Tafheem ul Quran

Surah 19 Maryam, Ayat 25-48

وَهُزِّىۡۤ اِلَيۡكِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَةِ تُسٰقِطۡ عَلَيۡكِ رُطَبًا جَنِيًّا‏  ﴿19:25﴾ فَكُلِىۡ وَاشۡرَبِىۡ وَقَرِّىۡ عَيۡنًا​ ۚ فَاِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الۡبَشَرِ اَحَدًا ۙ فَقُوۡلِىۡۤ اِنِّىۡ نَذَرۡتُ لِلرَّحۡمٰنِ صَوۡمًا فَلَنۡ اُكَلِّمَ الۡيَوۡمَ اِنۡسِيًّا ​ۚ‏ ﴿19:26﴾ فَاَتَتۡ بِهٖ قَوۡمَهَا تَحۡمِلُهٗ​ؕ قَالُوۡا يٰمَرۡيَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَيۡـئًـا فَرِيًّا‏ ﴿19:27﴾ يٰۤـاُخۡتَ هٰرُوۡنَ مَا كَانَ اَ بُوۡكِ امۡرَاَ سَوۡءٍ وَّمَا كَانَتۡ اُمُّكِ بَغِيًّا​ ۖ​ ۚ‏ ﴿19:28﴾ فَاَشَارَتۡ اِلَيۡهِ​ ؕ قَالُوۡا كَيۡفَ نُـكَلِّمُ مَنۡ كَانَ فِى الۡمَهۡدِ صَبِيًّا‏ ﴿19:29﴾ قَالَ اِنِّىۡ عَبۡدُ اللّٰهِ ؕ اٰتٰٮنِىَ الۡكِتٰبَ وَجَعَلَنِىۡ نَبِيًّا ۙ‏ ﴿19:30﴾ وَّجَعَلَنِىۡ مُبٰـرَكًا اَيۡنَ مَا كُنۡتُ وَاَوۡصٰنِىۡ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ مَا دُمۡتُ حَيًّا ​ۖ ‏ ﴿19:31﴾ وَّبَرًّۢابِوَالِدَتِىۡ وَلَمۡ يَجۡعَلۡنِىۡ جَبَّارًا شَقِيًّا‏ ﴿19:32﴾ وَالسَّلٰمُ عَلَىَّ يَوۡمَ وُلِدْتُّ وَيَوۡمَ اَمُوۡتُ وَيَوۡمَ اُبۡعَثُ حَيًّا‏  ﴿19:33﴾ ذٰ لِكَ عِيۡسَى ابۡنُ مَرۡيَمَ ​ۚ قَوۡلَ الۡحَـقِّ الَّذِىۡ فِيۡهِ يَمۡتَرُوۡنَ‏  ﴿19:34﴾ مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنۡ يَّتَّخِذَ مِنۡ وَّلَدٍ​ۙ سُبۡحٰنَهٗ​ؕ اِذَا قَضٰٓى اَمۡرًا فَاِنَّمَا يَقُوۡلُ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُؕ‏ ﴿19:35﴾ وَاِنَّ اللّٰهَ رَبِّىۡ وَرَبُّكُمۡ فَاعۡبُدُوۡهُ ​ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ‏  ﴿19:36﴾ فَاخۡتَلَفَ الۡاَحۡزَابُ مِنۡۢ بَيۡنِهِمۡ​ۚ فَوَيۡلٌ لِّـلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ مَّشۡهَدِ يَوۡمٍ عَظِيۡمٍ‏ ﴿19:37﴾ اَسۡمِعۡ بِهِمۡ وَاَبۡصِرۡۙ يَوۡمَ يَاۡتُوۡنَنَا​ لٰـكِنِ الظّٰلِمُوۡنَ الۡيَوۡمَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿19:38﴾ وَاَنۡذِرۡهُمۡ يَوۡمَ الۡحَسۡرَةِ اِذۡ قُضِىَ الۡاَمۡرُ​​ۘ وَهُمۡ فِىۡ غَفۡلَةٍ وَّهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿19:39﴾ اِنَّا نَحۡنُ نَرِثُ الۡاَرۡضَ وَمَنۡ عَلَيۡهَا وَاِلَـيۡنَا يُرۡجَعُوۡنَ‏  ﴿19:40﴾ وَاذۡكُرۡ فِى الۡكِتٰبِ اِبۡرٰهِيۡمَ ۙ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيۡقًا نَّبِيًّا‏  ﴿19:41﴾ اِذۡ قَالَ لِاَبِيۡهِ يٰۤـاَبَتِ لِمَ تَعۡبُدُ مَا لَا يَسۡمَعُ وَلَا يُبۡصِرُ وَ لَا يُغۡنِىۡ عَنۡكَ شَيۡـئًـا‏ ﴿19:42﴾ يٰۤـاَبَتِ اِنِّىۡ قَدۡ جَآءَنِىۡ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَمۡ يَاۡتِكَ فَاتَّبِعۡنِىۡۤ اَهۡدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا‏ ﴿19:43﴾ يٰۤـاَبَتِ لَا تَعۡبُدِ الشَّيۡطٰنَ​ ؕ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ كَانَ لِلرَّحۡمٰنِ عَصِيًّا‏ ﴿19:44﴾ يٰۤاَبَتِ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اَنۡ يَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحۡمٰنِ فَتَكُوۡنَ لِلشَّيۡطٰنِ وَلِيًّا‏ ﴿19:45﴾ قَالَ اَرَاغِبٌ اَنۡتَ عَنۡ اٰلِهَتِىۡ يٰۤاِبۡرٰهِيۡمُ​ۚ لَـئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَهِ لَاَرۡجُمَنَّكَ​ وَاهۡجُرۡنِىۡ مَلِيًّا‏ ﴿19:46﴾ قَالَ سَلٰمٌ عَلَيۡكَ​ۚ سَاَسۡتَغۡفِرُ لَـكَ رَبِّىۡؕ اِنَّهٗ كَانَ بِىۡ حَفِيًّا‏  ﴿19:47﴾ وَ اَعۡتَزِلُـكُمۡ وَمَا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَاَدۡعُوۡا رَبِّىۡ​ ​ۖ  عَسٰٓى اَلَّاۤ اَكُوۡنَ بِدُعَآءِ رَبِّىۡ شَقِيًّا‏ ﴿19:48﴾

