Tafheem ul Quran

Surah 18 Al-Kahf, Ayat 83-101

وَيَسۡـئَلُوۡنَكَ عَنۡ ذِى الۡقَرۡنَيۡنِ​ ؕ قُلۡ سَاَ تۡلُوۡا عَلَيۡكُمۡ مِّنۡهُ ذِكۡرًا ؕ‏ ﴿18:83﴾ اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِى الۡاَرۡضِ وَاٰتَيۡنٰهُ مِنۡ كُلِّ شَىۡءٍ سَبَبًا ۙ‏ ﴿18:84﴾ فَاَ تۡبَعَ سَبَبًا‏ ﴿18:85﴾ حَتّٰٓى اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَهَا تَغۡرُبُ فِىۡ عَيۡنٍ حَمِئَةٍ وَّوَجَدَ عِنۡدَهَا قَوۡمًا ؕ ​قُلۡنَا يٰذَا الۡقَرۡنَيۡنِ اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ وَاِمَّاۤ اَنۡ تَتَّخِذَ فِيۡهِمۡ حُسۡنًا‏ ﴿18:86﴾ قَالَ اَمَّا مَنۡ ظَلَمَ فَسَوۡفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ يُرَدُّ اِلٰى رَبِّهٖ فَيُعَذِّبُهٗ عَذَابًا نُّكۡرًا‏ ﴿18:87﴾ وَاَمَّا مَنۡ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَلَهٗ جَزَآءَ  ۨالۡحُسۡنٰى​ ۚ وَسَنَقُوۡلُ لَهٗ مِنۡ اَمۡرِنَا يُسۡرًا ؕ‏ ﴿18:88﴾ ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا‏ ﴿18:89﴾ حَتّٰٓى اِذَابَلَغَ مَطۡلِعَ الشَّمۡسِ وَجَدَهَا تَطۡلُعُ عَلٰى قَوۡمٍ لَّمۡ نَجۡعَلْ لَّهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهَا سِتۡرًا ۙ‏ ﴿18:90﴾ كَذٰلِكَؕ وَقَدۡ اَحَطۡنَا بِمَا لَدَيۡهِ خُبۡرًا‏ ﴿18:91﴾ ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا‏ ﴿18:92﴾ حَتّٰٓى اِذَا بَلَغَ بَيۡنَ السَّدَّيۡنِ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِهِمَا قَوۡمًا ۙ لَّا يَكَادُوۡنَ يَفۡقَهُوۡنَ قَوۡلًا‏ ﴿18:93﴾ قَالُوۡا يٰذَا الۡقَرۡنَيۡنِ اِنَّ يَاۡجُوۡجَ وَمَاۡجُوۡجَ مُفۡسِدُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ فَهَلۡ نَجۡعَلُ لَكَ خَرۡجًا عَلٰٓى اَنۡ تَجۡعَلَ بَيۡنَـنَا وَبَيۡنَهُمۡ سَدًّا‏ ﴿18:94﴾ قَالَ مَا مَكَّنِّىۡ فِيۡهِ رَبِّىۡ خَيۡرٌ فَاَعِيۡنُوۡنِىۡ بِقُوَّةٍ اَجۡعَلۡ بَيۡنَكُمۡ وَبَيۡنَهُمۡ رَدۡمًا ۙ‏ ﴿18:95﴾ اٰتُوۡنِىۡ زُبَرَ الۡحَدِيۡدِ​ ؕ حَتّٰٓى اِذَا سَاوٰى بَيۡنَ الصَّدَفَيۡنِ قَالَ انْـفُخُوۡا​ ؕ حَتّٰٓى اِذَا جَعَلَهٗ نَارًا ۙ قَالَ اٰتُوۡنِىۡۤ اُفۡرِغۡ عَلَيۡهِ قِطۡرًا ؕ‏ ﴿18:96﴾ فَمَا اسۡطَاعُوۡۤا اَنۡ يَّظۡهَرُوۡهُ وَمَا اسۡتَطَاعُوۡا لَهٗ نَـقۡبًا‏ ﴿18:97﴾ قَالَ هٰذَا رَحۡمَةٌ مِّنۡ رَّبِّىۡ​ ۚ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ رَبِّىۡ جَعَلَهٗ دَكَّآءَ​ ۚ وَكَانَ وَعۡدُ رَبِّىۡ حَقًّا ؕ‏ ﴿18:98﴾ وَتَرَكۡنَا بَعۡضَهُمۡ يَوۡمَـئِذٍ يَّمُوۡجُ فِىۡ بَعۡضٍ​ وَّنُفِخَ فِى الصُّوۡرِ فَجَمَعۡنٰهُمۡ جَمۡعًا ۙ‏ ﴿18:99﴾ وَّعَرَضۡنَا جَهَـنَّمَ يَوۡمَـئِذٍ لِّـلۡكٰفِرِيۡنَ عَرۡضَا ۙ‏ ﴿18:100﴾ اۨلَّذِيۡنَ كَانَتۡ اَعۡيُنُهُمۡ فِىۡ غِطَآءٍ عَنۡ ذِكۡرِىۡ وَكَانُوۡا لَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ سَمۡعًا‏ ﴿18:101﴾

