Tafheem ul Quran

Surah 18 Al-Kahf, Ayat 54-59

وَلَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِىۡ هٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِلنَّاسِ مِنۡ كُلِّ مَثَلٍ​ ؕ وَكَانَ الۡاِنۡسَانُ اَكۡثَرَ شَىۡءٍ جَدَلًا‏ ﴿18:54﴾ وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ يُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَهُمُ الۡهُدٰى وَيَسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّهُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِيَهُمۡ سُنَّةُ الۡاَوَّلِيۡنَ اَوۡ يَاۡتِيَهُمُ الۡعَذَابُ قُبُلًا‏ ﴿18:55﴾ وَمَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِيۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِيۡنَ وَمُنۡذِرِيۡنَ​ ۚ وَيُجَادِلُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِالۡبَاطِلِ لِـيُدۡحِضُوۡا بِهِ الۡحَـقَّ​ وَاتَّخَذُوۡۤا اٰيٰتِىۡ وَمَاۤ اُنۡذِرُوۡا هُزُوًا‏ ﴿18:56﴾ وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ فَاَعۡرَضَ عَنۡهَا وَنَسِىَ مَا قَدَّمَتۡ يَدٰهُ​ ؕ اِنَّا جَعَلۡنَا عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ اَكِنَّةً اَنۡ يَّفۡقَهُوۡهُ وَفِىۡۤ اٰذَانِهِمۡ وَقۡرًا​ ؕ وَاِنۡ تَدۡعُهُمۡ اِلَى الۡهُدٰى فَلَنۡ يَّهۡتَدُوۡۤا اِذًا اَبَدًا‏ ﴿18:57﴾ وَرَبُّكَ الۡغَفُوۡرُ ذُوۡ الرَّحۡمَةِ​ ؕ لَوۡ يُؤَاخِذُهُمۡ بِمَا كَسَبُوۡا لَعَجَّلَ لَهُمُ الۡعَذَابَ​ ؕ بَلْ لَّهُمۡ مَّوۡعِدٌ لَّنۡ يَّجِدُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖ مَوۡـئِلًا‏ ﴿18:58﴾ وَتِلۡكَ الۡقُرٰٓى اَهۡلَكۡنٰهُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا وَجَعَلۡنَا لِمَهۡلِكِهِمۡ مَّوۡعِدًا‏ ﴿18:59﴾

54 - ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ 55 - اُن کے سامنے جب ہدایت آئی تو اسے ماننے اور اپنے ربّ کے حضور معافی چاہنے سے آخر اُن کو کس چیز نے روک دیا ؟ اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ منتظر ہیں کہ اُن کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو پچھلی قوموں کےساتھ ہو چکا ہے، یا یہ کہ وہ عذاب کو سامنے آتے دیکھ لیں! 52 56 - رسُولوں کو ہم اس کا م کے سوا اور کسی غرض کے لیے نہیں بھیجتے کہ وہ بشارت اور تنبیہ کی خدمت انجام دیں گے۔ 53 مگر کافروں کا حال یہ ہےکہ وہ باطل کے ہتھیار لے کر حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اُنہوں نے میری آیات کو اور اُن تنبیہات کو جو انہیں کی گئیں مذاق بنا لیا ہے۔ 57 - اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اُس کے ربّ کی آیات سُناکر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیرے اور اُس بُرے انجام کو بھول جائے جس کا سروسامان اُس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟(جن لوگوں نے یہ روش اختیار کی ہے)ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیے ہیں جو انہیں قرآن کی بات نہیں سمجھنے دیتے، اور اُن کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کر دی ہے۔ تم انھیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بُلاوٴ، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے۔ 54 58 - تیرا ربّ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ وہ ان کے کرتُوتوں پر انھیں پکڑنا چاہتا تو جلدی ہی عذاب بھیج دیتا۔ مگر ان کے لیے وعدے کا ایک وقت مقرر ہے اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنے کی یہ کوئی راہ نہ پائیں گے۔ 55 59 - یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں۔ 56 انہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔ ؏ ۸


Notes

52. یعنی جہاں تک دلیل و حجت کا تعلق ہے، قرآن نے حق واضح کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ دل اور دماغ کو اپیل کرنے کے جتنے موٴثر طریقے اختیار کرنے ممکن تھے، وہ سب بہترین انداز میں یہاں اختیار کئے جا چکے ہیں۔ اب وہ کیا چیز ہے جو انہیں قبول حق میں مانع ہورہی ہے؟ صرف یہ کہ انہیں عذاب کا انتظار ہے۔ جوتے کھائے بغیر سیدھے نہیں ہونا چاہتے۔

53. اس آیت کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی یہاں چسپاں ہوتے ہیں : ایک یہ کہ رسولوں کو ہم اسی لیے بھیجتے ہیں کہ فیصلے کا وقت آنے سے پہلے لوگوں کو فرماں برداری کے اچھے اور نافرمانی کے برے انجام سے خبر دار کریں۔ مگر یہ بے وقوف لوگ ان پیشگی تنبیہات سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے اور اسی انجام بد کو دیکھنے پر مصر ہیں جس سے رسول انہیں بچانا چاہتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کو عذاب ہی دیکھنا منظور ہے تو پیغمبر سے اس کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ پیغمبر عذاب دینے کے لیے نہیں بلکہ عذاب سے پہلے صرف خبردار کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔

54. یعنی جب کوئی شخص یا گروہ دلیل و حجت اور خیر خواہانہ نصیحت کے مقابلے میں جھگڑالو پن پر اتر آتا ہے ، اور حق کا مقابلہ جھوٹ اور مکر و فریب کے ہتھیاروں سے کرنے لگتا ہے ، اور اپنے کرتوتوں کا برا انجام دیکھنے سے پہلے کسی کے سمجھانے سے اپنی غلطی ماننے پر تیار نہیں ہوتا، تو اللہ تعالیٰ پھر اس کے دل پر قفل چڑھا دیتا ہے اور اس کے کان ہر صدائے حق کے لیے بہرے کر دیتا ہے۔ ایسے لوگ نصیحت سے نہیں مانا کرتے بلکہ ہلاکت کے گڑھے میں گر کر ہی انہیں یقین آتا ہے کہ وہ ہلاکت تھی جس کی راہ پر وہ بڑھے چلے جا رہے تھے۔

55. یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جس وقت کسی سے قصور سرزد ہو اسی وقت پکڑ کر اسے سزا دے ڈالے۔ یہ اس کی شان رحیمی کا تقاضا ہے کہ مجرموں کے پکڑنے میں وہ جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور مدتوں ان کو سنبھلنے کا موقع دیتا رہتا ہے۔ مگر سخت نادان ہیں ہو لوگ جو اس ڈھیل کو غلط معنی میں لیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ خواہ کچھ ہی کرتے رہیں ، ان سے کبھی باز پرس ہوگی ہی نہیں۔

56. اشارہ ہے سبا اور ثمود اور مدین اور قوم لوط کے اجڑے دیاروں کی طرف جنہیں قریش کے لوگ اپنے تجارتی سفروں میں آتے جاتے دیکھا کرتے تھے اور جن سے عرب کے دوسرے لوگ بھی خوب واقف تھے۔