25 - اور تُو ذرا اِس درخت کے تنے کو ہلا، تیرے اوپر تروتازہ کھجُوریں ٹپک پڑیں گی۔ 26 - پس تُو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ پھر اگر کوئی تجھے نظر آئے تو اس سے کہہ دے کہ میں نے رحمان کے لیے روزے کی نذر مانی ہے، اس لیے آج میں کسی سے نہ بولوں گی۔“ 18 27 - پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئی۔ لوگ کہنے لگے” اے مریم! یہ تو تُو نے بڑا پاپ کر ڈالا۔ 28 - اے ہارون کی بہن، 19 نہ تیرا باپ کوئی آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی۔“ الف19 29 - مریم نے بچے کی طرف اشارہ کر دیا۔ لوگوں نے کہا” ہم اِس سے کیا بات کریں گے جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے؟“ 20 30 - بچہ بول اُٹھا”میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اُس نے مجھے کتاب دی، اور نبی بنایا، 31 - اور بابرکت کیا جہاں بھی میں رہوں، اور نماز اور زکٰوة کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں، 32 - اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا، الف20 اور مجھ کو جبّار اور شقی نہیں بنایا۔ 33 - سلام ہے مجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جبکہ زندہ کر کےاُٹھایا جاوٴں۔“ 21 34 - یہ ہے عیسیٰ ابنِ مریم اور یہ ہے اُس کے بارے میں وہ سچی بات جس میں لوگ شک کر رہے ہیں۔ 35 - اللہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ذات ہے۔ وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا، اور بس وہ ہو جاتی ہے۔ 22 36 - (اور عیسیٰ ؑ نے کہا تھا کہ)” اللہ میرا ربّ بھی ہے اور تمہارا ربّ بھی ، پس تم اس کی بندگی کرو، یہی سیدھی راہ ہے۔“ 23 37 - مگر پھر مختلف گروہ 24 باہم اختلاف کرنے لگے۔ سو جن لوگوں نے کُفر کیا ان کے لیے وہ وقت بڑی تباہی کا ہوگا جبکہ وہ ایک بڑا دن دیکھیں گے۔ 38 - جب وہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے اُس روز تو اُن کے کان بھی خوب سُن رہے ہوں گے اور ان کی آنکھیں بھی خوب دیکھتی ہوں گی مگر آج یہ ظالم کھُلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ 39 - اے محمدؐ، اِس حالت میں جبکہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لارہے ہیں، اِنہیں اس دن سے ڈرا دو جبکہ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارہٴِ کار نہ ہوگا۔ 40 - آخر کار ہم ہی زمین اور اور اس کی ساری چیزوں کے وارث ہوں گے اور سب ہماری طرف ہی پلٹائے جائیں گے۔ 25 ؏ ۲ 41 - اور اس کتاب میں ابراہیمؑ کا قصہ بیان کرو ، 26 بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔ 42 - (انہیں ذرا اُس موقع کی یاد دلاوٴ)جبکہ اُس نے اپنے باپ سے کہا”ابّا جان، آپ کیوں اُن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سُنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں؟ 43 - ابّا جان، میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، آپ میرے پیچھے چلیں، میں آپ کو سیدھا راستہ بتاوٴں گا۔ 44 - ابّا جان، آپ شیطان کی بندگی نہ کریں، 27 شیطان تو رحمٰن کا نافرمان ہے۔ 45 - ابّا جان، مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمٰن کے عذاب میں مُبتلا نہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں۔“ 46 - باپ نے کہا ”ابراہیمؑ، کیا تُو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تُو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ بس تُو ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہو جا۔“ 47 - ابراہیمؑ نے کہا”سلام ہے آپ کو۔ میں اپنے ربّ سے دُعا کروں گا کہ آپ کو معاف کردے، الف27 میرا ربّ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔ 48 - میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں۔ میں تو اپنے ربّ ہی کو پکاروں گا، اُمید ہے کہ میں اپنے ربّ کو پکار کے نامراد نہ رہوں گا۔“