83 - اور اے محمدؐ ، یہ لوگ تم سے ذُوالقرنین کے بارے میں پُوچھتے ہیں۔ 61 ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سُناتا ہوں۔ 62 84 - ہم نے اس کو زمین میں اقتدار عطا کر رکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے۔ 85 - اس نے (پہلے مغرب کی طرف ایک مہم کا)سرو سامان کیا۔ 86 - حتیٰ کہ جب وہ غروبِ آفتاب کی حَد تک پہنچ گیا 63 تو اس نے سُورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا 64 اور وہاں اُسے ایک قوم ملی۔ ہم نے کہا” اے ذوالقرنین، تجھے یہ مقدرت بھی حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ اِن کے ساتھ نیک رویّہ اختیار کرے۔“ 65 87 - اس نے کہا، ”جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے ربّ کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا۔ 88 - اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اُس کے لیے اچھی جزا ہے اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے۔“ 89 - پھر اُس نے (ایک دُوسری مہم کی)تیاری کی 90 - یہاں تک کہ طلوعِ آفتاب کی حد تک جا پہنچا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سُورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جس کےلیے دُھوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے۔ 66 91 - یہ حال تھا اُن کا، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا اُسے ہم جانتے تھے۔ 92 - پھر اس نے ( ایک اور مہم کا)سامان کیا 93 - یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا 67 تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل ہی سے کوئی بات سجھتی تھی۔ 68 94 - اُن لوگوں نے کہا کہ ”اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج 69 اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ تو کیا ہم تجھے کوئی ٹیکس اس کام لیے دیں کہ تُو ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کر دے؟“ 95 - اُس نے کہا ”جو کچھ میرے ربّ نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے۔ تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں۔ 70 96 - مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو۔“ آخر جب دونوں پہاڑوں کے درمیان خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ اب آگ دہکاوٴ۔ حتیٰ کہ جب (یہ آہنی دیوار)بالکل آگ کی طرح سُرخ ہوگئی تو اس نے کہا” لاوٴ، اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا۔“ 97 - (یہ بند ایسا تھا کہ)یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہ آسکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان کے لیے اور بھی مشکل تھا۔ذ 98 - والقرنین نے کہا ”یہ میرے ربّ کی رحمت ہے ۔ مگر جب میرے ربّ کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوندِ خاک کر دے گا، 71 اور میرے ربّ کا وعدہ برحق ہے۔“ 72 99 - اور اُس روز 73 ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ (سمندر کی موجوں کی طرح )ایک دُوسرے سے گتھم گتھا ہوں اور صُور پھُونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ جمع کریں گے۔ 100 - اور وہ دن ہوگا جب ہم جہنّم کو کافروں کے سامنے لائیں گے ، 101 - اُن کافروں کے سامنے جو میری نصیحت کی طرف سے اندھے بنے ہوئے تھے اور کچھ سُننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ ؏ ۱۱


Notes

61. وَیَسْئَلُوْ نَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ کا عطف لا محالہ پچھلے قصے ہی پر ہے۔ اس سے خود بخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ قصۂ موسیٰ و خضر بھی لوگوں کے سوال ہی کے جواب میں سنایا گیا ہے اور یہ بات ہمارے اس قیاس کی تائید کرتی ہے کہ اس سورے کے یہ تینوں اہم قصے در اصل کفار مکہ نے اہل کتاب کے مشورے سے امتحاناً دریافت کیے تھے۔

62. یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ’’ ذوالقرنین‘‘ جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے ، کون تھا۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا ، لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس(خسرو یا سائرس) کی طرف ہے ، اور یہ نسبۃً زیادہ قرین قیاس ہے ، مگر بہر حال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔

قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں :

1) ۔ اس کا لقب ذو القرنین (لغوی معنی ’’دو سینگوں والا‘‘ ) کم از کم یہودیوں میں ، جن کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تھا، ضرور معروف ہونا چاہیے۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ ’’ دو سینگوں والے ‘‘کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے۔

2) ۔ وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں ، اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں۔ ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی۔

3) ۔ اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج و ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی در ے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں ، اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے علاقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے۔

4) ۔ اس میں مذکورہ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے۔

ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جا سکتی ہے ، کیونکہ بائیبل کے صحیفہ دانی ایک میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک منڈھے کی شکل میں دیکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے۔ یہودیوں میں اس ’’ دو سینگوں والے ‘‘ کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور نبی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی (تفہیم القرآن سورہ نبی اسرائیل ، حاشیہ 8 ) دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے ، مگر پوری طرح نہیں۔ اس کی فتوحات بلاشبہ مغرب میں ایشیائے کو چک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں با ختر (بلخ) تک وسیع ہوئیں ، مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے ، حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے ، تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے ، کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کاکیشیا(قفقاز) تک وسیع تھی۔

تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری منگولی، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور داریال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ خورس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے۔

آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جا سکتی ہے تو وہ خورس ہی ہے۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائیبل کی کتاب عزْرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا۔

اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر’’ ذو القرنین‘‘ کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں ، لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین قرار دے دینے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے۔ تا ہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا خورس ہے۔

تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج 549 ق۔ م۔ کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا (یشیائے کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد 539 ق، م، میں بابل کو بھی فتح کر لیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صُغد (موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک، اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہو گیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا) اور خوار زم تک پھیل گئی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔

63. غروب آفتاب کی حد سے مراد، جیسا کہ ابن کثیر نے لکھا ہے : اقصٰی ما یسلک فیہ من الارض میں ناحیۃ المن ب ہے نہ کہ آفتاب غروب ہونے کی جگہ۔ مراد یہ ہے کہ وہ مغرب کی جانب ملک پر ملک فتح کرتا ہوا خشکی کے آخری سرے تک پہنچ گیا جس کے آگے سمندر تھا۔

64. یعنی وہاں غروب آفتاب کے وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سورج سمندر کے سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے۔ اگر فی الواقع ذو القرنین سے مراد خورس ہی ہو تو یہ ایشیائے کوچک کا مغربی ساحل ہو گا جہاں بحرایجین چھوڑی چھوٹی خلیجوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس قیاس کی تائید یہ بات بھی کرتی ہے کہ قرآن یہاں بحر کے بجائے عین کا لفظ استعمال کرتا ہے جو سمندر کے بجائے جھیل یا خلیج ہی پر زیادہ صحت کے ساتھ بولا جا سکتا ہے۔

65. ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات براہ راست وحی یا الہام کے ذریعہ ہی سے ذو القرنین کو خطاب کر کے فرمائی ہو، حتیٰ کہ اس سے ذو القرنین کا نبی یا محدث ہونا لازم آئے۔ بلکہ یہ ارشاد زبان حال کے واسطے سے بھی ہو سکتا ہے ، اور یہی قرین قیاس ہے۔ ذو القرنین اس وقت فتح یاب ہو کر اس علاقے پر قابض ہوا تھا۔ مفتوح قوم اس کے بس میں تھی۔ اللہ نے اس صورت حال میں اس کے ضمیر کے سامنے یہ سوال رکھ دیا کہ یہ تیرے امتحان کا وقت ہے۔ یہ قوم تیرے آگے بے بس ہے۔ تو ظلم کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ، اور شرافت کا سلوک کرنا چاہے تو یہ بھی تیرے اختیار میں ہے۔

