13. تقابل کے لیے تفہیمُ القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حاشیہ نمبر ۴۲، ۵۵ ۔ النساء حاشیہ نمبر ۱۹۰- ۱۹۱۔
14. سُورۂ آلِ عمران میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مریم کی والدہ نے اپنی مانی ہوئی نذر کے مطابق ان کو بیتُ المَقدِس میں عبادت کے لیے بٹھا دیا تھا اور حضرت زکریا نے ان کی حفاظت و کفالت اپنے ذمہ لے لی تھی۔ وہاں یہ ذکر بھی گزر چکا ہے کہ حضرت مریم بیت المَقدِس کی ایک محراب میں معتکف ہو گئی تھیں۔ اب یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ محراب جس میں حضرت مریم معتکف تھیں بیت المَقدِس کے شرقی حصّے میں واقع تھی اور انہوں نے معتکفین کے عام طریقے کے مطابق کا ایک پردہ لٹکا کر اپنے آپ کو دیکھنے والوں کی نگاہوں سے محفوظ کر لیا تھا ۔ جن لوگوں نے محض بائیبل کی موافقت کی خاطر مکانًا شرقیًا سے مراد ناصرہ لیا ہے انہوں نے غلطی کی ہے ، کیونکہ ناصرہ یروشلم کے شمال میں ہے نہ کہ مشرق میں۔
15. جیسا کہ ہم حاشیہ نمبر ۶ میں اشارہ کر آئے ہیں ، حضر ت مریم کے استعجاب پر فرشتے کا یہ کہنا کہ ”ایسا ہی ہو گا“ ہر گز اس معنی میں نہیں ہو سکتا کہ بشر تجھ کو چھوئے گا اور اس سے تیرے ہاں لڑکا پیدا ہو گا، بلکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تیرے ہاں لڑکا ہو گا باوجود اس کے کہ تجھے کسی بشر نے نہیں چھُوا ہے ۔ اوپر انہی الفاظ میں حضرت زکریا کا استعجاب نقل ہو چکا ہے اور وہاں بھی فرشتے نے یہی جواب دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو مطلب اس جواب کا وہاں ہے وہی یہاں بھی ہے۔ اسی طرح سورۂ ذاریات ، آیات ۲۸ – ۳۰ میں جب فرشتہ حضرت ابراہیم کو بیٹے کی بشارت دیتا ہے اور حضرت سارہ کہتی ہیں کہ مجھ بوڑھی بانجھ کے ہاں بیٹا کیسے ہو گا تو فرشتہ اُن کو جواب دیتا ہے کہ کذٰلک۔”ایسا ہی ہو گا“۔ ظاہر ہے کہ اس سے مُراد بڑھاپے اور بانجھ پن کے باوجود ان کے ہاں اولاد ہونا ہے۔ علاوہ بریں اگر کذٰلک کا مطلب یہ لے لیا جائے کہ بشر تجھے چھوئے گا اور تیرے ہاں اسی طرح لڑکا ہو گا جیسے دنیا بھر کی عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے ، تو پھر بعد کے دونوں فقرے بالکل بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں یہ کہنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے کہ تیرا رب کہتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے ، اور یہ کہ ہم اس لڑکے کو ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ نشانی کا لفظ یہاں صریحًا معجزے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور اسی معنی پر یہ فقرہ بھی دلالت کرتا ہے کہ ”ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے ۔“ لہٰذا اس ارشاد کا مطلب بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ ہم اس لڑکے کی ذات ہی کو ایک معجزے کی حیثیت سے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بعد کی تفصیلات اس بات کی خود تشریح کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ذات کو کس طرح معجزہ بنا کر پیش کیا گیا۔
16. دُور کے مقام سے مراد بیت لحم ہے۔ حضرت مریم کا اپنے اعتکاف سے نکل کر وہاں جانا ایک فطری امر تھا۔ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے بنی ہارون کی لڑکی، اور پھر وہ بیت المقدِس میں خدا کی عبادت کے لیے وقف ہو کر بیٹھی تھی، یکایک حاملہ ہو گئی ۔ اس حالت میں اگر وہ اپنی جائے اعتکاف پر بیٹھی رہتیں اور ان کا حمل لوگوں پر ظاہر ہو جاتا تو خاندان والے ہی نہیں ، قوم کے دوسرے لوگ بھی ان کا جینا مشکل کر دیتے ۔ اس لیے بیچاری اس شدید آزمائش میں مبتلا ہونے کے باوجود خاموشی کے ساتھ اپنے اعتکاف کا حجرہ چھوڑ کر نکل کھڑی ہوئیں تاکہ جب تک اللہ کی مرضی پوری ہو، قوم کی لعنت ملامت اور عام بدنامی سے تو بچی رہیں۔ یہ واقعہ بجائے خود اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام باپ کے بغیر پیدا ہوئے تھے۔ اگر وہ شادی شدہ ہوتیں اور شوہر ہی سے ان کے ہاں بچہ پیدا ہو رہا ہوتا توکوئی وجہ نہ تھی کہ میکے اور سسرال ، سب کو چھوڑ چھاڑ کر وہ زچگی کے لیے تن تنہا ایک دور دراز مقام پر چلی جاتیں۔
17. ان الفاظ سے اُس پریشانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس میں حضرت مریم اس وقت مبتلا تھیں۔ موقع کی نزاکت ملحوظ رہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی زبان سے یہ الفاظ دردِ زہ کی تکلیف کی وجہ سے نہیں نکلے تھے ، بلکہ یہ فکر اُن کو کھائے جا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جس خطر ناک آزمائش میں انہیں ڈالا ہے اس سے کس طرح بخیریت عہدہ برآ ہوں۔ حمل کو تو اب تک کسی نہ کسی طرح چھپا لیا۔ اب اس بچے کو کہاں لے جائیں۔ بعد کا یہ فقرہ کہ فرشتے نے اُن سے کہا ”غم نہ کر“ اس بات کو واضح کررہا ہے کہ حضرت مریم نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے۔ شادی شدہ لڑکی کے ہاں جب پہلا بچہ پیدا ہو رہا ہو تو وہ چاہے تکلیف سے کتنی ہی تڑپے ، اُسے رنج و غم کبھی لاحق نہیں ہوا کرتا۔
