14. سُورۂ آلِ عمران میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مریم کی والدہ نے اپنی مانی ہوئی نذر کے مطابق ان کو بیتُ المَقدِس میں عبادت کے لیے بٹھا دیا تھا اور حضرت زکریا نے ان کی حفاظت و کفالت اپنے ذمہ لے لی تھی۔ وہاں یہ ذکر بھی گزر چکا ہے کہ حضرت مریم بیت المَقدِس کی ایک محراب میں معتکف ہو گئی تھیں۔ اب یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ محراب جس میں حضرت مریم معتکف تھیں بیت المَقدِس کے شرقی حصّے میں واقع تھی اور انہوں نے معتکفین کے عام طریقے کے مطابق کا ایک پردہ لٹکا کر اپنے آپ کو دیکھنے والوں کی نگاہوں سے محفوظ کر لیا تھا ۔ جن لوگوں نے محض بائیبل کی موافقت کی خاطر مکانًا شرقیًا سے مراد ناصرہ لیا ہے انہوں نے غلطی کی ہے ، کیونکہ ناصرہ یروشلم کے شمال میں ہے نہ کہ مشرق میں۔
15. جیسا کہ ہم حاشیہ نمبر ۶ میں اشارہ کر آئے ہیں ، حضر ت مریم کے استعجاب پر فرشتے کا یہ کہنا کہ ”ایسا ہی ہو گا“ ہر گز اس معنی میں نہیں ہو سکتا کہ بشر تجھ کو چھوئے گا اور اس سے تیرے ہاں لڑکا پیدا ہو گا، بلکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تیرے ہاں لڑکا ہو گا باوجود اس کے کہ تجھے کسی بشر نے نہیں چھُوا ہے ۔ اوپر انہی الفاظ میں حضرت زکریا کا استعجاب نقل ہو چکا ہے اور وہاں بھی فرشتے نے یہی جواب دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو مطلب اس جواب کا وہاں ہے وہی یہاں بھی ہے۔ اسی طرح سورۂ ذاریات ، آیات ۲۸ – ۳۰ میں جب فرشتہ حضرت ابراہیم کو بیٹے کی بشارت دیتا ہے اور حضرت سارہ کہتی ہیں کہ مجھ بوڑھی بانجھ کے ہاں بیٹا کیسے ہو گا تو فرشتہ اُن کو جواب دیتا ہے کہ کذٰلک۔”ایسا ہی ہو گا“۔ ظاہر ہے کہ اس سے مُراد بڑھاپے اور بانجھ پن کے باوجود ان کے ہاں اولاد ہونا ہے۔ علاوہ بریں اگر کذٰلک کا مطلب یہ لے لیا جائے کہ بشر تجھے چھوئے گا اور تیرے ہاں اسی طرح لڑکا ہو گا جیسے دنیا بھر کی عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے ، تو پھر بعد کے دونوں فقرے بالکل بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں یہ کہنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے کہ تیرا رب کہتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے ، اور یہ کہ ہم اس لڑکے کو ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ نشانی کا لفظ یہاں صریحًا معجزے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور اسی معنی پر یہ فقرہ بھی دلالت کرتا ہے کہ ”ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے ۔“ لہٰذا اس ارشاد کا مطلب بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ ہم اس لڑکے کی ذات ہی کو ایک معجزے کی حیثیت سے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بعد کی تفصیلات اس بات کی خود تشریح کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ذات کو کس طرح معجزہ بنا کر پیش کیا گیا۔
16. دُور کے مقام سے مراد بیت لحم ہے۔ حضرت مریم کا اپنے اعتکاف سے نکل کر وہاں جانا ایک فطری امر تھا۔ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے بنی ہارون کی لڑکی، اور پھر وہ بیت المقدِس میں خدا کی عبادت کے لیے وقف ہو کر بیٹھی تھی، یکایک حاملہ ہو گئی ۔ اس حالت میں اگر وہ اپنی جائے اعتکاف پر بیٹھی رہتیں اور ان کا حمل لوگوں پر ظاہر ہو جاتا تو خاندان والے ہی نہیں ، قوم کے دوسرے لوگ بھی ان کا جینا مشکل کر دیتے ۔ اس لیے بیچاری اس شدید آزمائش میں مبتلا ہونے کے باوجود خاموشی کے ساتھ اپنے اعتکاف کا حجرہ چھوڑ کر نکل کھڑی ہوئیں تاکہ جب تک اللہ کی مرضی پوری ہو، قوم کی لعنت ملامت اور عام بدنامی سے تو بچی رہیں۔ یہ واقعہ بجائے خود اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام باپ کے بغیر پیدا ہوئے تھے۔ اگر وہ شادی شدہ ہوتیں اور شوہر ہی سے ان کے ہاں بچہ پیدا ہو رہا ہوتا توکوئی وجہ نہ تھی کہ میکے اور سسرال ، سب کو چھوڑ چھاڑ کر وہ زچگی کے لیے تن تنہا ایک دور دراز مقام پر چلی جاتیں۔
17. ان الفاظ سے اُس پریشانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس میں حضرت مریم اس وقت مبتلا تھیں۔ موقع کی نزاکت ملحوظ رہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی زبان سے یہ الفاظ دردِ زہ کی تکلیف کی وجہ سے نہیں نکلے تھے ، بلکہ یہ فکر اُن کو کھائے جا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جس خطر ناک آزمائش میں انہیں ڈالا ہے اس سے کس طرح بخیریت عہدہ برآ ہوں۔ حمل کو تو اب تک کسی نہ کسی طرح چھپا لیا۔ اب اس بچے کو کہاں لے جائیں۔ بعد کا یہ فقرہ کہ فرشتے نے اُن سے کہا ”غم نہ کر“ اس بات کو واضح کررہا ہے کہ حضرت مریم نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے۔ شادی شدہ لڑکی کے ہاں جب پہلا بچہ پیدا ہو رہا ہو تو وہ چاہے تکلیف سے کتنی ہی تڑپے ، اُسے رنج و غم کبھی لاحق نہیں ہوا کرتا۔