66. یعنی وہ ممالک فتح کرتا ہوا مشرق کی جانب ایسے علاقے تک پہنچ گیا جہاں مہذب دنیا کی سرحد ختم ہو گئی تھی اور آگے ایسی وحشی قوموں کا علاقہ تھا جو عمارتیں بنانا تو درکنار خیمے بنانا تک نہ جانتی تھیں۔

67. چونکہ آگے یہ ذکر آ رہا ہے کہ ان دونوں پہاڑوں کے اس طرف یاجوج ماجوج کا علاقہ تھا، اس لیے لامحالہ ان پہاڑوں سے مراد کا کیشیا کے وہ پہاڑی سلسلے ہی ہو سکتے ہیں جو بحر خزر (کیسپین) اور بحر اسود کے درمیان واقع ہیں۔

68. یعنی ان کی زبان ذو القرنین اور اس کے ساتھیوں کے لیے قریب قریب بالکل اجنبی تھی۔ سخت وحشی ہونے کے سبب سے نہ کوئی ان کی زبان سے واقف تھا اور نہ وہ کسی غیر زبان سے واقف تھے۔

69. یاجوج ماجوج سے مراد، جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر 62 میں اشارہ کیا جا چکا ہے ، ایشیا کے شمالی مشرقی علاقے کی وہ قومیں ہیں جو قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملے کرتی رہی ہیں اور جن کے سیلاب وقتاً فوقتاً اُٹھ کر ایشیا اور یورپ، دونوں طرف رُخ کرتے رہے ہیں۔ بائیبل کی کتاب پیدائش (اب 10) میں ان کو حضرت نوحؑ کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے ، اور یہی بیان مسلمان مؤرخین کا بھی ہے۔ حزقی ایل کے صحیفے (باب 38و 39) میں سے مراد سیتھین قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحر اسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا۔ جیروم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشیا کے شمال میں بحر خَزَر کے قریب آباد تھے۔

70. یعنی فرمانروا ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فرض ہے کہ اپنی رعایا کو غارت گروں کے حملے سے بچاؤں۔ اس کام کے لیے تم پر کوئی الگ ٹیکس لگانا میرے لیے جائز نہیں ہے۔ ملک کا جو خزانہ اللہ تعالیٰ نے میرے حوالے کیا ہے وہ اس خدمت کے لیے کافی ہے۔ البتہ ہاتھ پاؤں کی محنت سے تم کو میری مدد کرنی ہو گی۔

71. یعنی اگرچہ میں نے اپنی حد تک انتہائی مستحکم دیوار تعمیر کی ہے ، مگر یہ لازوال نہیں ہے۔ جب تک اللہ کی مرضی ہے ، یہ قائم رہے گی، اور جب وہ وقت آئے گا جو اللہ نے اس کی تباہی کے لیے مقدر کر رکھا ہے تو پھر اس کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی چیز نہ بچا سکے گی۔ ’’وعدے کا وقت ‘‘ ذو معنی لفظ ہے۔ اس سے مراد اس دیوار کی تباہی کا وقت بھی ہے اور وہ ساعت بھی جو اللہ نے ہر چیز کی موت اور فنا کے لیے مقرر فرما دی ہے ، یعنی قیامت۔ (اس دیوار کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۔ 2)

72. یہاں پہنچ کر ذو القرنین کا قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ قصہ اگر چہ کفار مکہ کے امتحانی سوال پر سنایا گیا ہے ، مگر قصۂ اصحاب کہف اور قصۂ موسیٰ و خضر کی طرح اس کو بھی قرآن نے اپنے قاعدے کے مطابق اپنے مدعا کے لیے پوری طرح استعمال کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ذو القرنین ، جس کی عظمت کا حال تم نے اہل کتاب سے سنا ہے ، محض ایک فاتح ہی نہ تھا، بلکہ توحید اور آخرت کا قائل تھا، عدل و انصاف اور فیاضی کے اصولوں پر عامل تھا، اور تم لوگوں کی طرح کم ظرف نہ تھا کہ ذرا سی سرداری ملی اور سمجھ بیٹھے کہ ہم چومن دیگے نیست۔

73. یعنی قیامت کے روز۔ ذو القرنین نے جو اشارہ قیامت کے وعدۂ بر حق کی طرف کیا تھا اسی کی مناسبت سے یہ فقرے اس کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائے جا رہے ہیں۔