Notes

18. مطلب یہ ہے کہ بچے کے معاملے میں تجھے کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ اس کی پیدائش پر جو کوئی بھی معترض ہو اس کا جواب اب ہمارے ذمّے ہے (واضح رہے کہ بنی اسرائیل میں چپ کا روزہ رکھنے کا طریقہ رائج تھا)۔ یہ الفاظ بھی صاف بتا رہے ہیں کہ حضرت مریم کو اصل پریشانی کیا تھی۔ نیز یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شادی شدہ لڑکی کے ہاں پہلو نٹی کا بچہ اگر دنیا کے معروف طریقہ پر پیدا ہو تو آخر اُسے چپ کا روزہ رکھنے کی کیا ضرورت پیش آسکتی ہے؟

19. “ان الفاظ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں ظاہری معنی میں لیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نامی ہو۔ دوسرے یہ کہ عربی محاورے کے مطابق اُختِ ہارون کے معنی”ہارون کے خاندان کی لڑکی“ لیے جائیں ، کیونکہ عربی میں یہ ایک معروف طرزِ بیان ہے ۔ مثلاً قبیلۂ مُضَر کے آدمی کو یا اخامضر (اے مضر کے بھائی) اور قبیلۂ ہمدان کے آدمی کو یا اخا ھمد ان (اے ہمدان کے بھائی) کہہ کر پکارتے ہیں۔ پہلے معنی کے حق میں دلیلِ ترجیح یہ ہے کہ بعض روایات میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معنی منقول ہوئے ہیں۔ اور دوسرے معنی کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ موقع و محل اِس معنی کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ اس واقعہ سے قوم میں جو ہیجان برپا ہوا تھا اس کی وجہ بظاہر یہ نہیں معلوم ہوتی کہ ہارون نامی ایک گمنام شخص کی کنواری بہن گود میں بچہ لیے ہوئے آئی تھی ، بلکہ جس چیز نے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت مریم کے گرد جمع کر دیا تھا وہ یہی ہو سکتی تھی کہ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے ، خانوادۂ ہارون کی ایک لڑکی اس حالت میں پائی گئی۔ اگرچہ ایک حدیث مرفوع کی موجودگی میں کوئی دوسری تاویل اصولاً قابلِ لحاظ نہیں ہو سکتی ، لیکن مسلم ، نَسائی اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث جن الفاظ میں نقل ہوئی ہے اس سےیہ مطلب نہیں نکلتا کہ ان الفاظ کے معنی لازماً ”ہارون کی بہن“ ہی ہیں۔ مُغیرہؓ بن شُعبہ کی روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ نَجران کے عیسائیوں نے حضرت مُغیرہ کے سامنے یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن میں حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے ، حالانکہ حضرت ہارون ان سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے۔ حضرت مغیرہ ان کے اس اعتراض کا جواب نہ دے سکے اور انہوں نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ماجرا عرض کیا۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا کہ ” تم نے یہ جواب کیوں نہ دیا کہ بنی اسرائیل اپنے نام انبیاء اور صلحا ء کے نام پر رکھتے تھے؟“ حضور کے اس ارشاد سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ لاجواب ہونے کے بجائے یہ جواب دے کر اعتراض رفع کیا جا سکتا تھا۔

20. قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ”ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے۔“ یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسیٰ کی جوانی کے زمانے میں ہوئی اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا ہوا تھا۔ مگر جو شخص موقع و محل اور سیاق و سباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کر لے گا کہ یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے۔ اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کر نے کے لیے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت۔ علاوہ بریں سورۂ آلِ عمران کی آیت ۴۶ ، اور سورۂ مائدہ کی آیت ۱۱۰ دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نوزائیدہ بچے کی حیثیت ہی سے کیا تھا۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرے گا اور جوان ہو کر بھی۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ خو د حضرت عیسیٰ سے فرماتا ہے کہ تولوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتا تھا ور جوانی میں بھی۔

20. قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ”ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے۔“ یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسیٰ کی جوانی کے زمانے میں ہوئی اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا ہوا تھا۔ مگر جو شخص موقع و محل اور سیاق و سباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کر لے گا کہ یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے۔ اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کر نے کے لیے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت۔ علاوہ بریں سورۂ آلِ عمران کی آیت ۴۶ ، اور سورۂ مائدہ کی آیت ۱۱۰ دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نوزائیدہ بچے کی حیثیت ہی سے کیا تھا۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرے گا اور جوان ہو کر بھی۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ خو د حضرت عیسیٰ سے فرماتا ہے کہ تولوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتا تھا ور جوانی میں بھی۔