18. مطلب یہ ہے کہ بچے کے معاملے میں تجھے کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ اس کی پیدائش پر جو کوئی بھی معترض ہو اس کا جواب اب ہمارے ذمّے ہے (واضح رہے کہ بنی اسرائیل میں چپ کا روزہ رکھنے کا طریقہ رائج تھا)۔ یہ الفاظ بھی صاف بتا رہے ہیں کہ حضرت مریم کو اصل پریشانی کیا تھی۔ نیز یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شادی شدہ لڑکی کے ہاں پہلو نٹی کا بچہ اگر دنیا کے معروف طریقہ پر پیدا ہو تو آخر اُسے چپ کا روزہ رکھنے کی کیا ضرورت پیش آسکتی ہے؟
19. “ان الفاظ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں ظاہری معنی میں لیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نامی ہو۔ دوسرے یہ کہ عربی محاورے کے مطابق اُختِ ہارون کے معنی”ہارون کے خاندان کی لڑکی“ لیے جائیں ، کیونکہ عربی میں یہ ایک معروف طرزِ بیان ہے ۔ مثلاً قبیلۂ مُضَر کے آدمی کو یا اخامضر (اے مضر کے بھائی) اور قبیلۂ ہمدان کے آدمی کو یا اخا ھمد ان (اے ہمدان کے بھائی) کہہ کر پکارتے ہیں۔ پہلے معنی کے حق میں دلیلِ ترجیح یہ ہے کہ بعض روایات میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معنی منقول ہوئے ہیں۔ اور دوسرے معنی کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ موقع و محل اِس معنی کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ اس واقعہ سے قوم میں جو ہیجان برپا ہوا تھا اس کی وجہ بظاہر یہ نہیں معلوم ہوتی کہ ہارون نامی ایک گمنام شخص کی کنواری بہن گود میں بچہ لیے ہوئے آئی تھی ، بلکہ جس چیز نے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت مریم کے گرد جمع کر دیا تھا وہ یہی ہو سکتی تھی کہ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے ، خانوادۂ ہارون کی ایک لڑکی اس حالت میں پائی گئی۔ اگرچہ ایک حدیث مرفوع کی موجودگی میں کوئی دوسری تاویل اصولاً قابلِ لحاظ نہیں ہو سکتی ، لیکن مسلم ، نَسائی اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث جن الفاظ میں نقل ہوئی ہے اس سےیہ مطلب نہیں نکلتا کہ ان الفاظ کے معنی لازماً ”ہارون کی بہن“ ہی ہیں۔ مُغیرہؓ بن شُعبہ کی روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ نَجران کے عیسائیوں نے حضرت مُغیرہ کے سامنے یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن میں حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے ، حالانکہ حضرت ہارون ان سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے۔ حضرت مغیرہ ان کے اس اعتراض کا جواب نہ دے سکے اور انہوں نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ماجرا عرض کیا۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا کہ ” تم نے یہ جواب کیوں نہ دیا کہ بنی اسرائیل اپنے نام انبیاء اور صلحا ء کے نام پر رکھتے تھے؟“ حضور کے اس ارشاد سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ لاجواب ہونے کے بجائے یہ جواب دے کر اعتراض رفع کیا جا سکتا تھا۔
20. قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ”ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے۔“ یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسیٰ کی جوانی کے زمانے میں ہوئی اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا ہوا تھا۔ مگر جو شخص موقع و محل اور سیاق و سباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کر لے گا کہ یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے۔ اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کر نے کے لیے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت۔ علاوہ بریں سورۂ آلِ عمران کی آیت ۴۶ ، اور سورۂ مائدہ کی آیت ۱۱۰ دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نوزائیدہ بچے کی حیثیت ہی سے کیا تھا۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرے گا اور جوان ہو کر بھی۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ خو د حضرت عیسیٰ سے فرماتا ہے کہ تولوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتا تھا ور جوانی میں بھی۔
20. قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ”ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے۔“ یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسیٰ کی جوانی کے زمانے میں ہوئی اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا ہوا تھا۔ مگر جو شخص موقع و محل اور سیاق و سباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کر لے گا کہ یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے۔ اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کر نے کے لیے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت۔ علاوہ بریں سورۂ آلِ عمران کی آیت ۴۶ ، اور سورۂ مائدہ کی آیت ۱۱۰ دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نوزائیدہ بچے کی حیثیت ہی سے کیا تھا۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرے گا اور جوان ہو کر بھی۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ خو د حضرت عیسیٰ سے فرماتا ہے کہ تولوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتا تھا ور جوانی میں بھی۔