18. مطلب یہ ہے کہ بچے کے معاملے میں تجھے کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ اس کی پیدائش پر جو کوئی بھی معترض ہو اس کا جواب اب ہمارے ذمّے ہے (واضح رہے کہ بنی اسرائیل میں چپ کا روزہ رکھنے کا طریقہ رائج تھا)۔ یہ الفاظ بھی صاف بتا رہے ہیں کہ حضرت مریم کو اصل پریشانی کیا تھی۔ نیز یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شادی شدہ لڑکی کے ہاں پہلو نٹی کا بچہ اگر دنیا کے معروف طریقہ پر پیدا ہو تو آخر اُسے چپ کا روزہ رکھنے کی کیا ضرورت پیش آسکتی ہے؟
19. “ان الفاظ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں ظاہری معنی میں لیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نامی ہو۔ دوسرے یہ کہ عربی محاورے کے مطابق اُختِ ہارون کے معنی”ہارون کے خاندان کی لڑکی“ لیے جائیں ، کیونکہ عربی میں یہ ایک معروف طرزِ بیان ہے ۔ مثلاً قبیلۂ مُضَر کے آدمی کو یا اخامضر (اے مضر کے بھائی) اور قبیلۂ ہمدان کے آدمی کو یا اخا ھمد ان (اے ہمدان کے بھائی) کہہ کر پکارتے ہیں۔ پہلے معنی کے حق میں دلیلِ ترجیح یہ ہے کہ بعض روایات میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معنی منقول ہوئے ہیں۔ اور دوسرے معنی کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ موقع و محل اِس معنی کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ اس واقعہ سے قوم میں جو ہیجان برپا ہوا تھا اس کی وجہ بظاہر یہ نہیں معلوم ہوتی کہ ہارون نامی ایک گمنام شخص کی کنواری بہن گود میں بچہ لیے ہوئے آئی تھی ، بلکہ جس چیز نے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت مریم کے گرد جمع کر دیا تھا وہ یہی ہو سکتی تھی کہ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے ، خانوادۂ ہارون کی ایک لڑکی اس حالت میں پائی گئی۔ اگرچہ ایک حدیث مرفوع کی موجودگی میں کوئی دوسری تاویل اصولاً قابلِ لحاظ نہیں ہو سکتی ، لیکن مسلم ، نَسائی اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث جن الفاظ میں نقل ہوئی ہے اس سےیہ مطلب نہیں نکلتا کہ ان الفاظ کے معنی لازماً ”ہارون کی بہن“ ہی ہیں۔ مُغیرہؓ بن شُعبہ کی روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ نَجران کے عیسائیوں نے حضرت مُغیرہ کے سامنے یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن میں حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے ، حالانکہ حضرت ہارون ان سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے۔ حضرت مغیرہ ان کے اس اعتراض کا جواب نہ دے سکے اور انہوں نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ماجرا عرض کیا۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا کہ ” تم نے یہ جواب کیوں نہ دیا کہ بنی اسرائیل اپنے نام انبیاء اور صلحا ء کے نام پر رکھتے تھے؟“ حضور کے اس ارشاد سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ لاجواب ہونے کے بجائے یہ جواب دے کر اعتراض رفع کیا جا سکتا تھا۔
20. قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ”ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے۔“ یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسیٰ کی جوانی کے زمانے میں ہوئی اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا ہوا تھا۔ مگر جو شخص موقع و محل اور سیاق و سباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کر لے گا کہ یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے۔ اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کر نے کے لیے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت۔ علاوہ بریں سورۂ آلِ عمران کی آیت ۴۶ ، اور سورۂ مائدہ کی آیت ۱۱۰ دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نوزائیدہ بچے کی حیثیت ہی سے کیا تھا۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرے گا اور جوان ہو کر بھی۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ خو د حضرت عیسیٰ سے فرماتا ہے کہ تولوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتا تھا ور جوانی میں بھی۔
20. قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ”ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے۔“ یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسیٰ کی جوانی کے زمانے میں ہوئی اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا ہوا تھا۔ مگر جو شخص موقع و محل اور سیاق و سباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کر لے گا کہ یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے۔ اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کر نے کے لیے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت۔ علاوہ بریں سورۂ آلِ عمران کی آیت ۴۶ ، اور سورۂ مائدہ کی آیت ۱۱۰ دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نوزائیدہ بچے کی حیثیت ہی سے کیا تھا۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرے گا اور جوان ہو کر بھی۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ خو د حضرت عیسیٰ سے فرماتا ہے کہ تولوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتا تھا ور جوانی میں بھی۔