، مریم، حاشیہ ۲۷۔ المومنون، حاشیہ ۴۱۔ الفرقان، حاشیہ ۵۶۔ القصص، حاشیہ ۸۶ جلد چہارم ، سَبَا ، حاشیہ ۵۹۔ ۶۰۔ ۶۱۔ ۶۲ ۶۳۔ یٰسین ، حاشیہ ۵۳ ، الشوریٰ، حاشیہ ۳۸۔ لجاثیہ، حاشیہ ۳۰۔

51. مفسرین نے اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے اوپر ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ’’ ہم ان کے درمیان عداوت ڈال دیں گے ‘‘۔ یعنی دنیا میں ان کے درمیان جو دوستی تھی آخرت میں وہ سخت عداوت میں تبدیل ہو جائے گی۔